چاول کچھ لوگ بے انتہا پسند کرتے ہیں۔ کچھ میں ان کی پسندیدگی قدرے کم دیکھی جاتی ہے جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو چاولوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ پسند کرنے والوں کی اکثریت صرف لذت یا ذائقے تک ہی محدود رہنا چاہتی ہے لیکن ناپسند کرنے والے اپنی جانب سے نت نئی دلیلیں نکالتے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ چاول کھا کر پیٹ نہیں بھرتا ہے یا پھر یہ کہ چاولوں کا روٹی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی نصف سے کچھ زیادہ آبادی کی مستقل غذا چاول ہے۔ جن ملکوں کی مستقل اور اہم غذا گندم ہے‘ ان ملکوں کے باشندوں کے گھروں میں بھی چاول ہر روز نہیں تو کم از کم ہفتے عشرے میں دستر خوان کی زینت ضرور بنتے ہیں۔ اس کے استعمال میں اضافے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ایک تو چاول رکھنے سے خراب نہیں ہوتا‘ دوسرے اس کا پکانا زیادہ آسان ہے۔ کہتے ہیں کہ آدھا کلو وزن کے چاول پکانے کے بعد مقدار میں تین گنا تک بڑھ جاتے ہیں۔ اگر آپ اس بات کا تقابلی جائزہ لینا چاہیں تو اس کا مقابلہ آلو سے کریں کہ آلو پکانے پر اتنے کا اتنا ہی رہتا ہے جبکہ چاول کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
چاول کی غذائیت:
عالمی اہمیت کے لحاط سے چاول مستقل غذا کے طور پر گندم کے استعمال کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ چاول کی فصل کو ’’دھان کی کاشت کرنا‘‘ کہتے ہیں۔ دھان کی فصل کو مستقل طور پر پانی درکار ہوتا ہے اور کاشت کے لیے اس کی پنیری لگائی جاتی ہے۔ چاول ایک ہلکے بھورے رنگ کے خول میں لپٹا ہوا ہوتا ہے جسے ملوں میں مشینوں کے ذریعے صاف کر کے چھلکے اور دانے علیحدہ علیحدہ کیے جاتے ہیں۔ چھلکے اترنے پر جو چاول کے دانے برآمد ہوتے ہیں ان پر قدرتی طور پر حیاتین ’’ب‘‘ کی ہلکی سی پرت موجود ہوتی ہے لیکن یہ مرکب چھلکا اتارنے اور پالش کرنے کے دوران تقریباً ۹۰ فیصد تک ضائع ہو جاتا ہے۔ تاہم اس کے بعد بھی جو وٹامن بچ پاتے ہیں انہیں جزو جسم بنانے کے لیے ضروری ہے کہ چاول کو اتنے پانی میں ابالا جائے کہ پیچ پھینکنے کی نوبت نہ آئے۔ اس طرح چاول کے حیاتین ضائع نہیں ہوتے ہیں۔ اگرچہ مقدار کے لحاظ سے چاول میں لحمیات (پروٹین) گندم سے کم ہوتی ہے لیکن معیار کے لحاظ سے یہ ایک بہتر غذا ہے۔ بھورا چاول‘ یعنی وہ چاول جس سے چھلکا کوٹ کر الگ کیا جاتا ہے‘ کے اوپر حیاتین کی بھوری پرت رہ جاتی ہے۔ یہ چاول غذائیت کے لحاظ سے کھانے کے لیے بہترین ہوتے ہیں۔ بھورے مائل چاول میں سفید چاول کے مقابلے میں بیس سے پچیس فیصد لائی سین (Lysine) کی مقدار ہوتی ہے جو انسانی صحت کے لیے مفید ہے۔ چاول میں سوڈیم بھی پایا جاتا ہے تاہم اس کی مقدار کافی کم ہوتی ہے۔
چاول اور تاریخ:
دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں چار تہذیبیں مصری تہذیب‘ بابلی (عراق) تہذیب‘ ہندوستانی تہذیب اور چینی تہذیب شامل ہیں لیکن ان چاروں میں سے صرف چینی اور ہندوستانی تہذیبوں میں ہی زمانہ قدیم سے چاول کا استعمال ثابت ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چین میں چاول تقریباً ۷ ہزار سال قبل بھی پایا اور پکایا جاتا تھا۔ ماہر آثارِ قدیمہ ہندوستان میں بھی چاول کی قدامت کا عرصہ لگ بھگ چین جتنا پرانا ہی بتاتے ہیں۔
چاول اور معاشرت:
چین اور ہندوستان کی معاشرتی زندگی میں چاول کا ایک استعمال یہ بھی تھا کہ نوبیاہتا جوڑے پر لوگ نیک دعائوں کے اظہار کے لیے چاول نچھاور کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے جوڑے کی ہونے والی اولاد میں خیر و برکت آئے گی‘ فصلیں اچھی ہوں گی اور یہ گھرانہ پھلے پھولے گا۔
جاپان کی ایک دیومالی روایت (myth) ہے کہ پہلے پہل سورج دیوی نے آسمان پر چاول اگائے تھے اور پھر خوش ہو کر چاول کے بیج اس نے جاپان کے بادشاہ کی اولاد کو تحفتاً دیے۔ واضح رہے کہ جاپان میں صدیوں تک دولت ناپنے کا معیار چاول ہی تھا۔ جاگیرداروں کی حیثیت کا تعین اس بات سے کیا جاتا تھا کہ ان کی ملکیت میں چاول پیدا کرنے والی زمین کتنی ہے۔ عہدِ قدیم کی بعض تہذیبوں میں سامورے یعنی جنگجوئوں کو تنخواہ کے طور پر چاول دیے جاتے تھے۔ جاپانی اور چینی زبانوں میں مشترکہ طور پر ’’کھانے‘‘ کے لیے لفظ ’’چاول‘‘ بولا جاتا ہے۔ جاپان میں چاول کے دیوتا کو مذہبی عقائد میں اہم مقام حاصل ہے اور وہاں ’’اناری دیوتا‘‘ کے ہزاروں مندر ہیں۔ جاپانی لوگ سالِ نو کی خوشیاں منانے کے لیے صرف چاول کے کیک بناتے ہیں جن کو وہ ’’موچی‘‘کہتے ہیں۔ انڈونیشیا میں جاوا کے علاقے میں چاول کی دیوی سری کا دیا ہوا تحفہ مانا جاتا ہے۔ یہ لوگ اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ چاول میں روح ہوتی ہے۔
چین میں چاول ضائع کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو جتنے چاول کھانے کو دیتے ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ بچے وہ تمام کھالیں اور پلیٹ میں کچھ نہ چھوڑیں۔ ایک دلچسپ چینی روایت میں کہا گیا ہے کہ ’’جو بچہ چاول کا ایک دانہ اپنی پلیٹ میں چھوڑے گا‘ اس کی ہونے والی بیوی کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہو گا اور اگر لڑکی اپنی پلیٹ میں ایک دانہ چھوڑے گی تو اس کے ہونے والے خاوند کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہو گا‘‘۔ چین میں اگر کوئی ملازمت یا روزگار چھوڑتا ہے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ’’اس نے چاول کا ڈونگا توڑ دیا ہے‘‘۔ چینی تہذیب میں چاول کے ڈونگے کا الٹ جانا بدقسمتی کی علامت نیز چاول زمین پر پھینکنے کو بھی انتہائی ہتک آمیز فعل سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کھانوں میں چاول کی مختلف لذیذ ڈشیں موجود ہیں۔
چاول اور طب:
قدیم چین میں غذا کے علاوہ چاول بطور دوا بھی مستعمل تھا۔ مثلاً ہڈیوں کے درد‘ پیٹ کی خرابی اور زکام میں چاولوں کو سینک کر ان کے ساتھ پسی ہوئی ادرک ملا لی جاتی تھی۔ اس مرکب کو شراب میں گرم کر کے کپڑے کی پوٹلی میں باندھ کر جوڑوں‘ چھاتی اور پیٹ پر پھیرا جاتا تھا‘ جس سے مریض کو افاقہ محسوس ہوتا تھا۔
طب یونانی کے مطابق چاول صالح خون پیدا کرتا ہے‘ پیاس کو رفع کرتا ہے۔ اس کا مزاج سرد و خشک ہے۔ دودھ اور چاول کو باہم ملا کر کھانے سے فربہی پیدا ہوتی ہے۔ جس پانی میں چاول ابالے جائیں اس پانی کو اردو میں ’’پیچ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پیچ اسہال اور پیچش کے مریض کو دورانِ مرض پلانے سے افاقہ ہوتا ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply