
سلطان عبدالحمید ثانی کی حکومت کا ۱۹۰۹ء میں تختہ الٹے جانے کے بعد ’’دی یونین اینڈ پروگریس کمیٹی‘‘ نے اعلیٰ افسران کے تبادلے شروع کردیے۔ اخبارات نے بھی ملک کی بدلی ہوئی صورت حال سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے اپنے ادارتی عملے میں تبدیلیاں کیں۔ مسلح افواج پہلے ہی سرایت کے مرحلے سے گزر چکی تھیں مگر وہ ملک میں امن بحال کرنے اور استحکام یقینی بنانے میں ناکام رہیں۔
اُس زمانے میں صہیونی یہودیوں نے فلسطین میں اپنے لیے آزاد ریاست کے قیام کے مطالبے پر زور دینا شروع کردیا تھا۔ اُن کے مطالبے کو مغربی قوتوں، عالمی برادری اور بین الاقوامی میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ معروف صحافی ابوضیا توفیق نے اپنے اخبار میں ’’ترکی میں نو آبادی قائم کرنے کا صہیونی مطالبہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون میں لکھا:
’’قرون وسطیٰ میں بڑی طاقتیں زیادہ سے زیادہ ہتھیاروں کے حصول اور ایک دوسرے کے علاقوں پر قبضہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف رہتی تھیں۔ تب یہودی خاموشی سے ایک جامع اور انتہائی طاقتور معاشی نظام وضع کرنے میں مصروف رہے تاکہ دنیا کی نظر میں قابل رشک قرار پانے والی سلطنت قائم کرسکیں۔ جب استعماری قوتیں اپنے رقبے اور عسکری قوت میں اضافے کی کوششیں کر رہیں تھیں تب یہودی تجارت اور سرمایہ کاری میں اپنی مہارت کے بل بوتے پر ایسا مالیاتی نظام وضع کرنے میں مصروف تھے جن کے ذریعے کسی بھی بڑی طاقت کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا۔ یوں یہودیوں نے غیر معمولی طاقت حاصل کرلی جو بالآخر صہیونیت مخالف لہر پر منتج ہوئی اور ان سے نفرت کرنے والوں کی تعداد بڑھی۔ اب اگر ہم اپنی سرزمین کا ایک انچ ٹکڑا بھی صہیونیوں کو دیتے ہیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان اور عیسائی ہی نہیں، خود ترک یہودی بھی اُن کے استحصالی ہتھکنڈوں کا شکار ہوکر رہ جائیں گے۔ صہیونی طاقتیں ترک سلطنت کی حدود میں رہنے والی تمام قومیتوں کو اپنا غلام بناکر چھوڑیں گی۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ صہیونی قوتیں ترک سلطنت کی حدود میں اپنے پنجے مستقل طور پر گاڑنے کی کوشش کر رہی ہیں‘‘۔
مصنف نے لندن کے اخبار اسٹینڈرڈ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا حوالہ بھی دیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ نوجوان ترک، صہیونیوں کو ترک سلطنت کی حدود میں آبادیاں قائم کرنے کی اجازت دینے کو تیار ہیں جبکہ سلطان عبدالحمید ثانی نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک نوجوان ترک حماد پاشا کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ نوجوان ترکوں کو ملک میں سیاسی اعتبار سے زیادہ قوت حاصل نہ تھی۔ ابو ضیاء توفیق نے مزید لکھا: ’’یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ نام نہاد اشرافیہ یعنی نوجوان ترک آئینی اصلاحات کے روح رواں ہیں۔ یہ لوگ ترک سلطنت کو بھیڑیوں کی طرح بھنبھوڑیں گے اور اس کا خون چوس لیں گے۔ ملک کو درپیش مسائل کا حل یہ نہیں ہے کہ اس کے وسائل کو اِس بے دردی سے استعمال کیا جائے کہ پھر صورت حال کو بہتر بنانا ممکن ہی نہ رہے۔ اِس کے برعکس ہمیں ملک کے وسائل کو زیادہ سے زیادہ تحفظ دینا چاہیے تاکہ اِن سے بہتر طور پر استفادہ کرکے ترقی کی راہ ہموار کی جاسکے‘‘۔
کچھ کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ۱۹۱۲ء میں حافظ اسمٰعیل حقی نے کہا: ’’چار برسوں کے دوران ہم نے کئی طرح کی ذلتوں کا سامنا کیا ہے۔ ہمارے مذہب کی توہین کی گئی ہے، ہماری عزت داؤ پر لگائی گئی ہے، لوگ قتل کیے گئے ہیں، دولت لوٹی گئی ہے اور املاک تباہ کردی گئی ہیں۔ ہمیں بدترین توہین اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مثبتیت (Positivism) اور فری میسن میں یقین رکھنے والوں نے ترک خلافت کے سینے میں خنجر گاڑنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ انہوں نے اوقاف کے فنڈ کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی دولت ہی سے اُنہیں آپس میں دست بہ گریباں کردیا ہے۔ صہیونی ترکی میں آئینی اصلاحات نافذ کرانے کا دعویٰ کر رہے ہیں، جبکہ درحقیقت اُنہوں نے ایوان ہائے اقتدار میں اپنے ایجنٹس بھرتی کر دیے ہیں، جنہوں نے ملک کی دولت لوٹی ہے، معیشت کو تباہ کیا ہے اور شدید انتشار اور نراجیت کی کیفیت پیدا کی ہے‘‘۔
نوجوان ترکوں نے فلسطینی علاقوں میں صہیونی ریاست کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ سلطان عبدالحمید ثانی کو بھاری معاوضہ ادا کرنے کی پیشکش کے باوجود بھی صہیونی کچھ حاصل نہ کر سکے۔ مگر یہ سب کچھ انہوں نے ’’دی یونین اینڈ پروگریس پارٹی‘‘ کی حکومت کے ذریعے زیادہ آسانی سے اور کچھ بھی خرچ کیے بغیر حاصل کرلیا۔ بعد میں نوجوان ترکوں کو اپنی حماقت کا احساس ہوا، مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ انہوں نے صہیونیوں کو فلسطینی اراضی کی فروخت بند کردی۔ یہ بات وزیر داخلہ طلعت پاشا کے اس خط سے ثابت ہوتی ہے جو انہوں نے فلسطین کے گورنر کو لکھا تھا۔
’’دی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی۔
کونفیڈینشل اینڈ کلاسیفائیڈ سیکریٹ نمبر ون۔
بیت المقدس اور اس کے نواحی علاقوں بیروت سیدہ ڈسٹرکٹ، سُر، مرجیون، سینٹرل ڈسٹرکٹ، عکہ اور نابلس میں مقامی یا بیرونی نسل کے یہودیوں کو اراضی فروخت کرنے پر فی الفور پابندی عائد کی جاتی ہے۔ آج کے بعد کسی بھی جائیداد کو یہودیوں کے نام کرنے کا عمل بھی غیر قانونی قرار پائے گا۔ املاک کی خریداری سے متعلق تمام درخواستوں کا انتہائی باریکی سے جائزہ لیا جائے تاکہ اندازہ ہو کہ کہیں کسی یہودی کے ہاتھ تو کچھ فروخت نہیں کیا جارہا۔ اگر املاک کی خرید و فروخت میں کسی یہودی کا شامل ہونا ثابت ہوگیا تو معاہدہ غیر موثر قرار پائے گا۔ اس حکم کا اطلاق عام زمین، زیر کاشت زمین اور دیگر تمام غیر منقولہ املاک پر ہوگا۔ جن املاک کے سودے ہوچکے ہیں ان پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا۔ یہودی اپنی املاک ورثا کو منتقل کرسکیں گے۔ بیروت کے گورنر اور بیت المقدس کے ڈسٹرکٹ افسر کو خفیہ کوڈیڈ ٹیلی گرام کے ذریعے ۲۸ مارچ ۱۹۱۵ء کے اِس نئے حکم سے مطلع کیا جاچکا ہے۔‘‘
اِس دستاویز سے اندازہ ہوتا ہے کہ نوجوان ترکوں کو بہت جلد یہ احساس ہوگیا تھا کہ انہوں نے صہیونیوں کو فلسطینی علاقوں میں قدم جمانے کا موقع دے کر اچھا نہیں کیا۔ انہوں نے تلافی کی کوشش کی مگر تب تک پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوچکی تھی اور اس میں ترکی بھی پھنس کر رہ گیا تھا۔ حالات ایسے تھے کہ کچھ بھی کیا نہیں جاسکتا تھا۔ صہیونیوں نے ترکوں کی نئی نسل کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے نہایت مکاری اور چالاکی سے استعمال کیا۔
’’دی یونین اینڈ پروگریس کمیٹی‘‘ ۱۹۱۸ء میں ختم کردی گئی اور اسی سال شام اور فلسطین سے برطانوی افواج نے ترک افواج کو نکال دیا۔ انور پاشا، طلعت پاشا اور جمال پاشا نے ایک بحری جہاز کے ذریعے جرمنی فرار ہونے کی کوشش کی مگر انہیں درد ناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔
اسلام پر حملہ
پہلی جنگ عظیم کے آغاز سے کچھ دن قبل اظہار رائے کی آزادی، اسلام پر حملوں کا جواز بن گئی اور یہ حملے مختلف حلقوں کی طرف سے کیے جانے لگے۔ عیسائی مشنریوں نے اسلامی تعلیمات پر کھل کر حملے شروع کیے۔ اندرونی سطح پر بھی خرابیاں جڑ پکڑ رہی تھیں۔ ترقی اور روشن خیالی کے نام پر نام نہاد مسلم اشرافیہ نے بھی اسلامی تعلیمات پر حملے شروع کر دیے۔ ایسی کئی دستاویز ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ان حملوں کا بنیادی مقصد اسلامی دنیا کی آخری خلافت کا خاتمہ تھا۔ یہاں میں شیخ الاسلام کے حوالے سے چند دستاویز کا حوالہ دوں گا۔ یہ ادارہ سیاست دانوں کا آلۂ کار ہوکر رہ گیا تھا۔ ترک سلطنت کے مسلمانوں کو حکمرانوں اور اشرافیہ نے دین کی حفاظت کے معاملے میں خود اُنہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ ایک شہری (عثمان بن عبداللہ) نے ۲۸؍ اگست ۱۹۱۳ء کو “The War Against Superstitions” کے عنوان سے شائع ہونے والی گستاخانہ کتاب کے بارے میں شیخ الاسلام کو شکایتی خط تحریر کیا۔ خط میں لکھا تھا: ’’میں اِس کتاب کی ایک کاپی منسلک کر رہا ہوں۔ اِس میں خواتین اور پردے سے متعلق ایک باب ہے جس میں لکھا ہے کہ اگر شیخ الاسلام اپنے کام سے کام رکھیں تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف موضوع کو محض چھونے سے کہیں زیادہ کرنا چاہتا ہے۔ پریس کی آزادی ہے مگر اس کا غیر ضروری اور ناجائز استعمال زیادہ ہے۔ مصنف نے کتاب میں لکھا ہے کہ قرآن میں کہیں بھی اللہ نے پردے کو خواتین کے لیے لازم قرار نہیں دیا۔ مصنف نے یہ دلیل بھی دی ہے کہ اگر پردہ ختم کردیا جائے تو معاشرے سے جسم فروشی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور یہ کہ خواتین میں پردے کا چلن چند اعتقادات اور جہالت کے باعث ہے۔ جو بے باکی مصنف (حقی خلق زادے) نے دکھائی ہے وہ کسی عیسائی مِشنری نے بھی نہیں دکھائی۔ میں ایک مسلم شہری ہوں اور آپ کی توجہ اسلام کے خلاف تیزی سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ میں آپ سے یہ استدعا بھی کرتا ہوں کہ اسلامی تعلیمات کے بارے میں بے بنیاد حوالہ دینے پر مصنف کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے‘‘۔
اس شکایتی خط کے جواب میں شیخ الاسلام کے ادارے نے یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء کو لکھا۔ ’’آپ نے کتاب میں جن ابواب کا حوالہ دیا ہے ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ مصنف نے اسلامی تعلیمات کا انتہائی دیدہ دلیری سے مضحکہ اڑایا ہے۔ مصنف یوم جزا اور جنت و جہنم کا قائل نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی غیر مسلم نے بھی اسلامی تعلیمات کا مضحکہ اڑانے کے معاملے میں ایسی بے ہودہ زبان استعمال نہیں کی جیسی اس کتاب میں استعمال کی گئی ہے۔ اس نوع کی کتابیں دراصل اسلام کے خلاف انقلاب کی تیاری کا حصہ ہیں۔ اس قسم کی کتابیں نوجوانوں کو جنسی بے راہ روی کی طرف مائل کرنے اور خیر و شر کے اسلامی اصولوں سے بیگانہ کرکے اخلاقی اور روحانی بالیدگی سے محروم کرنے کی سازش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا پروپیگنڈا ترک سلطنت کی حدود میں اسلام مخالف قوتوں کی فتح کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہے۔ اسلام کے خلاف لکھنے پر پابندی ہے اور متعلقہ قوانین بھی موجود ہیں مگر اس کے باوجود بہت کچھ لکھا اور شائع کیا جارہا ہے۔ اس کتاب میں اگرچہ حکومت پر بھی تنقید کی گئی ہے، مگر اصل حملہ تو اسلام پر کیا گیا ہے۔ ہم نے یہ معاملہ متعلقہ کمیٹی کے حوالے کردیا ہے۔ اگر ضروری ہوا تو مدعا علیہ کو کرمنل کورٹ بھیجا جائے گا اور اس کارروائی کا نتیجہ بھی طشت از بام کیا جائے گا‘‘۔
شیخ الاسلام کمیشن نے ایک اور کتاب ’’گناہ‘‘ کا بھی تادیب کے نقطۂ نظر سے جائزہ لیا۔ ادارے نے لکھا: ’’وزارتِ داخلہ نے ۲۴ ستمبر ۱۹۱۳ء کو جو کتاب ’’گناہ‘‘ بھیجی ہے، اس میں اناطولیہ کے نوجوانوں کو اسلام کے خلاف اُکسانے اور بھڑکانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب میں نوجوانوں کو مخاطب کرکے لکھا گیا ہے کہ آپ جس دین سے بہت محبت کرتے ہیں اور جس کی حفاظت کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں، وہ چند بے بنیاد عقائد کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں۔ نوجوانوں سے کہا گیا ہے کہ جس خدا کی آپ عبادت کرتے ہیں، وہ حقیقی خدا نہیں۔ جس شریعت کی آپ پیروی کرتے ہیں، وہ حقیقی شریعت نہیں، بلکہ مدارس کی ایجاد ہے۔ مسلم علما نے اس شریعت کو مدارس کی تاریک راہداریوں میں تخلیق کیا ہے۔ انہوں نے اسلام کا اصل چہرہ چھپاکر ملک کو غربت اور پس ماندگی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ انہوں نے آپ سب سے غداری کی ہے۔ یہ علما، شیخ اور مرشد غدار ہیں۔ کتاب میں مزید لکھا ہے کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ علما کو قتل کردیا جائے تاکہ دین کی حفاظت ممکن ہو۔ نوجوانوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ہم حکومت سے کسی بہتر اقدام کی توقع نہیں رکھ سکتے، کیونکہ وہ دیگر اہم امور میں الجھی ہوئی ہے۔ آخری میں نوجوانوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اجتہاد کریں اور اسلام کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور مدارس کی پھیلائی ہوئی تاریکی ختم کردیں۔‘‘
شیخ الاسلام کمیشن نے لکھا کہ ان کتابوں کی اشاعت انتہائی تشویشناک ہے، کیونکہ ملک کو اتحاد اور یگانگت کی ضرورت ہے جبکہ دوسری طرف نوجوانوں کو اسلام اور ریاست کے خلاف اکسایا جارہا ہے۔ لازم ہے کہ حکومت بھرپور کارروائی کرے۔ کتاب کو فتوے کے اجرا کے لیے متعلقہ حکام کو بھیج دیا گیا۔ اس دستاویز کا تعلق بھی سال ۱۹۱۳ سے ہے۔
ترکی میں اسلام کے خلاف جو کچھ لکھا جارہا تھا، اس پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو تشویش تھی۔ مکۂ مکرمہ کے والی نے بھی اس صورت حال کا نوٹس لیا اور شاہ محمد پنجم اور شیخ الاسلام کو ایک احتجاجی مراسلہ لکھا جس میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈے پر سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایسے ہی ایک خط کا متن ملاحظہ فرمائیے۔
’’اللہ کے نام پر شیخ الاسلام (استنبول) سے اپیل۔ میں آپ کی توجہ اسلام کے خلاف لکھی جانے والی چند کتب کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ان کتب میں انتہائی بے ہودہ زبان استعمال کی گئی ہے۔ اسلام کے خلاف کتب کے علاوہ اخبارات و جرائد میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے، جو مسلمانوں کے ذہنوں میں شدید انتشار پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ اس صورت حال کا فوری نوٹس لیا جانا چاہیے۔ اسلام کے دشمن اس مواد کو خلافت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔ میں اسلام کے نام پر اپیل کرتا ہوں کہ ان مطبوعات پر پابندی عائد کی جائے اور ان کے ناشرین، مصنفین اور تقسیم کاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
الداعی الحسین بن علی
امیر، مکۂ مکرمہ
۶ ربیع الاول ۱۳۳۲ ہجری‘‘۔
ان دستاویز سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ میں سیاسی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ شیخ الاسلام کے ادارے سے وابستہ افسران بے بس تھے کیونکہ اس ادارے پر ’’دی یونین اینڈ پروگریس کمیٹی‘‘ کا کنٹرول تھا۔
پہلی جنگِ عظیم کی آمد
۲۳ دسمبر ۱۸۷۶ء کو دوسری آئینی اصلاحات کے نفاذ کے وقت ترکی میں تین فکری دھارے پائے جاتے تھے۔ قوم پرستی، اسلام اور مغربی ذہنیت۔ خالص قوم پرستی اور مغرب پسندی دونوں ہی مغربی افکار کا نتیجہ تھے۔ ابتدا میں ترک قوم پرستی اور اسلام کسی حد تک مماثل اور ہم آہنگ دکھائی دیے۔ بعد میں ترکی کو ’’ری پبلک‘‘ میں تبدیل کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی اسلام کو ایک طرف ہٹادیا گیا۔ اس کے بعد قوم پرستی کو بھی لات مار کر ایک طرف کردیا گیا تاکہ مغربیت اچھی طرح اور آسانی سے پروان چڑھ سکے۔ قوم پرستی کی وکالت کے لیے جریدہ ’’ترک یُردو‘‘ (Turk Yurdu) میدان میں تھا اور اسلام کی حمایت و وکالت کا بیڑا ’’سبیل الرشد‘‘ اور ’’بیان الحق‘‘ نے اٹھا رکھا تھا۔
پہلی جنگِ عظیم کے آغاز سے قبل اسلام اور قوم پرستی (توران ازم) کے درمیان جس نوعیت کی مخاصمت چل رہی تھی اس کا اندازہ ’’سبیل الرشد‘‘ کے ایک مضمون کے زیر نظر اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:
’’مذہب اور مذہبی عقائد ترک ریاست کی روح ہیں۔ جو لوگ ملک کی تاریخ کو پورے سیاق و سباق سے پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، وہی اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانے کی جسارت کرسکتے ہیں۔ جو بھی قوم کے مذہبی عقائد کا احترام نہ کرتا ہو، وہ قوم پرست نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ ترک قوم پرستی کو مذہب سے ہٹ کر دیکھتے ہیں، وہ قومی یگانگت کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگ مسلمانوں اور ترکوں کے درمیان نفاق کا سبب ہی بنیں گے۔ ترکوں کے ہاتھ میں جو خلافت ہے، وہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بروئے کار لائی جانی چاہیے۔ خلافت کو بچانے کے لیے ہمیں قوم پرستی کے تنگ نظری پر مبنی نظریات کو ترک کرکے بلند ترین نظریات پر نظر رکھنا ہوگی‘‘۔
جرمن اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر ترکوں کو جنگ میں شریک کرنا ہے تو ان کے مذہبی جذبات کو اپیل کرنا ہوگا۔ بیرن اوپن ہائمر (Baron Oppenheimer) نے ترک اخبار ’’اقدام‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’آپ ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جو تہذیب کا مآخذ رہا ہے۔ ہم آج جو بسر کر رہے ہیں وہ زندگی مسلمانوں نے دی ہے۔ میں مشرقی تہذیب کا دلدادہ ہوں۔ سورج مشرق سے طلوع ہوکر مغرب کی طرف سفر کرتا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ تہذیب مشرق سے شروع ہوئی اور مغرب کی طرف گامزن ہے۔ مشرق میں آشوری، بابلی، مصری اور اسلامی تہذیبیں تھیں۔ جب یورپ میں زندگی تھمی ہوئی تھی، جہالت تھی، درندگی تھی، تب اسلامی تہذیب بلندی پر تھی اور پھل پھول رہی تھی۔ شاہ شارلے مین نے اپنے ایلچی کو بغداد کے خلیفہ کے پاس بھیجا تھا۔ یہ دراصل اسلامی تہذیب کو خراج تحسین تھا۔ آج مشرق اپنی طاقت کا کچھ حصہ کھو چکا ہے اور جارحیت کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ جنگ میں شریک ہوکر مشرق اپنی کھوئی ہوئی طاقت بحال کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ مشرق کے پاس جو روشنی ہے، اس سے وہ آج بھی دنیا کو اور بالخصوص مغرب کو راستہ دکھا سکتا ہے۔ روس، برطانیہ اور فرانس کی برہنہ جارحیت کے اثرات سے نپٹنے کے لیے جرمنی اور ترکی کا جنگ میں ایک ہو جانا، ناگزیر ہے۔ اس جنگ میں ترکوں کو اپنے اجداد کی طرح شامل ہونا ہے، جو غازی تھے۔ اگر ترک غازی کی طرح لڑیں گے تو فتح ان کا مقدر ہوگی۔ اگر آپ اس جنگ میں کامیاب ہوئے تو یہ سمجھ لیجیے کہ تیس کروڑ مسلمانوں کو یورپ کی غنڈہ ریاستوں کی غلامی سے بچانے میں کامیاب رہیں گے۔ یہ ریاستیں مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہی ہیں اس لیے ان کے خلاف متحد ہونا آپ کا فرض ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم جیتیں گے کیونکہ ہم حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ آسٹریا اور جرمنی کو عثمانیوں پر پورا بھروسا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اس جنگ میں فتح ہمارے قدم چومے گی‘‘۔
بیرن اوپنہائمر کو مسلمانوں کی تاریخ کا جس قدر علم تھا، اگر اُسی قدر علم ترکوں کو بھی ہوتا تو سلطنتِ عثمانیہ کبھی ختم نہ ہوتی۔
(۔۔۔ جاری ہے!)
☼☼☼
Leave a Reply