ترکی جنگِ عظیم میں شریک ہوتا ہے!
۲۹؍ اکتوبر ۱۹۱۴ء کو ترکی باضابطہ طور پر پہلی جنگِ عظیم میں شریک ہوگیا۔ ترکی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور سبھی جانتے ہیں کہ جنگ کا کیا نتیجہ نکلا۔ تب لڑائی کا اسلامی تصور یا جہاد ترک عوام کے لیے جنگِ عظیم اول میں حصہ لینے کا محرک بنا ہوگا، یہ بات عام طور پر قبول نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس نکتے پر زور دیا جاتا ہے۔ اب ذرا وہ پیغام ملاحظہ فرمائیے جو اس موقع پر خلیفہ راشد (محمد پنجم) نے عثمانی افواج کے لیے جاری کیا۔ ’’ہم اس جنگ میں غیر جانبدار رہے ہیں مگر روس نے بحیرۂ اسود میں ہمارے جہازوں پر حملے کیے۔ اب ہمارے لیے ان بلا اشتعال حملوں سے دفاع ناگزیر ہوگیا ہے۔ اس لیے میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ ارض وطن کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھائیں۔ ہم نے ان حملوں پر روسی سفیر سے وضاحت بھی طلب کی۔ وضاحت پیش کرنے کے بجائے روس نے سفیر واپس بلالیا اور ساتھ ہی ساتھ برطانیہ اور فرانس نے بھی ہم سے تعلقات بگاڑ لیے۔ اس کے بعد روس نے ہماری مشرقی سرحدوں پر فوج لا کھڑی کی اور برطانیہ اور فرانس نے بھی اپنے جہازوں کو متحرک کرکے دردانیل تک پہنچایا۔ برطانوی جہازوں نے عقبہ کی بندرگاہ پر گولہ باری بھی کی۔ ہم پر حملہ کیا گیا ہے اور لازم ہے کہ ہم اللہ کی رحمت اور نصرت پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے دفاع کے لیے متحرک ہوں۔ تین جارح اقوام کے خلاف اس جنگ کے لیے کمیٹی آف ڈیپیوٹیز ذمہ دار ہوگی‘‘۔
پیغام میں مزید کہا گیا ’’ایک لمحے کا توقف بھی مت کیجیے۔ یہ جہاد ہے جو ہمیں اپنے لوگوں اور زمین کے دفاع کے لیے کرنا ہے۔ دنیا بھر کے تیس کروڑ مسلمانوں اور اس وطن کی بقا کا مدار آپ کی شجاعت پر ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں مسلمانوں کے دل آپ کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ سب آپ کی شاندار فتح کے لیے دعاگو ہیں۔ دشمن پر بھوکے شیروں کی طرح حملہ کرنا ہے‘‘۔
’’میرے بچو، میرے سپاہیو! تاریخ میں کبھی کسی فوج نے وہ مقدس فریضہ انجام نہیں دیا، جس کے لیے آپ میدان میں نکلیں گے۔ یہ مت بھولیے کہ آپ شاندار روایات کی حامل عثمانی افواج کے امین اور وارث ہیں، جس کا سب سے زیادہ احترام کیا جاتا تھا اور جس سے سبھی خوف کھاتے تھے۔ ثابت کیجیے کہ آپ اپنے اجداد کی میراث کے حقیقی وارث ہیں تاکہ کوئی آپ کے ایمان اور زمین پر حملے کی جرأت نہ کرسکے۔ دشمنوں کو مکۂ مکرمہ اور مدینۂ منورہ پر حملہ کرنے کا سوچنے کی بھی ہمت نہیں ہونی چاہیے۔ حق کے لیے جان دینے جیسے اعزاز کا درجہ کم مت کیجیے کہ اپنے دین اور وطن کی حفاظت کے لیے جان دینا شہادت ہے۔ حق ہمارے ساتھ ہے اور ہمارے دشمن یقینی طور پر انصاف سے پرے اور بے رحم ہیں۔ جہاد کے ذریعے ہم اپنے ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرسکیں گے۔ یہ مت بھولیے کہ دو عظیم افواج آپ کے شانہ بہ شانہ لڑ رہی ہوں گی‘‘۔
سلطان کی طرف سے جاری کیا جانے والا یہ پیغام ظاہر کرتا ہے کہ پہلی جنگِ عظیم میں شریک ہوتے وقت ترکوں نے اللہ کی نصرت پر مکمل بھروسا کیا۔ غیر معمولی کرپشن اور شرعی احکام پر عمل نہ کرنے کے باوجود جنگِ عظیم کے چار برسوں کے دوران ترکی کے عوام مسلمان خلیفہ کے ہم نوا رہے۔
وزیر دفاع اور یونین اینڈ پروگریسیو کمیٹی کے کٹّر رکن انور پاشا نے بھی مسلح افواج سے کچھ کچھ اِسی انداز سے خطاب کیا۔ ’’تاریخ سے ثابت ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کی افواج نے ہمیشہ اپنے فرائض کی عمدگی سے بجا آوری کی ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حضور نبیٔ کریمﷺ اور ان کے اصحاب کا جذبہ ہمارے ساتھ ہے۔ اجداد کی ارواح بھی ہمیں دیکھ رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم اپنے فرائض سے کس طور عہدہ برآ ہوتے ہیں کہ آنے والی نسلیں ہمیں کوئی الزام نہ دے سکیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے سابق شہریوں سمیت تیس کروڑ مسلمانوں کی نظریں ہم پر ہیں۔ آئیے ہم انہیں ظلم اور جبر سے بچائیں۔ موت ہر انسان کے لیے ناگزیر ہے مگر اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جان دینا بہت بڑا اعزاز ہے۔ فتح، شہادت اور جنت کی طرف تیزی سے بڑھیے۔ موت اور تذلیل کو پیچھے چھوڑ دیجیے‘‘۔
جہاد کے لیے فتویٰ
تمام مسلمانوں کو جہاد کی تحریک دینے کے لیے فتویٰ ناگزیر تھا۔ شیخ الاسلام نے عربی، فارسی، ترکی، اردو، ہندی اور کئی دوسری زبانوں میں ایک فتویٰ جاری کیا جو متعلقہ ممالک کو بھیجا گیا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ جنگ نہیں، جہاد تھا جس میں سب کو حصہ لینا تھا۔ جرمنی، ہنگری اور آسٹریا جیسے عیسائی ممالک کا جنگی اتحادی بننا کوئی اچھی بات نہ تھی۔ مسلمانوں کی نظر میں بہرحال یہ جہاد تھا۔
شیخ الاسلام کے فتوے کا متن :
سوال : اگر کسی اسلامی ریاست پر غیرمسلم طاقتیں حملہ یا قبضہ کر لیں اور خلیفہ ان دشمنوں کے خلاف میدان کارزار میں نکلنے کو کہے تو کیا مسلمانوں پر قرآن کی اس آیت کی روشنی میں جہاد فرض ہے: ’’اللہ کی راہ میں نکلو، خواہ ہلکے یا بوجھل اور جہاد کرو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔ (التوبـۃ:۴۱)
جواب: جی ہاں۔
سوال: اگر روس، برطانیہ اور فرانس جیسی غیر اسلامی طاقتیں کسی مسلم ملک پر حملہ کردیں تو کیا جہاد اُن مسلمانوں پر بھی فرض ہے جو ان غیر مسلم ممالک میں اقلیت کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں؟
جواب: جی ہاں۔ یہ جہاد اُن پر بھی فرض ہے۔
سوال: جہاد کی مخالفت کرنے والے مسلمان گناہ گار ہیں؟
جواب: جی ہاں‘ وہ گناہگار ہیں۔
سوال: غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو اگر اپنے اور اہلِ خانہ کو مار دیے جانے کے خوف سے مجبور ہوکر مسلم فوج سے لڑنا پڑے تو کیا وہ مرنے پر جہنم میں جائیں گے؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: اگر روس، برطانیہ، فرانس، یوگو سلاویہ اور نگورنو کارا باخ میں بسنے والا کوئی مسلمان غلطی سے مسلم خلافت کی اتحادی آسٹرین اور جرمن فوج سے لڑتا ہے اور اسلامی مفادات کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے تو کیا یہ گناہِ عظیم کہلائے گا؟
جواب: جی ہاں۔
اس کے علاوہ خلیفہ کی طرف سے ایک تفصیلی فتویٰ بھی جاری کیا گیا جس پر ۲۹ علما کے دستخط تھے۔ اس فتوے کا متن یہ تھا :
آزادی، اقوام کے لیے اللہ کا عطیہ ہے۔ روس، جو آزادی کا دشمن ہے اور صدیوں سے مشرقِ قریب و بعید کے ممالک کی آزادی و دولت غصب کرتا آیا ہے، اب وسطی یورپ کے لیے خطرہ بن کر ابھرا ہے۔ اس نے جنگ کے دوران کئی ممالک پر قبضہ کیا ہے جن میں اسلامی ممالک بھی شامل ہیں اور کروڑوں مسلمانوں کو غلام بنایا ہے۔ وہ اپنے کرتوتوں پر نازاں بھی ہے۔ خلافتِ عثمانیہ چونکہ اسلامی دنیا کا مرکز ہے اس لیے روس اس کے خلاف بھی نفرت کی آگ بھڑکاتا رہا ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے روس نے فرانس اور برطانیہ سے بھی مدد لی ہے۔ ان تین طاقتوں نے افریقا اور مشرقِ وسطیٰ کی بیشتر اقوام کو آزادی سے محروم کیا ہے۔ ان ممالک کی غالب آبادی مسلم ہے۔ پچاس سال سے یہ تینوں طاقتیں خلافتِ عثمانیہ کو کمزور کرنے کے درپے رہی ہیں۔ ان تینوں نے کچھ عرصہ قبل بلقان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمانوں کو آبرو، جان اور مال سے محروم ہونا پڑا۔ یہ امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا المیہ تھا۔ یہ مردود قوتیں اسلام کی شمع بجھانے کے درپے ہیں۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ ’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اﷲ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اﷲ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے، خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ (التوبۃ:۳۲)
اللہ اپنے دین کی حفاظت خود کرتا ہے اور جو اللہ کے دین کو مٹانے کے درپے رہتے ہیں وہ خود مٹ جاتے ہیں۔ اب خلیفہ نے، جو اسلامی دنیا کے تمام مقدس مقامات کا نگراں ہے، جہاد کا فتویٰ دیا ہے۔ تمام مسلمانوں کو دشمنان اسلام کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اللہ کی نصرت ان کے ساتھ ہوگی۔
بیس سے پینتالیس سال کے ہر نوجوان کو دشمنانِ اسلام کے خلاف لڑنے کے لیے فوج میں طلب کیا جاتا ہے۔ اساتذہ، طلبہ، علماء کرام اور عام شہری سبھی نے جہاد میں اپنی بساط بھر حصہ لیا ہے۔ اللہ نے بھی انہیں ہر حال میں جہاد کے لیے تیار رہنے اور میدان کارزار میں جانے کا حکم دیا ہے۔ ’’اللہ کی راہ میں نکلو، خواہ ہلکے یا بوجھل اور جہاد کرو اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔ (التوبـۃ:۴۱)
قازقستان، ترکمانستان، کرائمیا، چین، بھارت، ایران اور افریقا کے چند ممالک میں بسنے والے مسلمانوں پر جہاد فرض ہے۔ ’’اگر انہوں نے جہاد سے منہ موڑا تو ان کا شمار ایسے لوگوں میں ہوگا جن پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے‘‘۔ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے بلائے جانے پر نہ جانے کو ترجیح دیتے ہیں اللہ انہیں انتباہ کرتا ہے کہ وہ جس دنیوی زندگی پر مرے جارہے ہیں وہ اُخروی زندگی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں‘‘ (التوبۃ:۳۸)۔ ساتھ ہی اللہ نے یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ ’’اگر اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلنے سے، کسی جواز کے بغیر، گریز کیا گیا تو اللہ کی طرف سے سخت سزا ملے گی اور جہاد سے منہ موڑنے والوں پر دوسرے لوگ مسلط کردیے جائیں گے۔ اور یہ کہ اللہ کو تو کوئی نقصان نہ پہنچے گا کہ وہ قادر مطلق ہے‘‘(التوبۃ:۳۹)۔ اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ان اہلِ کتاب کے اکثر علما اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں۔ درد ناک سزا کی خوش خبری دو اُن کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔‘‘ (التوبۃ:۳۴)
غیر مسلم ممالک اپنے ہاں بسنے والے مسلمانوں کو ہمارے خلاف لڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لوگوں کو ضمیر کے خلاف لڑنے پر مجبور کرنا انتہائی گھناؤنا جرم ہے۔ مسلمانوں کو اس کی بھرپور مزاحمت کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کے کاز کے لیے کوئی بھی قربانی کچھ نہیں۔ یہ عبادت کا بلند ترین درجہ ہے۔ اگر کوئی مجبوری کی حالت میں بھی اسلام کے خلاف لڑے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اللہ اپنی راہ میں لڑنے والوں کے لیے پروقار اجر کی نوید سناتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ کی راہ میں جان و مال لٹانے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی ۱۴۳؍ویں آیت میں اس اجر کا ذکر کیا ہے۔ ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمتِ وسط‘ بنایا ہے، تاکہ دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ پہلے جس طرف تم رُخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔ یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا جو اﷲ کی ہدایت سے فیض یاب تھے۔ اﷲ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا‘ یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے‘‘۔ ان تمام حوالوں کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد کی اہمیت واضح کرنا اور انہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کی تحریک دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں بھی تو ارشاد فرمایا ہے کہ ’’تعریف اﷲ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے، نہایت مہربان اور رحم فرمانے والا ہے، روزِ جزا کا مالک ہے۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔
امت مسلمہ کی یہ مثالی وحدت ان لوگوں کے لیے انتباہ ہے جو نفرت اور نفاق کے بیج بونا چاہتے ہیں تاکہ مسلمان آپس میں لڑیں۔ اللہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’اسے تو وہ لوگ پسند ہیں، جو اُس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ (الصف:۶۱)
’’نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اﷲ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔ (التوبۃ:۴۱)
بے شک فتح ان کی ہوگی، جو اسلام کی سر بلندی کے لیے اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہادت کا جام نوش کریں گے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انہیں اجرِ عظیم کی خوشخبری سنادی ہے۔ موت آئے تو شہید اور بچ رہے تو غازی کا درجہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہتے ہیں اور تفرقے میں نہیں پڑتے‘‘ (آلِ عمران:۳)۔ اسلام کے دشمن برطانیہ، فرانس، روس اور دیگر مغربی طاقتوں کے ہاتھوں اسلام کے مرکز یعنی خلافت کو خطرہ لاحق ہے۔ خلیفہ نے آپ کو اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے آواز دی ہے۔
’’ان سے لڑو، اﷲ تمہارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دلوائے گا اور انہیں دلیل و خوار کرے گا اور اُن کے مقابلہ میں تمہارے مدد کرے اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا۔‘‘ (التوبۃ:۹)
یہ فتویٰ پوری دنیا کے مسلمانوں میں تقسیم کیا گیا، اور اس اپیل کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے ملکوں میں مسلمانوں نے یورپ کی نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی اور لاکھوں لوگوں نے اس راستے میں اپنی جانیں قربان کیں۔ ان حالات میں، اسلامی خلافت نے جو ہ مسلم دنیا کے لوگوں کا مرکز تھی اور جس نے انہیں تہذیب و اَقدار سکھائی تھی، اپنا اختیار کھو بیٹھی اور ختم ہو گئی۔
اسلام سیاست کے زیر اثر آگیا!
جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے، تب بھی سیاست دانوں نے علما اور اسکالرز کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ شیخ الاسلام، ضیاء الدین آفندی سمیت کئی علما کو چیمبر آف ڈیپیوٹیز میں شامل کیا گیا۔ شیخ الاسلام نے اس ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کی تھی مگر طلعت پاشا نے ان سے کہا ’’اگر ضروری ہوا تو میں آپ کو زبردستی پارلیمان میں لے جاؤں گا۔‘‘ شیخ الاسلام اور دیگر علما پر دباؤ ڈال کر وہ فتویٰ دلوایا گیا جس میں پارلیمان کو سلطان عبدالحمید ثانی کی برطرفی کا اختیار دیا گیا تھا۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ۱۹۰۹ء تک سیاسی قوت یونین اینڈ پروگریس پارٹی کے پاس آچکی تھی جس نے شیخ الاسلام کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ عوام کو کچھ اندازہ ہی نہیں تھا کہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔
بعد میں جب یونین اینڈ پروگریس پارٹی نے سلطان عبدالحمید ثانی پر مقدمہ چلانے کی تجویز پیش کی تب کسی ایک رکن پارلیمان نے بھی مخالفت کی ہمت اپنے اندر نہ پائی۔ شیخ الاسلام البتہ اس کے مخالف تھے اور انہوں نے مٹھی بھینچ کر میز پر ماری اور کہا کہ میں اس بے ہودگی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اس پر فرید پاشا نے کہا کہ آپ نے بھی تو سلطان کو برطرف کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر شیخ الاسلام نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ایسا کرنے کی کوشش ضرور کی تھی مگر سلطان پر مقدمہ چلانا انتہائی بے ہودگی ہوگی۔
بعد میں یونین اینڈ پروگریس پارٹی نے حسین حسنی اور موسیٰ کاظم آفندی کو شیخ الاسلام کے منصب پر فائز کیا۔ بعد میں جب بھی کابینہ تبدیل کی جاتی، شیخ الاسلام بھی تبدیل کردیا
جاتا۔ یہ منصب سیاسی ہوکر رہ گیا۔ شیخ الاسلام کے فائز رہنے کا مدار وزارتِ داخلہ کے اطمینان پر تھا۔ کچھ ہی مدت میں اتنی تبدیلیاں آئیں کہ عبدالرحمٰن کو پانچواں شیخ الاسلام مقرر کیا گیا۔ اس حوالے سے جو فرمان جاری کیا گیا اس کا متن یہ ہے: ’’دنیوی امور میں تو سب انسان برابر ہیں۔ قرآن کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی روشنی میں تمام انسان برابر ہیں اور ان کے بنیادی حقوق بھی برابر ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں اب ایک آئینی اور جمہوری حکومت ہے۔ اب ہمیں مذہب اور مسلک کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔ آئین مکمل طور پر شریعت کی روح سے ہم آہنگ ہے اور آپ کو اس کی حفاظت پر خاطر خواہ توجہ دینی چاہیے۔ لوگوں سے کہیے کہ خلیفہ کے وفادار رہیں اور اسلام کے زریں اصولوں پر عمل کرتے رہیں۔‘‘
دستخط ۔۔ عبدالرحمن ناصب ۔ ۲ فروری ۱۹۱۱ء
یونین اینڈ پروگریس پارٹی کے ساتھ مل کر علما نے خلافتِ عثمانی کے حقیقی زوال اور سقوط میں مرکزی کردار ادا کیا۔ تمام علما کو کرپٹ قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ چند علما نے اس صورت حال کی مخالفت کی مگر ان کی حیثیت اس قدر بلند نہیں تھی کہ کوئی بڑی تبدیلی لاسکتے یا خرابی کو روک سکتے۔ جمال الدین آفندی اور مصطفی آفندی نے شیخ الاسلام کے منصب سے استعفیٰ دیا۔ مصطفی آفندی نے اپنے استعفیٰ کے ساتھ درج ذیل بیان بھی منسلک کیا۔ ’’میں گزشتہ روز انور پاشا کے ہاں گیا۔ اس نے شاندار ضیافت دی تھی۔ میں اس قدر پرتعیش ضیافت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اتنی رقم آئی کہاں سے؟ جب میں نے پوچھا کہ مدارس کی اصلاح اور وزارتِ تعلیم کا کیا ہوا تو انہوں نے کہا کہ معاملہ ہم نے اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔‘‘
شیخ الاسلام موسیٰ کاظم آفندی بھی صورتِ حال سے زیادہ خوش نہ تھے اور منصب سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد یونین اینڈ پروگریس پارٹی کے بہت سے ارکان ملک سے چلے گئے اور اس کے نتیجے میں ملک میں خاصا انتشار پیدا ہوا۔ جو ملک میں رہ گئے اور حکومت کی مخالفت کرتے رہے انہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں موسیٰ کاظم آفندی بھی شامل تھے۔ جب موسیٰ کاظم کے مقدمے کی کارروائی ختم ہوئی اور ۱۸؍جولائی ۱۹۱۹ء کو فیصلہ سنایا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ پر جن جرائم کا الزام ہے وہ میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیے بلکہ پارٹی نے مجھ سے کہا تو میں نے کیے۔ موسیٰ کاظم پر الزام تھا کہ وہ منصب کے تحت لوگوں کی رہنمائی نہ کرسکے اور یونین اینڈ پروگریس پارٹی کے جرائم میں شریک ہوکر منصب کی تذلیل کی۔ انہیں پندرہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ (۔۔۔جاری ہے!)
I appreciate it and want to know more about it.