
ہر زمانے کی کچھ خصوصیات‘ ضرورتیں اور تقاضے ہوتے ہیں جو زمانے کی بدلتی ہوئی کیفیت‘ تازہ مسائل اور منصۂ شہود پر آنے والے نئے معانی و مفاہیم سے ابھرتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور کی کچھ اپنی مشکلات اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں اور یہ سب معاشرتی اور تہذیبی و تمدنی تبدیلیوں کا لازمہ ہوتا ہے۔
کامیاب افراد اور صاحبانِ توفیق وہ ہیں جو اُن ضروریات اور تقاضوں کو سمجھ سکیں جنہیں ’’عصری مسائل‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو ان مسائل کے ادراک سے عاری ہیں یا ادراک تو رکھتے ہیں لیکن وہ خود کسی دوسرے ماحول اور زمانے کی پیداوار ہیں جس میں یہ مسائل نہ تھے اس لیے وہ سرد مہری اور لاپروائی سے ان مسائل کے سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ وہ ان مسائل کو بے کار کاغذوں کی طرح ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پے در پے شکستوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ایسے افراد ہمیشہ زمانے کی وضع و کیفیت کا شکوہ کرتے رہتے ہیں‘ زمین و آسمان کو برا کہتے ہیں اور گزرے ہوئے سنہرے اور خواب و خیال کے زمانے کی یاد میں غمزدہ‘ افسردہ اور پُرحسرت رہتے ہیں۔ ایسے لوگ روز بروز زیادہ بدظن‘ بد بیں اور مایوس ہوتے ہیں اور آخرکار معاشرے سے دوری اور گوشہ نشینی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ وہ زمانے کے تقاضوں اور مشکلات کو سمجھ نہیں پاتے یا وہ ایسا چاہتے ہی نہیں۔ ایسے لوگ ایک تاریکی میں زندگی بسر کرتے ہیں اور چونکہ حوادث کے علل و اسباب اور ان کے نتائج کی تشخیص نہیں کر پاتے اس لیے ان کے مقابلے میں گھبرائے ہوئے‘ وحشت زدہ‘ بے دماغ اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے رہتے ہیں‘ ایسے لوگ چونکہ تاریکی میں محو گردش ہوتے ہیں اس لیے ہر قدم پر ٹھوکر کھاتے ہیں اور کیا خوب کہا ہے‘ سچے پیشوا نے:
’’جو شخص اپنے زمانے کے حالات و کوائف سے آگاہ ہے وہ اشتباہات اور غلطیوں سے بچا رہتا ہے‘‘۔
ہر زمانے کے علما اور دانشوروں کے لیے یہ پیغام ہے کہ ان کا فریضہ ہے کہ وہ پوری چابکدستی سے ان مسائل‘ تقاضوں‘ احتیاجات اور روحانی کمزوری اور اجتماعی خالی نقاط کا ادراک کریں اور انہیں صحیح شکل و صورت میں پُر کریں تاکہ وہ دوسرے امور سے پُر نہ ہو جائیں کیونکہ ہماری زندگی کے محیط و ماحول میں خلا ممکن نہیں ہے۔
مایوس اور منفی فکر حضرات کے گمان کے برخلاف جن مسائل کو میں نے اپنی سمجھ کے مطابق واضح طور پر معلوم کیا ہے اور سمجھا ہے ان میں سے ایک نسلِ نو کی مفاہیمِ اسلام اور مسائلِ دینی جاننے کی پیاس ہے‘ بلکہ یہ پیاس فقط سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں چکھنے‘ چھونے اور آخرکار ان پر عمل کرنے کی ہے۔
ان مسائل نے نسلِ نو کی روح اور وجود کو بے قرار رکھا ہے لیکن یہ فطری امر ہے کہ یہ سب استفہام کی صورت میں ہے۔ ان خواہشات اور تقاضوں کا جواب دینے کے لیے پہلا قدم میراث علمی اور اسلامی تہذیب و تمدن کو عصرِ حاضر کی زبان میں ڈھالنا اور عالی مفاہیم کو موجودہ دور کی زبان میں موجودہ نسل کی روح‘ جان اور عقل میں منتقل کرنا ہے اور دوسرا قدم یہ ہے کہ اس زمانے کی مخصوص ضرورتوں اور تقاضوں کو اسلام کے اصولوں سے استنباط کر کے پورا کیا جائے۔
(بحوالہ ’تفسیر نمونہ‘)
Leave a Reply