سب سے پہلے یہ وضاحت کہ چونکہ ہمارا تناظر پاکستان ہے، اس لیے یہاں رائٹ ونگ سے مراد پاکستانی رائٹسٹ یعنی اسلامسٹ یا مذہبی طبقہ ہی ہے۔ آسان الفاظ میں وہ لوگ جو مذہب کو صرف انفرادی معاملہ نہیں سمجھتے، جن کے خیال میں اسلام کو ریاست اور اجتماعی معاملات کا بنیادی محور ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں دونوں اطراف میں صف بندیاں واضح ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک سائیڈ جو کسی زمانے میں پاکستانی لیفٹ پر مشتمل تھی، اب وہاں لبرل،سیکولر حلقۂ فکر ہتھیار سنبھالے صف آرا ہے۔ تعداد ان کی کم ہے، مگر چونکہ یہ بہت منظم اور یکسو ہیں، وسائل کی کمی نہیں، حالات موافق، بیرونی عوامل سازگار اور تاریخ پشت پر کھڑی ہے، اس لیے ان کی طاقت جتنی نظر آ تی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ انہیں بڑی کمک اس سیاسی عنصر سے بھی ملی، جو ماضی میں خود کو رائٹسٹ کہلاتے اور اسی بنا پر ووٹ لیا کرتے تھے، اب وہ علانیہ خود کو لبرل اور ترقی پسند کہتے اور عالمی سطح پر اپنا سافٹ امیج بنانے کے خواہاں ہیں۔میرا اشارہ واضح ہے،کسی کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوگی۔
مشکلات کا سامنا رائٹ ونگ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ تعداد ان کی بہت زیادہ ہے، خاموش اکثریت تو ہے ہی، لاکھوں کی تعداد میں پرجوش، خود کو منوانے کے خواہاں نوجوانوں کی حمایت انہیں حاصل ہے۔ مسئلہ قیادت کا ہے،جو انہیں میسر نہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ترجمانی کا ہے، ان کا مقدمہ لڑنے والا، دلیل سے موقف پیش کرنے اور نئی نسل کے سوالات کا جواب پیش کرنے والا کوئی نہیں۔ رائٹ کا پرانا بیانیہ گھسا پٹا ہے، نیا بیانیہ اس لیے سامنے نہیں آسکا کہ نئے رائٹسٹ اہلِ دانش تیار ہی نہیں ہوسکے۔ پرانے لوگوں نے ساٹھ اور ستر کے عشرے میں بھرپور نظریاتی جنگ لڑی۔ اپنے حصے کا کام انہوں نے کر دکھایا اور کیا خوب کیا۔ نام لینے کی ضرورت نہیں، سب انہیں جانتے ہیں۔ کون ہے جوالطاف حسن قریشی، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، محمد صلاح الدین، میجر ریٹائر ابن الحسن،سجاد میر، عبدالمجید عابد وغیرہ سے واقف نہیں۔ ون مین آرمی کی شکل میں مجید نظامی مرحوم کے کردار کو کون بھلا سکتا ہے،نظریہ پاکستان کے دفاع کا مورچہ انہوں نے کمال طریقے سے سنبھالا اورآخری سانسوں تک اپنے بوٹ نہیں اتارے۔ رائٹسٹ لکھاریوں کی اس فہرست میں اور بھی بہت سے نام شامل ہوسکتے ہیں۔ ایک خاص زمانے میں رائٹ، لیفٹ کی کشمکش میں انہوں نے اسلامی نظریات کا دفاع کیا، سوشلزم، الحاد اور سیکولرازم کے خلاف ایسی مضبوط دیوار کھڑی کی، جس میں شگاف ممکن نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بدترین ریاستی تشدد بھی برداشت کیا، جیلیں کاٹیں، بیروزگاری بھگتنا پڑی۔ آج کا منظرنامہ مختلف ہے۔ رائٹ کے پرانے لشکریوں میں سے کئی مٹی اوڑھے پرسکون نیند لے رہے ہیں، وقت نے بعض پر ضعف طاری کر دیا،پہلے جیسی توانائی رہی نہ ہی لڑنے کی مزید سکت۔ کچھ ایسے بھی ہیں،جن کی فکر میں تبدیلی آ گئی اور اب وہ روایتی رائٹ کے بجائے سنٹرمیں رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی جگہ جن کو لینا چاہیے تھی، وہ صف تشکیل ہی نہ پا سکی، سیاست نظریے پر غالب آگئی،بعض کونظریاتی بحثوں کی جگہ کرنٹ افیئر مرغوب ہوئے، کچھ سیاسی جماعتوں کی اندرونی کشمکش میں الجھ گئے۔ اکثر کا نئی نسل کے ساتھ رابطہ ہی منقطع ہوگیا۔ جدید میڈیا کے اپنے تقاضے ہیں،سوشل میڈیا کو نظر انداز کر کے صرف مین اسٹریم میڈیا کے ذریعے اب کوئی لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔اس کا ادراک رائٹ ونگ سے زیادہ ان کے مخالفین کو ہے، رائٹسٹ جماعتیں ابھی کچھ کرنے کا سوچ رہی ہیں، دوسری طرف والے بہتر جگہ پر قابض ہوکر مورچہ بند ہوچکے۔
رائٹ ونگ کے سامنے دو تین بڑے چیلنج ہیں۔ ان پر دیا جانے والا ردعمل ہی ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ سب سے بڑا چیلنج تو خود اہل مذہب کی جانب سے پیدا ہوا ہے۔ مذہب کا نام لے کر مذہبی صفوں ہی سے شدت پسندوں کے چند گروہ سامنے آئے اور انہوں نے ملک میں قتل وغارت شروع کر دی۔ تحریک طالبان پاکستان ہو یا القاعدہ، لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد سمیت دیگر کالعدم فرقہ ورانہ تنظیمیں ہوں یا پھر حزب التحریر جیسے بظاہر پرامن اور داعش جیسے پرتشدد گروہ۔۔۔ ان سب نے مختلف مذہبی تعبیریں ہی استعمال کیں اور مذہب کے نام پر سادہ، جذباتی نوجوانوں کو ساتھ ملا کر وہی خوفناک کام کیا جو ایک زمانے میں حسن بن صباح کے حشیشین نے کیا تھا۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مذہب کا نام اور چہرہ بدنام ہوا۔ جہاد جیسی مقدس اسلامی اصطلاحات پر حرف آیا اور آج اگر کوئی شخص علانیہ جہاد کا نام لے تو لوگ اسے مشکوک نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ خلافت جیسی اصطلاحات کاایسا بھیانک استعمال ہوا کہ اب خلافت کی بات کرنے والوں پر بھی داعش کا حامی ہونے کا لیبل چسپاں ہوجاتا ہے۔اس حوالے سے پروپیگنڈا بہت زیادہ ہے،مگر سب باتیں بے بنیاد نہیں ہیں،ہماری آنکھوں کے سامنے پچھلے چند برسوں میں بہت کچھ ہوا بھی ہے۔رائٹ ونگ کو اس حوالے سے دانش مندی اور جرات سے کام لینا ہوگا۔ مذہب کی شدت پسند تعبیر کرنے والوں سے خود کو دور کرنا ہوگا۔ جو عالمگیر ایجنڈا رکھنے والے گروپ سرحدوں کو بے معنی سمجھتے اور پاسپورٹ، ویزوں سمیت جمہوری سیاسی نظام کو کفریہ نظام کہتے ہیں، یہ اصل میں ان مویشیوں کی طرح ہیں،جن کی دم کو آگ لگا کر قدیم زمانے میں دشمن لشکر کی طرف ہانک دیا جاتا تھا کہ ہر جگہ آگ لگا کر افراتفری پھیلائیں۔ ان سب سے رائٹسٹوں کوکھل کر اعلانِ ِ لاتعلقی کرنا ہوگا۔
دوسرا بڑا چیلنج ماضی کے تیس برسوں میں بنائی جانے والی ریاستی پالیسیاں ہیں۔ اَسّی کے عشرے میں ہم نے روس کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کی حمایت کی۔ دنیا کی سب سے بڑی گوریلا جنگ اس خطے میں لڑی گئی، جس کے نتیجے میں روس کو شکست فاش ہوئی،آخر کار اس کی شکست وریخت پر منتج ہوئی۔ بعد میں اسے سمیٹتے ہوئے جو غلطیاں ہوئیں، وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اگلے مرحلے پر مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہے۔ اس میں کشمیری جہادی تنظیموں نے جو کردار ادا کیا، ایک دو سے بڑھ کر یہ تنظیمیں چھ سات تک کیسے پہنچ گئیں؟ پھرنائن الیون کے بعد جس طرح خطے کی صورتحال بدل گئی، ریاست کو یوٹرن لینا پڑا اور پھر مصلحتوں کے تحت امریکا کے ساتھ ڈبل گیم کھیلی گئی،مگر اس ڈبل گیم کو نہ سمجھنے والے جذباتی، پرجوش جہادی سپلنٹر گروپوں نے ملک کے اندر جوقیامت ڈھائی، اس سب نے بھی کچھ سوالات کھڑے کر دیے۔ رائٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو ان تمام کٹیلے، نوکیلے، تیکھے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے ہیں۔ ان سوالات کے حوالے سے جو تنقید کے تیر مخالف سمت سے چلائے جاتے ہیں، انہیں بھی سہنا ہے،ان کا جوابی بیانیہ بھی تیار کرنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس شدت پسند مذہبی گروپوں اور ان کے ہم خیالوں کے لیے بھی ایک بیانیہ تشکیل دینا ہے۔
آج کے رائٹسٹ کی مشکل بڑھ چکی ہے۔ اسے مذہبی بیانیہ کے خلاف لبرل، سیکولر حلقوں کی تنقید کے ساتھ مذہب مخالف ایجنڈا رکھنے والے ملحد سائنس دانوں، دانشوروں کے اعتراضات کا جواب تلاش کرنا ہے۔ اگلا کام مذہبی شدت پسندوں کے خلاف ایک جامع بیانیہ تشکیل دینے کا ہے۔ سیکولروں سے یہ کام نہیں ہوسکتا، نہ ہی معذرت خواہ ماڈریٹ اسلامسٹ ایسا کر پائیں گے،جن کا موقف آخری تجزیے میں سیکولرازم ہی کو تقویت پہنچاتا ہے۔ یہ کام بذات خود بہت بڑا ہے، مگر رائٹ کا کام صرف یہی نہیں۔ انہیں اپنے اندر بھی خود احتسابی کرنی ہے۔جن نظریات، خیالات پر وہ برسوں بلکہ عشروں سے قائم رہے، آج ان پر نظرثانی کا وقت آگیا ہے۔ ماضی کے موقف پر دیانت داری سے غور کرنا ہوگا۔ ہر چیز، ہر رائے کو مسترد کرنا ضروری نہیں۔ اصل مقصد حق اور سچ تک پہنچنا ہے۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ رائٹ کی نوجوان نسل نے یہ سب کچھ خود کرنا ہے،ان کے سوالات کے جوابات پچھلوں سے نہیں مل سکتے۔ یہ جواب خود ڈھونڈنے،آپ ہی تلاش کرنے ہیں۔ ہم سے پہلے والوں نے اپنے دور میں جسے مناسب سمجھا، دیانت داری سے وہ کیا۔ آج اگر ان میں سے کچھ باتیں غلط ثابت ہوگئی ہیں، تاریخ نے ان پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے تو ہمیں ان کی چھان پھٹک کرنی چاہیے۔ جو بات درست ہے، جتنی ٹھیک ہے، اتنی مان لی جائے،جہاں غلطی ہوئی ہے، اسے تسلیم کیا جائے، سنوارنے کی کوشش کی جائے۔ غلطیوں سے زیادہ، ان پر اصرار نقصان دہ ہوتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’دنیا‘‘ کراچی۔ ۳ مارچ ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply