مصر میں عوامی انقلاب نے آمریت اور نوآبادیاتی نظام کی آہنی زنجیروں کو توڑ کراولین کامیابی تو حاصل کرلی ہے لیکن جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی کئی رکاوٹیں ان کی راہ میں کھڑی ہیں جن کو ہٹانے کے لیے جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔
آج سے ۳۲ سال قبل ۱۱؍ فروری کے دن ایرانی عوام نے امریکا کے حمایت یافتہ شاہ ایران کا تختہ الٹ کر ملک سے باہر نکالا اور امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کو مستحکم بنایا تھا اور آج ہی کے دن یعنی گیارہ فروری کو مصر کے عوام نے بھی حسنی مبارک کو اٹھارہ دن کے محاصرے کے بعد آمرانہ اقتدار سے بے آبرو کر کے نکال دیا ہے لیکن جاتے ہوئے حسنی مبارک نے عنانِ اقتدار فوج کے حوالے کر کے مصر میں ہی بحیرہ احمر میں واقع شرم الشیخ کے تفریحی مقام پرسکونت اختیار کر لی ہے۔ اب یہ مرحلہ درپیش ہے کہ اقتدار عوام کو کیسے منتقل ہوگا؟ اس بات کا تجزیہ ان سازشوں کی روشنی میں کیا جانا ضروری ہے جو انقلاب ایران کو ناکام بنانے کے لیے تیار کی گئی تھیں اور ناکام و نامراد ہوئیں۔
ایران میں’فدائین خلق‘ اور دیگر سیاسی قوتیں ‘ جوامریکا کی آشیر بادسے سازشوں کے تانے بانے بن رہی تھیں‘ انہوں نے پہلے وار کے طور پر انقلابِ ایران کے ستر سے زائد سرکردہ راہنمائوں کو دہشت گردی کے ایک واقعے میں نشانہ بنا کر انقلاب کو ناکام بنانے کی کوشش کی اور پھر انقلابیوں میں فروعی اختلافات کو ابھار کر پھوٹ ڈالنے کی سازشیں کیں اور بالآخر امریکا نے صدام حسین کو ایران پرحملہ کرنے کے لیے اکسایا۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ’’ایران کااسلامی انقلاب بھی ختم ہو جائے گا اور ایران و عراق آپس میں جنگ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو ختم کر دیں گے‘‘ لیکن اس کے برعکس صدام کی جارحیت انقلاب ایران کو مستحکم کرنے کا باعث بنی اور امریکا ناکام رہا۔مصر میںفوج کو اقتدار کی منتقلی اور حسنی مبارک کی مصر میں موجودگی‘ عوام میں تصادم کا باعث بنے گی جو اقتدار عوام کو منتقل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ اس کہ پس پردہ اس تحریک کو متحدہ مذہبی شکل دینے کی ترغیبات بھی کارفرما ہیں‘ جو قومی سلامتی کے لیے شدید خطرے کا سبب ہیں۔اسی لیے عوام میں یہ شعور اجاگر ہو رہا ہے کہ ان کاروائیوں کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ کارفرما ہیں جوقوم کو فروعی اختلافات کی بنیاد پر تقسیم کرکے خانہ جنگی کی طرف دھکیل دینا چاہتے ہیں تاکہ حکومت کو اسرائیل کے ساتھ پر امن تعلقات قائم کرنے میں آسانی ہو۔
مسلح افواج حسنی مبارک کے دورِ اقتدار میں ان کے سیاہ و سفید میں برابرکی شریک رہی ہیں جس کی وجہ سے مصری اور امریکی تجارتی اداروں کے ساتھ ان کے گہرے مفادات وابستہ ہیں۔ اس طرح مسلح افواج کے لیے یہ کام انتہائی مشکل ہوگا کہ وہ اپنے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے محض انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے اقتدار سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب انقلابی اقتدار سنبھال لیں گے تو حسنی مبارک کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کو بھی اپنے اعمالِ بد کے لیے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ امریکا کی بھی یہی ترجیح ہوگی کہ مسلح افواج یا تو اقتدار اپنے پاس ہی رکھیں یا پھر شامل اقتدار رہیں تاکہ ان کے اپنے مفادات کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے اور مبارک دور میں ان کے مفادات کا خیال رکھنے والے عناصر کا تحفظ بھی یقینی بنایا جا سکے۔ مفادات کا یہی ٹکرائو‘ اقتدار کو عوام تک منتقل ہونے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ فوج نے اقتدارسنبھالتے ہی ملک میں آئین کومعطل کر دیا ہے؛ پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا ہے اور آئینی ترامیم فوج خود کر رہی ہے اوراگلے دوماہ کے اندر اندر ترمیم شدہ آئین پر ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور ستمبر ۲۰۱۱ء میں انتخابات کرانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔یہ وعدہ محض بہلاوہ ہے اور معاملات کو طول دینے کی ایک کوشش ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح جنرل ضیاء الحق نے ۱۹۷۷ء میں پاکستانی قوم سے نوے دنوں کے اندر انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ مصری عوام اس جھانسے میں نہیں آئیں گے اور اپنے مطالبات کی تکمیل تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
مصر کے عوام کوایرانی انقلاب کے قائد امام خمینی جیسی قیادت میسر نہیں جنہوں نے پوری ایرانی قوم کو یک جان کر دیا تھا جبکہ اخوان المسلمون میں مختلف نظریات کے حامل لوگ شامل ہیں، جن میں ایک عسکریت پسند جہادی تنظیم بھی شامل ہے جو علاقائی سطح کی قیادت میں گذشتہ تین دہائیوں سے حسنی مبارک کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف برسرپیکار ہے۔ ان میں شامل نئی نسل کے ترقی پسند نوجوانوں کی کثیر تعداد بھی ہے جو قوم پرست ہونے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور آزادی کے خواہاں ہیں۔ ان تضادات کے باوجود اخوان المسلمون کے پرچم کے نیچے متحد رہتے ہوئے انہوں نے آزادی کی پہلی جنگ جیت لی ہے ۔ اب ان کی جدوجہد انتقالِ اقتدار اور حکومت سازی کا مرحلہ طے کرنے پر مرکوز ہے۔ یہی وہ وقت ہے جس سے سازشی عناصر فائدہ اٹھا کر عسکریت پسند اور ترقی پسند طبقات کے مابین نفرت و اختلافات کو ہوا دے کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل ممکن بنانے کی کوشش کریں گے۔ اگر خدا نخواستہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں فوج کواقتدار اپنے پاس رکھنے کا معقول جواز مل جائے گا اور اس طرح وہ اپنے اور دیگر انقلاب دشمن عناصر کے مفادات کا تحفظ یقینی بنا سکیں گے۔ لہٰذا انقلاب کی کامیابی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ عوام اپنی قوت کو سیاسی جماعت کی شکل دیں تاکہ مستحکم سیاسی فیصلے کر کے سیاسی نتائج حاصل ہوں ورنہ فوج اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو آپس میں لڑائے گی اور اقتدار پر قابض رہے گی۔ صدام حسین ایرانی انقلاب کو مستحکم کرنے کا سبب بنے تھے لیکن مصر کے انقلاب کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی صدام موجود نہیں ہے۔حالات اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ فوج سویلین قیادت کے ماتحت رہتے ہوئے اپنا صحیح کردار قبول کرلے۔
امریکا اور اس کے اتحادی اسلام پرست قوتوں کو بر سر اقتدار آتا نہیں دیکھ سکتے جیسا کہ فلسطین میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات میں واضح کامیابی کے باوجود حماس کو حکومت بنانے سے روک دیا گیا تھا جس کا خمیازہ ابھی تک اسرائیل بھگت رہا ہے۔ اسی طرح افغانی مجاہدین نے روسیوں کے خلاف جہاد کر کے انہیں اپنے ملک سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن انہیں حکومت سازی سے روک کر اندرون ملک خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کر دی گئی اور اب جبکہ افغانی فاتح بن کر ابھرے ہیںتو ایک بار پھر انہیں حکومت سازی کے عمل سے دور رکھنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ یہی کج فہمی ہے جو افغانستان میں امریکا کی شکست کا باعث بنی ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ وہ افغانستان میں جنگ ہار چکا ہے لیکن اپنی انا اور دنیا کی اکلوتی سپر پاور ہونے کا غرور اسے کھلے دل سے شکست تسلیم نہیں کرنے دے رہا۔
اگر امریکا اور مصری فوج واقعی ملک میں جمہوریت اور آئین کی حکمرانی قائم کرنے کے خواہاں ہیں تو انہیں سیاسی قیدیوں کی رہائی، ملک سے ایمر جنسی اٹھانے، ر یاستی سلامتی اور انتقالِ اقتدار جیسے جائز مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔ یہ ہر لحاظ سے جائزمطالبات ہیں جو انتقال اقتدار اورحکومت سازی کے عمل میںممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ مسلح افواج کو چاہیے کہ سول حکمرانوں کے تابع رہ کر کام کرنے پر رضامند ہو جائیں جیسا کہ پاکستانی مسلح افواج نے سویلین اتھارٹی کے ماتحت رہنے کا صحیح کردار قبول کرتے ہوئے امریکا کے ہاتھوں کھلونا بننے کی روایت ترک کر دی ہے۔
فریب‘ دھوکہ اور سازشی حربے استعمال کرنا آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کے لیے بپا کردہ انقلاب کے مقاصد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ اس لیے مصر کے عوام کو ملک میں جمہوری راہیں متعین کرنے کی اسی طرح آزادی ملنی چاہیے جیسا کہ پاکستانی عوام نے فوج کی ایماء پرمکمل آزادی سے اپنے لیے جمہوری راستہ منتخب کیا اور اب ملک سے بد عنوانی کو ختم کرنے اور برے طرزِ حکمرانی سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، جو ہماری جمہوری جدوجہد کا حصہ ہے اور ایک زندہ اور با وقار قوم کی پہچان ہے جو بُرے وقت کو جدوجہد کے ذریعے اچھے اور بہتر وقت میں بدل سکتی ہیں۔ مصر کے عوام کو بھی بہتر مستقبل کے لیے ایسی ہی جدوجہد کا سامناہے۔ ہمارے دلوں میں ان کے لیے کامیابی کی دعائیں ہیں۔
(موصولہ از ’’فرینڈز‘‘ اسلام آباد)
Leave a Reply