بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے بانی مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتابوں پر پابندی لگائی جانے کی خبر آئی تو ہماری نگاہوں میں فرانس کے مشہور فلسفی جان پال سارتر، مشہور انقلابی اور گوریلا لیڈر چے گیوارا اور شہرۂ آفاق برطانوی مصنف رابرٹ لیبر کی تصویریں گھوم گئیں۔ آپ شاید حیران ہو رہے ہوں کہ مولانا مودودیؒ کی سارتر، لیبر یا چے گیوارا سے کیا نسبت۔ لیکن ٹھہریے، اس وقت سارتر اور چے گوارا کی صرف خیالی تصویریں ہمارے سامنے نہیں، سچ مچ کی ایک تصویر ہمارے سامنے ہے جس میں ایک صوفے پر جان پال سارتر اور اس کی محبوبہ مشہور ادیبہ سائمن ڈی بوار تشریف فرما ہیں اور ایک کرسی پر گوریلا لیڈر چے گیوارا ان سے باتیں کر رہا ہے۔
یہ تصویر کیوبا کے کسی نامعلوم مقام پر ۱۹۶۰ء میں اُتاری گئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کیوبا کا انقلابی لیڈر فیڈل کاسترو اپنے ملک پر امریکی غلبے کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ جان پال سارتر ساری دنیا میں عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اسے ایک عظیم مفکر و فلسفی تسلیم کیا جاتا ہے، جس کو ۱۹۶۴ء میں ادب کا نوبل انعام پیش کیا گیا تھا لیکن اس نے احتجاجاً اس انعام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سید مودودیؒ کی طرح سارتر بھی فرانس کے ایک علمی خانوادے کا چشم و چراغ تھا۔ اس کا ذاتی رجحان بھی علمی و ادبی تھا لیکن نوجوانی میں اس نے فوج کی ملازمت اختیار کر لی تھی۔
دو سال بعد اس نے علم و ادب کی طرف مراجعت کی لیکن پھر دوسری جنگِ عظیم کے دوران وہ پھر فوج میں چلا گیا۔ جرمن فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ رہائی کے بعد اس نے زیرِ زمین انقلابی تنظیم بنائی اور سوشلسٹ انقلاب کی تیاریاں شروع کر دیں۔ انسانوں سے محبت اور غلامی سے نفرت نے اسے اپنے ہی ملک کی فوج کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر دیا اور اس نے الجزائر میں فرانس کے مظالم کے لیے پوری فرانسیسی قوم کو ذمہ دار قرار دیا۔ چے گیوارا جیسے خونخوار گوریلے کے بارے میں اس کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ اس کی کہانی پوری دنیا کی کہانی کے ساتھ دوڑ رہی ہے۔ وہ فیڈل کاسترو سے ملا، چے گیوارا کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں لیکن دنیا اس کو احترام کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ وہ ایک عظیم فلسفی، دانشور اور مصنف ہے۔ فرانس کو اس پر ناز ہے، یورپی اقوام اس پر فخر کرتی ہیں، امریکا میں اس کی کتابیں ہر لائبریری میں شان سے سجائی جاتی ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے زندگی بھر نہ تو خود کبھی ہتھیار اٹھایا نہ کسی کو ہتھیار اٹھانے کا حکم دیا، نہ کوئی گوریلا تنظیم بنائی، نہ گوریلوں کی حوصلہ افزائی کی نہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ انقلاب بندوق کی نال سے نکلتا ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے جمہوری طریقوں سے ملک میں انقلاب لانے کی جدوجہد کی، احتجاج کیے، جلسے جلوس اور مظاہروں کا سہارا لیا، پوسٹر بینر، رسالوں، جریدوں، اخباروں اور کتابوں سے رائے عامہ ہموار کرنے کی جدوجہد کی، گرفتاریاں دیں، جیل گئے۔ ان کی درجنوں تصانیف میں کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں جو رابرٹ لیبر کی تصنیف ’’مکھی کی جنگ‘‘ War of Fly کی طرح انقلابیوں کو گوریلا جنگ کی ترغیب دیتی ہو اور ان کو لڑائی کے گُر سکھاتی ہو۔ لیکن رابرٹ لیبر جو ساری دنیا میں گھوم گھوم کر گوریلوں کو حملوں کی تربیت دیتا تھا، ان کو بتاتا تھا کہ یہ جنگ کتے اور مکھی کی جنگ ہے۔ مکھی کتے کے کان پر بیٹھتی ہے، وہ وہاں کاٹتا ہے، پھر اُڑ کر دُم پر بیٹھتی ہے وہ وہاں کاٹتا ہے اسی طرح وہ اُڑ کر جگہ بدلتی رہتی ہے اور کتا کاٹ کاٹ کر پاگل ہو جاتا ہے۔ گوریلوں کی بائبل کا درجہ رکھنے والی کتاب کے مصنف رابرٹ لیبر کا نام تو مشرق و مغرب میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی کسی کتاب پر دنیا کے کسی حصے میں کوئی پابندی نہیں۔ شاید یہ کتابیں کسی کے لیے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ کتابیں خطرہ ہو بھی نہیں سکتیں۔ لیکن بنگلا دیش کی جمہوری حکومت کو مولانا مودودیؒ کی کتابوں سے دہشت گردی کا خطرہ ہے۔
مولانا مودودیؒ کے سیاسی و سماجی نظریات سے ہمیں اختلاف ہو سکتا ہے اور ہے بھی۔ خود ہم بھی ان کی کئی تعبیرات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے افکار و نظریات پر علماء کے درمیان شدید اختلافات رہے ہیں یہاں تک کہ ان کے بعض اقوال پر علماء کے بعض حلقوں کی جانب سے کفر تک کے فتوے دیے گئے۔ توبہ کا مطالبہ کیا گیا لیکن کسی نے ان کی کتابوں کو ضبط کرنے یا ان پر پابندی لگانے کا مطالبہ نہیں کیا اور کسی جمہوری معاشرے کے لیے یہ ہرگز کوئی صحت مند رجحان نہیں۔ کسی ذی علم کو انکار نہیں ہوسکتا کہ عہدِ جدید میں اسلامی تعلیمات کی تفہیم و تعبیر اور جدید اسلوب میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مولانا مودودیؒ کی گراں قدر خدمات ہیں۔ انہوں نے مسلم معاشرے کو اسلامی اصولوں پر عمل پیرا اور منظم کرنے کی تحریک چلائی۔ اس راہ میں ان سے غلطیاں بھی ہوئیں، ان کی تحریک بوجوہ کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کتابوں پر پابندیاں لگا دی جائیں؟ بنگلا دیش کی موجودہ حکومت جمہوریت کی علمبردار اور سیکولرازم کی دعویدار ہے۔ جمہوریت پرستوں کی انتہا پسندی کا یہ سلسلہ چل پڑا تو کہاں جاکر ٹھہرے گا؟ ابھی کل ہی کی بات ہے ہماری سپریم کورٹ نے امریکی مصنف رچرڈ لین کی کتاب ’’شیواجی: اسلامی ہندوستان میں ایک ہندو راجہ‘‘ پر حکومت مہاراشٹر کی پابندی کے سلسلے میں فیصلہ سنایا ہے اور ہندوستان کے فرقہ پرست عناصر اس کے خلاف ہنگامہ آرائی کر رہے ہیں۔ اس رجحان پر سختی سے قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ یکم اگست ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply