
’’یہ جنگ کسی دانش مندانہ مقصد کے بغیر شروع کی گئی تھی، فضول سفاکی اور خوف کے امتزاج کے ساتھ جاری رکھی گئی، خاصے جانی و مالی نقصان کے بعد خاتمے کی طرف لائی گئی، جس حکومت نے اِس جنگ کو شروع کیا تھا اُس کے لیے یہ ذرا بھی شان و شوکت و افتخار کا ذریعہ نہ بنی اور جس فوج نے یہ جنگ لڑی اُس کے لیے بھی اِس میں کچھ ایسا نہ تھا جس پر فخر کیا جاسکتا۔ اس جنگ سے کوئی ایک واضح سیاسی یا عسکری فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکا۔ ہمارا انخلا بھی ویسا ہی تھا جیسا کسی شکست خوردہ فوج کا ہوا کرتا ہے‘‘۔
یہ الفاظ ۲۰۲۱ء میں نہیں بلکہ ۱۸۴۳ء میں لکھے گئے تھے۔ لکھنے والے تھے ریورینڈ جی آر گلیگ اور ان الفاظ کو ضبطِ تحریر میں لانے کا بنیادی مقصد ۱۸۳۹ء اور ۱۸۴۲ء کے درمیان افغانستان سے برطانیہ کی خاصی مہنگی اور ایسی جنگ کو بیان کرنا تھا، جس کا کوئی جواز نہ تھا اور جس سے گریز بھی کیا جاسکتا تھا۔ برطانوی افواج اور افغانستان کے درمیان پہلی جنگ بجا طور پر مشرق میں کسی مغربی طاقت کی سب سے بڑی عسکری ہزیمت تھی۔ اس کے بعد اگر کوئی بڑی اور واضح شرمندگی ہوئی ہے تو ۱۹۴۲ء میں جاپانی افواج کے سامنے برطانوی افواج کی بڑے پیمانے پر ہتھیار ڈالنے سے ہوئی۔
۶ جنوری ۱۸۴۲ء کو کابل سے شروع ہونے والی بدنامِ زمانہ پسپائی کے بعد ۱۸۵۰۰؍سپاہیوں میں سے صرف اسسٹنٹ سرجن ڈاکٹر ولیم برائیڈن ۶ دن بعد جلال آباد پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس فوج میں ۹۰ فیصد بھارتی سپاہی تھے جن میں اکثریت بہار اور اتر پردیش کے برہمنوں اور راج پوتوں کی تھی۔ وہ یا تو مار دیے گئے یا پھر غلام بنالیے گئے۔
اُس زمانے کی دو تصویریں بہت مشہور ہوئیں۔ ایک میں چند برطانوی سپاہی قبائلیوں کے نرغے میں کھڑے ہیں اور دوسری میں ڈاکٹر برائیڈن جلال آباد پہنچنے پر شہر کی فصیل کے پاس نڈھال کھڑے ہیں۔ ان دونوں تصویروں کو دیکھ کر لوگوں کو یقین نہ آیا کہ تب دنیا کی سب سے طاقتور سمجھی جانے والی فوج جدید اسلحے اور دیگر وسائل سے محروم قبائلیوں کے ہاتھوں مار کھا بیٹھی ہے۔
ایک زمانے تک کابل سے پسپائی نے مغربی طاقتوں کو اس خطے میں کسی بھی نوعیت کی عسکری مہم جوئی سے باز رکھا۔ تیس سال بعد افغانستان سے برطانوی افواج کی دوسری جنگ سے کچھ پہلے جارج لارنس نے لکھا ’’ایک نئی نسل پیدا ہوئی اور پروان چڑھی ہے جو اپنے ماضی سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے ہمیں ایک ہنگامہ پرور اور ناخوش ملک کے معاملات میں الجھا دینے کے درپے ہے۔ بڑے پیمانے کے عسکری نقصان سے ہم بچنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں مگر یاد رہے کہ اگر کوئی چھوٹی موٹی معرکہ آرائی اس وقت کامیاب ہو بھی جائے تو وہ آگے چل کر سیاسی اعتبار سے انتہائی فضول سرگرمی ثابت ہوکر رہے گی۔ برطانوی افواج کو ۱۸۳۹ء اور ۱۸۴۲ء کے دوران جس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ ہمارے سیاست دانوں کے لیے ایک معیاری انتباہ ہے کہ اس ملک سے خواہ مخواہ الجھنے سے باز رہیں۔
اکتوبر ۱۹۶۳ء میں ہیرولڈ میکملن نے وزارتِ عظمیٰ الیک ڈگلس ہوم کو سونپتے ہوئے ممکنہ طور پر یہی مشورہ دیا تھا کہ جب تک افغانستان پر لشکر کشی سے مجتنب رہوگے تب تک تمہارے معاملات درست رہیں گے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جان میجر نے یہ مشورہ ٹونی بلیئر کو نہیں دیا تھا۔ نائن الیون کے فوراً بعد ٹونی بلیئر نے امریکی صدر جارج واکر بش کے ساتھ افغانستان پر حملے کی دستاویز پر دستخط کیے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اُس نے آلڈس ہکسلے کے مقبول ترین الفاظ کو ایک بار پھر درست ثابت کردیا … تاریخ سے آپ صرف یہ سیکھتے ہیں کہ کوئی بھی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتا!
افغانستان سے برطانیہ کی چوتھی جنگ بہت حد تک پہلی جنگ کا ری پلے تھی۔ دونوں جنگوں کے درمیان بہت کچھ ملتا جلتا رہا اور یہ محض اتفاق نہ تھا بلکہ ٹھوس حقیقت پر مبنی تھا۔ وہی قبائلی رقابتیں اور وہی جنگیں ۱۶۰؍سال بعد اُسی خطے میں لڑی گئیں۔ فرق صرف پرچموں کی تبدیلی کا تھا۔ کچھ نئے سیاسی نظریات تھے اور ہاں، سیاسی کٹھ پتلیاں نچانے والے بھی نئے تھے۔
اس بار بھی حملہ آوروں نے سوچا کہ وہ ’’مفتوحہ‘‘ ملک میں آزادانہ گھوم پھر سکیں گے، نئی حکومت لانے میں کامیاب ہوں گے اور پھر صرف دو سال میں وہاں سے سامان باندھ لیں گے۔ اس بار بھی مغربی فوجی خود کو ایک بہت بڑے تنازع میں الجھنے سے روکنے میں ناکام رہے۔
افغانستان سے پہلی برطانوی جنگ مسخ خفیہ معلومات کی بنیاد پر لڑی گئی اور یہ ایک ایسے خطرے کی بنیاد پر لڑی گئی جو تھا ہی نہیں۔ ایک روسی ایلچی کابل گیا تو معاملے کو بڑھا چڑھاکر ہندوستان کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ جنگی جنون میں مبتلا چند افراد نے اس معاملے کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے خوب استعمال کیا۔ روسی حملے کا مفروضہ گھڑ کر برطانوی حکومت پر زور دیا گیا کہ افغانستان پر جلد از جلد حملہ کردیا جائے۔ روسی حملے کے خوف میں مبتلا برطانوی سفیر جان میکنیل نے تہران سے لکھا ’’ہمیں یہ اعلان کردینا چاہیے کہ جو ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارے خلاف ہے۔ ہمیں ہر حال میں افغانستان کو بچانا ہے‘‘۔ اور یوں ایک ایسی مہنگی، شدید نقصان دہ جنگ شروع ہوئی جو ہمارے لیے آج بھی ایک مثال بن کر کھڑی ہے۔ یہ ایسی جنگ تھی جسے لڑنے سے مکمل طور پر گریز کیا جاسکتا تھا۔
حامد کرزئی کا تعلق پوپل زئی قبیلے سے تھا۔ ۱۸۳۹ء میں برطانیہ نے جس کٹھ پتلی حکمران کو افغانستان پر مسلط کرنا چاہا تھا وہ یعنی شاہ شجاع الملک بھی پوپل زئی تھا۔ ان کے سب سے بڑے حریف غلزئی جو افغانستان کی پیادہ فوج میں اکثریت میں تھے۔ طالبان کے سربراہ ملا عمر مجاہد بھی ہوتکی غلزئی قبیلے کے سربراہ تھے۔ ۱۸۴۱ء میں برطانوی فوج کو خون میں نہلانے والی مزاحمتی قوت کا سربراہ محمد شاہ خان بھی غلزئی قبیلے سے تھا۔ خود طالبان بھی اس نوعیت کی مماثلت کا اکثر تذکرہ کرتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد ایک پریس ریلیز میں انہوں نے لکھا ’’سبھی جانتے ہیں کہ کس طرح کرزئی کو کابل لایا گیا اور کس طرح اُسے وہ حکومت سونپی گئی جس کا دفاع شاہ شجاع بھی نہیں کرسکا تھا‘‘۔
ہوسکتا ہے کہ مغرب نے یہ تاریخ بھلادی ہو مگر غیر ملکیوں کی حکومت کو کسی بھی حالت میں قبول نہ کرنے والے افغانوں نے یہ تاریخ کبھی فراموش نہیں کی۔ شاہ شجاع آج بھی افغانستان میں غداری کی نمایاں علامت ہے۔ ۲۰۰۱ء میں طالبان نے اپنے نوجوانوں سے پوچھا تھا کہ آپ لوگ شاہ شجاع کی حیثیت سے یاد رکھا جانا پسند کریں گے یا پھر دوست محمد خان کی حیثیت سے۔
ملا عمر نے اپنے آپ کو دوست محمد کے طور پر پیش کیا۔ قندھار میں رکھے ہوئے نبی اکرم محمدؐ کے ملبوس کو نکال کر ملا عمر نے پہنا اور اپنے آپ کو امیر المومنین کہلوانا پسند کیا۔ بہت جلد افغانیوں کی اکثریت سمجھ گئی کہ ملا عمر اُنہیں ۱۸۴۲ء میں برطانوی فوج کو دی جانے والی شکست یاد دلانا چاہتے ہیں۔
اب افغانستان میں اتنی غربت ہے کہ افغانوں پر ٹیکس عائد کرکے ان پر قبضے کو برقرار رکھنے کی لاگت وصول نہیں کی جاسکتی۔ ایسے میں قابضین کے اپنے وسائل پر افغانستان میں پولسنگ کی لاگت کے حوالے سے دباؤ بہت زیادہ ہے۔ بیس برس میں امریکا نے افغانستان میں ہر سال کم و بیش ۱۰۰؍ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ افغان صوبے ہلمند کے دو اضلاع میں امریکی میرینز کو تعینات رکھنے پر جو کچھ خرچ ہوا ہے، وہ مصر کی پوری قوم پر سالانہ عسکری و معاشی امداد کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم سے زیادہ ہے۔ بات ۱۸۴۲ء کی ہو یا ۲۰۲۱ء کی، دونوں جنگوں میں فوج کو واپس بلانے کے فیصلے کا افغانستان سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ایک طرف تو قابضین کی معیشت ڈانوا ڈول تھی اور دوسری طرف اندرونِ ملک سیاسی خرابی بہت بڑھ گئی تھی اور فوج کو واپس بلانا ناگزیر ہوگیا تھا۔
ان دو جنگوں کے درمیان جو کچھ بھی مماثل تھا اُس سے اگر کوئی سب سے زیادہ واقف تھا تو وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی تھے۔ میں نے جب برطانیہ اور افغانستان کے درمیان پہلی جنگ کے بارے میں کتاب ’’ریٹرن آف اے کنگ: دی بیٹل فار افغانستان‘‘ شائع کی تھی تب انہوں نے مجھے کابل بلاکر کئی عشائیوں پر مشتمل نشستوں میں ان دونوں جنگوں کی تفصیلات کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے تاریخ سے سیکھے جانے والے سبق پر بھی بات کی تھی۔
ان کا خیال تھا کہ امریکی اُن (حامد کرزئی) کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو برطانوی حکمرانوں نے ۱۶۰؍سال قبل شاہ شجاع کے ساتھ کیا تھا۔ ’’لارڈ آکلینڈ نے دوست محمد خان سے کہا تھا کہ ہم تمہارے ملک میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ یہ جھوٹ تھا۔ آج امریکی اور دیگر مغربی اقوام یہی کہہ رہے ہیں۔ امریکیوں کو افغانوں نے جو موقع فراہم کیا تھا اُسے انہوں نے ضائع کردیا ہے‘‘۔
حامد کرزئی نے واضح کردیا کہ شاہ شجاع نے ملک کی آزادی و خود مختاری پر زیادہ زور نہیں دیا تھا مگر وہ (حامد کرزئی) ایسا نہیں کریں گے۔ وہ نہیں چاہیں گے کہ انہیں محض کٹھ پتلی کے طور پر یاد رکھا جائے۔ ’’ریٹرن آف اے کنگ‘‘ پوری توجہ سے پڑھنے کے بعد حامد کرزئی نے اپنی پالیسیوں میں موزوں تبدیلیاں کیں اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جو غلطیاں شاہ شجاع نے کی تھیں اُن کا اعادہ نہ ہو۔ وکی لیکس میں ہلیری کلنٹن کی ایک ای میل بھی منظر عام پر آئی جس میں انہوں نے حامد کرزئی کے عہدِ صدارت میں امریکا اور افغانستان کے سرد مہری پر مبنی تعلقات کے لیے حامد کرزئی کے اس کتاب کے مطالعے کو بھی ذمہ دار قرار دیا۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ حامد کرزئی کے جانشین اشرف غنی نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی حالانکہ وہ معروف ماہرِ بشریات ہیں۔ ان میں حامد کرزئی جیسی سفارتی مہارت نہیں تھی اور اپنی حکومت کی مکمل ناکامی کی ذمہ داری کا سب سے زیادہ بوجھ اُنہی کو برداشت کرنا چاہیے۔
اشرف غنی کی بے صبری، درشت مزاجی اور خود سری نے بہت سے قبائلی سرداروں کو متنفر کردیا اور اشرف غنی میں وہ کشش اور نرمی نہ تھی جو حامدکرزئی کا خاصہ تھی۔ اور اسی چیز نے حامد کرزئی کو مقبولیت فراہم کی۔ اشرف غنی ملک کے دور افتادہ علاقوں سے آنے والے قبائلی عمائدین سے ملاقات کے وقت کہتے کہ اُن کے پاس صرف دس منٹ ہیں۔ پھر وہ اپنے جوتے اتار کر ایک بلند اسٹول پر بیٹھتے اور اپنے پیر اُن عمائدین کی طرف کرتے جو انتہائی اہانت آمیز عمل تھا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بعد میں چند ایک ہی قبائلی سردار تھے جو اشرف غنی کا اقتدار بچانے کے لیے کوئی قربانی دینے پر راضی ہوئے۔
پہلی افغان جنگ نے ملک کو بہت حد تک مثبت اثرات کا حامل بنایا۔ ۱۸۴۲ء میں اقتدار میں واپسی پر امیر دوست محمد نے برطانوی دور کی اصلاحات کو اپنایا۔ اس سے افغانستان کو مضبوط تر بنانے میں مدد ملی۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ شجاع اور اُس کے بہت سے ہم عصروں نے لفظ افغانستان استعمال نہیں کیا۔ ان کے نزدیک معاملہ کابل کی امارت یا بادشاہت کا تھا۔ یہ دُرانی سلطنت کا بچا کھچا حصہ تھا اور خُراسان کے سِرے پر واقع تھا۔ پھر ایک نسل کے بعد ہی اندرون و بیرونِ ملک نقشوں پر لفظ افغانستان دکھائی دینے لگا اور اس سرزمین کے باشندے بھی خود کو افغان کہنے میں فخر محسوس کرنے لگے۔
برطانوی حکمرانوں نے شاہ شجاع کو فرماں روا کی حیثیت سے بحال کرنے کی کوشش کی، جو نو آبادیاتی قوت کی طرف سے آخری ناکام کوشش ثابت ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی درانی سلطنت کی باقیات کی حیثیت سے سدوزئی خاندان کی بادشاہت بھی ختم ہوگئی۔ پہلی افغان جنگ نے موجودہ افغانستان کی حدود کے تعین کی راہ ہموار کی اور یوں افغانستان ایک باضابطہ ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اجاگر ہوا۔
پہلی افغان جنگ نے تو افغانستان کو مستحکم کردیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ حال ہی میں ختم ہونے والی جنگ کیا افغانستان کی موت کا سبب بنے گی۔ بیس برس میں افغانستان اس قدر بدل گیا ہے کہ پہچانا نہیں جاتا۔ شہر پھیل گئے ہیں۔ لوگ سفر زیادہ کرنے لگے ہیں۔ ہزاروں خواتین تعلیم پاچکی ہیں۔ ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ذہن کھول دیے ہیں۔
تھوڑی بہت مزاحمت بھی موجود ہے مگر اس کے باوجود یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ طالبان کے بحال شدہ اقتدار میں منقسم افغانستان مجموعی طور پر کس نوعیت کے مستقبل کا حامل ہوگا۔ ایسے میں ۱۸۴۲ء میں افغان مؤرخ مرزا عطا کے الفاظ آج بھی زندہ ہیں ’’امارتِ خراسان پر حملہ کرنا یا اُس پر حکومت کرنا کسی بھی اعتبار سے آسان نہیں‘‘۔
افغانستان میں مضبوط مرکزی اتھارٹی والی حکومتیں کم ہی رہی ہیں۔ ایسے لمحات کم ہی آئے ہیں جب پورے ملک کے قبائلی عمائدین نے کابل میں بیٹھے ہوئے حکمران کو مکمل طور پر قبول کیا ہو۔ جامع اور متحدہ سیاسی نظام کے حامل لمحات اور بھی کم رہے ہیں۔ افغانستان ایک باضابطہ ملک کی حیثیت کا حامل کبھی کبھار ہی رہا ہے۔ ملک بھر میں قبائلی عمائدین کی قیادت میں قائم علاقے ہیں جو مل کر ملک تشکیل دیتے ہیں۔ یہ قبائلی عمائدین ملک یا وکیل کہلاتے ہیں اور ان کی وفاداری خالص ذاتی نوعیت کی ہوتی ہے۔ اُن سے یا تو بات کرنا پڑتی ہے یا پھر لڑائی کے ذریعے اُنہیں مطیع و فرماں بردار بنانا پڑتا ہے۔
قبائلی روایات ہمیشہ اشرافیہ کی مرضی کے تابع رہی ہیں اور اگر کبھی کسی کے ماتحت کام کرنا بھی پڑے تو ایسا اپنی شرائط کے تحت ہوتا ہے۔ مالی منفعت ہی اتحاد اور اشتراکِ عمل کی طرف راغب کرتی ہے۔ اس پر بھی وفاداری کے تسلسل کی کوئی ضمانت فراہم نہیں کی جاسکتی۔ کسی بھی قبیلے کا سپاہی کابل کے شاہ کے بجائے اپنے قبیلے کے سردار کا وفادار ہوتا ہے کیونکہ وہی اُسے گزر بسر کے لیے تنخواہ یا اجرت دیتا ہے۔
افغانستان میں قبائلی نظام عجیب نوعیت کا ہے۔ غیر مشروط اور مکمل وفاداری کی ضمانت کسی بھی طور نہیں دی جاسکتی۔ قبیلے کی اپنی اتھارٹی بھی سراب کی سی ہے۔ ہر شخص خود کو خان سمجھتا ہے۔ ایسی دنیا میں ریاست کبھی حقیقی قوت کی حامل نہیں ہوتی۔ افغانستان میں بادشاہ کانٹوں کے بستر پر سوتا ہے۔ جو کچھ کابل میں ہوتا رہا ہے، وہ قبائل کی زندگی پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتا۔ وہاں کم ہی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور لوگوں کی عمومی زندگی میں زیادہ خلل واقع نہیں ہوتا۔
اب طالبان کو بھی اِسی مسئلے کا سامنا ہے۔ طالبان اپنی عسکری قوت کو مرکزی حکومت میں تبدیل کر رہے ہیں تو طالبان کے دو دھڑوں کو اب تک متحد رکھنے والے عوامل کی بھی آزمائش ہے۔ ۲۰۱۳ء میں ملا عمر کے انتقال کے بعد کوئٹہ شورٰی اور مشرقی افغانستان کے دور افتادہ علاقوں میں سرگرم طالبان کے درمیان اختلافات نے سر اٹھایا۔ اس کے نتیجے میں طالبان کے دھڑوں کو ایک بار پھر اتحاد کی لڑی میں پرویا گیا۔ ایک طرف حقانی نیٹ ورک تھا جو سخت گیر تھا اور لڑائی جاری رکھنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف اعتدال پسند طالبان تھے جو کابل اور اسلام آباد سے بات کرکے معاملات کو درست کرنے کے قائل تھے۔
ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ طالبان کے دھڑے (مشرقی و مغربی افغانستان کے کمانڈر، کوئٹہ شوریٰ اور دوحہ میں قائم سیاسی ونگ) کس طور متحد رہیں گے۔ ویسے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے جو اندازے قائم کیے تھے، طالبان کی نئی عسکری و سیاسی مہم اُن سے کہیں زیادہ نظم و ضبط کی حامل رہی ہے۔
اسٹریٹجک اعتبار سے طویل المیعاد منظر نامہ زیادہ تابناک اور امید افزا نہیں۔ امریکا اور نیٹو کے وعدوں پر یقین کرنے والوں کی تعداد اب برائے نام ہے۔ ہم نے اپنے دشمنوں کو پروپیگنڈا کے محاذ پر بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے تمام مواقع فراہم کیے ہیں۔ بھارت ایک اہم علاقائی اتحادی سے محروم ہوچکا ہے۔ پاکستان کا خفیہ ادارہ آئی ایس آئی سمجھتا ہے کہ اُس نے ایک بڑی فتح یقینی بنائی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے تو یہاں تک کہا کہ طالبان کی فتح کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان اب غلامی کی زنجیریں توڑ چکا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔ وہ میس اینک کے مقام پر تانبے کی کان دوبارہ کھول رہا ہے۔
میں نے ۲۰۰۹ء میں گنڈامک نامی گاؤں میں قبائلی عمائدین سے ملاقات کی تھی۔ یہی وہ گاؤں ہے جہاں ۱۸۴۲ء میں برطانوی فوجیوں نے افغانوں کو آخری بار منہ دینے کی کوشش کی تھی۔ جو کچھ ۲۰۲۱ء میں ہوا اُس سے بارہ سال قبل بھی قبائلیوں نے حالات کی بدلتی ہوئی روش کو محسوس کرلیا تھا، بھانپ لیا تھا۔ ایک بزرگ نے کہا تھا ’’تمام امریکی جانتے ہیں کہ اُن کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔ صرف اُن کے سیاست دان حقائق کو تسلیم اور قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ یہ امریکیوں کے آخری دن ہیں۔ اب چین کی باری ہے‘‘۔
(کتاب‘‘ریٹرن آف اے کنگ: دی بیٹل فار افغانستان‘‘ سے اقتباس)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Repeating the mistakes of past wars in Afghanistan”. (“theweek.in”. September 12, 2021)
Leave a Reply