
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی فکر کے حامل سہ ماہی جریدہ ’’حکمتِ قرآن‘‘ لاہور کے شمارہ اپریل تا جون ۲۰۰۹ء کا یہ اداریہ ہے۔ ان کے شکریہ کے ساتھ بِلا تبصرہ شائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
۱۹۲۳ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کی صورت میں خلافتِ اسلامیہ کا ادارہ ختم ہو گیا۔ ملحد و سیکولر ترک رہنما مصطفی کمال پاشا نے اپنی ایک تقریر کے دوران آسمان کی طرف مُکّا لہرا کر خدا کو دکھایا اور مسلمانوں میں پہلی دفعہ خدا کے تصور کو ریاست سے جدا کرنے کی بدعت کا آغاز کیا۔ مصطفی کمال پاشا اور اس کی گرینڈ نیشنل اسمبلی کے کفریہ عقائد و نظریات پرمبنی قانون سازی نے مملکتِ ترکی کو خلافتِ اسلامیہ سے جمہوریہ کفریہ کی طرف دھکیل دیا۔ رسول اللہﷺ کے زمانے سے لے کر ۱۹۲۳ء تک خلافت اسلامیہ کسی نہ کسی شکل میں کہیں نہ کہیں قائم رہی تھی، لیکن امت مسلمہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس قدر المناک اور کربناک حادثہ پیش آیا کہ زمین و آسمان نے بھی اس پر آنسوئوں کے دریا بہا دیئے کہ امتِ مسلمہ خلافت کے مقدس ادارے سے محروم ہو گئی۔
دوسری طرف خلافتِ اسلامیہ سے جمہوریہ کفریہ کی طرف ترکی کے اس سفر نے امت مسلمہ کے ہر خطے میں بے چینی اور اضطراب کی لہر پیدا کر دی۔ یہی وہ زمانہ ہے کہ جب مصر، برصغیر پاک و ہند اور دنیا کے دوسرے خطوں میں خلافت اسلامیہ کی بحالی کے لیے مختلف تحریکوں کی بنیاد رکھی گئی۔ ۱۹۲۳ء سے تاحال امت میں یہ فکر پھول کی خوشبو کی مانند پھیلتی ہی چلی گئی کہ خلافت کے ادارے کی دوبارہ بحالی مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے اور اس عالم ارضی میں مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے۔
چنانچہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ہی علماء، دینی جماعتوں کے قائدین اور صالح فکر کے حامل مفکرین نے پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے آئینی و قانونی جدوجہد کا آغاز کیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا ظفر احمد انصاری، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور سردار عبدالرب نشتر رحمتہ اللہ اجمعین وغیرہ کی کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۴۹ء میں قرار دادِ مقاصد منظور ہوئی او ریاست جمہوریہ پاکستان نے اس قرار داد کو اپنے آئین کا مقدمہ بناتے ہوئے کلمۂ شہادت کا اقرار کیا اور بظاہر مسلمان ہو گئی۔
قرار داد مقاصد کے منظور ہونے کے بعد بھی علماء کی طرف سے نفاذ اسلام کی آئینی و قانونی کوششیں جاری رہیں۔ ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ اسلامی تعلیمات کی روشنی میںآئین سازی کے لیے سرکاری سطح پر ایک بورڈ قائم کیا گیا، جس کا نام ’’بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ‘‘ رکھا گیا۔ اس بورڈ میں اگرچہ اُس وقت کے نامور دانشور اور علماء مثلاً سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، مفتی محمد شفیع صاحب، مولانا ظفر احمد انصاری اور مفتی جعفر حسین وغیرہ شامل تھے لیکن حکومت نے اس بورڈ کی پیش کی گئی سفارشات کو قانون سازی میں کوئی اہمیت نہ دی۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب بھی علماء یا دینی حلقوں کی طرف سے حکمران طبقے سے اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا تو ان کی زبانوں پر ایک ہی کلمہ استعجاب جاری ہو جاتا کہ کون سا اسلام نافذ کیا جائے؟ حنفی؟ بریلوی؟ شافعی؟ اہلِ تشیع؟ یا اہل حدیث کا؟ چنانچہ جنوری ۱۹۵۱ء میں ملک کے نامور شیعہ، بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث علماء کی ایک جماعت نے بائیس نکات پر مشتمل ایک متفقہ فارمولا منظور کیا۔ اس قرارداد پر دستخط کرنے والوں میں مولانا مودودی، سید سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا عبدالحامد بدایونی، پیرمانکی شریف اور مفتی جعفر حسین وغیرہ رحمہم اللہ جیسی نامور شخصیات شامل تھیں۔
علمائے حق کی جانب سے پاکستان کے قانون اور آئین کو اسلامی بنانے کی یہ کوششیں تقریباً نصف صدی تک جاری رہیں۔ بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ ہو یا ادارہ تحقیقات اسلامیہ، اسلامی نظریاتی کونسل ہو یا وفاقی شرعی عدالت، ان سب اداروں کا قیام علماء کی اسی جدوجہد کا مرہونِ منت تھا۔ ایک وقت تھا کہ جب اسلامی نظریاتی کونسل میں ملک کے جید علماء شامل ہوتے تھے اور اب صورت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بہرحال اکثر و بیشتر ایسا ہوا کہ علماء کی تحریک کے نتیجے میں حکومتِ وقت کی طرف سے جب بھی قانون و آئین کو اسلامی بنانے کے لیے کچھ ادارے قائم ہوئے یا بورڈ بنائے گئے تو وہ یا تو ملکی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے یا اگر علمائے حق کو ان اداروں میں نمائندگی کا موقع دیا بھی گیا تو ان کی بیش بہا تحقیقات کو ردّی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا۔ اصحابِ اقتدار کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے آہستہ آہستہ علماء کے طبقے میں بھی مایوسی اور بد دلی اس قدر گھر کر گئی کہ وہ نفاذِ اسلام کے لیے پُرامن آئینی و قانونی جدوجہد سے بھی کٹ کر ہمہ تن قرآن و حدیث کی تعلیم میں مشغول ہو گئے۔ یہ تو تصویر کا ایک رُخ ہوا!
تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کے نتیجے میں پاکستان کے مذہبی حلقوں میں جذبۂ جہاد کی آبیاری ہوئی۔ اس جہاد کے نتیجے میں افغانستان میں روس کو شکست ہوئی اور کچھ عرصہ تک باہمی خانہ جنگی کے بعد بالآخر طالبان کی حکومت قائم ہو گئی۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملہ ہوا اور امارتِ اسلامیہ افغانستان ختم ہو گئی۔ اب امریکا کے خلاف طالبان کی طویل گوریلا جنگ کا آغاز ہوا۔ وزیرستان، مالاکنڈ ڈویژن، سوات اور صوبہ سرحد کے دوسرے حصوں سے مجاہدین کی ایک بہت بڑی تعداد جہادِ افغانستان میں شریک ہونے کے لیے افغانستان گئی۔ لیکن وہاں طالبان کو اُس وقت کے مخصوص حالات کے اعتبار سے تعداد کی نسبت حکمتِ عملی اور جدید اسلحہ کی زیادہ ضرورت تھی۔ لہٰذا افغانستان کے خاص حالات کے پیش نظر پاکستانی مجاہدین کی اتنی بڑی تعداد طالبان کے لیے ایک اضافی بوجھ تو بن سکتی تھی لیکن مفید بالکل بھی نہ تھی۔ طالبان قیادت سے مشورے کے نتیجے میں یہ مجاہدین واپس پاکستان آ گئے۔ دوسری طرف امریکا نے جب پرویز مشرف حکومت پر القاعدہ، طالبان اور عرب مجاہدین کو پکڑوانے میں تعاون کے لیے دبائو ڈالا تو پرویز مشرف حکومت نے امریکی ڈالروں کے حصول کی خاطر افغانستان سے واپس آنے والے سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کے مقامی مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کرنا شروع کر دیا، جو کہ امریکا کو اصلاً مطلوب بھی نہ تھے۔
اس عمل کے نتیجے میں صوبہ سرحد کے اس خطے کے عوام میں حکومت کے خلاف شدید نفرت پر مبنی ردعمل پیدا ہوا۔ اور پرویز مشرف کی ظالم حکومت کے خلاف انتقامی جذبات نے ایک مقامی تحریک جہاد کی صورت اختیار کر لی۔ اقتدار کے نشے میں مست فوجی ڈکٹیٹر نے اس تحریک کو دبانے کے لیے معصوم سواتی عوام پر وحشیانہ بمباری کروائی۔ رہی سہی کسر وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں امریکی جہازوں کے ڈرون حملوں اور اس پر حکومتِ وقت کی مجرمانہ خاموشی نے پوری کر دی، جس کا دائرہ آئے روز وسیع تر ہوتا جا رہا ہے اور یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ امریکا کے ان حملوں کے جواب میں سوائے وہائٹ ہائوس کی خدمت میں درخواستیں پیش کرنے کے ہماری افواج یا حکومتِ وقت میں کوئی کارروائی کرنے کی ہمت یا جرأت نہیں ہے۔ صلیبی ٹیکنالوجی کا اس قدر رعب و خوف ہمارے جرنیلوں کے دلوں میں بٹھا دیا گیا اور امریکی ڈالروں کی ایسی محبت ہمارے حکمرانوں کے جسم و جان میں پلا دی گئی ہے کہ اگر امریکا پاکستان کے صوبہ سرحد کی طرح چاروں صوبوں پر بھی ڈرون حملے شروع کر دے تو شاید پھر بھی حکومت پاکستان کی رِٹ (Writ) چیلنج نہیں ہو گی، لیکن اگر سوات کے عوام حکومت کے ظالمانہ عدالتی نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے عدل و انصاف مہیا کرنے والی عدالتوں کے قیام پر اصرار کریں تو حکومت پاکستان کے لیے رِٹ (Writ) کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
وزیرستان کے جہاد کی حقیقت بھی یہی ہے کہ وہاں بھی عرب مجاہدین کو پکڑوانے کے لیے پرویز مشرف حکومت کی طرف سے فوج کشی کی گئی، جس کے نتیجے میں وہاں کے قبائلیوں نے اپنے جان و مال کے تحفظ کی خاطر حکومت پاکستان کے خلاف دفاعی جہاد شروع کیا، جس نے اپنوں کے خون کے قصاص کی خاطر بالآخر اقدامی قتال کی صورت اختیار کر لی ہے۔ قبائلی علاقوں اور مالاکنڈ ڈویژن میں امریکا اور اس کی حواری پاکستانی حکومت کے خلاف دفاعی جہاد کی اس تحریک نے کئی ایک طالبان گروہوں اور جہادی تحریکوں کو جنم دیا اور بڑھتے بڑھتے اس تحریک نے اقدامی قتال، خودکش حملوں، قتال فرض عین اور امریکا نواز حکومتوں کی تکفیر کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیا۔
اس دفاعی جہاد کے اقدامی قتال کے مرحلے میں داخل ہونے کے پیچھے مقامی افراد کے ردعمل کے علاوہ ایک اہم سبب یہ سوچ بھی ہے کہ پاکستان میں بھی ایک حقیقی اسلامی ریاست کا قیام صرف عسکری طریقے ہی سے ممکن ہے۔ سوات میں ابھرتی ہوئی طالبان تحریک، امریکا نواز حکومتوں کی ظالمانہ پالیسیوں کا ردعمل ہے۔ پاکستان کے مذہبی حلقوں کے خلاف حکومتوں کی مسلسل غیر منصفانہ پالیسیوں نے یہ فکر عام کر دی ہے کہ مذہبی حلقوں کو امریکا کی غلامی کے علاوہ پاکستان کے ظالم حکمرانوں سے بھی نجات حاصل کرنی ہے۔ اس میں کیا شک ہے آزادی ہر مسلمان ہی نہیں ہر انسان کا ایک بنیادی حق ہے۔ آج صوفی محمد کی تحریک کو کبھی رحمان ملک، کبھی آصف زرداری، کبھی الطاف حسین اور کبھی کوئی جرنیل یہ الزام دیتے نظر آتے ہیں کہ یہ تحریک لوگوں پر اسلام کے نام پر جبراً اپنے انتہا پسندانہ نظریات مسلط کرنا چاہتی ہے۔ ہم یہ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک تقریباً ساٹھ سال کے طویل عرصے میں چند افراد پر مشتمل حکومتی ٹولے یا مارشل لائی ڈکٹیٹروں نے ملک کے اکثریتی مذہبی حلقوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ آئین و قانون کے نام پر عوام الناس پر ان کی مرضی کے خلاف اپنے ملحدانہ اور کفریہ نظریات کو کبھی انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے نام پر اور کبھی تحفظِ حقوقِ نسواں بل کی آڑ میں جبراً نافذ کرنا یا پاکستانی عوام کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے ہاتھوں چند ڈالروں کے عوض بیچ دینے کو کیا آزادی و مساوات کا نام دیا جائے؟ بیروزگاری کے عفریت، معاشی بدحالی، فقر و فاقہ کے نتیجے میں خود کشیاں، غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ، جرائم کی کثرت، عدالتوں میں انصاف کا بحران، پولیس اور لینڈ مافیا کا ظلم و ستم، امن و امان کی تباہی، انٹرنیٹ اور کیبل کی صورت میں عریانی و فحاشی کا سیلاب، وڈیرہ شاہی، جاگیردار انہ نظام، کرپشن، رشوت خوری، چوری و ڈکیتی، زنا و گینگ ریپ، عورتوں کو زندہ دفن کر دینا، غیر انسانی طبقاتی تقسیم، منشیات و شراب کی سرعام فروخت، گلی کوچوں اور سڑکوں پر ڈاکوئوں کی قتل و غارت اور عامتہ الناس پر ظلم و ستم کی انتہا کرنے والی لسانی و علاقائی تنظیمیں، کیا پاکستان کے عوام یہ سب کچھ چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو اس کو ان پر مسلط کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ حکومت کا ظالمانہ اور کرپشن پر مبنی ناقص نظام یا طالبان؟ پاکستانی معاشرے پر ان گندگیوں کو کس نے جبراً مسلط کیا ہے؟ حکومت وقت نے یا مولانا صوفی محمد نے؟
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام یا نفاذِ شریعت یا قیامِ عدلِ اجتماعی یا ظالم حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کے حوالے سے مذہبی طبقے اپنی جدوجہد کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو مناہج میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایک منہج تو عسکری ہے جو حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا ثمر ہے اور دوسرا منہج اس مقصد کے حصول کی خاطر ہر اس جدوجہد پر مشتمل ہے جو پاکستان کے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد علماء اور دینی تحریکوں نے نفاذِ شریعت کے لیے دوسرے منہج کو ہی اختیار کیا۔ ہمارے خیال میں اس طریقہ کار کو اختیار کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ پاکستان کے حکمران اس وقت کے علماء کی نظر میں ’’مسلمان‘‘ تھے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے حکمران کافر ہوتے تب بھی علماء اسلامی ریاست کے قیام کے لیے دوسرے منہج ہی کو اختیار کرتے، کیونکہ پہلا منہج ناقابلِ عمل ہونے کی بناء پر ناممکن نظر آتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں برصغیر پاک و ہند میں ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد بیشتر علماء نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اس خطہ ارضی میں مسلمانوں کی حکومت دوبارہ بحال کرنے کے لیے عسکری طریقہ کار ممکن نہیں رہا تو انہوں نے اگلی ایک صدی (۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء) تک مسلمانوں کی آزادی اور ایک اسلامی ریاست کے قیام کی خاطر اپنی جدوجہد کا رُخ آئینی، قانونی اور سیاسی طریقۂ کار کی طرف پھیر دیا۔ لال مسجد کے واقعے کے بعد علماء کے بیانات سے ایک دفعہ پھر یہ بحث واضح ہو گئی ہے کہ انہوں نے اپنے حق میں نفاذِ شریعت کے لیے پرامن انقلابی جدوجہد ہی کو موزوں منہج قرار دیا ہے۔ اگرچہ علماء وہ جدوجہد کر رہے ہیں یا نہیں…، یہ ایک سوالیہ نشان ضرور باقی رہ جاتا ہے۔
سوات میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے بارے میں اس وقت مذہبی حلقے دو حصوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ ایک تو حکومتی و سیاسی ملائوں کا ٹولہ ہے جو حکومتِ وقت کی تائید و خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ درباری مولویوں اور گَدّی نشینوں کا یہ طبقہ کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ توحید کے متوالوں کی حکومت قائم ہو اور مذہبی استحصال پر مبنی ان کا کاروبار و تجارت متاثر ہو۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ بعض سرکاری مولویوں نے مولانا صوفی محمد کے بعض فتاویٰ پر شدید جرح کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مولانا صوفی محمد نے پارلیمنٹ کو کفریہ قرار دیا ہے تو مغربی طرز کے سیکولر جمہوری نظام کے کفر ہونے میں راسخون فی العلم کے ہاں کہاں دو آراء پائی جاتی ہیں؟ جمہوری نظام کفر تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کفر کے ساتھ رویہ یا معاملہ کیسا ہونا چاہیے؟ اس کفریہ نظام میں رہتے ہوئے اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کیسے ہو؟ کفریہ نظام کی تبدیلی کے لیے اس میں شامل ہو کر اس کے خلاف جدوجہد کی جائے، مثلاً بذریعہ انتخاب یا کسی حکومتی ادارے مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کی سرپرستی کے ذریعے آئین، قانون اور نظام میں تبدیلی لائی جائے یا اس سے باہر رہتے ہوئے انتخابات کے علاوہ احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائے؟ یہ درحقیقت علماء کے مابین محل اختلاف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مولانا صوفی محمد کے اس بیان سے کسی فتویٰ کی اہمیت سامنے آئی ہے اور حکمران طبقے نے اپنے خلاف کفر کے فتویٰ میں جو دفاعی انداز اختیار کیا ہے وہ قابل تعجب ہے۔ ہمارے خیال میں یہ وہ موقع ہے کہ علمائے پاکستان کو متحد ہو کر پارلیمنٹ، حکومتِ وقت اور سیکولر جمہوری نظام کی شرعی حیثیت کو فتویٰ کی زبان سے واضح کرنا چاہیے اور اس میں بنیادی مقصد لوگوں کو خروج یا بغاوت پر آمادہ کرنا نہ ہو، بلکہ:
۱) اس سے اصل مقصود الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اس بحث کو اجاگر کرنا ہو کہ کیا قرآن و سنت کی روشنی میں حکمران طبقے، موجودہ جمہوری نظام اور حکومتی پالیسیوں میں واقعتا کچھ مسائل ایسے ہیں کہ جن کی بناء پر وہ تکفیری فتویٰ کے مستحق ٹھہرتے ہیں تاکہ حکومتِ وقت کی خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں اپنے عوام کے بنیادی حقوق کا پاس کرنے، عدل و انصاف کی فراہمی اور اسلامی تعلیمات کے لحاظ کی طرف مثبت میلان و رجحان پیدا ہو۔
۲) اس اجتماعی فتوے سے ایک دوسرا اہم تر مقصد یہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ آیا ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام اور نفاذِ شریعت کے لیے وکلاء کی تحریک یا نواز شریف کے لانگ مارچ کی طرز پر سارے ملک میں ایک پرامن عوامی احتجاجی تحریک برپا کی جا سکتی ہے؟
ہمارے مخلص مذہبی طبقے کا بالخصوص المیہ یہ ہے کہ نفاذِ شریعت یا قیامِ خلافت کے لیے ان کے ذہن میں کوئی منہج ہے تو وہی خروج یا بغاوت کا طریقہ کار ہے جو فی زمانہ ریاست اور کسی عوامی جماعت کے مابین بہت زیادہ عدم توازن کی وجہ سے ناقابلِ عمل ہونے کے ساتھ ساتھ ناممکن بھی ہو چکا ہے، اور اس منہج کے تیزی سے پھیلنے کا بنیادی سبب ہمارے حکمرانوں کا حد سے بڑھتا ہوا ظلم ہے۔ اگر جذبات کی بات ہوتی تو شاید ہم بھی کہتے کہ معصوم بچیوں، عورتوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کے ان قاتلوں کی سزا یہ ہے کہ انہیں مال روڈ پر لٹا کر ان پر ٹینک چڑھا دیئے جائیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم کر کیا سکتے ہیں؟ اس وقت جذبات سے زیادہ عقل کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کی عَلم بردار عسکری تنظیموں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہاں عمل، فکر سے پچاس کلومیٹر آگے دوڑ رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فکر و عمل کے مابین مقابلہ ہو رہا ہو۔ اس وقت امتِ مسلمہ کو امریکا اور اس کے حواریوں سے یہ جنگ جیتنے کے لیے جسم و جان سے زیادہ فکر و نظر کی ضرورت ہے۔ نفاذِ شریعت کے لیے ایک طویل جدوجہد کے بعد مولانا صوفی محمد دامت برکاتہ کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ گئی تھی کہ پاکستان میں عسکریت کے راستے کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے خیال میں اگر لال مسجد کے واقعہ میں بھی ایک پرامن احتجاجی تحریک کی صورت میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ آگے بڑھایا جاتا تو بہت بہتر تھا۔
اس وقت لوہا گرم ہے اور اس کو چوٹ لگانے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ علمائے پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مالا کنڈ میں شریعت کے نفاذ کے تحفظ اور پورے ملک میں نظامِ عدل کے قیام کی خاطر ایک پرامن احتجاجی تحریک کا آغاز کریں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے عہدوں اور وکلاء انگریزوں کے بنائے ہوئے کالے قوانین کے تحفظ کی خاطر قربانیاں دے سکتے ہیں، مظاہرے کر سکتے ہیں، دھرنے دے سکتے ہیں تو علماء اور طالبانِ دینِ اسلام، ظلم و ستم کے خاتمے اور عدل و انصاف کے قیام کی خاطر کیوں ایسا نہیں کر سکتے؟ ہمارے ہاں عام طور پر مفتیان کرام مجاہدین کے حق میں قتال کی فرضیت کے فتوے جاری کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ شاید انہوں نے اپنے حصے کا فرض ادا کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکا، برطانیہ، اسرائیل، انڈیا اور ان کے حواریوں کے ظلم و بربریت کے خلاف قتال فرض ہے! ہمیں اختلاف قتال کی فرضیت میں نہیں ہے بلکہ اس میں ہے کہ کس پر فرض ہے؟ ہمارے نزدیک یہ قتال اسلامی ریاستوں کے سربراہان، حکمرانوں اور اصحابِ اقتدار پر فرض ہے اور علماء، طالبانِ دین اور مصلحین پر فرض یہ ہے کہ اپنے ملک کے حکمرانوں اور اصحابِ اقتدار کو اس قتال پر ہر آئینی، احتجاجی، قانونی، لسانی، علمی، اخلاقی اور تحریری ذرائع و وسائل، اخبارات، رسائل و جرائد، الیکٹرانک میڈیا، جلسے جلوسوں، دھرنوں، سیمینارز اور کانفرنسوں کے انعقاد، اجتماعی مباحثوں اور مکالموں اور عوامی دبائو کے ذریعے مجبور کریں، اور اگر پھر بھی حکمران اس فریضے کی ادائیگی سے انکار کریں تو مذکورہ بالا تمام پرامن کوششوں کے ذریعے ان حکمرانوں کی معزولی اور ان کی جگہ اس عہدے کی اہلیت رکھنے والے اصحابِ علم و فضل کی تقرری، علماء اور داعیانِ حق کا بنیادی فریضہ ہو گا، تاکہ ریاستی سطح پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے عالمی ظلم کے خلاف قتال کا فریضہ سرانجام دیا جا سکے۔ ہمارے نزدیک علماء کا جہاد یہ ہے کہ علمائے کرام، دینی جماعتیں، ان کے کارکنان اور دینی مدارس کے طلبہ، وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں ہونے والے وحشیانہ ڈرون حملوں اور قبائلی علاقوں میں پاکستانی افواج و فضائیہ کی پرتشدد کارروائیوں کے خلاف ملک گیر سطح پر پُرامن جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کریں،عوام الناس کی رائے ہموار کریں، اسٹریٹ پاور بڑھائیں اور اسلامی نظامِ عدلِ اجتماعی کے نفاذ تک وکلاء کی طرح مسلسل مظاہرے کریں، امریکا کی حمایت ختم کرنے کے لیے امریکا نواز حکومت کے خلاف دھرنے دیں۔ بے غیرت، بے دین اور ظالم حکمرانوں کی معزولی اور قیامِ عدل اجتماعی کی خاطر پرعزم لانگ مارچ کریں۔ پاکستان کی پاک سرزمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ہر پُرامن جدوجہد اختیار کریں اور نتائج اللہ کے حوالے کر دیں۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان کا مذہبی طبقہ اس طرح کی پرامن جدوجہد کے ذریعے اسلام، جہاد اور مجاہدین کی جو مدد کر سکتا ہے وہ تو وہ کرتا نہیں ہے، بس ساری توانائی اس پر ہی خرچ ہو جاتی ہے کہ ایک عام سپاہی یا فوجی کافر ہے یا مسلمان؟ عام مسلمان پر قتال فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ مدارس میں بیٹھ کر جہاد کے حق میں فرض عین ہونے کے فتاویٰ جاری کرنے سے یہ نفسیاتی تسکین تو کسی مفتی صاحب کو حاصل ہو سکتی ہے کہ انہوں نے جہاد کی خاطر بہت گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں، لیکن اگر یہی حضرات جہاد اور مجاہدین کے حق میں حکومت کے خلاف پرامن مظاہرہ کرتے اور وکلاء کی طرح پولیس کی لاٹھیاں کھا کر زخمی ہوتے اور آنسو گیس کا مقابلہ کرتے تو خارج میں نتائج بہت مختلف ہوتے۔ ہمارے خیال میں پاکستان میں اسلام و عدل کا نفاذ پُرامن جدوجہد اور قربانیاں دینے سے ہو گا اور پاکستان میں نفاذِ اسلام کے بعد ملتِ کفر سے جہاد و قتال کا مرحلہ آئے گا، اور ساری دنیا میں اسلام کا غلبہ ریاستی سطح پر ہونے والے جہاد و قتال سے ہو گا، ان شاء اللہ۔
ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ انڈیا ہو یا امریکا، اسرائیل ہو یا برطانیہ، ان ظالم اقوام کے ظلم کے خلاف جہاد و قتال اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جبکہ کسی ایک خطے، مثلاً پاکستان میں پہلے اسلامی نظام کا نفاذ ہو جائے اور پھر ریاست کی سطح پر ان عالمی دہشت گردوں کے خلاف قتال کیا جائے۔ پس پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ صحیح منہج پر قائم ہونے والی جہاد و قتال کی عالمی تحریک کا پہلا زینہ ہے اور ہمارے خیال میں اس پہلے زینے تک پہنچنے کے لیے کامیاب طریقہ کار وہی ہو گا جو کہ عدم تشدد پر مبنی ہو۔ علماء کو چاہیے کہ وہ اس منہج پر کاربند تحریکوں کے تعاون سے نفاذِ شریعت کے لیے ایک عظیم احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھیں۔ یہی ہمارے نزدیک جہاد کا وہ حقیقی عمل ہے جس کو تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے، اور یہ اسی وقت تیز ہو سکتا ہے جبکہ علمائے دیوبند، اہل حدیث علماء اور بریلوی اہلِ علم کی سرپرستی اس کو حاصل ہو گی۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء اس وقت اپنی سرپرستی میں ایک پرامن تحریک کا آغاز کریں۔ عدل کے قیام، غریب کو انصاف مہیا کرنے، ساری قوم کو امریکا کی غلامی سے نجات دلوانے، ظالم حکمرانوں کے ظلم کے خاتمے، حدود اللہ کے نفاذ، امن و امان کے قیام، عریانی و فحاشی کے سیلاب کی روک تھام، اُخروی نجات اور مسلمانانِ پاکستان کی دنیوی فلاح و بہبود کی خاطر ایک ایسی پرامن احتجاجی تحریک برپا کرنے میں آخر کیا مانع ہے کہ جس میں علماء کسی کی جان لینے کی بات نہ کرتے ہوں، بلکہ ظالم و فاسق حکمرانوں سے آزادی کے طلب گار ہوں؟ پاکستان کے مذہبی حلقوں کو ان ظالم حکمرانوں اور ان کے جابرانہ نظام سے آزادی کی یہ جنگ لڑنی ہو گی۔ یہ جنگ ضرور ہو گی۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں! اور یہ جنگ بغیر کسی بندوق، کلاشنکوف، اسلحے یا راکٹ لانچر کے لڑی جا سکتی ہے اور ان شاء اللہ فتح ہمارا مقدر ہے! اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ واَرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔ آمین یا رب العالمین۔
{}{}{}
Leave a Reply