
گزشتہ سال مصر میں صدر محمد مرسی کے خلاف اٹھنے والی احتجاجی تحریک کے محرکات میں سرِفہرست مصر کے بعض طبقات کو لاحق یہ خوف تھا کہ ملک کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر اور ان کی اسلام پسند جماعت ملک میں ’ملائیت‘ کے نفاذ کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن محمد مرسی کے اقتدار کے خاتمے کو چودہ ماہ گزر جانے کے باوجود مصر میں اسلام اور سیاست بدستور باہم مدغم ہیں اور صدر مرسی کی جگہ اقتدار سنبھالنے والی حکومت ہی ملک میں مذہب کی سب سے بڑی نام لیوا بنی ہوئی ہے۔
مصری حکومت کی ’’مذہب پسندی‘‘ کی ایک بڑی مثال وزارت برائے امورِ نوجوانان کی عہدیدار نعمت ساتے کی کوششیں ہیں، جو وزارت میں سماجی تعلیم کے شعبے کی ڈائریکٹر ہیں۔ نعمت ساتے بعض دوسری وزارتوں کے تعاون سے ایک ٹاسک فورس قائم کر رہی ہیں، جو مصری نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی لادینیت کے سدِباب کے لیے کام کرے گی۔ موصوفہ کے بقول ان کے اس منصوبے کے تحت سیکڑوں مبلغین، اساتذہ، ماہرینِ نفسیات اور مذہبی رہنماؤں کو تربیت دی جائے گی جو مصر کے تمام ۲۷ صوبوں میں نوجوانوں کو ہر دو طرح کی انتہا پسندی کی طرف مائل ہونے سے روکیں گے، اول جہاد اور دوم الحاد۔
نعمت ساتے کا کہنا ہے کہ ملحدین آخرت کو نہیں مانتے اور نہ ہی وہ جنت اور دوزخ کے قائل ہیں۔ ان نظریات کے باعث ان میں یہ سوچ پروان چڑھتی ہے کہ وہ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ ان کے بقول اگر آپ زندگی بعد از موت پر یقین نہ رکھیں تو آپ کی زندگی ہر طرح کی حدود و قیود سے آزاد ہو جاتی ہے اور معاشرے میں مسائل کو جنم دیتی ہے۔
نعمت ساتے کہتی ہیں کہ ان کے منصوبے کے نتیجے میں مصری معاشرے میں انتہا پسندانہ رجحانات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ ان کے بقول منصوبے کا مقصد لوگوں کی نجی زندگیوں میں مداخلت کرنا نہیں، بلکہ اس مہم کے ذریعے وہ ’’غلط نظریات کو درست کرنا اور نوجوانوں کو سیدھے راستے‘‘ پر لانا چاہتی ہیں۔
نعمت ساتے کے یہ نظریات کچھ اتنے انوکھے بھی نہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہونی چاہیے کہ اُن کی اِس سوچ اور کوششوں کو حکومت کی سرپرستی اور مدد حاصل ہے۔ مصر کے موجودہ آئین کے تحت ملک میں مذہب کی بنیاد پر بننے والی سیاسی جماعتوں کی گنجائش نہیں۔ اس نئے آئین سے صدر محمد مرسی کے دور میں بنائے جانے والے آئین کی وہ شق بھی نکال دی گئی ہے، جس میں ملک میں اسلام کی بنیاد پر قانون سازی کی بات کی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود محمد مرسی کی اسلام پسند حکومت کا تختہ الٹ کر برسرِ اقتدار آنے والے سابق فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی کی حکومت کی کئی پالیسیوں پر مذہب مکمل طور پر حاوی نظر آتا ہے۔
نعمت ساتے کے منصوبے کے اعلان سے کئی ہفتے قبل مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ کے پولیس چیف نے برملا اعلان کیا تھا کہ وہ ملحدوں کے اُس گروہ کو گرفتار کریں گے، جو سماجی میڈیا پر کھلم کھلا اپنے عقائد کا اظہار کر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ ہی مصر کی وزارتِ انصاف کے ’دارالافتاء‘ نے، جو فتوے جاری کرنے کا مجاز سرکاری ادارہ ہے، جہاں شام اور عراق میں سرگرم سنی شدت پسند تنظیم ’دولتِ اسلامیہ‘ کی مذمت کی تھی، وہیں اس نے رقص و سرود اور انٹرنیٹ پر مردوں اور عورتوں کے درمیان آزادانہ رابطوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ محمد مرسی کی اسلام پسند حکومت کے خاتمے کے باوجود مصر میں توہینِ مذہب کے نئے مقدمات کا اندراج اور ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائیاں جاری ہیں، جب کہ ہم جنس پرستوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں بھی شدت آئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا اور ایسے کئی دوسرے اقدامات کے ذریعے مصر کی حکومت عوام کے مختلف طبقات کو ریاست کا تابع بنائے رکھنے کے لیے مذہب کو بخوبی استعمال کر رہی ہے۔ جہاں ایک طرف علما اور خطیبوں سے حکومت کے اقدامات کی تائید میں تقریریں کرائی جاتی ہیں، وہیں ’اخوان المسلمون‘ اور دیگر اسلام پسند تنظیموں سے ہمدردی رکھنے کے شبہ میں سرکاری مساجد کے ہزاروں علما کو خطیب اور امام کی ذمہ داریوں سے معزول کر دیا گیا ہے۔ جامعہ الازہر جیسے مسلم دنیا کے اہم اور معتبر ادارے کے سربراہ اور مصر کے اقلیتی قبطی عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپو تھوڈوروس دوم پہلے دن سے حکومت کی حمایت میں پیش پیش ہیں اور دونوں رہنماؤں کو ہی سرکاری اداروں اور سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں۔
مساجد میں جمعے کے خطبے کا موضوع اور متن بھی حکومت طے کرتی ہے جب کہ خود صدر السیسی فوج اور عوام سے اپنی تقاریر میں مذہبی جذبات اور خیالات کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ صدر مرسی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے چند ہفتوں بعد انہوں نے ٹی وی پر قوم سے جو خطاب کیا تھا، اس میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم خدا سے ڈرنے والے لوگ ہیں اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ خدا سے ڈرنے والوں کو شکست دے سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے‘‘۔
حکومت کی اس تمام تر مہم، اقدامات اور بیانات کا مقصد جہاں ایک جانب عوام کے اسلام پسند طبقات کی حمایت کا حصول اور انہیں ریاست سے وفادار رکھنا ہے، وہیں اس کا مقصد خود کو ’’اخوان المسلمون‘‘ کا متبادل بنا کر پیش کرنا ہے جسے اپنی اسلام پسندی کے باعث عوام کے قابلِ ذکر حصہ کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔
پروفیسر ناتھن براؤن امریکا کی ’جارج واشنگٹن یونیورسٹی‘ سے منسلک ہیں اور مصر میں مذہب اور ریاست کے معاملات پر لکھتے رہے ہیں۔ ان کے بقول مصری حکومت کے ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر ی معاشرے میں سیکولراِزم بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مصری معاشرے میں اب کوئی نہ تو سیاست اور مذہب کو الگ الگ رکھنے کی بات کر رہا ہے اور نہ ہی کہیں سے مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کی صدا سنائی دیتی ہے۔ لیکن، ان کے بقول، اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مصر کے معاشرے میں ماضی کے برعکس اب مذہب کا عَلم ریاستی اداروں نے اٹھا لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مرسی اور السیسی کی حکومتوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ موجودہ حکومت جامعہ الازہر کے شیوخ اور وزارتِ مذہبی امور سے منسلک علما کی حمایت کے حصول کی خواہش مند ہے اور ان کے ذریعے مصری عوام پر اپنی حکمرانی کو دوام بخشنا چاہتی ہے۔ اس کے برعکس محمد مرسی اور ان کے حامی ان افراد سے جان چھڑانا چاہتے تھے اور ان کی جگہ اپنی جماعت ’اخوان المسلمون‘ کے نظریات کے حامل افراد کو ان اداروں میں مقرر کرنے کے خواہش مند تھے۔
پروفیسر ناتھن براؤن کہتے ہیں کہ اخوان المسلمون گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران تشکیل پانے والی مصری ریاست سے باہر کی ایک قوت تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی اس کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ اسی لیے جب اسے کسی ریاستی یا سماجی معاملے پر اسلام کی رہنمائی درکار ہوتی تھی تو وہ ریاستی اداروں کا رخ کرنے کے بجائے اپنی قیادت اور بیرونِ ملک موجود اپنے ہم خیال افراد سے رجوع کرتی تھی۔ مصر کی موجودہ حکومت بھی عوام کی سیاسی رہنمائی کے ساتھ ساتھ مذہبی پیشوائی کا منصب بھی اپنے پاس رکھنے کی خواہش مند ہے۔ لیکن ماضی کے برعکس وہ یہ ذمہ داری ریاست سے منسلک مذہبی اداروں اور ان میں پہلے سے موجود لوگوں کی مدد سے انجام دے رہی ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور برانگیختہ کرنے کے واقعات میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔ محمد مرسی کے دور میں اسلام پسندوں کو پارلیمان اور ذرائع ابلاغ میں کھل کر اپنی بات کہنے کا موقع میسر تھا اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر اختلافِ رائے کا اظہار اور مخالفین پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔ اس بیان بازی کے نتیجے میں ملک میں ایک ایسا ہیجان انگیز ماحول بن گیا تھا جس کے نتیجے میں شدت پسند عناصر کے لیے مذہبی اقلیتوں کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکانا آسان ہوگیا تھا۔ مرسی حکومت کے دور میں بعض ایسے واقعات بھی پیش آئے تھے جن کے نتیجے میں ملک میں اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا تھا۔
گو کہ صدر مرسی کے بعد آنے والی حکومت نے ’اخوان المسلمون‘ کے خلاف اپنے بغض کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی اور مذہب کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اب ملک میں ماضی والا کشیدہ ماحول نہیں رہا۔
مصر میں سیکولر نظامِ حکومت کے لیے کوشاں ایک تنظیم ’دی سیکولرسٹس‘ کے بانی سربراہ احمد ثمر کہتے ہیں کہ محمد مرسی کے دور میں وہ اور ان کے ساتھی جتنا ریاست سے ڈرتے تھے، اتنا ہی انہیں اپنے ہم وطن مصریوں سے خوف آتا تھا۔ ان کے بقول ہمیں یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں جاری تند و تیز اور مخالفانہ بیان بازی سے مشتعل ہو کر کہیں عام شہری ہی ہم پر نہ چڑھ دوڑیں۔ لیکن اب ہمیں ایسا کوئی خوف لاحق نہیں۔
احمد ثمر کہتے ہیں کہ اخوان المسلمون کے دورِ حکومت میں جارحانہ بیان بازی اور بلند آہنگ میں اختلافِ رائے کے نتیجے میں لوگ معاملات پر انتہائی مؤقف اپنا لیا کرتے تھے۔ ان کے بقول اختلافِ رائے اب بھی ہوتا ہے لیکن لہجے نرم اور آوازیں پست ہوگئی ہیں۔
احمد ثمر کا کہنا ہے کہ جب تک مصری معاشرے پر مذہب کی گرفت قائم ہے، حکومتیں مختلف طرح کے منصوبوں اور مہمات کے ذریعے مذہب کا سہارا لے کر اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کرتی رہیں گی۔ ان کے بقول مسئلہ حکومت کا نہیں بلکہ معاشرے کا ہے، کیوں کہ مصر میں معاشرہ حکومت کی سمت کا تعین کر رہا ہے۔ ا ن کے خیال میں مصر میں ریاست اور حکومت کی سیکولر خطوط پر تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے معاشرے کو سیکولرائز کیا جائے اور مذہب کی گرفت کمزور کی جائے۔
(مترجم: ابنِ ریاض)
“Religion still leads the way in post-Morsi Egypt”.
(“The Guardian”. Sep. 18, 2014)
Leave a Reply