انیسویں صدی کو یورپ نے نئی شکل دی تھی۔ بیسویں صدی کا حلیہ امریکا اور یورپ نے مل کر درست کیا۔ اکیسویں صدی ایشیا یعنی ایشیائی طاقتوں کی ہے۔ یہ تمام طاقتیں مل کر اکیسویں صدی کو وہ شکل دیں گی، جو پورے خطے کی تقدیر بدلنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ مگر خیر یہ سب کچھ محض سوچنے یا کہنے سے نہیں ہو جائے گا۔ اگر ایشیائی طاقتیں اکیسویں صدی کے خد و خال اپنی مرضی کے مطابق چاہتی ہیں تو انہیں یہ کام ایک بڑے پراجیکٹ کے طور پر کرنا ہوگا۔ بہت کچھ نیا کرنا ہوگا اور بہت کچھ پرانا چھوڑنا بھی پڑے گا۔ سب سے پہلے تو ایشیا کو سیاسی و سفارتی سطح پر ایک کرنا ہوگا۔ اب تک معاملات معاشی مفادات تک محدود رہے ہیں یا پھر سلامتی سے متعلق معاملات نے حالات کو تبدیل کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اِس سے آگے جاکر سیاسی و سفارتی سطح پر بھی متحرک ہوا جائے۔
بحر اوقیانوس کے آر پار کے خطوں کو نئی شکل دینے اور پروان چڑھانے میں بریٹن ووڈز اور یو این سسٹمز نے مرکزی اور کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ بالکل اِسی طور ایشیائی طاقتوں کو بھی عالمی معاملات کی نئی شکل وضع کرنا ہوگی۔ ورلڈ لینڈ اسکیپ تبدیل کرنے کے لیے کوئی نیا نظام لانا پڑے گا۔ یہ نظام محض سیاست و سفارت کی سطح پر نہیں ہوسکتا۔ اِس میں معیشت اور سلامتی کو بھی مرکزی کردار دیا جانا چاہیے۔ ہمیں نئی علاقائی و عالمی انتظامیہ، نیا بورڈ آف ڈائریکٹر اور سلامتی سے متعلق امور کا نیا ڈھانچا درکار ہے۔
قابلِ استعمال پلیٹ فارم
ابتدائی مرحلے میں ایشیا کے ابھرتے ہوئے نظام کو خطے کے تین بنیادی کرداروں چین، جاپان اور بھارت نیز اس خطے میں اپنے واضح مفادات کے حوالے سے باہوش رہتے ہوئے اہم کردار ادا کرنے والی طاقتوں امریکا اور روس کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔ خطے کے دیگر اہم ممالک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مشرقی ایشیا کے ممالک کی تنظیمیں اس وقت خطے میں غیر معمولی اثر و رسوخ کی حامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ تنظیمیں پورے ایشیا کے لیے کوئی فعال کردار ادا کرسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ بات یہ ہے کہ مشرقی ایشیا کے بہت سے یا بیشتر ممالک معاشی اعتبار سے متحرک ہیں اور بہت کچھ کرنے کے عزم سے متصف بھی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ مشرقی ایشیا کے حوالے سے ابھرنے والا کوئی بھی سیاسی اور سفارتی پلیٹ فارم جنوبی، وسطی اور مغربی ایشیا کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
اس وقت G-20 ممالک میں بھی ایشیا کی نمائندگی موجود ہے مگر اِس سے تمام مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ روس اور ترکی کا فعال ہونا اچھی بات ہے مگر اِس سے کچھ آگے جانے کی ضرورت ہے۔
تین امکانات
معاملات ایسے آسان نہیں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ایشیا کو عالمی قیادت کا فریضہ ادا کرنا ہے تو اس کے لیے تیاریاں بھی اسی نوعیت کی ہونی چاہییں۔ امریکا اور یورپ کا کردار عالمی سیاست میں اگرچہ اب بھی کلیدی نوعیت کا ہے مگر اُن کی اجتماعی طاقت میں دن بہ دن کمی رونما ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں ایشیائی طاقتوں کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاری کرنا ہوگی۔ بیسویں صدی کے آغاز پر ایشیائی طاقتیں بکھری ہوئی تھیں۔ ان کی حیثیت ایسے جہاز کے مانند تھی جس کا لنگر کہیں گر گیا ہو، سمت نما کھو گیا ہو اور مستول کام کرنے سے انکار کرچکا ہو۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں بھی کیفیت کچھ ایسی ہی ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں جو انتشار دکھائی دے رہا تھا اُسے ختم کرنے اور ہر اعتبار سے ایک متوازن عالمی نظام تیار کرنے میں کم و بیش نصف صدی کا وقت بھی لگا اور اس دوران دو عالمگیر جنگیں بھی ہوئیں، جن میں کروڑوں افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ایشیا کی ذمہ داریاں کچھ زیادہ ہی ہیں۔ اِسے بہت کچھ کرنا ہے، بہت تیزی سے کرنا ہے اور عالمگیر جنگوں جیسے انتہائی تباہ کن آپشنز سے بچتے ہوئے کرنا ہے۔ امریکا کی طاقت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ یہ بہت سے ممالک کی خواہش کی تکمیل کی ایک صورت ہے مگر کوئی ایسی بات نہیں جس پر سکون کا سانس لیا جائے۔ امریکا کی طاقت میں کمی واقع ہونے سے جو خلاء پیدا ہو رہا ہے اُسے پُر کرنا بھی لازم ہے۔ ایشیا میں ابھرتے ہوئے اداروں کو امریکا پروان چڑھنے میں مدد دے سکتا ہے، اُنہیں تباہی سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ مگر یہ سب بھی کہنے کی حد تک آسان ہے، کرنے جایے تو بہت مشکل ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور برطانیہ نے تعلقات کی جو نوعیت اپنائی وہی نوعیت امریکا اب ایشیا کے معاملے میں بھی اپنا سکتا ہے مگر اس کے لیے مذاکرات اور توضیحات و تشریحات کے جاں گُسل مراحل سے گزرنا ہوگا۔
پہلا آپشن : بھارت کے لیے پُل کا کردار
اگر امریکا (یورپی طاقتوں کے ساتھ مشاورت کے ذریعے) یہ طے کرتا ہے کہ عالمی نظام کو ایشیائی قوتوں کے حوالے کردیا جائے تو کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سب سے زیادہ ترجیح بھارت کو دے گا۔ مگر خیر بھارت کسی بڑی طاقت کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وہ ایشیا میں بنیاد اور جڑ رکھنے والے کسی عالمی نظام میں پُل کا کردار ضرور ادا کرسکتا ہے۔ ایشیا کی کئی بڑی طاقتوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں بھارت کا کردار بہت اہم ہوسکتا ہے۔ ایشیا میں کئی طاقتیں پوری قوت کے ساتھ ابھر رہی ہیں۔ ان میں جوش و جذبہ بھی ہے اور کام کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی۔ کوئی بھی ایشیائی قوت البتہ اس پوزیشن میں نہیں کہ پورے خطے کو اپنے دائرۂ اثر میں لے سکے۔ چین، جاپان اور دیگر قوتوں کو باہم متوازن رکھنے میں بھارت پُل کی حیثیت سے خاصا اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ مگر یہ سب کچھ یقینی بنانے کے لیے دو باتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ کیا امریکا ایشیا میں بہتر انداز سے کام کرنے کے لیے کسی بڑے نظام کو پروان چڑھانے اور اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے تیار ہے اور دوسرے یہ کہ کیا بھارت عالمی سیاست میں تیزی سے اور بھرپور شان و شوکت کے ساتھ ابھرنے کے لیے میسر آنے والے موقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت، سکت اور لگن رکھتا ہے۔
دوسرا آپشن : ایشیائی اقوام کا جمگھٹ
انیسویں صدی میں یورپ کی کئی قوتوں نے مل کر اتحاد قائم کیے تھے۔ یہ اتحاد مثالی نہیں تھے اور انہیں مستحکم بھی قرار نہیں دیا جاسکتا تھا تاہم یہ ناگزیر تھے۔ ایشیائی طاقتوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اگر انہیں ترقی سے ہم کنار رہنا ہے اور طاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ خوش حالی کو بھی یقینی بنانا ہے تو پھر لازم ہے کہ متحد ہوکر رہا جائے۔ ایک دوسرے کو اپنائے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔ اب عملی سطح پر یہ ہوسکتا ہے کہ چین، بھارت، ایران، سعودی عرب، جاپان، آسٹریلیا، روس اور امریکا کسی بھی طرز کا اتحاد قائم کرلیں۔ اور یہ سب کچھ ان تمام ممالک کی اپنی سہولت کے لیے ہوگا۔ ان تمام ممالک کے مفادات اگرچہ بہت مختلف ہیں مگر بہتر انداز کی حکمرانی یقینی بنانے اور اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے انہیں مل کر کام کرنا ہی ہوگا۔
اگر یہ آٹھ ممالک مل کر کوئی نظام لاتے ہیں تو اُس کے خد و خال کے بارے میں ابھی سے حتمی طور پر کچھ کہنا بہت مشکل ہے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ایسا کوئی بھی نظام یا اتحاد سامنے آتا ہے تو خطے میں حکمرانی کا انداز بہتر بنانے میں غیر معمولی حد تک مدد ملے گی۔ ایسی صورت میں کسی بھی ناگہانی کیفیت سے بچنا بہت حد تک ممکن ہوگا۔ ایسا کوئی بھی اتحاد دراصل کسی ہنگامی حالت میں پہنچنے والے نقصان کو کم سے کمتر سطح پر رکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔ ایسا کوئی بھی نظام مالیاتی نظام کو درست حالت میں رکھنے، علاقائی سالمیت کا احترام یقینی بنانے اور دفاع سے متعلق امور کو متوازن رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایسا کوئی بھی نظام زیادہ مستحکم نہ ہوگا اور اس میں دو طرفہ بنیاد پر مناقشوں کی گنجائش رہے گی، جیسا کہ انیسویں صدی میں یورپ کے معاملات میں ہوا تھا۔ دو طرفہ معاملات میں خرابی اور کشیدگی ہی نے پہلی جنگِ عظیم کی راہ ہموار کی تھی۔
تیسرا آپشن: امریکا کو سائڈ لائن کرنا؟
اگر ایشیا کی ابھری ہوئی اور ابھرتی ہوئی قوتیں امریکا کو ایک طرف ہٹاکر کام کرنے کا فیصلہ کریں تو پھر پورے ایشیا میں کئی اتحاد ابھر سکتے ہیں، جو علاقائی بنیاد پر مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے میں دلچسپی لیتے دکھائی دیں گے۔ امریکا کو ایشیائی معاملات میں زیادہ مداخلت کا موقع نہ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ایشیائی قوتیں آپس کے معاملات چھوٹے چھوٹے گروپ بناکر طے کریں گی۔ ایسی صورت میں شنگھائی تعاون تنظیم، آسیان، خلیجی مجلس تعاون، سارک، ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اور دیگر گروپ زیادہ فعال دکھائی دیں گے۔ ایسے کسی بھی منظر نامے میں امریکا کے لیے صرف ایک آپشن بچے گا … محض تماشائی کی حیثیت سے سب کچھ دیکھتا رہے۔ وہ کسی بھی اتحاد کا رکن ہوگا نہ کسی بھی معاملے سے اس کا کوئی بڑا مفاد وابستہ ہوگا۔
دنیا بدل رہی ہے اور ایشیا بھی بدل رہا ہے۔ بدلتی ہوئی دنیا میں تبدیلی سے گزرے بغیر مستحکم رہنا اور آگے بڑھنا کسی بھی دوسرے خطے کی طرح ایشیا کے لیے بھی ممکن نہیں۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ ایشیا کے لیے سب سے اچھا راستہ کیا ہوسکتا ہے؟ مسابقت یا تعاون؟ مسابقت کی صورت میں مخاصمت بھی بڑھے گی اور ایک دوسرے کو اپنانے سے گریز کا رجحان بھی زیادہ تیزی سے پروان چڑھے گا۔ ایسے میں ایشیا کے پاس صرف تعاون اور اشتراکِ عمل کا آپشن بچا ہے۔
اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ موجودہ نظام سے ٹکرانے والا کوئی نظام برداشت کرنے کے لیے امریکا تیار ہوگا یا نہیں۔ امریکا اور یورپ ایشیا کو دنیا کا امام ماننے کے لیے تیار ہوں گے یا نہیں؟ یا پھر یہ صورت ہوگی کہ ایشیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی قوتیں آپس ہی میں لڑ کر اپنی طاقت میں کمی لاتی رہیں گی؟ ایشیا میں سیاسی، معاشی اور ثقافتی سطح پر غیر معمولی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایشیائی قوتیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں یا پھر آپس کے اختلافات کو برداشت کرنے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے تصادم کی راہ پر چل کر امریکا اور یورپ کے لیے تسکین کا سامان کرتی ہیں؟ ایشیا کی صدی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ ایشیائی طاقتیں ایک دوسرے کو قبول کریں، اپنائیں اور مل کر کام کریں۔ یہ معاملہ مشترکہ طور پر حکمرانی کرنے سے کہیں زیادہ مل جل کر جینے کا، زندہ رہنے کا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Rethinking the future of Asia: Moving beyond U.S. dominance”.(“The Globalist”. December 11, 2016)
Leave a Reply