
یکم رمضان کو میں سحری کے لیے اٹھا تو یہی کوئی ڈھائی بجے کا وقت تھا۔ ٹیلی ویژن کھولا تو ایک چینل سے سحری کی خصوصی نشریات جاری تھیں۔ پروگرام کا سیٹ بڑا دلچسپ تھا۔ کبوتر، خرگوش، مرغ اور بہتا پانی۔ درمیان میں ایک ٹی وی اینکر اپنے ہاتھ پر سرمئی رنگ کا ایک طوطا بٹھائے قصص النبییّن بیان کر رہے تھے۔ اس منظر میں بہت سی باتیں ایک ناظر کے لیے باعث کشش تھیں۔ مرغ و ماہی، بکھرتے رنگ اور روشنی، میزبان کی طاقتِ لسانی اور پھر قصے۔ ہر پہلو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اندازہ ہوا کہ متاع چشم تو اس کثرت میں کہیں کھو گئی۔ انبیا کے قصے پس منظر میں چلے گئے۔ اسی لمحے بہت سے سنجیدہ سوالات نے سر اٹھایا اور ذہن کے کسی گوشے سے جھانکا۔ میڈیا مذہب کی کوئی خدمت کر رہا ہے یا مذہب میڈیا کی؟ اس پروگرام کا حاصل کیا ہے؟ تطہیر فکر و نظر یا نظربندی؟ منظر یا پیغام؟ طوطا یا میزبان؟
یہ سوالات میرے لیے نئے نہیں۔ میڈیا سے وابستگی اور مذہب سے دلچسپی کے سبب یہ سوالات ایک عرصے سے پیش نظر ہیں۔ میڈیا اور مذہب کا تعلق مغرب میں ایک سنجیدہ مطالعے کا موضوع ہے۔ اس پر بہت سی تحقیق ہو چکی جو کئی دائروں پر محیط ہے۔ مذہبی تنظیموں نے اس کا اہتمام کیا۔ میڈیا نے اسے موضوع بنایا اور سماجی مطالعہ کرنے والے اداروں نے بھی۔ اپنے تئیں جب اس موضوع کو سمجھنے کی کوشش کی تو چند قابلِ توجہ نکات سامنے آئے۔ اگر یہ پیش نظر رہیں تو ہمارے ہاں میڈیا اور مذہب پر تحقیق کے لیے مہمیز کا کام دے سکتے ہیں۔
۱۹۷۰ء کی دہائی میں امریکا میں مذہب میڈیا کے لیے ایک سنجیدہ مطالعے کا موضوع بنا۔ یہ وہ عہد ہے جب امریکی سیاست میں، دائیں بازو کے مسیحی رجحانات (New Christian Right) کا عمل دخل بڑھا۔ ۱۹۷۶ء میں جمی کارٹر صدر بنے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ، ’نومسیحی‘ (New bom Christian) تھے۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے مذہبی انقلاب کی مقبولیت اور اثرات نے بھی مطالعے کی اس جہت کو نمایاں کیا۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں، مذہب امریکی میڈیا کے پرائم ٹائم کا حصہ بنا۔ جامعات میں میڈیا کی تعلیم میں ’مذہب کی رپورٹنگ‘ ایک شعبہ قرار پایا۔ بڑے اخبارات نے بھی اس کے لیے صفحات مختص کیے۔ نیویارک ٹائمز میں ’شعبہ مذہب و عقیدہ‘ قائم ہوا۔ یہی کچھ دوسرے نشریاتی اداروں میں ہوا۔
کمرشل میڈیا اور مذہب کے باہمی تعلق کو اہل مذہب اور میڈیا، دونوں نے بیان کرنے کی سعی کی۔ پوپ فرانسس نے ۲۰۱۳ء میں کیتھولک مسیحیت کی قیادت سنبھالی تو ۸۱ ممالک کے نمائندہ اہل صحافت کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مذہب اور میڈیا میں تین اقدار کا اشتراک ہے: سچائی، نیکی اور خوبصورتی۔ دونوں کی اصلاً انہی کا کھوج لگانا اور ان اقدار کو طاقتور بنانا ہے۔ برسوں پہلے ایک سوئس ماہر الٰہیات کارل بارتھ نے اس تعلق کو یوں بیان کیا ’’آپ کے ایک ہاتھ میں اخبار ہو اور دوسرے ہاتھ میں بائبل۔ اخبار کی خبر کی تعبیر و توجیہ بائبل کی روشنی میں ہو‘‘۔ گویا مذہب راہنمائی کا کردار ادا کرے۔
کمرشل میڈیا، سماجی نفسیات کے سمندر میں تیرتا ہے۔ سماج میں جو مذہبی رجحانات غالب ہوں گے، وہ ان کو اہمیت دیتا اور یوں اپنے قارئین و ناظرین کے دائرے کو وسیع کرتا ہے۔ وہ مذہب کے مقبول عام تصور پر تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے کہ اس سے تجارتی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پبلک میڈیا کسی حد تک اس سے صَرف نظر کرسکتا ہے، لیکن کمرشل میڈیا کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا۔ برطانیہ کا میڈیا بڑی حد تک مسیحی روایات کو پیش نظر رکھتا ہے کیونکہ برطانیہ ایک مذہبی سماج سمجھا جاتا ہے۔ ۲۰۱۰ء میں یہ شکایت پیدا ہوئی کہ ۲۰۰۹ء میں میڈیا نے مذہبی پروگراموں کو ۱۱۰ گھنٹے دیے لیکن آنے والے سال میں یہ وقت سمٹتا چلا گیا۔ اس کی صدائے بازگشت دارالعوام میں بھی سنی گئی۔
پاکستان میں کیا ہوا؟ میرا تاثر یہ ہے کہ کمرشل میڈیا اور اہل مذہب، دونوں نے ایک دوسرے کو متاثر کیا۔ پاکستان میں مذہبی طبقات میں سیاسی رجحانات غالب ہیں۔ سیاست سے وابستہ کوئی آدمی یا ادارہ میڈیا سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جو مذہبی طبقات براہ راست سیاست میں حصہ نہیں لیتے، وہ اپنی پذیرائی کے لیے تعلقاتِ عامہ کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ یوں میڈیا ان کی بھی ضرورت ہے۔ دوسری طرف کمرشل میڈیا مزاجاً سیکولر ہے لیکن اس کے تجارتی مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ سماجی رجحانات کو پیش نظر رکھے۔ پاکستان میں چونکہ مذہب سیاست و سماج پر غیر معمولی اثرات رکھتا ہے، اس لیے میڈیا مذہب کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ تاہم وہ اسے میڈیا کے مطالبات سے ہم آہنگ بناتا ہے۔ طوطے، مینا اسی وجہ سے آج علما کی طرح مذہبی پروگراموں کا ناگزیر حصہ بن گئے ہیں۔
مذہبی لوگ چونکہ میڈیا کو اپنی ضرورت سمجھتے ہیں، اس لیے ان کا کردار بھی میڈیا کی رعایت سے تبدیل ہوا ہے۔ تصویر ان کے نزدیک حرام تھی لیکن آج میڈیا کی تشہیر ان کی منصوبہ بندی کا مستقل حصہ ہے۔ ایک مذہبی راہنما جب کسی چینل پر نمودار ہوتا ہے تو اس کے مرید اور متاثرین متحرک ہو جاتے ہیں۔ ایس ایم ایس کا سیلاب آجاتا ہے کہ حضرت کو فلاں وقت فلاں چینل پر دیکھیے۔ میڈیا کی بعض غیر اخلاقی حرکتوں سے وہ دانستہ صرفِ نظر کرتے ہیں کہ وہ ان کی تشہیر میں معاون ہوتا ہے۔ یوں دونوں کے مفادات نے انہیں پرامن بقائے باہمی کے ایک غیر تحریری معاہدے پر متفق کر دیا ہے۔ ان طبقات کے مفادات کے برعکس میڈیا کچھ دکھا دے تو یہ اپنا سماجی دباؤ استعمال کرتے اور میڈیا کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے مفاد سے ہم آہنگ ہو۔ میرا خیال ہے اس سے میڈیا کو نقصان ہوا ہے اور مذہب کو بھی۔
آج پاکستان میں اَن گنت ریڈیو اور ٹی وی چینل ہیں۔ کسی پر مذہبی و فکری معاملات پر سنجیدہ اور تنقیدی گفتگو کا کوئی پروگرام نہیں۔ مذہب کے مقبول اور موجود رجحانات کی حامل شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے اور قائم شدہ آرا پر تنقید سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ مذہب آج شعوری سے زیادہ تقلیدی معاملہ ہے۔ اس سے انتہا پسندی اور فرقہ واریت تو جنم لے سکتی ہے، مذہب کا صحیح شعور نہیں۔ اس مذہب کا کہیں ذکر نہیں جو تزکیہ نفس اور سماج کی تشکیل نو کی بات کرتا ہو۔ اس سے میڈیا کو یہ نقصان ہوا کہ اس کا معروضی کردار متاثر ہوا۔ اب وہ محرم، ربیع الاول اور رمضان کو مختلف مسالک میں بانٹ کر سرخرو ہو جاتا ہے۔ اس سے مسلکی تقسیم پختہ ہوتی ہے اور دوسری طرف میڈیا کا سماجی کردار مجروح ہوتا ہے، جس کا تقاضا ہے کہ وہ معاشرتی ارتقاء میں اپنا حصہ ڈالے۔
میڈیا میں آج ہمیں کبھی کبھی ایک آدھ ایسا چہرہ دکھائی دیتا ہے جو مذہب کو وحی اور عقل کے حوالے سے پیش کرتا ہے اور مسلکی تقسیم سے آزاد ہے، لیکن آٹے میں نمک کے برابر۔ میڈیا کے اداروں میں آج کوئی مذہبی شعبہ موجود نہیں اور اگر کہیں ہے تو اسے روایتی اہل مذہب کے سپرد کر دیا گیا۔ ضرورت ہے کہ میڈیا اور مذہب کا باہمی تعلق ہمارے ہاں ایک سنجیدہ مطالعے کا موضوع بنے۔ بصورت دیگر مذہبی پروگرام دیکھنے کے بعد ہماری یادداشت میں جو کچھ محفوظ ہوگا وہ کچھ رنگ ہوں گے یا پھر طوطے اور ہاتھی۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۶ جولائی ۲۰۱۴ء)
Leave a Reply