
پہلی بات یہ ہے کہ آڈیشن (اداکار ی یا گلوکاری کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے لیے دی جانے والی مختصر پرفارمنس) نے مجھے ہوائی اڈے سے آسانی سے نکل جانے کے قابل بنایا، تاہم بعد میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔ میں ایک اداکار ہوں۔ اپنے لڑکپن سے ہی میں مختلف کردار ادا کرتا رہا تھا۔ اس دوران مجھے اپنی پاکستانی فیملی کی ثقافتی توقعات کا بھرم، ایک ایشیائی نژاد برطانوی لڑکے کا دوٹوک کلچر اور ایک نجی اسکول میں اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنے کے جواز جیسے مسائل سے بھی نمٹنا تھا۔ میری ذاتی شناخت کا الجھا ہوا پہلو، جس پر ایشیائی ہونے کی چھاپ زیادہ گہری تھی، کسی بھی روشن دن میرے لیے مسائل بڑھا سکتا تھا، اور ایسا بارہا ہوا۔
۱۹۸۰ء کی دہائی کے دیگر بچوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے ایک دن مجھے اور میرے بھائی کو ایک نوجوان نے روکا اور میرے بھائی کے گلے پر چاقو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم اُن کے نزدیک سیاہ فام تھے۔ اس کے ایک عشرہ بعد میرے گلے پر بھی چاقو رکھا گیا۔ یہ چاقو ایک ’’پاکی‘‘ (پاکستانیوں کو مغرب میں طنزاً اس نام سے پکارا جاتا تھا) کے ہاتھ میں تھا۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ہم اسی لیبل سے پکارے جاتے تھے۔ اگلی مرتبہ میں نے خود کو انتہائی لاچار پایا‘ جب میں لوٹن ایئرپورٹ کے ایک بند کمرے میں تھا اور میرے بازو پر تکلیف دہ حد تک آرم لاک لگا ہوا تھا جبکہ دیگر برطانوی انٹیلی جنس افسران نے میری گردن کو موڑتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگا دیا تھا۔ یہ نائن الیون کے بعد کی بات ہے۔ میں مسلمان تھا۔
اقلیتی گروہ سے تعلق رکھتے ہوئے آپ غصہ دکھانے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ آپ کی جدوجہد کا تمام اثاثہ گروی رکھا ہوتا ہے۔ آپ کا ذاتی کوہ نور ہیرا کسی اور کے تاج میں جڑا آپ کا منہ چڑاتا ہے۔ اس کے عوض آپ کو ایک علامتی نیکلس دے دیا جاتا ہے جس میں آپ کے انتخاب کو دخل نہیں ہوتا، لیکن وہ آپ کو اپنی گردن کے گرد سجانا پڑتا ہے۔ میرے اداکار بننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں شاید اس نیکلس کو قدرے مزید موتیوں سے سجانے میں کامیاب ہو جاؤں۔ ایک نوعمر لڑکا، جس کا کوہ نور چھن گیا ہو، کے لیے یہ تصور قدرے طمانیت بخش تھا۔
فلموں میں، میرا کردار ایک ایسے لڑکے کا تھا جو دیگر سیاروں کی عجیب الخلقت مخلوق کو انسان بنا سکتا تھا۔ شاید اس میں امید کا ایک پہلو نکلتا تھا، تاہم مجھے احساس تھا کہ اقلیتیں مرحلہ وار ہی آگے بڑھ کر اپنا مقام بنا سکتی ہیں، چنانچہ میں ایک طویل سفر کے لیے تیار تھا۔ اس سفر کے بہت سے مرحلے تھے۔ پہلا مرحلہ دو جہتیں رکھتا ہے۔ منی کیب کا ڈرائیور یا دہشت گرد یا کسی دکان کا مالک۔ یہاں آ کر نیکلس قدرے تنگ ہو جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ مسخ شدہ کردار نگاری کا تھا۔ اس کا انتخاب بھی ’’نسل پرستی‘‘ ہی تھا لیکن یہ موجودہ جامد تصورات کو چیلنج کر رہا تھا۔ اس کی وجہ سے نیکلس قدرے ڈھیلا ہو گیا۔ تیسرا مرحلہ اُس آفاقی سرزمین پر قدم رکھنا تھا جہاں آپ ایسا کردار ادا کرتے ہیں جس کی کہانی اس کی اپنی نسل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ اس کہانی میں مجھ پر دہشت گردی کا شک نہیں ہو سکتا تھا، اور نہ ہی کسی پر جبری طور پر شادی کا معاہدہ مسلط کیا جا سکتا تھا۔ اس کہانی میں میرا نام ڈیوڈ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں نیکلس موجود نہیں، اور نہ ہی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔
میں نے نائن الیون کے بعد کی ہنگامہ خیز دنیا میں پہلے مرحلے میں قدم رکھا۔ یہ ایک جامد کردار تھا۔ فرض کریں کسی ٹیکسی والے یا دکاندار کا، لیکن چونکہ میں صرف اٹھارہ سال کا تھا، اس لیے میں نے اس جامد دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ خوش قسمتی سے دوسرے مرحلے میں قدم رکھنے کا تھوڑا سا موقع مل گیا، اور میں نے حقیقی کرداروں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے فرضی کرداروں کی دنیا میں چھلانگ لگا دی۔ میری پہلی فلم مائیکل ونٹر بوٹم کی ’’The Road to Guantánamo‘‘ تھی۔ یہ فلم برمنگھم سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ایک گروہ کی کہانی سناتی ہے جنہیں امریکا کے حراستی کیمپ میں غیر قانونی طور پر رکھ کر تشد د کا نشانہ بنایا گیا۔ جب اس فلم کو برلن فلم فیسٹیول میں ایوارڈ ملا تو ہم خوشی سے دیوانے ہو گئے۔ جن لوگوں نے یہ فلم دیکھی، اُنھوں نے اورنج جمپ سوٹ پہننے شروع کر دیے، تاہم ایئرپورٹ سکیورٹی کو ہمارے بارے میں علم نہ تھا۔ جب ہم فلم فیسٹیول میں کامیابی کے بعد، خوشی سے سرشار لوٹن ایئرپورٹ پر پہنچے تو ستم ظریفی یہ ہوئی کہ برطانوی انٹیلی جنس افسران مجھ پر پل پڑے۔ ایک نے میرے بازو پر اتنی شدت سے آرم لاک لگایا کہ لگا جیسے میرا بازو اکھڑ جائے گا۔ دوسروں نے مجھے دھمکیاں دیں اور پھر مجھ پر حملہ کر دیا۔ ایک نے میری گردن دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے دھاڑ کر کہا… ’’کس قسم کی فلمیں بناتے ہو تم؟ کیا تم مسلمانوں کی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے اداکار بنے ہو؟‘‘ ساتھ ہی میرا بازو اور گردن مزید مروڑ دی گئی۔
یہ سوال پریشان کن ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فنکارانہ اظہار کو خطرے میں ڈال دیتا ہے بلکہ اس سے یہ فکر بھی لاحق ہو جاتی ہے کہ ہمارا سکیورٹی اپریٹس دہشت گردی کے حقیقی خطرے کی تفہیم کے قابل نہیں۔ بعد میں اسپیشل برانچ کے افسران کو پتا چلا کہ اُن کا اقدام غیر قانونی تھا۔ مجھ سے وکلا کے نمائندوں نے پوچھا کہ کیا میں قانونی کارروائی کرنا چاہتا ہوں، لیکن اس کی بجائے میں نے اس واقعے کا حال لکھا اور چند ایک صحافیوں کو بھیج دیا۔ فلم کے اداکاروں کو دہشت گرد سمجھ کر غیر قانونی حراست میں رکھنے کا واقعہ ایسا نہ تھا کہ صحافی بھائی اسے نظر انداز کرتے۔ میں خوش تھا کہ میری وجہ سے ایسے معاملات منظر عام پر آ گئے ہیں۔ میں نے اس واقعے سے متاثر ہو کر ایک گانا لکھا، جس کا عنوان تھا: ’’Post 9/11 Blues‘‘۔ اس میں نصیحت تھی، جیسا کہ… ’’ہم سب مشکوک ہیں، چنانچہ ہم سے منہ موڑ لو۔ دھواں چھوڑنے پر مجھے کیمیکل حملے کے الزام میں گرفتار کرو‘‘۔ اس گیت نے کرس مورس (Chris Morris) کی توجہ حاصل کر لی اور اُس نے مجھے ’’Four Lions‘‘ میں کاسٹ کر لیا۔ آخر میں میرا بازو اُس وقت پھر اکھڑنے کے قریب تھا جب لوگ اسٹیج پر دیوانہ وار مجھ سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ اب تک نیکلس بہت ڈھیلا ہو چکا تھا، لیکن ٹھہریں، تیسرے مرحلے کی آفاقی سرزمین کہاں گئی؟
ایسا لگتا تھا‘ جیسے کسی برطانوی اداکار کے سامنے ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جس پر چل کر وہ اس تیسرے مرحلے میں داخل ہو سکے۔ تمام پروڈیوسر کہتے کہ وہ میرے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اُن کے پاس ایسا کوئی مناسب کردار نہیں ہے جو میں ادا کر سکوں۔ جو کہانیاں ۲۰۰۰ء کے وسط میں کثیر ثقافتی ادغام کے پس منظر میں بیان کی جانی تھیں، وہ وہی تھیں جو ۱۷۰۰ء کی دہائی میں لکھی جا چکی تھیں۔ میں نے یہ افواہیں بھی سنیں کہ اداکاری کی وہ ’’آفاقی دنیا‘‘ برطانیہ نہیں، ہالی ووڈ کے لیے ہے۔ اس کی وجہ سادہ ہے۔ امریکا اپنی کہانیاں استعمال کرتے ہوئے اپنا دیومالائی امیج آگے بڑھاتا ہے۔ برطانیہ کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک کثیر ثقافتی ملک ہے، لیکن اس کے بارے میں پھیلنے یا پھیلائی جانے والی کہانی یہ کہتی ہے کہ یہ صرف سفید فام لارڈز یا لیڈیز کا ملک ہے۔ اس کے برعکس، امریکی معاشرہ انتہائی بٹا ہوا ہے، لیکن اس کے بارے میں کہانی یہ سنائی جاتی ہے کہ یہاں آکر تمام نسلوں، مذہبوں اور ثقافتوں کے لوگ یک جان ہو جاتے ہیں۔ ہر کوئی مجرموں پر نظر رکھتا ہے، سب کے سب اکٹھے ہو کر دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہیں؛ چنانچہ میں نے امریکا کی طرف رخت سفر باندھا، اور یہ کوئی آسان سفر نہ تھا۔
آپ شاید جانتے ہوں گے کہ آڈیشن روم میں ہونے والی غلطیاں یا مہارت، اور ایئرپورٹ کے بند کمرے میں کی گئی پُرتشدد تفتیش میں کوئی فرق نہیں۔ ایسے بہت سے مقامات ہوتے ہیں جہاں آپ کو واقعی مسترد کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ خطرہ محض افسانوی نہیں ہوتا۔ ایسی بھی جگہیں ہوتی ہیں جہاں آپ کے چہرے کے بال بھی آپ کی مارکیٹ کی قدر تباہ، بلکہ آپ کو انتہائی خطرے سے دوچار کر سکتے ہیں۔ خبردار، آپ ایک عام شخص ہیں، ڈیوڈ نہیں۔ یہاں نائن الیون کے بعد ایک مرتبہ پھر نیکلس آپ کے گلے میں تنگ ہو جاتا ہے۔ میں نے اب تک آڈیشن کے کمرے میں اس صورت حال سے اپنا بچاؤ کیا تھا، لیکن اب میں امریکی ایئرپورٹس پر تھا۔ یہاں بنائی گئی فلم ’’The Road to Guantánamo‘‘ نے میرے لیے رکاوٹ کھڑی کر دی کیونکہ اس کی شوٹنگ کے لیے ہم بیرونی دنیا میں گئے تھے اور میرے پاسپورٹ پر ’’Axis of Evil‘‘ ریاستوں کے علاوہ پاکستان کی مہر بھی لگی ہوئی تھی۔ میں نے چھ ماہ کے قلیل وقفے میں ایران اور افغانستان کا سفر بھی کیا تھا۔ اب میں امریکی ایئرپورٹ پر لینڈ کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ میرا کیا حشر ہو گا۔ جب میں اترا تو ایک افسر نے میری جلد کی رنگت سے ہی مجھے پہچان لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ صاحب کیوبا کی سرحد پر بھی فرائض سرانجام دے چکے تھے۔ اُس نے ایک نظر میرے پاسپورٹ پر ڈالی، دوسری مجھ پر، چہرے کے تاثرات بدل گئے، اور میرے امیگریشن کارڈ پر ایک بڑا سا ’’P‘‘ لکھ دیا۔ میں نے فوراً نے سوچا کہ اس نے ’’Paki‘‘ کی نشاندہی کی ہے، لیکن اُس نے جیسے میری سوچ پڑھ لی، مجھے بتایا کہ یہ ’’پروٹوکول‘‘ ہے۔
اس کے بعد مجھے ایک طویل راہداری سے لے جایا گیا۔ راستے میں کسی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اور جب مجھے ایک سائیڈ روم میں لے جایا گیا تو یہ میرا جانا پہچانا تھا۔ ایک چینی خاندان اور ایک جنوبی امریکا کے پائلٹ کے علاوہ باقی تمام افراد کی شباہت مجھ جیسی تھی اور اُن سب کے ہاتھ میں قلم تھے اور وہ کچھ لکھ رہے تھے۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہ سب کے سب ایک ساتھ مجھے گھورنے لگے۔ ایسا لگتا تھا جیسے بالی ووڈ میں Being John Malkovich کی شوٹنگ ہو رہی ہے۔ یہ منظر احساس دلاتا تھا کہ تم لوگ ایک ’’ٹائپ‘‘ ہو، اور آپ کا منہ کھلنے سے پہلے آپ کا چہرہ بہت کچھ کہہ دیتا ہے۔ آپ ایک فرد ہونے سے پہلے ایک ’’اہمیت‘‘ رکھتے ہو، آپ اس اسٹیج پر پردہ کے پیچھے ہو۔ اس خوف سے لبریز کمرے میں ہاتھ میں قلم پکڑنا بھی آڈیشن دینے سے کم نہیں تھا۔ ہر کوئی نروس تھا، لیکن یہ پریشانی ہمارے درمیان اتفاق اور یگانگت پیدا نہیں کر رہی تھی کیونکہ معاملہ مسابقت کا تھا۔ اس صورت حال میں آپ اپنی شخصیت کو پہچان رہے ہوتے ہیں یا اس کی پہچان کرا رہے ہوتے ہیں۔ ایک حوالے سے آپ یہ کہتے ہیں۔۔۔ ’’میں ان جیسا نہیں ہوں‘‘۔
جب ایئر پورٹ پر تفتیش کی گئی تو یہ میرا ’’سلم ڈاگ میلینز‘‘ کا آڈیشن نہیں، کسی کار کا ایکسیڈنٹ لگتا تھا۔ ترو تازہ چہرے والا ڈیسک آفیسر شاید ۲۳ برس سے زیادہ کا نہیں تھا۔ جب اُس نے مجھے ’آڈیشن‘ کے لیے طلب کیا تو اپنے پاسپورٹ پر لگی مہروں کی وضاحت کرنے کے لیے میری تقریر تیار ہوچکی تھی۔ میں نے اُسے فلم پروڈیوسرکی طرف سے وصول ہونے والا خط دکھایا۔ فوراً ہی دوسرا داؤکھیلتے ہوئے ایک نئی، چمکدار ڈی وی ڈی لہرائی اور کہا: ’’ایوارڈ یافتہ فلم‘‘ لیکن خدا آپ کا بھلا کرے، مجھ سے تفتیش کرنے والا نوجوان مجھ سے بھی زیادہ نروس ہوچکا تھا۔ غالباً وہ “Beware Bloodthirsty Actors” سیمینار میں شرکت کرچکا تھا۔ حکم ملا: ’’کاؤنٹر سے دور کھڑے ہو‘‘۔ میں اچھلا اور اُس قطار میں شامل ہوگیا جس کی تفتیش ایک مزید خطرناک دکھائی دینے والا تندومند شخص کر رہا تھا۔اُس کی مونچھیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں۔ میں انتظار کرتے ہوئے اُس کے سامنے بولی جانے والی لائنوں کی ریہرسل کرنے لگا۔ جب میری تفتیش کی باری آئی تو ایسے لگا جیسے میرا کسی تیز رفتار کار سے ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ یہ کسی فلم کے لیے آڈیشن دینے کا معاملہ نہیں تھا۔ پاسپورٹ پر لگی مہروں پر نظر ڈالتے ہی وہ دھاڑا: ’’اوئے افغانستان؟ کس قسم کی فلم بناتے رہے ہو تم وہاں؟‘‘
یہ وہی سوال تھا جو مجھ سے لوٹن ایئرپورٹ پر پوچھا گیا، جب میرے بازو پر آرم لاک لگا ہوا تھا اور میری گردن دیوار کے ساتھ خطرناک زاویے سے مڑی ہوئی تھی۔ اس دوران میں خود سے بھی ایک سوال کر رہا تھا کہ کیا میں تیسرے مرحلے کی طرف بڑھ رہا ہوں یا دوسرے یا پہلے کی طرف؟ نیکلس ڈھیلا ہو رہا ہے یا مزید تنگ؟ میں نے اُن نازک لمحات میں جلدی سے درست جواب سوچنے کی کوشش کی۔ ’’The Road to Guantánamo‘‘ ڈاکومنٹری ڈراما تھا، لیکن اگر میں کہتا کہ میں نے Guantánamo Bay پر ڈاکو منٹری بنائی تھی تو وہ کچھ اور سمجھ لیتا؛ چنانچہ میں نے اُسے سمجھایا کہ ’’The Road to Guantánamo‘‘ ایک ایوارڈ یافتہ ڈراما تھا۔ خاموشی کا ایک طویل وقفہ اور اس دوران میرے دل کی دھڑکن برہم۔ پھر اس کی پیشانی پر فکر انگیز لکیر گہری ہونے لگی، تو میں نے اُس کے سامنے وہی نئی اور چمکدار ڈی وی ڈی لہرائی۔ اس پر میری تصویر بھی تھی اور میں نے اورنج جمپ سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اورنج سوٹ پر نظر پڑتے ہی میں خود ہی پچھتانے لگا کہ اسے سامنے کیوں کیا۔ اُس نے خاموشی کا مزید طویل وقفہ لیا۔ ایک مرتبہ پھر پیشانی پر سلوٹیں گہری ہونے لگیں۔ اب میرے پاس سامنے لہرانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ پھر وہ گویا ہوا: ’’کیا تم کسی ایسے شخص کو جانتے ہو جو امریکا کو نقصان پہنچانے پر تلا ہوا ہے؟‘‘ میں نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور Hugh Grant کی طرح آوازیں نکالتے ہوئے اُسے یقین دلانے کی کوشش کی۔ اُس نے کچھ ثانیے میری پرفارمنس پر غور کیا اور پھر میرے سامان سے ایک کتاب برآمد کی۔ یہ محسن حمید کا ناول تھا ’’The Reluctant Fundamentalist‘‘ پوچھا یہ کتاب کیا ہے؟ میں نے وضاحت کی لیکن وہ میری بات نہیں سن رہا تھا، بس سوچے جا رہا تھا۔ پھر اُس نے ایک جدید ڈیوائس نکالی اور میرا نام لکھ کرگوگل کیا اور اس پر میرے بارے میں پہلی خبر میرے ساتھ ہوسٹن ایئرپورٹ پرکیا جانے والا سلوک تھا۔ اُس کی مہارت دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا کہ یہاں میرا سفر ختم ہوا، اب ہالی ووڈ کو بھول جاؤں اور جان بچانے کی کوشش کروں۔ اب تک تمام اداکاری ہوا ہوچکی تھی۔
تاہم اس کے بعد تین گھنٹے تک سوالات کے تکلیف دہ مرحلے سے گزرا اور وہاں اداکاری ہر گز کام نہ آئی۔ بہرحال ہر مرحلہ گزرنے کے بعد میں پرسکون ہونے لگا۔ جب میں وہاں سے واپس آنے لگا تو میرا گزر پھر اُنہی افراد سے ہوا جن کی شکل اور جلد کی رنگت مجھ سے ملتی تھی۔ میں نے اونچی آواز میں ’’السلام وعلیکم‘‘ کہا لیکن کسی ایک نے بھی اس کا جواب نہ دیا۔ غالباً وہ اردو میں یہ اسلامی جملہ منہ سے نہ نکالنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ شاید وہ ’اوگاڈ‘ یا ’اوگوش‘ کہنا زیادہ بہتر سمجھتے۔ بہرحال میں مین ہٹن میں اپنے دوست سے ڈنر پر ملا اور تین گھنٹے لیٹ آنے پر معذرت کی، جو اُس نے قبول بھی کر لی۔ ڈنر کے دیگر شرکا ایک دوسرے سے اپنا ستاروں کا علم شیئر کرتے رہے۔ اچانک ایک محترمہ مجھ سے مخاطب ہوئیں اورکہا: ’’تم ٹیررسٹ ہو‘‘۔
میرا رنگ اُڑ گیا، یہ کیا مصیبت تھی، کیا میں ایک مرتبہ پھر کسی ایئرپورٹ پر زیر ِ تفتیش تھا۔ میں نے پوچھا: ’’تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘ تو میرے دوست نے اُس لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر میرے ہاتھ پر رکھ کر دبایا اورکہا۔۔۔ ’رض‘۔ اس نے پوچھا کہ کیا تم Sagittarius ہو؟ میں نے بمشکل تھوک نگلا۔ بہت سے چہرے پُرتشویش نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میں نے خود ہی معذرت کی کہ میں اُس کی بات غلط سمجھا تھا۔ لیکن میں غلطی پر تھا۔ یہی بات دوبارہ بھی ہوئی۔ ایک دومرتبہ نہیں کئی بار اور میرا رویہ بھی جارحانہ ہوتا گیا۔ ایک افسر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں نے کہیں سے فوجی تربیت حاصل کی ہے۔ میں نے اپنے برطانوی اسکول میں کیڈٹ فورس پروگرام میں شرکت کی تھی؛ چنانچہ میں نے ایک لفظ میں جواب دیا ’’ہاں‘‘ اور اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں نے عراق، ایران یا افغانستان کا سفر کیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ عراق تو نہیں البتہ سعودی عرب اور پاکستان ضرورگیا ہوں۔
اب تک مجھے افسران کی بچگانہ حماقتوں کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ یہ حماقتیں بلکہ مزید حماقتیں جاری رہیں۔ دوسری مرتبہ امریکا میں کام کرنے کے لیے ویزے کی درخواست دینے پر مجھے سیکشن 221-G کے مراحل سے گزرنا تھا۔ یہ ایک طویل بیک گراؤنڈ چیک تھا کہ کہیں میرا تعلق زندگی میں کسی مرحلے پر دہشت گردوں سے تو نہیں رہا۔ اُنھوں نے میرے اٹارنی کو ای میل کی: ’’ہائے بل، تمہارا کلائنٹ، مسٹر احمد ہمارے پاس ہے، برطانوی لہجے میں انگلش بولتا ہے، ہم نے اُس کا Post 9/11 Blues گانا بھی دیکھا ہے، لیکن کیا اُس کی لائن ’’I heart Osama‘‘ اُس کے عمل میں تو شامل نہیں؟‘‘ جواب ملا ’’ٹھیک ہے، تم اُس کی تلاشی لے لو۔ اُس کے پاسپورٹ پر لگی مہروں کو چیک کرو اور پھر اُس کے احمقانہ حد تک خطرناک گانے بھی سنو‘‘۔
بہرحال امریکا میں ایک ماہ گزارنے کے بعد میری ایئرپورٹ آڈیشن کی کارکردگی میں نکھار آنے لگا اور یہ ایک اداکار کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ مجھ میں دہشت گرد تلاش کیا جارہا تھا۔ ایک اداکارکو اور کیا چاہیے؟ وہ میرے اندرکسی کو تلاش کررہے تھے، اداکاری اور کیا ہوتی ہے؟ ایک کردارکے اندار ایک اور کردار۔ اب میں ایک ماہر اداکار کی طرح ایک کردار کی خو د پر لگی ہوئی چھاپ کو توڑنے کی کوشش میں تھا۔ میں ایک مشتبہ شخص تھا اور مخصوص اشیائے خور ونوش سے پرہیز بھی مجھے مشکوک بناتا تھا۔ میں نے کہانیوں کی دنیا کا ’’پروٹوکول‘‘ بھی استعمال نہ کیا۔ کیا میں جدوجہدکے پہلے مرحلے پر تھا؟ بات یہ ہے کہ جب آپ اپنا ماحول تبدیل کر چکے ہوں اور اُس کے گلے میں ڈالا جانے والا نیکلس دوسروں کا ہو تو پھر شناخت کے مرحلے آسان نہیں ہوتے۔ ریہرسل آپ کے اندر ایک کردارکو پختہ کردیتی ہے، لیکن بعض اوقات جب آپ بہت زیادہ ریہرسل کرتے ہیں تو آپ کے فن کی تازگی ختم ہونے لگتی ہے۔ آپ کردار کے ڈائیلاگ بھولنے لگتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ میں بعد میں ہونے والی آڈیشنز میں ناکام ہونے لگا۔
ایک مرحلے پر یہ آگاہی وارد ہوئی کہ یہ تفتیش ایک بلبلے کے اندر دہرایا جانے والا افسانوی ادب ہے اور یہ میری اصلیت کو نہیں جانچ سکتا۔ آج میں اُس طریقِ کار کو یہی سمجھتا ہوں۔ آخرکار مجھے امریکا میں کام کرنے کا ویزہ مل گیا۔ اب مجھے پروٹوکول سے گزرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اب میرا تیسرے مرحلے کی اُس آفاقی دنیا کی طرف سفر شروع ہونے والا تھا جس کی تلاش میں، میں یہاں آیا تھا۔ اب میں آڈیشنز دیتے ہوئے ایئرپورٹس پر رائٹ سائیڈ پر کھڑ اہوتا، لیکن یہ کوئی کامیابی نہ تھی۔ اگرچہ امریکی ایئرپورٹس پر میرے لیے آسانی تھی لیکن اس کے باوجود مجھے روک لیا جاتا۔ خاص طور پر ہیتھرو ایئرپورٹ پر تو ہر مرتبہ روکا جاتا۔ تاہم اب میں اس تفتیش سے تکلیف اٹھانے کی بجائے اس کا مزہ لینے لگا تھا۔ ہیتھرو ایئرپورٹ کا اسٹاف اس کے قریبی علاقوں، ساؤتھ ہال اور ہاؤن سلو سے بھرتی کیا جاتا ہے۔ میں نے وہاں سے لگاتار چھ ماہ تک فلائیٹ لی اور ہر مرتبہ ایک ہی درمیانی عمر کے سکھ نے میری تلاشی لی۔ ہر مرتبہ پورے انہماک اور ’’ذمہ داری‘‘ سے۔ آخری مراحل میں، میں نے اُسے انکل کہہ کر مخاطب کرنا شروع کردیا۔ مزید چند ایک مراحل کے بعد اُس نے بھی مجھے بیٹا کہہ کر پکارنا شروع کردیا۔ چونکہ میں نے زیادہ فضائی سفر کیا، اس لیے رشتہ مضبوط ہوتا گیا۔ اس دوران میرا فلم کا کام بھی بڑھتا گیا۔ ایک دن میری تلاشی ایک مسلمان بھائی نے بھی لی۔ اس نے بھی مجھ سے پوچھا: ’’بھائی کس قسم کی فلمیں تم بناتے ہو؟‘‘ میں اس کی گردن سے لٹکے ہوئے آئی ڈی بیج کی طرف دیکھنے لگا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Riz Ahmed: actor, rapper, ranter”.(“The Guardian”. April 27, 2013)
Leave a Reply