
یو پی کے ایک سینئر آئی پی ایس افسر (جولاء اینڈآرڈر اور ڈسپلن کی علامت ہی نہیں کہلاتے بلکہ اسے نافذ کرنے والے بھی سمجھے جاتے ہیں) نے گزشتہ دنوں جس طرح کرشن کی دوسری رادھا ہونے کا روپ دھارا وہ ایک انوکھی اور نرالی مثال ہے۔ اس پر تبصرہ سے گریز ہم اس لیے بھی کرنا چاہیں گے کہ اس کا تعلق دھرم سے ہے اور ’’دھرم‘‘ ایک جذبات اور بعض دفعہ انفرادی و ذاتی نوعیت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ لیکن میڈیا میں مذکورہ افسر سے متعلق دھرم گروئوں ہی کے نہیں بلکہ ان کی دھرم پتنی تک کے جس طرح کے بیانات آرہے ہیں اس سے مذکورہ آئی پی ایس افسر کی اس نرالی ادا پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ البتہ اس پر کسی بھی قسم کے تبصرہ سے گریز کرتے ہوئے ہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ افسوس‘ مذہب اور دھرم کی آڑ میں مذہبی جذبات کے تسلسل کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ مذہب یا دھرم‘ جو انسان کی رہبری و رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہا ہے جو مذہب یا دھرم کا بنیادی مقصد ہوتا ہے‘ افسوس کہ اسی ’’رہبر و رہنما‘‘ کی رہزنی اور اس کے نام پر استحصال میں انسانوں کو تامل نہ رہا۔ اس پر گرفت اور تنقید شاید اس لیے نہ ہوسکی یا عموماً اس سے گریز کیا گیا کہ مذہب یا دھرم کو سماج میں تقدس کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے برخلاف مذہب بیزاروں نے مذہب کو افیم کہنے سے بھی گریز نہ کیا۔البتہ مصلحین نے جب مذہب کے نام پر کسی بھی قسم کے بے راہ روی دیکھی تو انہوں نے لومتہ ولائم کی پروا کیے بغیر اس کو ہدف بنایا۔ اس سلسلہ میں متکلم اسلام مولانا مودودیؒ کی مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ جب تزکیہ و احسان یا مروجہ اصطلاح میں تصوف کے نام پر بے راہ روی اور حد درجہ بے اعتدالی دیکھنے میں آئی تو مولانا نے اسے ’’چنیا بیگم‘‘ لکھنے میں تامل نہ کیا یہ مذہب سے گہرے لگائو اور اس سے سرمو انحراف کو بھی گوارا نہ کرنے کی ایک مثال ہے۔
مذہب کے استحصال اور اس کے نام پر جنون طاری کر لینے کا عمل تمام مذاہب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ افسوس کہ مذہب کو آڑ بنا لیا گیا ہے اور اس کے نام پر نہ جانے کیسے کیسے غیرمذہبی کاموں اور ڈھونگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس ’’سانحہ‘‘ پر مذاہب عالم کے علماء و مفکرین کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
مذاہب کے ساتھ کھیل کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ مذاہب کو بڑی آسانی سے جرائم سے جوڑ دیا جاتا ہے چنانچہ اصطلاحات وضع کرنے میں بڑی مہارت و چابکدستی (تعصب کی کارفرمائی کے ساتھ) دکھائی جاتی ہے۔ بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی یہ وہ اصطلاحات ہیں جو تدریج کے ساتھ سامنے آئیں اور دینِ اسلام کے ماننے والوں ہی کے لیے عموماً ان کا استعمال لیا گیا‘ ورنہ دنیا میں کتنی تحریکیں ہیں جو تشدد پر یقین بھی رکھتی ہیں اور اس کے مطابق اپنی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں کسی خاص مذہب کو ہدفِ ملامت بنانا اور دوسروں سے صرفِ نظر کرنا دیانتداری نہیں کہلائی جاسکتی۔
تعصب اور عصبیت کی کارفرمائیاں اگرچہ عام ہیں لیکن رجائیت پسند افراد یا جماعتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک تو مایوسی خصوصاً مسلمان کے لیے کفر ہے اور دوسری بات جو بڑی اہمیت کی حامل ہے‘ وہ یہ کہ متعصب افراد ہمیشہ مٹھی بھر ہی ہوا کرتے ہیں۔ البتہ ایک افسوسناک پہلو یہ ضرور ہے کہ مٹھی بھر متعصب افراد منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور جدید وسائل مثلاً پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا جیسے ذرائع اِبلاغ کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تعلیم کے ذریعہ ذہن سازی کا جو کام کیا جاسکتا ہے‘ وہ موثر و مفید اور دیرپا و مستقل ہوتا ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں ششو مندر کا حال اس کی مثال ہے یا پھر تحریک آزادی کے دور کے ایک انگریزی تعلیم داں کا یہ جملہ اس موقع پر یاد رکھنا چاہئے کہ ’’ہندوستانی رنگ و نسل کے اعتبار سے اگرچہ ہندوستانی ہوں لیکن ذہن و فکر کے اعتبار سے انگریز ہوں‘‘۔ حاصل کلام یہ متعصب افراد مٹھی بھر ہی سہی‘ لیکن وہ اپنی تعداد میں اضافہ کی ٹھوس اور منصوبہ بند کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان سازگار حالات میں بھی شب کی تاریکی میں جگنو کی مانند کچھ ایسے افراد ضرور سامنے آجاتے ہیں جو حق بات کہنے سے نہیں چوکتے۔ الحمدللہ! ہندوستان میں بھی خود ہمارے برادران وطن میں ایسے افراد کے بیانات ہماری نظروں سے گزرتے رہتے ہیں اور رہی عالمی سطح کی بات تو اس کی ایک مثال امریکا ہی کی لے لیجیے کہ خود اس ملک میں انکل سام بش کی خارجہ پالیسی کی کھلے عام مخالفت ہوتی ہے اور ہو رہی ہے۔
مسئلہ طاقت و قوت کا ہے‘ غلبہ و اقتدار کاہے‘ اتحاد و اتفاق کا ہے‘ سردست تو ہمیں یہ کہنا ہے کہ مذاہب عالم میں جو اخلاقی قدریں مشترک ہیں‘ ان کی بنیادوں پر مفکرین و دانشوران مذاہب کو آواز دی جائے اور مشترکہ اخلاقی قدروں کو پامال ہونے سے بچانے کی تدبیریں کی جائیں۔ بظاہر بیاباں کی شبِ تاریک کبھی کبھی مایوسی ضرور پیدا کرتی ہے لیکن دنیا ابھی امن پسند اور اخلاقیات کے علمبرداروں سے بالکل خالی نہیں ہوئی۔
البتہ ایک سوال یہاں یہ کھڑا کیا جاسکتا ہے کہ بعض مذہبی کارروائیوں کے پس پشت خود مذہبی پیش گوئیاں اور جنونی مذہبی جذبات کام کررہے ہیں‘ یہ ایک واقعہ اور حقیقت ہے مگر یہاں بھی شدت پسندوں اور اعتدال پسندوں کا فرق ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ عیسائیوں میں بعض کٹّر پنتھی ہیں اور ان کو یہودی کٹر پنتھیوں کی حمایت حاصل ہے۔ نتیجہ میں وہ شدت پسندی کا رُخ اپنائے ہوئے ہیں مگر چونکہ ان ہی کی صفوں میں اعتدال پسند بھی ہیں‘ اس لیے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ بظاہر کوئی مذہب یا دھرم امن مخالف ہونے کی اپنی تصویر پیش نہیں کرنا چاہتا اور یہ بھی واقعہ ہے کہ کوئی مذہب اخلاقی و انسانی قدروں سے خالی بھی نہیں ہے۔ اس وقت جب کہ دنیا کے سامنے امن کی غارتگری اور اخلاقی قدروں کی پامالی اس قدر عام ہے کہ ہر شریف النفس انسان (چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو) ہراساں و پریشان ہے اس کے ساتھ ارضی و سماوی آفتوں کا نزول بھی وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور سائنسی وجوہات کے باوجود اخلاقی قدروں کی پامالی کا بھی وہ مشاہدہ کر رہا ہے‘ اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی دنیا ترقی کی شاہراہ کو اس وقت تک صحیح معنوں میں نہیں اپنا سکتی جب تک کہ حالات معتدل اور نارمل نہ ہوں۔ وہ لوگ جو دہشت گردی کے خلاف بظاہر علم بلند کیے ہوئے ہیں‘ واقعہ یہ ہے کہ انہی نے دنیا کے امن کو غارت کیا ہے اس لیے مذاہب کے علمبرداروں کی خصوصیت کے ساتھ یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دنیا کے حالات کو اعتدال پر لانے کی ہرممکن کوشش کریں۔ دہشت گردی اگر ہے بھی تو اس کا جواب دہشت گردی سے نہیں دیاجاسکتا‘ بلکہ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ دہشت گردی کی وجوہات تلاش کی جائیں اور ان کے استیصال و تدارک کی حقیقی سطح پر کوشش کی جائے۔ یہ بات نہایت غیرسنجیدہ ہے اور مذہب کے علمبرداروں کے بالکل شایان شان نہیں ہے کہ دنیا کے حالات عالمی سطح پر نارمل نہ ہوں اور اربابِ اقتدار امن کے نام پر حالات کو اور کشیدہ کر رہے ہیں اور مذاہب کے علمبردار و نام لیوا بالکل خاموش رہیں یا کسی سنجیدہ و ٹھوس عملی منصوبہ بندی کی‘ جو عالمی سطح کی ہو‘ کوئی کوشش نہ کریں۔ انسانیت کے نام لیوائوں کے لیے اور اس کا دم بھرنے والوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ کسی ٹھوس منصوبے کے ساتھ مشترکہ پلیٹ فارم‘ امن عالم کے قیام اور حالات کے اعتدال کے لیے قائم کریں۔
تمام مذاہب کے علمبرداروں سے ہم یوں بھی شکوہ کریں گے کہ دنیا فحاشی‘ اخلاقی گراوٹ اور اخلاقی قدروں کی حد درجہ پامالی سے آگے بڑھ کر غیراخلاقی ہی نہیں غیر فطری اعمال تک کی مرتکب ہورہی ہے۔ مذہب کے کلچر اور نہ معلوم کس کس قسم کی فرضی و رسمی اصطلاحات کے نام پر دنیا اخلاقی اعتبار سے لب گور آچکی ہے اور مذاہب کے علمبردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانی خون ارزاں‘ انسانی عصمت و عفت ارزاں‘ انسانی جانیں ارزاں‘ مال و متاع کا استعمال بے محل ہی نہیں نہایت نازیبا و نامعقول اور اس پر ستم یہ کہ مذاہب کے نام لیوا خاموش بیٹھے رہیں۔ مستقبل کا مورخ اسے مذاہب اور ان کے علمبرداروں کی خاموشی کو سانحہ قرار دے گا جب کہ یہی وہ مذاہب ہیں کہ جب باہم مذاہب کے درمیان کوئی انتشار پسند فساد پیدا کرے تو باہم دست و گریباں ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ اس سے آگے بڑھ کر خود ایک ہی مذہب کے مابین فکری اختلافات اور ان کے اظہار کا بھی کوئی موقع ہاتھ آجائے تو پھر دیکھیے کہ یہی باہمی جو تم پیزار ہوتی ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جن کو دنیا کھلی آنکھوں دیکھ رہی ہے۔ مذہب و عقیدہ بے شک جان سے زیادہ عزیز ہے لیکن حالات اگر معتدل نہ ہوں اور دنیا امن کا گہوارہ نہ ہو تو مذہبی رسوم کی ادائیگی میں بھی موانع کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں یہ ناگزیر موقع ہے کہ مذاہب اس سمت میں جلد پیش رفت کریں۔
یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ مذاہب میں مشترکہ قدروں میں باہمی میل جول پیدا کرنے کی کوشش نازک کام ہے۔ مذاہب کی ہم آہنگی کا مطلب صلح کا بھی نہیں اور وہ وحدت ادیان بھی ہرگز ہرگز نہیں ہے لیکن جن اخلاقی قدروں کا ہر مذہب احترام کرتا ہے اور جن بداخلاقیوں کی ہر مذہب مذمت کرتا ہے اس کی بنیادوں پر ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا وجود میں آنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے لیکن دنیا کے حالات متقاضی ہیں کہ ایسی ایک ناممکن مشترکہ جدوجہد کو ممکن بنایا جائے۔ حاشا وکلا کو اسے دعوت دین کی راہ میں حائل بھی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ حالات یہ ہیں کہ مسلمان برادران وطن کے قریب آئیں۔ تمام مذاہب ایک دوسرے کے عقائد سے آگاہ ہوں ورنہ صورتحال یہ ہے کہ صدیوں سے ہمسایہ برادران وطن اللہ اکبر کے معنی سے بھی ناواقف ہیں حتی کہ ایک وی سی نے کہا کہ اسلام بھی شاید کچھ Rituals اور رسموں کا نام ہو گا اور بس! اب یہ کس کا قصور ہے کہ برادران وطن مکمل نظام حیات سے ناواقف ہیں اس لیے کہ وہ کتابوں میں بند ہے اوراس کی عملی نظیر دیکھنے کو نہیں ملتی۔
سوال یہ ہے کہ اس سلسلہ میں پیش قدمی کون کرے جو اب آسان بھی ہے اور مدلل بھی۔ پیش قدمی کرنی چاہیے۔ عصرِ حاضر کی دنیا میں امن و آشتی کے قیام کے لیے اسلام کے ماننے والوں کو پیش قدمی کرنی چاہیے۔ اس لیے بھی کہ اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ واضح طور پر بتاتا ہے کہ وہ امن و آشتی کا مذہب ہے اور اس لیے بھی کہ موجودہ فضا میں اسلام دشمن طاقتیں اسلام کے اصل چہرہ پر نقاب ڈال کر اس کو اور اس کے ماننے والوں کو ’’دہشت گرد‘‘ ثابت کر دکھانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کا مایوسی کا شکار ہو جانا اور اغیار کے جھوٹے اور منفی اسلام مخالف پروپیگنڈہ کے سامنے ہتھیار ڈال دینا خود کے لیے بزدل اور مایوس ہونے کا ثبوت فراہم کرنا ہے۔ ان حالات کو قدرت کی طرف سے ایک موقع جانتے ہوئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی صاف ستھری و نکھری ہوئی شبیہہ و صورت کو دنیا کے سامنے مدلل انداز میں پیش کرنے کا یہ ایک ایسا تاریخی موقع ہے جسے اگر صحیح طریقہ سے استعمال کرلیا گیا تو عالم انسانیت بھی موجودہ مسلمانوں کا شکر گزار ہوگا۔ اغیار بھی بے نقاب ہوں گے اور مسلمانوں کے اس عمل کی جزا بھی خداوند قدوس انہیں ضرور عنایت فرمائے گا۔ ورنہ فرض ناشناس کے دوسرے پہلو کو بھی مسلمانوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ امت نے اگر اس روش کو اپنا کر اس موقع پر اپنے فریضہ سے کوتاہی برتی تو اس امت کے صفحہ ہستی پر باقی رہنے کا جواز ہی ختم ہوجائے گا اور خدا کسی دوسری قوم کو اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے کھڑا کر دے گا۔
مشترکہ اخلاقی قدروں یا قیام انصاف اور جبر و استبداد کے خلاف سب کو ساتھ لے چلنے کی ایک روشن نظیر حلف الفضول کی بھی ہے کہ کس طرح آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عملی شکل دنیا والوں کے سامنے پیش فرمائی تھی۔ حالات آقا کے عصر و زمانے میں بھی کچھ کم مخالف نہ تھے لیکن سیرت نبویؐ کو رہتی دنیا تک کے لیے نظیر و رہنما بننا تھا۔ چنانچہ اس وقت بھی ہمیں اس سے رہنمائی حاصل کرنا چاہیے۔
مذکورہ بالا موضوع پر البتہ ایک سوال بجا طو رپر کیا جاسکتا ہے کہ اسلام موجودہ زمانہ میں اسلام مخالف کوششوں کے پس پشت بعض شدت پسند مذہبی تنظیمیں اپنی کارروائیوں کی پشت پناہی میں خود اپنے اپنے مذاہب کی تعلیمات اور پیش گوئیوں کا سہارا لے کر پیش قدمی کررہی ہیں لیکن تجربہ و مشاہدہ کی بنیا دپر ایک تو ایسے افراد کی تعداد نسبتاً کم ہے علاوہ ازیں یہ دنیا جو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں قسموں کے ممالک پر مشتمل ہے‘ وہ تعمیر و ترقی کے مقابلہ میں تباہی و بربادی کو ان شاء اللہ مسترد ہی کرے گی۔ اس لیے کہ اوّل الذکر فارمولہ انسانی فطرت کے مسخ ہو جانے کی تائید و توثیق کرتا ہے۔ سلیم الفطرت انسان آباد کاریاں چاہتے ہیں اور مسخ فطرت کے حامل افراد ہلاکت خیزیاں و تباہ کاریاں چاہتے ہیں۔
اگر تعمیر و ترقی کا فارمولا دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو اس کی پذیرائی ہی ہوگی‘ اس لیے کہ دنیا ہلاکت خیزیوں اور تخریب کاریوں سے تنگ آچکی ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ تخریب کار قوتوں کے مقابلہ میں تعمیر پسند قوت ابھر کر ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ سامنے نہیں آرہی ہے بلکہ بزدلی کا ثبوت دے کر تخریبی قوتوں کو تقویت پہنچانے میں اپنی عافیت و سلامتی سمجھ رہی ہے۔ یہ بڑی سطحی اور محدود لیکن ناپائیدار مفادات کو بقایا رکھنے کی سوچ ہے لیکن شاخ نازک پہ بننے والا آشیانہ کبھی پائیدار نہیں ہوتا اور سچائی اپنی حقیقت منوا کر رہتی ہے۔
حاصل کلام یہ کہ مذاہب کو آڑ بنانے والوں اور ڈھونگ رچانے والوں سے بچانے کے لیے نیز اس کے چہرہ کو مسخ کرنے والوں کے خلاف ایک مشترکہ عملی جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ کہیں دنیا ایک بار پھر مذہب بیزاری کا رخ نہ کرلے۔ ثانیاً اس سلسلہ میں امن و آشتی کے سب سے بڑے مذہب اسلام کو پیش قدمی کی ضرورت ہے‘ اس لیے بھی کہ اغیار نے کمال ہوشیاری سے بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اصطلاحات مسلمانوں کے لیے وضع کرلی ہیں‘ جن کا مسلمانوں کو علمی و فکری اور عملی ہر سطح سے جواب دینا ہے اور مذکورہ بالا اقدام اس میں ممدومعاون ہو سکتا ہے۔ ثالثاً ہلاکت خیزی اور تخریب کاری کی طرف بڑھنے والی دنیا کا رُخ امن و آشتی اور تعمیر و ترقی کی طرف حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ موڑنے کا فریضہ بھی اُمت مسلمہ پر نسبتاً زیادہ عائد ہوتا ہے‘ اس لیے کہ وہ پیروکار رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔
مذکورہ بالا کام او رپیغام جماعتی سطح پر بھی کرنے کا ہے اور روے زمین پر اپنا وجود رکھنے والے مسلم ممالک کو بھی اس منصوبہ بندی کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے جو ان شاء اللہ نہ صرف موثر و نتیجہ خیز ہوگا بلکہ خود انہیں بھی تقویت و پائیداری بخشے گا اور وہ نصرت خداوندی کا تجربہ و مشاہدہ کریں گے۔
(بشکریہ:سہ روزہ ’’دعوت‘‘۔ نئی دہلی۔ شمارہ۔ ۲۵ دسمبر ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply