اس گفتگو کا محرک ایک تصور اور ایک جذبہ ہے، یعنی کہ موجودہ سماجی علوم نے مل کر جو ایک نیا تصورِ انسان وضع کیا ہے اور اسے قریب قریب عالمگیر حیثیت دے دی ہے، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے دین میں ودیعت فرمودہ تصورِ انسان کی ایسی تفصیل اور ایسے استدلال کے ساتھ اس کا بیان اور اظہار کیا جائے کہ موجودہ سماجی علوم کا انسان کے بارے میں جو مجموعی نظریہ ہے، وہ دین کے بخشے ہوئے، دین کے مقرر کردہ معیار پر کامیابی کے ساتھ، علمی تفوق کے ساتھ اور شعور کی گہرائیوں کے ساتھ پرکھا جا سکے اور دینی معیارات پر علوم کے پرکھے جانے کے نتائج خود ان علوم میں جاری منطق کے لیے قابل قبول یا واجب التسلیم ہو جائے۔ یہ ہمارے دین کے علماء کی چند بہت بڑی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے کہ وہ دین کے غلبے کو شعور کی تمام اقلیموں میں ثابت کریں۔
یہ دین وجود کے تمام دائروں میں بھی غالب رہنے کے لیے آیا ہے اور اسی طرح یہ دین ذہن اور شعور کے تمام گوشوں کو بھی روشن کرنے آیا ہے۔ یہ دین نہ عالم ِوجود کے کسی چھوٹے بڑے حصے کو اللہ سے غیر متعلق رہنے دینے کا امر کرتا ہے، اجازت دیتا ہے اور نہ ہی یہ شعور کی کسی بھی گہرائی، کسی بھی تہہ کو حق سے غیر متعلق رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ چاہے انفس ہو، چاہے ہمارے شعور میں موجود کائنات ہو، چاہے ہمارے باہر حاضر دنیا ہو، مسلمان کی حیثیت سے حتی المقدور، ہم سب کی بہت بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان انفس و آفاق کو ایک ہی روشنی سے روشن اور ایک ہی امر کے تابع کر کے دکھائیں اور وہ ہے حق۔
سر سید احمد خان کی آمد تحریک مجاہدین کا براہ راست رد عمل تھی۔ سر سید احمد خان صاحب کی تحریک سید احمد شہید صاحب کی تحریک مجاہدین کا براہ راست جواب تھی انگریزوں کی طرف سے، تو ان کے، سر سید احمد کے تہذیبی، تعلیمی، اخلاقی رول ماڈل بن جانے کی وجہ سے حادثاتی طور پر یا کسی نالائقی کے نتیجے میں، ہوا یہ کہ ذہن جو مغرب نے بنایا تھا، منطق جو مغرب میں ایجاد کی تھی، تصور دنیا جو مغرب نے دیا تھا اور حتیٰ کہ اخلاق اور انسان وغیرہ کے تمام بنیادی تصورات جو مغرب نے اپنے project of enlightenment کے نتیجے میں ایجاد کیے تھے، پیدا کیے تھے، سرسید نے ان تمام چیزوں، ان تمام مغربی تصورات کو بہت اٹل معیارات بنا کر مسلم ذہن اور مسلم تہذیب دونوں پر apply کر دیا۔
اس قوم کی بد نصیبی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، جس کے ہیرو سرسید احمد خان جیسے لوگ ہوں۔ اس تہذیب کے افلاس کو ناپا نہیں جا سکتا، جس تہذیب کی صورت گری سر سید یا ان کی تحریک کے نتیجے میں ہوئی ہو۔ تو ہم وہ نقصان تاحال بھگت رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں مسلم سوسائٹی اور مسلم ذہن کی تشکیل میں سب سے زیادہ مؤثر کردار سرسید احمد خان نے ادا کیا اور یہ سرسید احمد خان کے ہی کام کا اور انہی کی تحریک کا نتیجہ ہے کہ آج ہم شعوری یا غیر شعوری، ارادی یا غیر ارادی طور پر مغرب کو اپنے لیے معیار بنا چکے ہیں۔ یعنی ہمارے لیے ترقی کا معیار مغرب ہے، ہمارے لیے اخلاق کا معیار مغرب ہے، ہمارے لیے علم کا معیار مغرب ہے، ہمارے لیے تمام سماجی، سیاسی، معاشی نظاموں کا معیار مغرب ہے، یعنی کہ شعوری طور پر اور کہیں غیر شعوری طور پر۔ اتنے بھیانک چنگل میں گھرجانے کے بعد ہم سب کی اور خصوصاً ہمارے اہل علم ہی کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ مغرب کے اس نفسیاتی، تہذیبی اور سماجی غلبے کو توڑنے کے لیے چند بامعنی اور مؤثر تحریکوں اور کاوشوں کا، ایک تنظیم، ایک ترتیب اور ایک علمی دیانت کے ساتھ آغاز کرے۔ اس کے بغیر ہماری بقا کے بہت سارے دروازے بند ہو جائیں گے۔ یہ اتنا ضروری کام ہے۔ تو خیر اس وقت سرسید پر نقد و جرح فی الحال گفتگو کا موضوع نہیں ہے، یہ صرف ہم پس منظر کے طور پر بتا رہے ہیں کہ ہندی مسلمانوں کی تاریخ میں صرف ایک ہی dialectical set up ہے اور وہ ہے تحریکِ مجاہدین اور سر سیداحمدخان کی تحریک کا ٹکراؤ، اس ٹکراؤ کے نتیجے اور بعض خارجی عوامل کی امداد کے نتیجے میں سر سید احمد خان کی تحریک، ان کے بنائے ہوئے discourse، ان کے دیے ہوئے world views کی فتح ہے اور ہم اسے بھگت رہے ہیں۔ تو موجودہ صورتحال یہ ہے۔
علم کی کوئی بھی قسم ہو اور علم کسے کہتے ہیں؟‘اپنے اور اپنی دنیا کے بارے میں ذہن کا کسی مستقل موقف قائم کرنے کے لائق ہو جانا۔ کیونکہ علم کا مطلب ہے ذہن اپنے موضوع کے بارے میں چند عارضی یا مستقل مواقف کی تشکیل کرنے کے لائق ہو جائے تو یہ لیاقت علم کہلاتی ہے۔ تو ان معنوں میں میں عرض کر رہا ہوں کہ آج علم کا کوئی بھی شعبہ ہو، یعنی علم بعنوان سائنس ہو، بعنوان طبیعات ہو، علم بمعنی سماجیات ہو، یعنی چاہے وہ سائنسی علوم ہوں، چاہے سماجی علوم ہوں، علم کی یہی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ان میں سے ہر قسم کو مغرب نے دین کے لیے اجنبی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ آج دنیا کو چلانے والا، انسانی ذہن کی تربیت کرنے والا، انسان کے عملی مقاصد کو پورا کرنے والا کوئی علم کوئی knowledge discipline ایسا نہیں ہے، تو پھر اس پہ جیسے تاکید سے کہہ رہا ہوں کہ بلا استثناء کوئی جدید علم ایسا نہیں ہے، جو مذہبی ذہن اور دینی شعور کو اپنے اندر داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتا ہو۔
یعنی آج ہر علم بلااستثناء دینی شعور کے مسلمات و معتقدات سے یا تو براہ راست اپنی قوت انکار کے ساتھ متصادم ہے یا اس سے ایک تحقیر کے ساتھ لاتعلق ہے۔
تو آج کے علوم سے بننے والا ذہن گویا یا تو مذہب کے انکار پر اپنی تمام دستیاب استعداد ِتیقن سے کھڑا ہوا ہے، crystallized ہو چکا ہے یا پھر یہ کہ مذہب کو وہ ویسی ہی حقارت سے، مذہبی اعتقادات کو وہ ویسی ہی حقارت سے لاتعلقی کی نظر کیے ہوئے ہے، جس طرح ہم دلدل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں، جس طرح ہم کیچڑ سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ تو یہ دو طرح کے مزاج جدید علمی ماحول نے پوری طرح اپنے سے تربیت پانے والے اذہان میں اتار دیے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی مغربی علم، اس علم کے اوریجنل اور فیکچوئل مقدمات اور مقاصد کے ساتھ اس علم کی منطق کی مطابقت کرتے ہوئے حاصل کیا جائے اور اس علم کے حصول کے نتیجے میں آپ اپنے دینی شعور کی پرداخت یا نمو کا کوئی ذریعہ حاصل کر سکیں۔ اس وقت سر دست ساری دنیا میں کوئی علم ایسا نہیں ہے، جو دینی شعور کے اعتقادات کے لیے معاون نظامِ استدلال فراہم کر سکتا ہو، جو دینی اخلاق کی تربیت کا ذریعہ بن سکتا ہو، جو ذہن کے دینی مقاصد کو قبول کر کے اس کے حصول کے عارضی یا مستقل راستے سجھا سکتا ہو۔ اس وقت کوئی علم عملاً ایسا موجود نہیں ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، اس کو پھر اطمینان کے لیے دہرا دیتا ہوں کہ اب علم یا تو دین اور دین کے مقدمات، مسلمات، معتقدات کا کھلا ہوا انکار ہے اور وہ انکار ایسا ہے، کہ اسے کیوں کہ ایک طاقت کی پشت پناہی حاصل ہے تو اس انکار کی شدت بہت بڑھی ہوئی ہے، اس انکار کا تحکم بہت بڑھا ہوا ہے اور تمام علوم کیونکہ اس انکار کو مدلل بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں، تو اس انکار کے لیے، جس جس طرح کے کلینیکل یا ایمپیریکل شواہد چاہیے ہیں، وہ شواہد بھی دوسرے علوم اسے مہیا کر رہے ہیں۔
(۔۔۔جاری ہے!)
Leave a Reply