ترکی کا ماحول ۱۹۲۸ء کے بعد سے سخت غیراسلامی ہوگیا۔ علما کی اتھارتی چھین لی گئی۔ سیکولر ازم کی خدمت کے لیے علما کی نئی کھیپ تیار کی گئی۔ انقرہ میں فیکلٹی آف ڈیوینیٹی (کلیہ الٰہیات) قائم کی گئی۔ اس فیکلٹی نے درج ذیل سفارشات پیش کیں:
٭ مساجد میں کرسیاں رکھی جائیں اور لوگ جوتے پہن کر عبادت میں شریک ہوں۔
٭ تمام عبادات ترکی زبان میں ہونی چاہئیں۔ خطبات کے علاوہ قرآن کی تعلیمات کا پرچار بھی ترکی زبان میں کیا جائے۔
٭ مساجد میں موسیقی کے آلات رکھوائے جائیں۔
دستاویز پر پروفیسر کوپرولوزادے، پروفیسر اسماعیل حقی، بلتاجی اوغلو، پروفیسر اسماعیل حقی ازمیرلی، پروفیسر خلیل خالد، پروفیسر خلیل نعمت اللہ، پروفیسر محمد علی اونی، پروفیسر شرافت الدین یلکایا، پروفیسر الپ کرلی حسین اونی، پروفیسر حلمی اوزر اور پروفیسر یوسف ضیا نے دستخط کیے۔ کمیشن کے صرف دو ارکان بابنزادے نعیم بے اور فرید کم نے دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔
یہ بات فہم سے بالا تر ہے کہ اِن اہلِ علم و دانش نے یہ سوچے بغیر کیوں دستخط کیے کہ ایسا کرنے سے قوم کو بیمار بنانے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ اِن تمام شخصیات کو یہ احساس ہونا چاہیے تھا کہ اگر جسم بیمار ہو تو ادویہ کے ذریعے اندرونی نظام درست کرکے ہی صحت بحال کی جاسکتی ہے۔ جس انقلاب کے تصور میں لوگ بہہ گئے تھے وہ ہمارے معاشرے اور تہذیب کو برباد کرنے کے ہتھیار کے سوا کچھ نہ تھا۔ انقلاب کے نام پر محض جنون کو اپنایا گیا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ڈیڑھ صدی تک جبر و استبداد کو گلے لگایا گیا۔ ہماری بیشتر سماجی اقدار اور قابل ذکر اداروں کو ٹھکانے لگادیا گیا یا پھر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ جس ملک میں ۹۸ فیصد آبادی مسلم ہے وہاں سیکولر ازم کو بنیادی عقیدے کا درجہ دلوایا گیا۔
۱۷؍ مئی ۱۹۴۳ء کو ترکی کے ڈائریکٹر جنرل پبلی کیشنز ویدت ندیم تورن (Vedat Nedim Torun) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ایک خط کے جواب میں لکھا ’’ہم اس ملک میں ہر قسم کی مذہبی مطبوعات کے مخالف ہیں۔ ہم مذہبی مطبوعات کی اجازت اس لیے نہیں دے سکتے کہ ایسا کرنے سے نوجوانوں کے ذہن آلودہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔‘‘ یہ خط دوسری جنگ عظیم کے دوران لکھا گیا تھا جب ترکی پر مغرب زدہ اشرافیہ کا راج تھا۔
۱۹۴۵ء میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کے کنونشن میں پارٹی ارکان کے ایک گروپ نے درج ذیل اسلام مخالف ’’اصلاحات‘‘ تجویز کیں۔
الف۔ سیکولر ریاست میں مذہبی اداروں کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس لیے مذہبی امور کا ڈائریکٹوریٹ ختم کردیا جائے۔
ب۔ عبادت اور قرآنی تعلیمات کا نظام سیکولر ڈھانچے میں ڈھالا جائے یعنی ترکی زبان اپنائی جائے۔
ج۔ عبادت کے مراکز اس طور پر تعمیر کیے جائیں کہ وہ ہاؤس آف پیپل کے طور پر کام کرسکیں۔ یعنی ان میں سیکولر تعلیمات کا پرچار زیادہ آسانی سے ہوسکے۔
د۔ عبادت کے طریق کار اور اوقات کا نئے سرے سے تعین ضروری ہے۔
ح۔ مذہب کو لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ یعنی یہ ان کا ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے۔
و۔ مذہبی علامات (مثلاً جُبّہ پہننا، عمامہ باندھنا) کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔
ان تجاویز پر بحث کے دوران ری پبلکن پیپلز پارٹی میں پھوٹ پڑگئی۔ جن ارکان نے یہ تجاویز پیش کی تھیں، انہیں اپنی حماقت کا اندازہ ہوا اور یوں پارٹی کا زوال شروع ہو گیا۔
۱۹۴۶ء کے انتخابات سر پر آئے تو ری پبلکن پیپلز پارٹی کو ہوش آیا، مگر تب تک پانی سر سے گزر چکا تھا، یعنی بہت دیر ہوچکی تھی۔ شمس الدین غنالطے کی حکومت قائم ہوئی تو امید کی جانے لگی کہ شاید غلطی کا ازالہ ہو۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں امام خطیب اسکولوں کی ابتدا ہوئی۔ یہ اسلامی تعلیمات کے اعلیٰ ادارے تھے اور ساتھ ہی کلیۂ الٰہیات (Faculty of Devinity) بھی قائم کی گئی۔ تعلیم و تدریس کی ہم آہنگی قائم کرنے کے نام پر یہ اسکول دیگر تمام مدارس کے ساتھ بند کردیے گئے تھے۔ ۱۹۲۵ء میں خطیب اسکولوں کی تعداد ۲۹ سے ۲۶ پر آئی اور۱۹۲۶ء میں یہ ۲۰ رہ گئے۔ ۱۹۲۹ء میں یہ تمام اسکول بند کر دیے گئے۔ ۱۹۲۸ء میں جب فیکلٹی آف ڈیوینیٹی کھولی گئی تھی، تب اس کے طلبہ کی تعداد ۲۸۵ تھی۔ بعد میں طلبہ کی تعداد ۲۰۱ رہ گئی اور ۱۹۳۳ء میں اِسے غیر ضروری قرار دے کر بند کردیا گیا۔
عصمت اِنونو کے ورثا میں سے ایجوت نے یہ راگ الاپنا نہیں چھوڑا کہ اُمت کا تصور عربوں کی طرف سے آیا۔ قوم پرستی کا تصور بھی اُنہوں نے دیا اور کِسے خبر کہ کمیونزم کا تصور بھی کسی عرب ملک ہی سے وارد ہوا ہو!
تعلیم کے ذریعے خرابی پیدا کرنے کی کوشش
یورپ کے عیسائی مشنری اسکولوں میں تعلیم پانے والی اشرافیہ نے ۱۹۴۳ء میں ترجمے کی نئی پالیسی اختیار کی۔ مقصد صرف یہ تھا کہ یورپ کی عیسائی تہذیب کا فکری اثاثہ ترکی زبان میں منتقل کیا جائے تاکہ لوگ اسلامی تہذیب کے علمی ورثے سے لاتعلق ہوتے چلے جائیں اور ان کا اثر ہی باقی نہ رہے۔ ترکوں کو پہلے ہی بہت سی پیچیدگیوں کا سامنا تھا کیونکہ سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں پروان چڑھنے والے علمی اثاثے کو لاطینی رسم الخط میں اپنانے کی سرکاری پالیسی پر تیزی سے عمل ہو رہا تھا۔ عربی رسم الخط میں کتب شائع کرنا غداری شمار کیا جانے لگا تھا۔ ایسے نازک مرحلے میں عیسائیت کے زیر اثر لکھی جانے والی مغربی کتب کے تراجم نے ترک قوم کی نفسیاتی الجھن کو مزید پیچیدہ بنادیا۔
۱۹۴۵ء میں ایک انتہائی اسلام مخالف کتاب (Life of Jesus) کا ترکی زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔ یہ کتاب ارنسٹ رینن (Ernest Renan) نے لکھی تھی۔ ترجمے کے پیش لفظ میں وزیر تعلیم حسن علی یوجل نے لکھا: ’’ کسی بھی زبان سے علمی ورثے کو اپنی زبان میں منتقل کرنے والی قوم اپنی ذہنی سطح کو بھی اُسی بلندی تک لے جاتی ہے۔ ہم نے تراجم کا سلسلہ اِس خیال کے ساتھ شروع کیا ہے کہ قوم کی ذہنی سطح کو عالمی ادب کے برابر لے جائیں‘‘۔
مغربی دنیا کے علمی ورثے کے تراجم کا بنیادی مقصد ترکوں کو نئے ریاستی تصورات سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ یہ بتانے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ تراجم کے لیے منتخب کی جانے والی کتب اپنی نوعیت کے اعتبار سے سخت اسلام مخالف تھیں۔ دوسری طرف ترکی زبان کی کلاسیکی کتابیں اپنے اصل رسم الخط میں پڑھی نہیں جاسکتی تھیں۔ اس کا نتیجہ ایک ایسی اشرافیہ کے پروان چڑھنے کی صورت میں نکلا جس کی اپنی مذہبی اقدار ہیں نہ کوئی کردار۔ حکمراں طبقے کی نئی نسل کا ذہن چھوٹی عمر ہی سے زہر آلود ہوچکا ہوتا تھا۔
یورپی کتب کے تراجم در اصل عیسائی مشنری اسکولوں کے اس پروپیگنڈے ہی کا تسلسل تھے جو سلطنتِ عثمانیہ کے آخری ایام میں شروع کیا گیا تھا۔ فرانس کے انقلاب کو بہتوں نے مذہب پر عقل کی فتح کے تناظر میں قبول کیا تھا۔ ترک اشرافیہ نے فرانسیسی انقلاب کو اپنی منزل سمجھ لیا، مگر اس کے عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ آزاد سوچ کے سب سے بڑے حامی فرانسیسی مفکر، والٹیئر کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ مذہب کا انتہائی مخالف تھا۔ کلیسا نے اُسے اِسی لیے عیسائی برادری سے خارج کردیا تھا۔ پوپ کو خوش کرنے اور دوسری طرف یورپ میں اسلام کی شناخت کو مزید مسخ کرنے کے لیے والٹیئر نے ’’زید اور زینب‘‘ (Zayd et Zaynib) کے عنوان سے ایک ڈراما لکھا، جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی گئی۔ پوپ اس ڈرامے سے اس قدر خوش ہوا کہ اس نے والٹیئر کو نہ صرف یہ کہ معاف کردیا بلکہ عیسائیت کا ایک بڑا خادم بھی قرار دیا۔
والٹیئر کو اسلام مخالف تصور کیا جاتا ہے، مگر در حقیقت وہ خالق اور رب کے وجود ہی کا قائل نہ تھا۔ اپنی ایک کتاب ’’ایزائی سُور لیز مونیورز‘‘ میں والٹیئر نے مذہب پر عمل کرنے والوں کا کھل کر مذاق اُڑایا۔ اس نے لکھا: ’’یہ (مذہبی) لوگ وہ کچھ نہیں ہیں جو یہ سمجھتے ہیں۔ یہ عام آدمی کی لاعلمی اور جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہیں‘‘۔ یورپ میں کلیسا نے عوام کا جس قدر استحصال کیا تھا اس کے تناظر میں یہ بات بالکل درست تھی۔ کلیسا کے لوگ بدعنوانی کی دلدل میں غرق تھے۔ مگر والٹیئر نے اِتنا ہی لکھنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ یہ بھی لکھا کہ مذہب دراصل چند بد طینت اور بد خصلت لوگوں نے احمقوں (عوام) کو دھوکا دینے کے لیے ایجاد کیا ہے۔
ترکی میں یورپی سیکولر اقدار کو فروغ دینے اور اپنی ثقافتی و تہذیبی اقدار کو ختم کرنے کی کوششیں تواتر سے ہوتی رہی ہیں۔ مگر غیور ترکوں نے اشرافیہ کی جانب سے اسلامی تشخص کے خلاف کی جانے والی ہر کوشش کے خلاف مزاحمت کی ہے اور نام نہاد روشن خیالی کو اپنانے کے نام پر اپنا علمی اور دینی سرمایہ تَرک کرنے سے انکار کیا ہے۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، عمران اوکتم (Imran Oktem) کی نماز جنازہ پڑھانے سے ترک مسلمانوں کا انکار اِسی حقیقت کا غمّاز ہے۔ عمران اوکتم نے ایک بار کہا تھا ’’اللہ تو اِنسان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے۔‘‘ ترک عوام انہیں کافر سمجھتے تھے اور اسی لیے ان کی نماز جنازہ پڑھنا بھی درست نہیں گردانتے تھے۔ حکومت نے ڈرا دھمکاکر چند مسلمانوں کو نماز جنازہ پڑھنے پر مجبور کیا اور امام کو بھی بندوق کی نوک پر لایا گیا۔
اِس ایک واقعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی میں اقتدار پر قابض طبقہ اپنی بات منوانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے۔ جب محض لالچ دینے سے بات نہ بنی تو بندوق کی نوک پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ترک قوم مسلم ہے۔ مگر تمام ادنیٰ و اعلیٰ تعلیمی ادارے، حکومتی مشینری اور میڈیا مغربی تہذیب کے گُن گاتے نہیں تھکتے۔ یہی سبب ہے کہ ہماری سیاسی، سماجی اور علمی زندگی میں انتشار کی کیفیت نمایاں ہے۔ ترک طلبہ کو آج بھی ڈارون کا نظریۂ ارتقا، لیپلیس کا نظریۂ آفرینش اور ہیگل کا نظریۂ مادّیت پڑھایا جارہا ہے۔
شریعت بمقابلہ سیکولر ازم
انیسویں صدی کا یورپ ایسے تمام نظریات کا حامل تھا جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اِس کائنات کو کِسی نے خلق نہیں کیا، بلکہ یہ اتفاقاً اور خود بخود، ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے، یہاں تک پہنچی ہے۔ سلطنتِ عثمانیہ میں دو بڑی تحاریک چلتی رہی ہیں۔ ایک تحریک تو اسلامی شریعت کو زندگی کے تمام معاملات پر محیط قرار دینے کے حوالے سے تھی۔ جبکہ دوسری تحریک ہر معاملے کو مغربی تہذیب کے تابع قرار دینے سے متعلق تھی۔ ترکوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر خود کو بڑی طاقتوں کی شطرنج کا مہرہ بننے دیا۔ سلطان عبدالحمید ثانی نے سلطنتِ عثمانیہ کے اسلامی کردار کے احیا کی اپنی سی کوشش کی اور مدحت پاشا کی جانب سے ترک پرچم میں، ہلال کے ساتھ صلیب کو شامل کرنے کی تجویز پر ان کے خلاف مقدمے میں جودت پاشا کو سلطنت کی جانب سے وکیل مقرر کیا۔
ضیا پاشا اور نامک کمال نے تجویز کیا کہ تمام قوانین شرعی احکام کی روشنی میں وضع کیے جائیں اور شریعت کی رُوح کے مطابق ہی اُن پر عمل بھی کیا جائے۔ علی سعاوی نے یہ کہتے ہوئے اختلاف کیا کہ دُنیوی اُمور کے لیے دینی احکام کی پیروی لازم نہیں۔ اِس اعتبار سے وہ شریعت کے خلاف بولنے والی پہلی نمایاں شخصیت بن گئے۔ اُنہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ نماز ترکی زبان میں پڑھی جائے اور قرآن کا ترکی زبان میں ترجمہ کرکے اُسے ترکی زبان ہی میں پڑھا جائے۔ نامک کمال اصلاحات چاہتے تھے مگر انہیں علی سعاوی کی تجویز ایک آنکھ نہ بھائی۔ وہ سلطنت کے عمومی کردار کے برخلاف کچھ بھی کرنے کے حق میں نہ تھے۔ انہوں نے ۴ رمضان ۱۸۷۲ء کے روزنامہ ’’عبرت‘‘ میں لکھا ’’کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گلہان پارک میں جاری کیا جانے والا فرمان، ریاست کے لیے ناگزیر ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ ہمارے قوانین کا مآخذ شریعت ہے۔ مغربی اصولوں کو انتظامی سطح پر اُس وقت تک اپنایا جاسکتا ہے جب تک وہ شریعت کی روح سے متصادم نہ ہوں۔ شرعی قوانین زندگی، ملکیت اور توقیر کے حق کے ساتھ ساتھ شخصی آزادی کی بھی ضمانت ہیں۔ اگر حکمران عوام کی مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ کریں تو وہ کسی بھی صورت قابل قبول نہ ہوگا۔ اگر گلہان پارک کے فرمان میں اِن تمام نکات کا خیال رکھا گیا ہوتا تو وہ ہر اعتبار سے شرعی اور قابل قبول ہوتا۔ اگر ہم نے شریعت کو مکمل نافذ کیا ہوتا تو ہمارا قانونی نظام یورپ کے کسی بھی قانونی نظام سے بہتر اور بالا ہوتا۔ سلطنتِ عثمانیہ شرعی احکام پر قائم ہے۔ اگر اس بنیاد کو ڈھا دیا گیا تو سبھی کچھ خطرے میں پڑ جائے گا‘‘۔
نامک کمال نے ۶ جمادی الاول ۱۸۶۸ء کو روزنامہ ’’حریت‘‘ میں لکھا تھا: ’’ہمارے تمام دلائل کی بنیاد شریعت ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ایسی کوئی بات نہیں جو ہماری ہمہ گیر ترقی اور استحکام کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہو۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ہی حقیقی آزادی اور ترقی پاسکتے ہیں۔ ہماری نجات اِسی نکتے میں مضمر ہے کہ اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا ہوں‘‘۔
اب ذرا دوسری طرف علی سعاوی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے: ’’سیاسی مسائل کا حل قرآن و حدیث میں تلاش کرنا سعیٔ لاحاصل ہے۔ قرآن اور احادیث کی عبارات عبادت میں تو کام آسکتی ہیں مگر آج کی دُنیا کے پیچیدہ سیاسی معاملات کو سُلجھانے کے لیے اِن میں کچھ بھی نہیں۔ سیاسی امور کا تعلق جغرافیائی، معاشی اور اخلاقی معاملات اور اِن شعبوں میں یقینی بنائی جانے والی پیش رفت سے ہے۔ اگر ہم نے اپنے قوانین شرعی احکام کی روشنی میں مرتب نہ کیے ہوتے تو عالمی سیاسی نظام میں بہت اچھا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہوتے۔ علما قرآن، احادیث، اجماع اور قیاس پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں قرآن میں کوئی ایک حرف یا لفظ بھی ایسا نہیں جو کوئی نہ کوئی مفہوم نہ رکھتا ہو۔ وہ قرآن کے ہر لفظ سے کوئی نہ کوئی مفہوم کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ احادیث کے معاملے میں بھی علما کا یہی رویہ ہے۔ احادیث کو زندگی کے بیشتر معاملات میں نصیحت اور رہنمائی کے لیے تسلیم یا قبول کیا جاسکتا ہے، مگر اِن کی بنیاد پر کسی حکومت کا ڈھانچا کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا بھر میں رومن قوانین اپنائے گئے ہیں۔ کہیں کہیں قدیم فارسی قوانین بھی اپنائے گئے ہیں۔ استنبول میں فرانسیسی نظام قانون کا ترجمہ کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں اِسی طور معاملات نمٹا رہی ہیں۔ مشرق ابھی تک ذہنی پیچیدگیوں اور معموں میں الجھا ہوا ہے اور مغربی اقوام علم و عمل کی دنیا میں تیزی سے آگے بڑھ چکی ہیں۔ اُن کی شاندار ترقی اور استحکام دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اعلیٰ اور ارفع نظام کس کا ہے۔ طائرانہ نظر ڈالنے سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ مغرب نے بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ مغرب کے ماہرین نے نہر سوئز بناکر فاصلے کم کیے ہیں۔ دنیا بھر میں تیزی سے سفر مغرب والوں نے ممکن بنایا ہے۔ ہم کیسے پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ احادیث میں بیان کیا گیا ہے وہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے الفاظ ہیں؟ آپؐ کی بہت سی احادیث کو بعد میں بدل دیا گیا۔ ان میں تحریف اور اضافہ کیا گیا۔ عبادت اور دعا سے متعلق تمام احادیث کو الگ کردیا جائے۔‘‘ علی سعاوی نے ترکی زبان کے لیے عثمانی کے بجائے لاطینی رسم الخط اپنانے کی بھی پُرزور وکالت کی اور کہا کہ ایسا کرنے میں کوئی نقصان نہیں۔
علی سعاوی نے اسلامی قوانین کے مآخذ کی مستند حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز کردی گئی کہ ۶۰۰ سال تک خلافتِ عثمانیہ نے تین بر ہائے اعظم پر اپنے اثرات مرتب کیے اور اس کا قانونی نظام کئی خطوں کے لیے قابل رشک رہا۔ اسلام کے بارے میں مخاصمانہ رویہ ہی تھا جس نے علی سعاوی کو بُرے انجام سے دوچار کیا۔ ۲۰ مئی ۱۸۷۸ء کو علی سعاوی نے مراد پنجم کو خلیفہ بنانے کی کوشش کی۔ اس دور میں حکومت کا تختہ الٹنا کچھ زیادہ دشوار نہیں ہوا کرتا تھا۔ چند افراد کو جمع کرکے شاہی محل کی طرف مارچ کے ذریعے دباؤ ڈالا جاسکتا تھا۔ علی سعاوی نے سوچا ہوگا کہ مراد پنجم کو تخت پر بٹھانا آسان ہوگا، مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ حامیوں کو باہر چھوڑ کر محل میں داخل ہوا تو محل کے ایک محافظ یدی سیکز حسن پاشا (Yedi Sekiz Hasan Pasha) نے لاٹھی سے اُس پر وار کیا اور وہ اُسی وقت ہلاک ہوگیا۔
مدحت پاشا کا بھی کچھ ایسا ہی انجام ہوا۔ اسے سلطان عبدالعزیز کے قتل سے متعلق کیس میں طلب کیا گیا۔ مگر اس نے عدالت میں پیش ہونے کے بجائے ازمیر پہنچ کر فرانس کے قونصلیٹ میں پناہ لی۔ مدحت پاشا نے خلافتِ عثمانیہ کی ہمیشہ بُرائی کی تھی۔ سلطان عبدالحمید ثانی پر بھی اس نے نا اہل ہونے کا الزام عائد کیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خود کرپٹ اور نا اہل تھا۔ اس کی ہمدردیاں فرانسیسی حکومت کے ساتھ تھیں۔ انسان بُرے وقت میں انہی کے پاس جاتا ہے جن پر اسے بھروسا ہوتا ہے۔ فرانسیسی قونصلیٹ میں پناہ لے کر مدحت پاشا نے جتا دیا تھا کہ وہ کس کا وفادار ہے۔ بعد میں اسے اپنے کیے پر ندامت بھی ہوئی اور اس نے تسلیم کیا کہ قانون سے بھاگ کر فرانسیسی قونصلیٹ میں پناہ لینے سے اس کا خاندان بدنام ہوگیا۔ وزیر داخلہ جودت پاشا نے اسے ٹیلی گرام بھیجا ’’تم نے فرانس کے قونصلیٹ میں پناہ لے کر یہ بتا دیا ہے کہ ملک کے عدالتی نظام پر تمہیں بھروسا نہیں۔ اسلامی قوانین اور شرعی احکام کی رُو سے کسی بھی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘ مدحت پاشا پر مقدمہ چلا اور اس پر سلطان عبدالعزیز کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ثابت ہوگیا۔ اسے سزائے موت سنائی گئی۔ بعد میں سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرکے مدحت پاشا کو طائف کی جیل بھیج دیا گیا۔ وہاں برطانوی افواج کی مدد سے اس نے فرار ہونے کی کوشش کی مگر اِسی دوران مارا گیا۔
مدحت پاشا کی ہلاکت کے لیے سلطان عبدالحمید ثانی کو بھی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے حکم پر مدحت پاشا کو گولی ماری گئی۔ حالانکہ اگر وہ مدحت پاشا کو مارنا چاہتے تو عدالت کی سُنائی ہوئی سزائے موت پر عمل کر گزرتے۔
خلافتِ عثمانیہ کے اِن لوگوں نے اپنی روح، مغرب کے ہاتھ فروخت کردی تھی۔ انہیں اپنے ملک کی شاندار اسلامی بنیاد پر یقین ہی نہیں تھا۔ یورپی استعمار کی توسیع میں معاونت کرکے ان لوگوں نے اپنی بنیادیں کھوکھلی کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔
خلافتِ عثمانیہ کے تمام قوانین کا مآخذ قرآن و سنت رہے ہیں۔ خلیفہ عبدالحمید ثانی بھی امیرالمومنین (۱۸۷۶ء تا ۱۹۰۹ء) ہونے کے باوجود اس بات کے پابند تھے کہ کسی بھی معاملے میں اپنی مرضی یا صوابدید کے مطابق کوئی فیصلہ نہ کریں، بلکہ اللہ کے احکام اور رسولؐ اللہ کی ہدایات کی روشنی میں معاملات کو طے کریں۔ اِس معاملے میں خود خلیفہ کے لیے بھی کوئی رعایت نہ تھی۔
خواجہ سعدالدین نے اپنی کتاب ’’دی کراؤن آف ہسٹری‘‘ میں خلافتِ عثمانیہ کے بانی سلطان عثمان غازی کے وہ الفاظ نقل کیے ہیں جو انہوں نے بستر مرگ پر اپنے بیٹے اُرہان غازی سے کہے تھے: ’’عدل کرو اور دُنیا کو عدل سے مُزیّن و مستحکم کرنے کی فکر کرو۔ علما کا احترام کرو، تاکہ ملک میں اللہ کا قانون پوری طرح ظاہر اور نافذ ہو۔ اگر کسی صاحبِ علم کا پتا چلے تو اُس سے رابطہ اور استفادہ کرو۔ علما سے ملنا کبھی ترک نہ کرو، کیونکہ صرف اِسی صورت حکمرانوں کی توقیر کا اہتمام ہوتا ہے۔‘‘ جب تک خلافتِ عثمانیہ کے حکمراں سلطان عثمان غازی کی نصیحت پر عمل کرتے رہے، ملک کا وقار قائم رہا اور وہ پنپتا رہا، یہاں تک کہ ایک بڑی اور شاندار سلطنت (خلافتِ عثمانیہ) قائم ہو گئی۔ لیکن جب اِس نصیحت کو نظر انداز کردیا گیا تو حکومت کی بنیاد کمزور پڑتی گئی اور بالآخر حکومت و سلطنت، دونوں ختم ہوگئے۔
(۔۔۔ باقی آئندہ!)
(ترکی سے انگریزی ترجمہ: محمد خان کیانی، استنبول)
☼☼☼
Leave a Reply