
کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن نے دنیا بھر میں معیشتوں کا پہیہ جام کردیا۔ امریکا جیسی طاقت کو بھی لاک ڈاؤن کے ہاتھوں غیر معمولی پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہر طرح کی معاشی سرگرمیاں بالکل ماند پڑ جانے سے مالیاتی بحران سر اٹھا رہا ہے۔ دو ماہ سے بھی زائد مدت کے دوران لاک ڈاؤن سے جو الجھنیں پیدا ہوئیں اُن کے تدارک کے لیے جب امریکا کی چند ریاستوں نے سوچنا شروع کیا تو اُنہیں ایک عجیب الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔
ری پبلکن پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں لاک ڈاؤن نرم کرنے اور لوگوں کو کام پر واپس لانے کے حوالے سے مشکلات یوں درپیش تھیں کہ لاک ڈاؤن کے باعث پیدا ہونے والی بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو وفاقی حکومت کی طرف سے دی جانے والی امداد انتہائی پرکشش تھی۔ آیووا، ٹینیسی، اوکلا ہوما اور دیگر ریاستوں میں جب لوگوں سے کہا گیا کہ کام پر واپس آئیں تو انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ سبب اس کا یہ تھا کہ بے روزگاری الاؤنس اور دیگر مدوں میں ملنے والی امداد اچھی خاصی، بلکہ پرکشش تھی۔ جب لوگوں کو اچھی خاصی رقم گھر بیٹھے مل رہی ہو تو ’کام کریں اُن کے دشمن‘۔
امریکا میں وفاقی حکومت نے مارچ میں کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے دو ہزار ارب ڈالر کا امدادی پیکیج منظور کیا گیا۔ اس پیکیج کے تحت ملک بھر میں لوگوں کو ہزار ڈالر سے زائد دیے گئے۔ یہ رقم ایک عام سا گھر، خوراک اور یوٹیلیٹیز کے حوالے سے، کم و بیش دو ماہ تک چلانے کے لیے کافی ہے۔ اوکلا ہوما، آیووا اور چند دوسری ریاستوں میں چھوٹے پیمانے کے آجروں نے اپنے ورکرز سے کہا ہے کہ کام پر واپس آئیں۔ اسٹور، ریسٹورنٹ اور اِسی نوعیت کے دوسرے چھوٹے کاروبار دوبارہ شروع کرنے کے لیے لازم ہے کہ ورکر کام پر واپس آئیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کام پر کیوں واپس آئیں؟ ایک طرف تو یہ حقیقت ہے کہ کورونا کی وبا نے ابھی دم نہیں توڑا یعنی کام پر واپس آنا صحت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے اور دوسری طرف یہ بات ہے کہ بے روزگاری کی حالت میں ملنے والے سرکاری مالیاتی فوائد غیر معمولی ہیں۔ چھوٹے ورکر عام سے کام کرکے جو کچھ کماتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ جب کچھ کیے بغیر، گھر بیٹھے مل رہا ہے تو کام پر جانے کی ضرورت کیا ہے؟
جن ریاستوں میں ری پبلکن پارٹی کی حکومت ہے، وہاں ریاستی مشینری لوگوں کو زیادہ دیر تک امداد دینے کے حق میں نہیں۔ ان ریاستوں کا سرکاری موقف یہ ہے کہ گھر بیٹھے خطیر رقوم دیے جانے سے ورکرز میں کام کرنے کی لگن کچھ مدت کے لیے بالکل ختم ہوجائے گی۔ چھوٹے کاموں میں الجھے ہوئے لوگ چاہتے ہیں کہ کچھ آرام ملے اور ساتھ ہی ساتھ گھر کا چولہا بھی جلتا رہے۔ ری پبلکن لیڈر معیشت کی تیزی سے بحالی چاہتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ لاک ڈاؤن نے صرف ڈیڑھ ماہ میں معیشت پر آرا چلا دیا ہے تو مزید دو تین ماہ اِسی طور گزرنے کی صورت میں کیسی کیسی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ چھوٹے آجروں کو شدید الجھن کا سامنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے اسٹور، ریستوراں وغیرہ کھل جائیں مگر لوگ نچلے درجے کی جاب کے لیے تیار نہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ چھوٹے اور غیر اہم کاموں میں اجرت بھی کم ہے اور خطرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا برقرار ہے۔ ایسے میں چھوٹے معاوضے کے لیے اپنی زندگی خطرے میں کون ڈالے؟
آیووا میں حکومت نے کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو کام پر واپس بلائیں اور اگر کوئی ملازم کام پر واپس آنے سے انکار کرے تو ریاستی مشینری کو مطلع کیا جائے۔ حکومت نے واضح انتباہ کیا ہے کہ لوگوں کو گھر بٹھاکر زیادہ دیر تک کھلایا نہیں جاسکتا۔ ایسے میں لازم ہے کہ کام پر واپس آیا جائے یا پھر امداد کی بندش کے لیے تیار رہا جائے۔ یہ انتباہ بھی لوگوں کو کام پر واپس آنے کی بھرپور تحریک دینے میں ناکام رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بے روزگار ہونے والوں کی اکثریت کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے کے وقت بہت معمولی نوعیت کے کام کر رہی تھی۔ ان کاموں کا معاوضہ بھی کچھ خاص نہ تھا۔ دن بھر بدن توڑ قسم کی محنت کرکے بھی ورکرز کو کچھ زیادہ نہیں مل پاتا تھا۔ اب وہ ایسے کسی بھی کام کے لیے گھر سے کیوں نکلیں جبکہ کورونا وائرس کا شکار ہو جانے کا خطرہ بھی برقرار ہے؟ بزنس لیڈرز چاہتے ہیں کہ چھوٹے کاروباری اداروں کے ورکرز جلد از جلد (ترجیحاً تو فی الفور) کام پر واپس آجائیں۔ بہت بڑا مالیاتی بحران ٹالنے کے لیے یہ ناگزیر ہے۔ یونین لیڈرز کہتے ہیں کہ ورکر کی مشکلات کا بھی کچھ اندازہ لگایا جائے، احساس کیا جائے۔ ان کی صحت کو خطرات لاحق ہیں۔ وہ پہلے ہی کم کما رہے تھے۔ ایسے میں قلیل اجرت کے لیے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالیں گے؟
معاشی سرگرمیوں کی بحالی سے متعلق بعض ریاستوں کے رویے سے قانون ساز، مزدور رہنما اور صحتِ عامہ سے متعلق حکام پریشان ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ لاک ڈاؤن ختم کرنے کے معاملے میں زبردستی اور لوگوں کو کام پر لانے کے معاملے میں عجلت پسندی اور جذباتیت خطرناک اثرات کی حامل ہوگی۔ اِس سے کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔ اِن ریاستوں پر لوگوں کو دھمکانے کا الزام بھی عائد کیا جارہا ہے کہ یا تو زندگی خطرے میں ڈالو یا پھر فاقوں سے مرو۔
بہت سے مبصرین اس بات سے نالاں ہیں کہ بعض ریاستیں معیشت کو عوام کی سلامتی پر ترجیح دے رہی ہیں۔ نیشنل ایمپلائمنٹ لاء پراجیکٹ کی سینئر تجزیہ کار مچل ایورمور کہتی ہیں کہ بے روزگاری الاؤنس اور دیگر بینیفٹس نہ دیے جانے کو لوگ چیلنج بھی کرسکتے ہیں مگر ایسا کرنا قانونی اعتبار سے پیچیدہ ہے۔ ملک بھر میں کم و بیش تین کروڑ افراد کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے ہاتھوں بے روزگار ہوئے ہیں۔ محکمۂ محنت نے تازہ ترین ہدایت نامے میں لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ترجیحی بنیاد پر کام پر واپس آجائیں۔
ٹینیسی میں بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی بے روزگار فرد کو روزگار کی آفر آجائے اور وہ کام پر جانے سے انکار کرے تو اس کا بے روزگاری الاؤنس ختم کیا جاسکتا ہے۔ اوکلا ہوما میں حکام برملا کہہ رہے ہیں کہ لوگ تیزی سے کام پر واپس آئیں۔ کورونا کی وبا کے ہوتے ہوئے لوگ کام پر واپس جانے کو ترجیح نہیں دے رہے۔
بعض صورتوں میں گھر بیٹھے ہوئے افراد کو محنت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ماہانہ رقم سے ۶۰۰ ڈالر تک زیادہ مل رہے ہیں۔ اوکلا ہوما کی اعلیٰ افسر ٹیریسا ٹامس کیلر کہتی ہیں کہ یہ عارضی صورتِ حال ہے۔ ایسا زیادہ دن نہیں چل سکتا کہ کسی کو کچھ کیے بغیر ہی بہت کچھ ملتا رہے۔ ریاستی وزیر تجارت سین کوپلین کہتے ہیں کہ بہت سی کمپنیاں کوشش کر رہی ہیں کہ لوگ کام پر واپس آجائیں۔ کچھ لوگ ضرور ایسے ہیں جو کام کیے بغیر مزے سے دن گزارنا چاہتے ہیں۔ ہم اس حوالے سے صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اگر کوئی کام پر آنے سے انکار کرے تو اُس کے سوشل بینیفٹس روکے یا ختم کیے جاسکتے ہیں۔ فی الحال وفاقی امداد میں کٹوتی کا کوئی ارادہ نہیں۔ لوگوں کو تحریک دی جارہی ہے کہ کسی نہ کسی طور کام پر واپس آئیں۔
اس وقت امریکا بھر میں چھوٹے درجے کے آجروں کو اپنی کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے میں غیر معمولی مشکلات کا سامنا ہے۔ بے روزگاری الاؤنس پانے والے فی الحال چھوٹے اسٹور، ریستوراں اور پٹرول پمپس وغیرہ کی ملازمتوں کے موڈ میں نہیں۔ معیشت کی بحالی کے لیے کئی ریاستی حکومتوں کو ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ سلامتی یقینی بنانے والے انتظامات کیے جائیں۔
امریکا میں وفاق اور ریاستوں کے درمیان رسّا کشی بڑھتی جارہی ہے۔ متعدد ریاستوں پر سیاسی تجزیہ کار یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ معیشت کی بحالی کو عوام کی زندگی کے تحفظ پر ترجیح دے رہی ہیں۔ ری پبلکن گورنر چاہتے ہیں کہ سب کچھ تیزی سے معمول پر جائے۔ معاملات کو معمول پر لانے کے چکر میں عوام کی سلامتی یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ سینیٹ کی فائنانس کمیٹی کے ٹاپ ڈیمو کریٹ رکن ران وائڈن کہتے ہیں کہ جب تک کورونا وائرس کی وبا موجود ہے، تمام معاملات کو مکمل طور پر معمول کے مطابق بنانا انتہائی دشوار ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Republican-led states signal they could strip workers’ unemployment benefits if they don’t return to work”. (“washingtonpost.com”. May 3, 2020)
Leave a Reply