
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق صدر محمد مرسی کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد دو سال میں مِصر عوامی مظاہروں سے عوام کو پابندِ سلاسل کرنے کی منزل تک آگیا ہے۔ “Generation Jail: Egypt’s Youth Go from Protests to Prison” کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ بڑھتے ہوئے ریاستی جبر کی نشاندہی کرتی ہے۔ ۳۰ جون کو اس رپورٹ کی اشاعت کے ساتھ مصر میں ہونے والے اُن مظاہروں کو ۲ برس ہوگئے، جن کے زیادہ تر شرکاء آج جیل میں ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر حسیبہ صحرائی کے بقول ’’عوامی مظاہرے اب عوامی گرفتاریوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ نوجوان کارکنوں کو مسلسل نشانہ بناکر حکام روشن مستقبل کے لیے ایک پوری نسل کی امیدوں کو پامال کر رہے ہیں‘‘۔ کارکنوں کے اندازوں کے حوالے سے رپورٹ بتاتی ہے کہ ۴۱۰۰۰؍افراد گرفتار ہوئے، ملزم بنے یا مجرم قرار دیے گئے۔ ان میں سے اکثر مقدمات غیر منصفانہ تھے، جن میں سکیورٹی فورسز کے بیانات کو ہی شواہد قرار دیا گیا۔
رپورٹ کے مرتبین لکھتے ہیں کہ صدر عبد الفتاح السیسی کی ماتحت حکومت ریاستی تحفظ کے نام پر بڑی تعداد میں سماجی کارکنوں، سیاست دانوں اور نوجوانوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے، جس کے نتیجے میں مصری معاشرے سے آزادیٔ اظہار اور احتجاج کا حق چِھنتا جا رہا ہے۔ رپورٹ کی بنیاد ۱۴؍نوجوانوں پر ہے جو ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جنہیں یکطرفہ طور پر گرفتار کیا گیا اور ایسے سلوک کا نشانہ بنایا گیا ’’جو بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا‘‘۔
حکام کی جانب سے مخالفت کو دبانے کا سلسلہ دراصل اخوان المسلمون کے رہنماؤں اور حامیوں کو جیل میں ڈالنے سے شروع ہوا۔ البتہ اب اس کا دائرئہ کار جامعات، سڑکوں، رہائشی مکانات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے دفاتر تک پھیل چکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مصر پر کام کرنے والی ٹیم کے رکن نکولس پیا شود (Nicholas Piachaud) نے بتایا کہ ’’مصر آج ایک پولیس کی ریاست بن چکا ہے۔ لوگ رات کے وقت دروازے پر دستک ہونے سے بہت ڈرتے ہیں‘‘۔
وہی نوجوان جنہیں دنیا نے مصر کی احتجاجی تحریکوں میں دوڑتے خون کی صورت میں پہچانا تھا، آج اس ریاستی جبر کی بدولت ڈرے اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ اٹھارہ سالہ محمد احمد حسین کو محض اس بنا پر گرفتار کرلیا گیا کہ اس کی ٹی شرٹ پر سیاسی نعرہ لکھا ہوا تھا۔ وہ اب تک بغیر کسی الزام یا مقدمے کے جیل میں ۵۰۰ دن گزار چکا ہے اور اس کے گھر والوں کے بقول اس کے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں۔ پیا شود کے نزدیک، ’’حکام نے اب یہ واضح کردیا ہے کہ وہ احتجاجی تحریک کی روح قبض کرلینا چاہتے ہیں اور مظاہرین کا مقدر خاموشی یا پھر جیل ہے‘‘۔
گمشدگیوں کی حالیہ اطلاعات نے بھی خوف کے ماحول کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ۹ جون کو قومی کونسل برائے انسانی حقوق نامی حکومتی ادارے نے ۵۰ شکایات موصول کیں، جو اُن خاندانوں کی جانب سے آئی تھیں جن کو شبہ تھا کہ ان کے پیاروں کو بلاوجہ قید کرلیا گیا ہے، اس حال میں کہ باہر کی دنیا سے ان کا کوئی رابطہ نہیں۔ پیا شود نے بتایا کہ ’’حراست میں لیے گئے ایک شخص کے اہل خانہ سے بات کی گئی تو انہوں نے ان حالات کو پریشان کن قرار دیا مگر لاپتا افراد کے معاملے میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ ان کے نزدیک دہلا دینے والا ہے‘‘۔
مصری ضابطۂ فوجداری کی رُو سے ملزمان کو بغیر کسی مقدمے کے ۴۵ روز تک زیرحراست رکھا جاسکتا ہے اور عدالتیں نظرثانی کے بعد اس مدت میں توسیع کرسکتی ہیں۔ کچھ اطلاعات کے مطابق اس قانون کی وجہ سے کچھ ملزمان ایک سال سے زائد عرصے سے بغیر کسی مقدمے کے قید ہیں۔ اور جب مقدمہ چلتا بھی ہے تو ایسے غیرمنصفانہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جن کے باعث وکلائے صفائی مشکل میں پڑ جاتے ہیں، مثلاً نامکمل شہادتیں، مقامِ سماعت میں اچانک تبدیلی، حتیٰ کہ وکلاء کو دھمکیاں تک ملتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسی ہی ایک ’’مضحکہ خیز‘‘ سماعت کے دوران ملزم کو اس کی غیر حاضری میں جیل بھیج دیا گیا اور اس کے لیے گھر میں بنی ویڈیو ثبوت کے طور پر استعمال کی گئی۔
انسانی حقوق کی معروف علم بردار یارا سَلّام پر ’’امنِ عامہ کو خطرے میں ڈالنے والے غیر قانونی مظاہرے‘‘ میں شرکت کرنے کا الزام عائد کردیا گیا۔ ان کے وکلاء کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسے کسی مظاہرے میں شرکت ہی نہیں کی بلکہ انہیں اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک دکان سے پانی خرید رہی تھیں۔ جس روز مقدمے کی سماعت ہونی تھی، اُسی روز حکام نے وکلائے صفائی کے علم میں لائے بغیر سماعت کا مقام تبدیل کردیا۔ یارا اور ان کی وکیل کو نئی جگہ تک پہنچنے کے لیے ۲۵ کلومیٹر سفر کرنا پڑا جہاں پوری کارروائی کے دوران ان کے اور ان کی وکیل کے درمیان ایک دھندلا شیشہ حائل رہا جس کی وجہ سے وہ وکیل سے بات ہی نہیں کرسکیں۔
گوکہ یارا سَلّام انتظامیہ کی جانب سے کٹہرے میں لائی جانی والی جانی پہچانی شخصیات میں سے ایک ہیں لیکن یہ ریاستی جبر صرف نمایاں افراد تک ہی محدود نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق لوگوں کو نامناسب قمیض پہننے یا کسی احتجاجی مظاہرے کے قریب سے گزرنے جیسے بے ضرر اقدامات کے نتیجے میں بھی جیل کی ہوا کھانی پڑ سکتی ہے۔ پیاشود کہتے ہیں، ’’ہر وہ شخص جو حکام پر تنقید کرتا ہے اور تنقید کرتا دکھائی دیتا ہے، وہ خطرے میں ہے‘‘۔
مصر میں محدود ہوتی سیاسی آزادی پر مزید قدغن وہ پابندیاں لگارہی ہیں جو مظاہروں کے وقت اور مقام پر عائد کی جارہی ہیں۔ نومبر ۲۰۱۳ء میں منظور ہونے والا ’’احتجاج کا قانون‘‘ کسی بھی عوامی مظاہرے کے لیے وزارتِ داخلہ کی پیشگی منظوری لازمی قرار دیتا ہے اور سکیورٹی فورسز کو یہ اختیار دیتا ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کریں۔
حکومت یہ جواز پیش کرتی ہے کہ سکیورٹی فورسز اور پولیس پر حالیہ حملوں کے تناظر میں یہ پابندیاں ملک میں استحکام لارہی ہیں۔ اس کے باوجود رپورٹ میں یہ لکھا گیا ہے کہ اگر کسی احتجاج کے دوران چند ایک مظاہرین کی جانب سے تشدد کیا جاتا ہے تو فورسز علاقے میں موجود کسی بھی شخص کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ پیا شود کے بقول اس طرزِ عمل نے عوامی اختلافِ رائے میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں چھوڑی ہے۔
دوسری جانب رپورٹ اس معاملے پر مصر کے بین الاقوامی حلیفوں کی خاموشی کو بھی اجاگر کرتی ہے جنہوں نے اس بڑھتے ہوئے جبر کی مذمت کرنے کے بجائے سیاست کی بساط پر سیسی کے آنے کا خیرمقدم کیا۔ پیاشود کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اس وقت خاموش رہی جب مصری سکیورٹی فورسز نے اگست ۲۰۱۴ء میں سیکڑوں مظاہرین کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور یہ خاموشی آج بھی جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’مصر کے اتحادی کہتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کی پروا کرتے ہیں، مگر دوسری جانب وہ کئی سو ملین ڈالر مالیت کا عسکری ساز و سامان مصری حکومت کو دے رہے ہیں۔ یہ مصری انتظامیہ کے لیے ایک انتہائی خطرناک پیغام ہے‘‘۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“Report: Egypt increasingly cracking down on its youth”. (“aljazeera.com”. June 30, 2015)
Leave a Reply