
مالٹا کے نائٹ:
رومن کیتھولک چرچ نے ان امریکی ایجنٹوں کو فراموش نہیں کیا جنہوں نے چرچ کو نازی ازم اور اشتراکیت سے بچایا تھا لہٰذا ان کو مالٹا کے نائٹ یا ممبر آف دی سودرن ملٹری آرڈر آف مالٹا (SMOM) کے خطابات سے نوازا گیا ۔ یہ کیتھولک چرچ میں مذہبی زعماء کی قدیم ترین تنظیم ہے جو آج تک موجود ہے۔ اس کی رکنیت اطالوی اور بیرونی ریاست کے سربراہوں تک محدود ہے لیکن ۱۹۲۷ء میں ایک تبدیلی یہ آئی کہ اس کی رکنیت میں یو ایس اے کو بھی شامل کر لیا گیا اور وہ محض اس بناء پر کہ امریکا عالمی طاقت کی حیثیت سے ابھر رہا تھا۔ ایس ایم او ایم نے ایک امریکی شاخ قائم کی اور بیشتر انتہائی مالدار اور کاروباری امریکی کیتھولک افراد کو نائٹ ہڈ کے خطابات سے نوازا گیا۔ یہ گروہ اس حد تک قدامت پرست تھا کہ ایک کیتھولک جوہن رسکوب جو جنرل موٹرز کا چیئرمین تھا ایک ناکام فوجی بغاوت کے منصوبے میں فرینک لن روزولٹ کو وہائٹ ہائوس سے ہٹانے میں ملوث ہو گیا۔ لیکن ایس ایم او ایم کو اس انکشاف نے بہت زیادہ پریشان کر دیا کہ بیشتر افراد جن کو اس نے خطابات سے نوازا تھا وہ نازی وار کرمنل نکلے۔ یہ ہے وہ کلچر جو ایس ایم او ایم کی لیڈر شپ میں پھلتا پھولتا رہا۔
باضابطہ طور پر ’’مالٹا کے نائٹ‘‘ اصل میں، ایک عالمی چیریٹی آرگنائزیشن کی حیثیت کی حامل ہیں۔ لیکن ۱۹۴۰ء کی دہائی کے آغاز میں سی آئی اے نے بیشتر ایجنٹوں کو نائٹ ہڈ سے نوازا اور یہ تنظیم انٹیلی جنس آپریشنوں کے لیے ایک محاذ بن گئی جو ایس ایم او ایم اس قسم کی سرگرمی کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کو عالمی سطح پر ملک کی بادشاہت کی سند حاصل ہو گئی ہے اور اس کے ارکان سفارتی نوعیت کے تکلفات سے آزاد ہیں۔ اس سے ایجنٹوں اور سپلائی کو یہ فائدہ ہو گیا ہے کہ وہ بغیر کسی مداخلت کے میزبان ملک کے کسٹم سے گزر جاتے ہیں۔ اس قسم کی سہولتوں نے مالٹا کے نائٹوں کو ہیومنٹرین ایڈ کا ایک بڑا سپلائر بنا دیا ہے۔
مالٹا کے نائٹوں اور خاتون نائٹوں یعنی ڈیمز کی ایک غیر جانبدار فہرست کہ امریکن کیتھولزم میں کون، کون ہے جسے یہ پیش کی گئی ہے۔
(۱) ولیم کیسے۔۔۔ سی آئی اے ڈائریکٹر
(۲) جوہن مِک کون۔۔۔ سی آئی اے ڈائریکٹر
(۳) ولیم کول بائی۔۔۔ سی آئی اے ڈائریکٹر
ولیم ڈونووان: ڈائریکٹر او ایس ایس اس کو نائٹ ہڈ کا خاص باوقار خطاب دیا گیا جو تاریخ میں صرف سو افراد کو دیا گیا۔
فرانک شیکسپئر: یہ مختلف نوع کی پروپیگنڈہ تنظیموں کا ڈائریکٹر تھا۔ مثلاً یو ایس انفارمیشن ایجنسی، ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو لبرٹی۔ اس کے علاوہ سی بی ایس ٹی وی کا ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ اور آر ۔ کے۔ او جنرل انکارپوریشن کا وائس چیئرمین تھا۔ نیز حال ہی میں ہیئریٹیج فائونڈیشن (جو ایک رائٹ ونگ تھنک ٹینک ہے) کے بورڈ آف ٹرسٹیز کا چیئرمین بنا۔ ولیم سائمن یہ شخص صدر نکسن کے تحت ٹرسٹی سیکریٹری رہا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں یہ امریکا کے چار سو مالدار ترین افراد میں سے ایک ہے جو انٹرنیشنل فنانس میں کام کر رہے ہیں۔ آجکل جوہن ایم اولن فائونڈیشن کا صدر ہے اور رائٹ ونگ تھنک ٹینک کے بڑے بانیوں میں سے ایک ہے۔
ولیم ایف بکلے جونیئر: سی آئی اے ایجنٹ، کنزرویٹو اور عوامی میڈیا کی ایک اہم شخصیت ہے۔
جیمز بکلے: ولیم کا بھائی ہے اور ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو لبرٹی کا سربراہ بھی ہے۔
کلیرے بوتھی لویکس:یہ سرد جنگ کی ایک عظیم خاتون نائٹ ہے اور مالٹا کی بھی خاتون نائٹ یعنی ڈیم تھی۔ ایک مشہور ڈرامہ نگار بھی تھی جو ایک بڑے مالدار شخص ہنری لوئیس کی بیوی تھی۔
فرانسس ایکس اسٹین کارڈ: چیئرمین ہٹن بنک (جو ایک راکفیلر انسٹی ٹیوشن ہے اس کے انٹرنیشنل ڈویژن کا سی ای او ہے (نکسن راکفیلر بھی سی آئی اے کی ایک اہم شخصیت تھی)
جوہن فاریل: یہ یو ایس اسٹیل کا صدر تھا۔
لی لکو کا: چیئرمین جنرل موٹرز۔
ولیم۔ ایس اسکیر: چیئرمین میٹرو پولیٹن لائف انشورنس کمپنی۔
جوزف کینیڈی: کینیڈی ایمپائر کا بانی۔
بارون ہلٹن: ہلٹن ہوٹل گروپ کا مالک۔
پیٹرک، جے فرالے جونیئر: اسکک ریزر فارچون کا وارث، فرالے رائٹ ونگ کیتھولک کا مشہور بانی مثلاً کرسچین انٹی کمیونسٹ کروسیڈ وغیرہ۔
رالف ایب پلافلپ: ایروسل میگنٹ۔
مارٹن، ایف شیبا: مورگن گرنٹی ٹرسٹ کا ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ۔
جے پیٹر گریس: صدر ڈبلیو آر گریس کمپنی۔ یہ آپریشن پیپر کلب کی اہم شخصیت تھا۔ جو نازی سائنس دانوں اور جاسوسوں کو امریکا لے کر آیا۔ ان میں سے بیشتر جنگی مجرم تھے، جن کے ظلم و ستم کو اس لیے معاف کر دیا گیا کہ انہوں نے سی آئی اے کے لیے اپنی خدمات انجام دیں۔
تھوماس یولان: جس کا تعلق سیکسے بیکن اینڈ یولان سے تھا۔ یہ میکار تھے ڈزیز ایڈ رائے کوہن کی ایک لاء فرم تھی۔
بووے کوہن: بیس بال کمشنر۔
کارڈینل جوہن اور اوکونر: امریکی کیتھولک کے رائٹ ونگ کا زبردست لیڈر۔
کارڈیئل فرانسس: سیل مین، امریکی پوپ، ایک وقت ایسا تھا کہ یہ امریکا کا انتہائی طاقتور کیتھولک تھا، جس کا جھکائو قدامت پرستی کی جانب تھا۔
ایڈمیرل جیمز ڈی واٹ کنز: صدر ریگن کے ماتحت نیول آپریشن کی ہارڈ لائن کا چیف تھا۔
جرمی ڈین ٹن: سینئر آر۔ اے آئی۔
پیٹ دادمینسی: سینئر آر نیو میکسیکو۔
والٹر۔جے ہیکل: الاسکا کا گورنر اور اندرونی علاقے کا سیکریٹری جب یہ گروہ ایک جگہ اکٹھا ہو گیا تو واضح طور پر اس کے موضوعات جاسوسی، بزنس اور سیاسیات تھے۔
سی آئی اے نے دیگر مذہبی اور چیریٹی تنظیموں کو محاذ کے طور پر استعمال کیا۔ مثال کے طور پر جوہن ایف کینیڈی۔ جو اشتراکیت کا مخالف رومن کیتھولک تھا اور جس نے خفیہ آپریشنوں کو بڑی حد تک پھیلایا تھا اس نے امریکا کی پیس کور کو قائم کیا جو سی آئی اے کے آپریشن کرنے والوں کی خفیہ طور پر مدد دیتی تھی۔ سی آئی اے نے بڑے پیمانے پر مشنریز کو بھی استعمال کیا۔ اس ضمن میں بیشتر رائٹ ونگ کی اعانت اس کے ساتھ تھی جو محض کرسچین گروہوں سے تعلق رکھتے تھے اور اشتراکیت کے سخت خلاف تھے۔
لیکن دنیا کو ہوش آرہا ہے:
یہ ایک وقت کی بات تھی کہ بیشتر قومیں ان شکنجوں میں جکڑی گئیں، انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا کہ جب کبھی سی آئی اے ان کے ممالک میں جرائم اور سفاکیوں کی غرض سے داخل ہوتی ہے تو وہ امریکی صحافیوں، بزنس مینوں اور چیریٹی والنٹیروں کے بھیس میں داخل ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے بیرونی ممالک کے لوگ اب اس قسم کے پیشہ وروں کو دشمن کے طور پر ہدف بنا لیتے ہیں۔ لبنان میں دہشت گردوں نے امریکا کے صحافی ٹیرے اینڈر مین کو سات سال تک یرغمالی بنائے رکھا اور بلاوجہ ایسا نہیں کیا گیا، ان کا خیال تھا کہ وہ ایک جاسوس تھا۔ آیا یہ بات صحیح تھی یا نہیں لیکن اس بات کے ساتھ ایک نقطۂ فکریہ ضرور تھا۔ سی آئی اے نے باہر کے ملک کے تمام امریکیوں کے لیے خطرہ پیدا کر دیا ہے چاہے وہ سی آئی اے ایجنٹ ہوں یا نہ ہوں۔ سینیٹ کے سامنے ۱۹۹۶ء کی سماعتوں میں بیشتر تنظیموں نے کانگریس پر دبائو ڈالا کہ وہ ان پیشہ وروں کو سی آئی اے کا غلاف اڑھانا چھوڑ دیں۔ نیشنل ایسوسی ایشن کے ایجنٹوں نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا ’’سی آئی اے کی خفیہ سرگرمیوں کے لیے مشنری کو اس طرح استعمال کرنا، اخلاقیات کے نکتۂ نظر سے قطعی غیر اخلاقی حرکت ہے۔
سرد جنگ سے درجاتی جنگ تک:
جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اکیڈمیہ پہلا بڑا ادارہ تھا جس نے سی آئی اے کے جرائم پر اس کو ملامت کی، لیکن کیوں؟ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اسکالروں کا طبقہ عالمی سطح کی اپنی تحقیقات کو جس کا تعلق عالمی امور سے تھا اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتا تھا لہٰذا یہ فطری بات تھی کہ حقیقتِ حال کا علم سب سے پہلے اکیڈمیہ کو ہوتا۔ یہی خاص وجہ ہے کہ ویتنام کی جنگ کے خلاف اور سی آئی اے کے خلاف سب سے پہلے قومی کیمپوں میں طالب علموں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ ویتنام کی جنگ کے خاتمے پر سی آئی اے کو برین ڈرین (مراد ذہنی افراد جو اکیڈمیہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن سی آئی اے کے لیے کام کر رہے تھے) کا نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ اکیڈمیہ سے وابستہ اس کے اتحادی اب صاف صاف باتیں کرنے لگے تھے وہ حد درجہ جذباتی ہو گئے اور بڑے فصیح انداز میں اس کے ناقد ثابت ہوئے۔
معاشرتی نوعیت کے ۱۹۶۰ء کی دہائی کے انقلاب نے سی آئی اے کو خوفزدہ کر دیا۔ جیمز جیسس انگلیٹن جو کاونٹر انٹیلی جنس کا چیف تھا اور صحیح طور پر خوف و وسوسے میں مبتلا ہو جانے والا شخص تھا اس کو اس بات پر قائل کر دیا گیا کہ سوویت یونین نے بڑی اینٹی وار موومنٹ کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جے ایڈگر ہوور بھی ان کے خیال کے حامی ہو گئے تھے۔ سی آئی اے نے ۱۹۶۰ء کی دہائی کے پورے عرصے میں طلباء کے گروہوں کی جاسوسی کی لیکن ۱۹۶۸ء میں صدر جانسن نے ڈرامائی انداز میں آپریشن کیاس (CHAOS) کی کوشش کی اور اس کے لیے ابتدائی مرحلے میں سی آئی اے کے پچاس ایجنٹوں کو بلوایا کہ وہ بنیادی طور پر طالب علم بن کر جائیں اور اینٹی وار تنظیموں میں داخل ہو کر ان روسی جاسوسوں کو اکھاڑ پھینکیں جو بغاوت کا سبب بن رہے تھے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہاں ایک بھی جاسوس نہیں پایا گیا۔ ان ایجنٹوں نے وائرٹیپنگ، میل اوپنگ، نقب زنی، دھوکہ دہی، دھمکی اور انتشار کی ایک مہم ہزاروں امریکی احتجاجی شہریوں کے خلاف شروع کی۔
اسی دوران آپریشن کیاس (CHAOS) ۱۹۷۳ء میں مجہول و ناکارہ ہو کر رہ گیا۔ سی آئی اے نے سات ہزار امریکیوں کی جاسوسی کی۔ ایک ہزار منتظمین اور ٹریڈر انفارمیشن اداروں نے تین لاکھ سے زیادہ افراد جن میں لاء ایجنسیاں بھی شامل تھیں کی جاسوسی کی۔ جب اکیڈمیہ کو یہ سب کچھ معلوم ہوا تو وہ اشتعال میں آ گئی۔ اکیڈمیہ کا یہ نقصان سی آئی اے کے لیے پہلی ضرب ثابت ہوا اس کے ساتھ ہی دوسری آفات بھی جلد ہی آنا شروع ہو گئیں۔ ۱۹۷۰ء کی ابتدائی دہائی میں سی آئی اے نے مایوسی کے عالم میں ان بڑھتے ہوئے اسکینڈلز کو روکنے کی کوشش کی ان میں سے پہلا اسکینڈل واٹر گیٹ تھا۔ واٹر گیٹ اسکینڈل میں سی آئی اے کا پورا پورا ہاتھ نظر آیا۔ پہلی بات تو ہمیں یہ جان لینی چاہیے کہ نکسن کو ہٹانے کے لیے سی آئی اے کا واضح موقف تھا۔ وہ بنیادی طور پر آئوٹ سائیڈر تھا اور کیلی فورنیا کا ایک غریب (ایک عیسائی فرقے کا رکن جو سوسائٹی آف فرینڈز کہلاتی ہے جس کو جارج فوکس نے قائم کیا یہ ۱۶۲۴ء میں پیدا ہوا اور ۱۷۱۹ء میں وفات پائی) کوئیکر تھا۔ جو شدید طور پر زعماء سے نفرت کرتا تھا۔ نکسن کا جھکائو اگرچہ قدامت پرستی کی جانب تھا لیکن معاشی مسائل کے سلسلے میں وہ حیرت انگیز طور پر لبرل تھا اس نے اپنے اس بیان سے کہ ’’ہم سب اب کینیسین ہیں‘‘۔ بزنس مین طبقے کو مشتعل کر دیا۔ اس نے بزنس میں ایک ترتیب پیدا کرنے کے لیے خاصی بڑی تعداد میں نئی ایجنسیاں قائم کیں۔ مثلاً ایف ڈی اے، ای پی اے اور او ایس ایچ اے وغیرہ اس نے کلین ایئر اور کلین واٹر ایکٹ پر بھی دستخط کیے جس نے بزنس مینوں پر دبائو ڈالا کہ وہ زہریلی نوعیت کی اشیا کی خرید و فروخت کو بند کریں۔ اس کے علاوہ مہنگائی کو روکنے کے لیے قیمتوں پر کنٹرول نافذ کیا اور قوم کو سونے کے بڑھتے ہوئے معیار سے نجات دلانے کی کوشش کی۔ نکسن نے مثبت انداز کے اقدامات کو خاصا مضبوط کیا۔ یہاں تک کہ اس کے ادارتی عملے کے ارکان زعما (Elitist) کی مخالفت میں مشہور تھے۔مثلاً کیون فلپس جس نے آخر کار ۱۹۸۰ء کی دہائی کے دوران عدم مساوات کے ضمن میں بائبل کی روشنی میں بہت کچھ لکھا، مثلاً امیر و غریب کی سیاست۔ مزید برآں نکسن نے ویتنام سے دستبرداری اختیار کی اور چین اور سوویت یونین کے ساتھ معاہدہ (Detente) کیا۔ اور اس کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے نہ صرف یہ کوشش کی کہ خارجہ پالیسی کا کنٹرول سی آئی اے سے ہٹائے بلکہ یہ بھی کوشش کی کہ سی آئی اے کو حکومت کے کنٹرول میں لے آئے۔ نکسن اور اس کا سی آئی اے ڈائریکٹر رچرڈ ہلس ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکے (واٹر گیٹ اسکینڈل کو قابو میں کرنے کے لیے نکسن نے اسے فارغ کر دیا) واضح طور پر نکسن متضاد مقاصد کے ضمن میں سی آئی اے اور قوم کے زعماء سے لڑ رہا تھا۔
جیسے ہی یہ بات سامنے آئی تو سی آئی اے کے پاس نکسن کے گندے کرتوتوں کی معلومات موجود تھیں۔ نکسن نے خود اپنی خفیہ ایکشن ٹیم تخلیق کی تھی ’دی کیٹی ٹو دی الیکٹ دی پریزیڈنٹ‘ جو خفیہ مقطعات کے اعتبار سے کریپ (Creep) کے نام سے مشہور تھی اس میں سی آئی اے کے دو ایجنٹ شامل تھے، ای ہوورڈ اور جیمز مکورڈ، بالکل اسی طرح جیسا کہ سابقہ ایف بی آئی ایجنٹ، جی گورڈون۔ انہوں نے بھی چار کیوبئر کی خدمات حاصل کی تھیں جن کے پاس سی آئی اے کی طویل تاریخ تھی۔ حقیقت میں سی آئی اے کا ایک محاذ جو مولین کینی کہلاتا تھا اس نے اپنی سرگرمیاں شروع کیں، جمہوری مہمات کو انتشار کا شکار بنا دیا اور نکسن کی غیر قانونی مہم کو جائز قرار دینے میں حصہ لیا تھا۔ سی آئی اے نہ صرف نکسن کے جرائم کی گہری معلومات رکھتی تھی بلکہ اس نے ایسا طرزِ عمل اختیار کیا کہ دنیا بھی ان سے واقف ہو جائے۔ جب ایف بی آئی نے واٹر گیٹ کی چھان بین شروع کی تو نکسن نے کوشش کی کہ سی آئی اے اس کے لیے ڈھال بن جائے ابتدا میں سی آئی اے نے بے دلی سے اس پر عمل کیا اور ایف بی آئی سے کہا کہ تفتیش اور چھان بین سے سی آئی اے کے آپریشنوں کو جو وہ میکسیکو میں کر رہی ہے خطرے میں پڑ جائیں گے۔ لیکن چند ہفتوں کے بعد سی آئی اے نے ایف بی آئی کو ہری جھنڈی دکھا دی کہ وہ اپنی چھان بین اور تحقیقات جاری رکھے۔ مزید یہ کہ واٹر گیٹ اسکینڈل کو سی آئی اے کے امریکا میں خاص روزنامے واشنگٹن پوسٹ نے آشکار کر دیا۔ ایک صحافی جو اس اسکینڈل کی چھان بین میں اپنے ساتھی صحافی کے ساتھ مصروف تھا وہ رابرٹ وڈورڈ تھا جو ان ہی دنوں میں صحافی بنا تھا۔ اس سے پہلے وہ وہائٹ ہائوس کے لیے فیول انٹیلی جنس کا فوجی رابطہ آفیسر تھا اور قوم کے انتہائی اہم رازوں کا امین۔ اس نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی ہمدردانہ تصویر کشی ایک کتاب میں کی جس کا نام ویل (Weil) یعنی نقاب رکھا۔ سی آئی اے کی مخفی جنگیں (Veil: The Secret Wars of the CIA) تجویز کیا گیا تھا۔ یہ وڈورڈ ہی تھا جو ذاتی طور پر واقف تھا اس نے ’’ڈیپ تھروٹ‘‘ کا انٹرویو بھی لیا تھا۔ اس ڈیپ تھروٹ (وہ نام جو قصداً نہ لیا جائے) کے ذریعے نکسن کی سرگرمیوں کی اندرون خانہ معلومات فراہم کیں۔ واٹر گیٹ کی چھان بین کرنے والے بیشتر افراد کا خیال ہے کہ وڈورڈ کے پرانے انٹیلی جنس کے روابط میں سے کسی خاص فرد کے لیے ڈیپ تھروٹ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔
سی آئی اے کے ملوث ہونے کے تمام تر حقائق کے باوجود وڈورڈ اور برنس ٹین نے فی الواقعی واٹر گیٹ کی اپنی رپورٹنگ میں سی آئی اے کی جانب اشارہ نہیں کیا۔ حتیٰ کہ واٹر گیٹ کے سلسلے میں جب سینیٹ میں سماعت ہو رہی تھی تو سی آئی اے نے کسی حد تک اس سے دور ہی رہنے کی کوشش کی۔ اب طرفہ مزاح ملاحظہ ہو کہ سینیٹ نے واٹر گیٹ اسکینڈل میں سی آئی اے کے ملوث ہونے کو خارج از امکان قرار دیا۔ لیکن سی آئی اے ۱۹۷۴ء میں ایسی خوش قسمت ثابت نہیں ہوئی جب سینیٹ نے جیمز جیسس انگلٹن کے سلسلے میں سماعت شروع کی جو غیر قانونی طور پر امریکی شہریوں کا نگراں بنا ہوا تھا۔ ان انکشافات کا نتیجہ کیا نکلا وہ روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ لیکن یہ سب ۱۹۷۵ء میں جرح کمیٹی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ سینیٹ کی اس چھان بین نے فی الواقعی سی آئی اے کے ہر جرم کو دیکھا جن کا سلسلہ قتل سے لے کر خفیہ جنگ تک دراز تھا اور جب یہ تمام تر تفصیلات منظرِ عام پر آئیں تو انہوں نے سی آئی اے کی شہرت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داغدار کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دو سینئرز جو اس سماعت کے کرتا دھرتا تھے یعنی فرانک آرتھر اور اوٹس پائیک ان دونوں کو ری الیکشن کے سلسلے میں شکست ہو گئی اور اس حقیقت کے باوجود کہ عہدیداروں کے لیے ری الیکشن کی شرح ۹۸ فیصد تھی۔ سی آئی اے نہ صرف واحد قدامت پرست ادارہ تھا جس نے ۱۹۷۰ء کی دہائی کی ابتدا میں اپنے آپ کو مسائل میں گھرا پایا بلکہ قدامت پرستوں کے لیے ہر جگہ یہ ایک برا وقت تھا۔ امریکا ویتنام میں جنگ ہار چکا تھا اور اس کی کارپوریشنوں کو اوپیک کے فرو غ اور ترقی سے نبٹنا پڑا تھا۔ روز ویلٹ کا غربت کے خلاف پروگرام ’نیوڈیل‘ اور جانسن کا گریٹ سوسائٹی کا پروگرام یہ دونوں دولت کی دوبارہ بڑی تقسیم کا سبب بن رہے تھے اور نکسن اپنے خلاف معاملات کو غربت اور ریگولیٹری پروگراموں سے مزید خراب کر رہا تھا۔ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۳ء کے درمیان ان کوششوں نے غربت کی شرح کو نصف کر دیا یعنی ۲۲ فیصد سے اب یہ ۱۱ فیصد پر آ گئی اسی اثناء میں ۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۶ء کے دوران رچیٹ ون پرسنٹ (ایک اصطلاح سرمایہ داروں کے لیے) جو امریکا کی ۳۷ فیصد دولت کے مالک تھے وہ ۲۲ فیصد پر آ گئے۔
امریکی بزنس کے چوٹی کے سربراہوں کے کانفرنس بورڈ کا ۱۹۷۳ء میں ایک اجلاس ہوا، اس کے ایگزیکٹوز نے اعلان کیا کہ ’’ہم اپنی زندگیوں کی بقا کے لیے لڑ رہے ہیں‘‘ ’’ہم ایک سست رو عمل کے لیے لڑ رہے ہیں‘‘ اور اب اگر ہم کوئی قدم نہیں اٹھاتے ہیں تو ہم خود اپنی حادثاتی موت کا تماشا دیکھیں گے اور پھر ہمیں ایک دوسری معاشرتی جمہوریت میں نشوونما کے عمل سے گزرنا ہو گا۔
سی آئی اے بچائو کے لیے آتی ہے:
امریکی قدامت پرستی کے اس تاریخی نقطۂ انحطاط کے موقع پر سی آئی اے نے کارپوریٹ کی ایک بڑی مہم گرد و نواح میں صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے شروع کی۔ یہ کام انہوں نے مختلف طریقوں سے شروع کیا سب سے پہلے انہوں نے بیشتر فائونڈیشنوں کے قیام میں مدد کی تاکہ وہ اپنے ڈومیسٹک آپریشنوں کے لیے سرمایہ فراہم کر سکیں۔ حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء سے پہلے سی آئی اے چند ایک انتہائی مشہور فائونڈیشنوں کے ساتھ تعاون کر چکی تھی۔ مثلاً فورڈ، راکفیلر اور کارینجی فائونڈیشنز وغیرہ۔ لیکن ۱۹۷۳ء کے بعد انہوں نے مزید فائونڈیشنوں کو قائم کیا۔ اپنے زمرے میں شامل کیے جانے والوں میں سے انتہائی بدقماش کھرب پتی افراد میں سے رچرڈ میلون اسکیفے تھا۔ دوسری جنگ عظیم دوم کے دوران اسکیفے کے باپ نے او ایس ایس میں خدمات انجام دی تھیں۔ او ایس ایس، سی آئی اے کی پیش رو ہے۔ اسکیفے ۲۰ سال کی عمر کا تھا اس کے والدین وفات پا گئے اور اس کو وراثت میں چار فائونڈیشنز میں الیگینی فائونڈیشن اور ۱۹۷۰ء کی دہائی کی ابتدا میں سی آئی اے کے ایجنٹ فرانک بارنیٹ نے اس کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ سوویت خطرے سے لڑنے کے لیے اپنا سرمایہ فراہم کرے۔ لہٰذا ۱۹۷۳ء سے ۱۹۷۵ء تک اسکیفے نے فورم ورلڈ نیچر چلائی۔ ایک باہر کی خبر رساں ایجنسی سروس کو محاذ کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ وہ سی آئی اے کے پروپیگنڈے کو دنیا کے چاروں طرف پھیلا دے۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد اس نے ’’ہورائٹ‘‘ کو لاکھوں ڈالر کا عطیہ دیا۔ اسکیفے کی سی آئی اے کی جڑیں ان کے مقابلے میں کسی قدر عجیب و غریب ہیں جو کنزرویٹو فائونڈیشنوں کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ۱۹۹۴ء تک ان میں جو بہت مستعد و تیز رو ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ لائینڈے اور ہیری براڈلے فائونڈیشن۔
۲۔ کاربھیج فائونڈیشن۔
۳۔ ایئرہارٹ فائونڈیشن۔
۴۔ چارلس جی کوج۔
۵۔ ڈیوڈ ایچ کوچ۔
۶۔ کلاڈ آر لیمیے
۷۔ فلپ، ایم میکینا۔
۸۔ جے ایم فائونڈیشن
۹۔ جوین ایم اولِن فائونڈیشن۔
۱۰۔ ہنری سلویٹوری فائونڈیشن
۱۱۔ سارہ اسکیفے فائونڈیشن
۱۲۔ اسمتھ رچرڈسن فائونڈیشن۔
اب اندازہ لگایے کہ ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۴ء کے درمیان ان فائونڈیشنوں نے قدامت پرست (Conservative) مقاصد کے لیے ۲۱۰ ملین ڈالرز دیے۔
ان کے عطیات کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
(۱) کنزرویٹو اسکالر شپ کے لیے ۹ء۸۸ ملین ڈالر۔
(۲) تھنک ٹینک اور ایڈووکیسی گروپوں کے اساسی ڈھانچے کو فروغ دینے کے لیے ۲ء۷۹ ملین ڈالر۔
(۳) آلٹر نیٹو میڈیا آئوٹ لیٹس اور نگراں گروپوں کے لیے ۳ء۱۶ ملین ڈالر۔
(۴) کنزرویٹو پرو مارکیٹ لا فرموں کے لیے ۵ء۱۰ ملین ڈالر
(۵) ریجنل اور اسٹیٹ تھنک ٹینک (مرکزِ غور و فکر) اور ایڈووکیسی گروپوں کے لیے ۳ء۹ ملین ڈالر۔
(۶) ان تنظیموں کے لیے جو قومی معاشرتی نکتہ نگاہ کو تبدیل کرنے میں مصروف ہیں اور قومی مذہبی رسومات اور انسان دوستی کو فروغ دینے والے رہنمائوں کے لیے ۴ء۵ ملین ڈالر۔
جو سیاسی مشین انہوں نے بنائی ہے وہ وسیع و کشادہ فہم و ادراک کی حامل ہے اور سیاسی لڑائی کے ہر پہلو کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس میں دائیں بازو کے شعبہ جات اور عہدے جن کا تعلق قوم کی چوٹی کی یونیورسٹیوں سے ہے نیز تھنک ٹینک (مرکز غور و فکر)، عوامی رابطہ فرمیں، میڈیا کمپنیاں، مصنوعی بنیادی و دیہی تنظیمیں جو کانگریس پر دبائو ڈالتی ہیں (جو گستاخانہ طور پر آسٹرو ٹرف کے نام سے مشہور ہیں)۔ نیز رول۔ آئوٹ۔ دی۔ ووٹ، مشینیں، پول اسٹار، فیکس نیٹ ورکس، لوبیسٹ آرگنائزیشن، اکانومک سیمینار (برائے قومی جج حضرات) اور دیگر۔
یہ کارپوریشنیں چونکہ معاشرے کا سب سے زیادہ مالدار طبقہ ہے لہٰذا ان کی زبردست سرمایہ کاری ایک ہی طرح کی کوششوں پر غالب آ جاتی ہے جو جمہوری نمائندگان کرتے ہیں۔ ان کارپوریشنوں کی تخلیق کے علاوہ سی آئی اے کاروباری برادری کو منظم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہاں ہمیشہ خاص مفادات کے حامل گروہ نمائندگی کرتے ہیں۔ مثلاً یو ایس چیمبر آف کامرس اور نیشنل ایسوسی ایشن آف مینوفیکچررز اور سی آئی اے ایک طویل عرصے سے ان کی کارکردگی اور سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ ۱۹۷۳ء کے بعد ایک پرجوش طغیان پسند طاقتور نئے گروہوں کا مجموعہ وجود میں آیا۔ مثلاً بزنس رائونڈ ٹیبل اور سہ طرفی کمیشن یہ تنظیمیں جلد ہی تجارتی کارروائی نامے (بزنس ایجنڈا) کی فروخت بڑھانے میں قوت کا سرچشمہ بن گئیں اور واضح طور پر ان کی کوششوں نے کامیابی کے قدم چومے۔ ۱۹۷۵ء میں سن۔پیک (SUN-PAC) کا فیصلہ سامنے آیا۔ ان کارپوریشنوں نے حکومت سے کہا کہ وہ پولیٹیکل ایکشن کمپنیوں (لوبیسٹ آرگنائزیشنز جو ہماری حکومت کورشوت دیتی ہیں) کو قانونی حیثیت دیدے۔ ۱۹۹۲ء سے کارپوریشنوں نے تمام پیکس کا ۶۷ فیصد مجتمع کیا اور سیاسی جماعتوں کو ۷۹ فیصد تمام مہماتی چندے کی رقم ادا کی۔ دو درجاتی انتخابات یعنی ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۴ء میں ان کارپوریشنو ںنے یکطرفہ طور پر ری پبلکن کو بھاری رقم دی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ کانگریس کے ایک ایوان یا دونوں ایوانوں میں ری پبلکن کااثر و رسوخ بڑھایا جائے۔ ڈیموکریٹک نمائندوں نے جب یہ دیکھا کہ وہ قطعی طور پر اقتدار سے محروم ہو جائیں گے تو وہ خاموشی سے معاشی مسائل کی جانب مڑ گئے، اگرچہ انہوں نے اپنے ماتھے پر لبرل ازم کا ٹیکہ سجائے رکھا۔ کارپوریشنیں یہ دیکھ کر آگے بڑھیں اور ڈیمو کریٹک نمائندوں کو دیگر تمام انتخابات کے لیے رقوم فراہم کیں لیکن اس شرط پر کہ وہ ورکروں، صارفوں، اقلیتوں اور غریب طبقے کے مفادات سے دستبردار ہو جائیں جیسا کہ توقع کی گئی تھی نیو پرو کارپوریٹ کانگریس نے قوانین پاس کیے اور یہ قوانین مالدار طبقے کے مفادات میں تھے۔ ۱۹۷۵ء اور ۱۹۹۲ء کے درمیان نیشنل ہائوس ہولڈ دولت کے مالک رچیسٹ ون پرسنٹ تھے اور یہ رقم ۲۲ فیصد سے بڑھ کر ۴۲ فیصد تک پہنچ گئی۔
سی آئی اے نے کنزرویٹو تھنک ٹینک موومنٹ کی تخلیق میں بھی مدد کی ۱۹۷۰ء کی دہائی سے قبل ان مراکزِ غور و فکر (تھنک ٹینک) نے رنگا رنگی سیاست کی محراب تعمیر کی تھی اور ان معتدل نوعیت کے مراکز غور و فکر کو قدامت پرستوں (کنزرویٹو) کے مقابلے میں تین گنا زیادہ سرمایہ فراہم کیا گیا۔ ان مراکز کے اسکالروں نے پالیسی سے متعلق مسائل کے ضمن میں ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اوائل میں مسائل کے حل کے لیے عجیب و غریب اذہان پیدا کیے کہ ۱۹۷۰ء کی دہائی کے اوائل میں کنزرویٹو فائونڈیشنوں کے عروج کے بعد سب کچھ تبدیل ہو کر رہ گیا۔ ہیریٹج فائونڈیشن نے اپنا دروازہ ۱۹۷۳ء میں کھولا اور اس نے دو لاکھ پچاس ہزار ڈالر کی رقم کُورس فائونڈیشن سے وصول کی۔ اس کے فوراً بعد کنزرویٹو تھنک ٹینک کا ایک سیلاب آ گیا اور ۱۹۸۰ء میں یہ تمام منظر پر غالب آ گئے۔ نئے تھنک ٹینک پروپیگنڈا ملز سے بھی کچھ زیادہ ہی ثابت ہوئے اور انہوں نے حکومت سے زیادہ سے زیادہ ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا۔
اس میں شک نہیں کہ بغیر پبلسٹی کے تھنک ٹینک کی اسٹڈیز بیکار ہیں۔ لیکن یہاں سی آئی اے نے خاص طور پر اس کو پروپیگنڈا تیکنک استعمال کرتے ہوئے بیش قیمت بنا دیا اور اس سلسلے میں دو محرک وائس آف امریکا اور ریڈیو فری یورپ تھے نیز سی آئی اے اور اس کے اتحادیوں نے امریکن اے ایم ریڈیو کو کنزرویٹو گفت و شنید کو ایک آرام دہ مقام میں تبدیل کر دیا رُش لمباغ (Rush Limbaugh) بھی یہی پروپیگنڈا تیکنک استعمال کرتا ہے جس کو ایک بار مُسکو وائٹس نے وائس آف امریکا سے سنا۔ سی آئی اے نے بے شمار میڈیا کے سرچشموں کو فروغ دیا۔ مثلاً کیپٹل سٹیز (جس نے آخرکار اے بی سی کو خرید لیا) بڑی فرمیں مثلاً ہل اینڈ نولٹن نیز نیشنل نیوز میڈیا میں ایجنسی (سی آئی اے) کا ربط و تعلق وغیرہ۔
ذیل میں ایک عجیب و غریب مثال پیش کی جا رہی ہے کہ نیو میڈیا کس طرح کام کرتا ہے۔ جیسا کہ بیشتر سیاسی مبصرین جانتے ہیں کہ ری پبلکن کو خواتین کی عدم رائے دہندگی کا نقصان اٹھانا پڑا اور خواتین نے ڈیمو کریٹک پارٹی کو ترجیح دی۔ لیکن یہ بات اور بھی زیادہ تجسس کا سبب ہے کہ جیسے ہی ۱۹۹۰ء کی دہائی شروع ہوئی کنزرویٹو خواتین نے میڈیا میں ہر جگہ جھانکنا شروع کر دیا۔ مثلاً این کولٹر، کیلنے فزپیٹرک، لارا انگراہم، باربرا اولسن، میلنڈا سیڈاک، ایسابلیئر اور وائٹ بی ایڈمس، ان خواتین کا رجحان ہمیں کنزرویٹو خاتون کے بارے میں ایک نظریہ قائم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ مظاہر حادثاتی نہیں ہیں ان سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ رچرڈ میلون اسکیفے نے چار لاکھ پچاس ہزار ڈالر تین سال کے عرصے میں آزاد خاتون فورم کو دیے۔
اختتامیہ:
سب سے زیادہ اوور کلاس (Overclass) کی واضح تنقید یہ ہے کہ ان کی سیاسی مشین غیر جمہوری ہے اور یہ تخریب پسندانہ تیکنک استعمال کرتی ہے جیسا کہ اس نے اشتراکیوں کے سلسلے میں کیا اور اپنی تمام تر دولت کے ہوتے ہوئے انہیں کبھی کامیابی کے بارے میں سوچنے کی ضرورت پیش آئی ہو۔ یہ طبقۂ اعلیٰ ہماری حکومت، میڈیا اور حتیٰ کہ ہماری اکیڈمیہ کے فروغ پاتے ہوئے حصے کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ ادارے اس کے بدلے میں اس اعلیٰ طبقے کو مبینہ طور پر کنٹرول کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ مثلاً آزاد منڈی، اگرچہ یہ ہر بار کامیابی حاصل نہیں کرتا۔ اس کا گواہ بل کلنٹن کا بغاوت کا مقدمہ ہے لیکن دوسری کامیابیوں کی مانند اس نے طول نہیں کھینچا۔ لیکن اس کا مقصد ورکرز، صارف، خواتین، اقلیتوں اور غریب طبقے کو نقصان پہنچانا تھا۔ اب ہمیں ہر چیز سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔
{}{}{}
Leave a Reply