
اکتوبر ۲۰۱۱ء میں تیونس کی اسلامی جماعت ’’النہضہ‘‘ نے مجلس دستور ساز کی اکتالیس فیصد (%۴۱) نشستیں حاصل کرکے مغرب کو پریشان کر دیا ہے۔ لیکن عرب منظرنامے پر صرف النہضہ ہی کو یہ استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں مراکش کی تاریخ میں پہلی بار اسلامی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے رائے دہندہ کی کثیر حمایت (vote) حاصل کرکے حکومت سازی کا حق حاصل کرلیا ہے۔ (مراکش کی اسلامی جماعت نے ۱۰۷ نشستیں حاصل کرکے سب سے بڑی سیاسی قوت حاصل کی ہے اوراب شاہ محمد ششم نے اس کے سربراہ کو حکومت سازی کی دعوت دی ہے)۔
مصری انتخابات میں اخوان المسلمون کی اکثریت سامنے کی بات ہے۔ وہ متوقع سے بھی زیادہ اکثریت حاصل کررہی ہے۔ اخوان کے بعض ذرائع کے حوالے سے مغربی میڈیا لکھ رہا ہے کہ اسے (دیگر اسلامی جماعتوں سمیت) ۶۵ فیصد نشستوں پر کامیابی مل چکی ہے۔ یمن میں علی عبداللہ صالح کی حکومت کا خاتمہ ہو اور وہاں شفاف انتخابات ہوں تو یمنی اصلاح پسندوں کا اجتماع، جو کہ دراصل اسلامی ہیں، اکثریت حاصل کرے گا۔ عرب میں جب بھی کہیں جمہوری عمل صحیح راستے پر گامزن ہوگا، یہ عمل خود کو دہرائے گا۔
مغرب میں اسلامی جماعتوں کی کامیابیوں نے ایک بحث (سیاسی اسلام کے احیاء کے مسائل) کو جنم دیا ہے۔ عالم عرب میں بھی یہ بحث ہے، کیوں کہ وہاں سیکولر عناصر، اسلامی جماعتوں کی کامیابی سے خائف ہیں اور ان کے درمیان تنائو بڑھ چکا ہے۔ بہت سی آوازیں (اہل مغرب اور سیکولر طبقات کو) خبردار کر رہی ہیں کہ عرب اسپرنگ (عرب دنیا میں تبدیلی کا موسم بہار) اسلامی خزاں میں تبدیل ہو جائے گا اور اسلام پسند، جوکہ ابھی جمہوریت کے بظاہر حامی ہیں، جلد ہی اس کا رخ تبدیل کر دیں گے۔
مغرب میں اسلام سے متعلق وہ بے بنیاد تصورات، جنہوں نے ۱۱/۹ کے بعد جڑیں پکڑی تھیں ایک بار پھر سامنے آچکے ہیں۔ عرب دنیا خصوصاً مصر اور تیونس میں ایک جمہوریت مخالف طبقہ ابھر کر سامنے آیا ہے، جو صرف اس وجہ سے جمہوری عمل کی مخالفت کر رہا ہے کہ اسے اسلام پسند کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
لیکن اسلام پسندوں کی کامیابی پر مشتعل ہونا بے فائدہ ہے، جب تک کہ ٹھنڈے دل و دماغ اور مکمل آگاہی سے سیاسی اسلام کے احیاء پر مکالمہ نہ کیا جائے جو کہ ایک عرصے سے زیر التوا ہے۔
پہلے ہمیں اپنی اصطلاحات (Terms) کو سمجھنا چاہیے۔ مسلم دنیا میں لفظ ’’اسلام پسند (Islamist)‘‘ ان کے لیے استعمال ہوتا ہے جو عوامی دائرے میں اسلام کو بطورِ بنیاد بناکر سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت کے ساتھ یہ سرگرمی کوئی معیوب چیز نہیں ہے۔
تاہم مغرب میں عموماً یہ اصطلاح ان کے لیے ہے جو تشدد کو ایک تبدیلی کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً سلفی جہادی القاعدہ کو (اس حقیقت کے باوجود بھی کہ وہ جمہوری سیاسی عمل کو یکسر مسترد کرتے ہیں) ’’اسلام پسند‘‘ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ القاعدہ کے راہ نما ایمن الظواہری نے حماس پر سخت تنقید کی تھی جب اس نے فلسطینی مجلس قانون ساز کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اخوان المسلمون کو بھی تشدد کی مخالفت پر مبنی پالیسی کی بنا پر ہدف تنقید بنایا تھا۔
اس اصطلاح ’’اسلام پسند‘‘ (Islamist) کی غلط تفہیم سے مغرب اور عرب دنیا کی ظالم حکومتوں نے خوب ناجائز فائدہ اٹھایا۔ خصوصاً عرب کے جابر حکمرانوں نے اسے اسلامی تحریکوں کو ان کی جمہوری سیاسی سرگرمیوں سمیت کچلنے کے لیے استعمال کیا لیکن اب ہمیں سب واضح ہوچکا ہے۔
اصلاح پسند اسلامی تحاریک (جیسا کہ اخوان المسلمون) سیاسی عمل کے ذریعے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے شام میں ۱۹۸۲ء میں حافظ الاسد کی حکومت سے مسلح تصادم کے نتیجے میں ایک تلخ سبق سیکھا تھا۔ اس تصادم کے نتیجے میں بیس ہزار سے زائد افراد قتل اور کئی ہزار قید یا جلا وطن کردیے گئے تھے۔ شام کے اس افسوس ناک واقعے سے بڑی اور نمایاں اسلامی تحاریک کو یہ تجربہ ہوا کہ مسلح جدوجہد سے گریز کرنا چاہیے اور اس کی بجائے برداشت پر مبنی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
دوئم یہ کہ ہمیں خطے کی تاریخ کو سمجھنا چاہیے۔ مغربی انتہا پسندانہ نظریے کے سادہ لوح پرجوش اور کم تجربہ کار حامی ’’اسلام پسندوں‘‘ کو سیاست میں نووارد سمجھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام پسندوں نے ۱۹۲۰ء کی دہائی میں عرب سیاسی منظرنامے میں ایک بڑا کردار ادا کیا۔ اگرچہ اسلامی تحاریک، اکثر حزبِ مخالف میں رہی ہیں، لیکن ۱۹۴۰ء کی دہائی میں انہوں نے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیا حسبِ ضرورت وہ سیکولر، قوم پرست اور اشتراکی جماعتوں سے اتحاد بنا کر بھی، اردن، یمن، سوڈان اور الجزائر میں کئی حکومتوں کا حصہ رہیں۔ انہوں نے غیراسلامی حکومتوں سے بھی اتحاد بنایا مثلاً ۱۹۷۷ء میں سوڈان میں نمیری حکومت سے اتحاد۔
بہت سے دیگر واقعات نے مسلم اجتماعی فکر پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں اور سیاسی اسلام کی پختگی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مثلاً سب سے زیادہ زیر بحث ۱۹۷۹ء میں آنے والا ایرانی انقلاب، ۱۹۸۹ء میں سوڈان میں آنے والا فوجی انقلاب، ۱۹۹۱ء کے انتخابات میں الجزائری اسلامی سالویشن فرنٹ کی کامیابی، بعدازاں فوج کا انہیں حکومت کرنے کا اختیار دینے سے انکار، ۱۹۹۶ء میں طالبان کا افغانستان کے وسیع رقبے کی فتح اور اماراتِ اسلامیہ کا قیام اور ۲۰۰۶ء میں حماس کا فلسطینی مجلس قانون ساز کے انتخابات میں فتح، حماس کی کامیابی کو نہ تسلیم کیا گیا اور نہ ہی قومی متفقہ حکومت بننے دی گئی۔ بلکہ اس کی بجائے حماس کا گلا گھونٹنے کے لیے غزّہ شہر پر بدترین محاصرہ مسلط کردیا گیا۔
مؤثر ترین تجربات میں سے ایک جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (AKP)، ترکی کی صورت میں سامنے آیا ہے، جس نے ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ AKP کی یہ کامیابی بہت سی اسلامی تحاریک کے لیے متاثر کن تھی۔ اگرچہ AKP اپنی اسلام پسندی کو ظاہر نہیں کرتی ہے۔ مگر اس نے دس سالہ سیاسی تجربے سے ایک ایسا نمونہ (Model) بنایا ہے جسے بہت سے اسلام پسند، کامیاب سمجھتے ہیں۔ ایک عمومی نظام اسلامی کی تشکیل، کثیر الجماعتی جمہوریت اور معاشی ترقی کی اہمیت، اس ماڈل کی تین نمایاں خصوصیات ہیں۔
سیاسی عمل کے لیے نہ صرف سیاسی اسلام کی لچک اور گنجائش پر بلکہ اس کے فلسفے پر بھی ان مختلف سیاسی تجربات نے ایک گہرا اثر ڈالا ہے۔
تاہم، سیاسی اسلام نے آمر عرب حکومتوں کے بہت زیادہ دبائو کا سامنا بھی کیا اور یہ دبائو ۱۱/۹ کے بعد مزید شدید ہوگیا۔ اسلامی ادارے کچل ڈالے گئے۔ تحریک اسلامی کے کارکنوں کو قید کیا گیا، انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کیا گیا۔ اس طرح کے واقعات سے اسلام پسندوں کی تلخیوں میں مزید اضافہ ہوا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ بھی فطری عمل ہے کہ ان واقعات کے ردعمل میں بھی کچھ کارکنان کی جانب سے انتہائی جذباتی نعرے یا ناقابل برداشت دھمکیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ان کو سننا چاہیے۔ ان میں سے کچھ، اب انتخابی مہمات میں آگے آگے ہیں۔ یہ حال ہی میں قید سے رہا ہوئے ہیں۔ ان طویل اسیری کاٹنے والوں سے یہ توقع رکھنا نامناسب ہوگا کہ وہ اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیشہ ور سفارت کاروں کی طرح پیش کریں۔
ان سب کے باوجود، سیاسی اسلام سے متعلق سوچ، عموماً متوازن ہوچکی ہے۔ اسلامی تحریک تیونس نے، اس حوالے سے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اگرچہ ’’النہضہ‘‘ تیونس نے بن علی دورِ حکومت میں شدید مشکلات کا سامنا کیا۔ لیکن اس کے راہ نمائوں نے برداشت پر مبنی بحث کو فروغ دیا اور اسے جدید سیکولر اوردائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی کھلا رکھا۔
تحریک کے راہ نمائوں نے تیونس کے شہریوں کو دوبارہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ان کی ذاتی زندگی میںہرگز مداخلت نہیں کریں گے اور ان کے حقِ انتخاب کو تسلیم کریں گے۔ مجلس قانون ساز میں، النہضہ کی ۴۲ نمائندہ خواتین اراکین، تحریک کی جانب سے خواتین کی سیاسی شراکت داری کی ایک ترقی پسندانہ مثال ہیں۔
تحریک اسلامی کی بھی مغرب سے متعلق سوچ، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ مستبد عرب حکومتوں کی حمایت کرتا رہا ہے، متوازن ہوچکی ہے، کیونکہ معاشی و سیاسی لحاظ سے باہم مربوط دنیا میں، عالمی تعلقات کی اہمیت سے اسلام پسند آگاہ ہیں۔
مغرب کے لیے اب اس رویے کے اظہار کا یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ عرب دنیا میں جمہوری سرگرمیوں کے بجائے، ظالم حکومتوں کی مزید حمایت نہیں کریں گے اور ایک جماعت کی مخالفت میں دوسری جماعت کی ناروا حمایت کرکے، جمہوری عمل کے نتائج میں مداخلت نہیں کریں گے، خواہ یہ نتیجہ ان کی خواہشات کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔ جمہوریت، خطے میں برداشت، تحفظ اور استحکام کا ایک واحد رستہ ہے اور عرب اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ کبھی ایسی کوششوں کو قبول نہیں کریں گے جو جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے ہٹا دے۔
اسلام پسندوں کو ختم کرنے اور انہیں عوامی دائرے میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکنے کی کوششوں کے نتیجے میں اس خطے نے بہت تکالیف سہی ہیں۔ بلاشبہ اسلام پسندوں کی بننے والی نئی نئی حکومتوں کو بہت سے مسائل درپیش ہوں گے۔ ان میں اسلامی حلقوں کے علاوہ مقامی و عالمی قوتوں کے ساتھ تعلقات بھی شامل ہیں۔ بے جا خوداعتمادی کے جال کا شکار ہونے کے بجائے، اسلام پسندوں کو اس حوالے سے محتاط رہنا چاہیے۔ انہیں دیگر رجحانات کو بھی جگہ دینی ہوگی، خواہ اس کے لیے انہیں تکلیف دہ رعایت ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔
دراصل ہمارے معاشرے کو سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے اور سیاسی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کی شراکت داری کی، قطع نظر اس کے کہ ان کا انتخابی وزن کتنا ہے۔ یہ چیز، اسلام پسند اور دیگر سیاسی عناصر کے باہمی تعامل کے نتیجے ہی میں ممکن ہے کہ وہ عرب دنیا میں ہونے والی جمہوری تبدیلی کی پختگی کے ضامن ہوں اور عالم عرب میں سیاسی مفاہمت و استحکام کی جانب بڑھیں جو کہ عشروں سے ناپید ہے۔
(بشکریہ: ’’گارجین‘‘ لندن۔ ۲۷ نومبر ۲۰۱۱ء۔ ترجمہ: عابد شفیع احمد)
Leave a Reply