
بے روزگاری اس وقت عالمگیر سطح پر انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ کسی خاص خطے یا طبقے تک محدود نہیں۔ محض پس ماندہ اور ترقی پذیر ہی نہیں، ترقی یافتہ ممالک بھی اس جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ صنعتی اور تجارتی عمل میں مشینوں کا عمل دخل دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس کا نتیجہ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ صنعتی انقلاب نے بہت سے کاری گروں اور ہنر مندوں سے روزگار چھین کر مشینوں کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ اس کے بعد جب کمپیوٹر کا دور آیا تو مزید لاکھوں، بلکہ کروڑوں افراد بے روزگار ہوئے۔ اردو اخبارات ہی کی مثال لیجیے۔ کاتب ہاتھ کی کاری گری سے اخبارات کی زینت بڑھایا کرتے تھے۔ کمپیوٹر آیا تو کمپوزنگ بھی مشین کے ذریعے ہونے لگی۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں کاتب بے روزگار ہوگئے۔ مصور اخبارات کے خصوصی ایڈیشنز اور جرائد کے سرورق کے لیے تصاویر بنایا کرتے تھے۔ یہ سب کچھ بہت خوبصورت تھا مگر جب کمپیوٹر آیا تو ان سب کی روزی روٹی جاتی رہی۔ کمپیوٹر نے اخبارات و جرائد تیار کرنے کی لاگت بہت کم کردی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کمپیوٹر کے کام میں وہ خوبصورتی نہیں مگر سرمایہ کار تو اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ آجر کو اس بات سے کیا غرض کہ اس کی مصنوعات کا معیار کیا ہے۔ اگر خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے تو اس کی بلا جانے۔ وہ تو لاگت میں واقع ہونے والی کمی اور اپنے منافع میں رونما ہونے والے اضافے کو اہمیت دے گا اور دے رہا ہے۔
بہت سے کاتبوں نے وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو مشینوں کا عادی بنالیا۔ وہ کمپیوٹر سے جڑ گئے اور اب تک اپنا روزگار بچائے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے وقت کو سمجھنے میں دیر یا کوتاہی کی وہ بے روزگار ہوگئے۔
اب روبوٹ آگئے ہیں تو کئی شعبوں میں لاکھوں، کروڑوں افراد کا روزگار داؤ پر لگ گیا ہے۔ بہت سے صنعتی اداروں میں روبوٹ کا استعمال پریشان کن حد تک بڑھ گیا ہے۔ بات پھر وہی لاگت میں کمی اور سہولت کی آگئی۔ آجر چاہتے ہیں کہ ان کے یونٹس میں پیداواری عمل ہر صورت جاری رہے۔ انسان کام کرتے ہیں تو نخرے بھی دکھاتے ہیں اور غلطی بھی کر جاتے ہیں۔ روبوٹ تنگ کرتے ہیں، نہ دیر سے آتے ہیں اور نہ ہی ان کے کام میں عموماً کوئی بڑی کھوٹ ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں روبوٹ کا صنعتی ہی نہیں، گھریلو استعمال بھی نمایاں طور پر بڑھتا جارہا ہے۔ گھر کے چھوٹے موٹے کام روبوٹس کی مدد سے کیے جارہے ہیں۔ گھریلو خادم کی حیثیت سے روبوٹ اس قدر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ بہت سے لوگ اپنے گھروں میں مشینی خادم رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انسان کو خدمت کے لیے رکھا جائے تو وہ چھٹی بھی مانگتا ہے، کام میں ڈنڈی بھی مارتا ہے اور کام کا معیار بھی یکساں نہیں ہوتا۔ روبوٹ کبھی تھک کر بیٹھتا ہے نہ چھٹی مانگتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کام کہا جائے وہ ضرور کرتا ہے۔
جب تک انسان رب کائنات کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا رہتا ہے تب تک وہ زمین پر اللہ کے نائب کی حیثیت سے اپنا کام بخوبی کرتا ہے اور مگر جب وہ اپنے نفس کا بندہ بن کر دوسروں کے استحصال پر بضد ہوتا ہے تب رب کے بتائے ہوئے اصولوں کو بالائے طاقت رکھ کر صرف زیادہ سے زیادہ منافع کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ایسے میں وہ اشرف المخلوق کا درجہ کھوکر اسفل السافلین کی صف میں شامل ہو جاتا ہے۔ لالچ انسان کو بصیرت سے محروم کردیتا ہے۔ جب انسان کے ذہن پر لالچ سوار ہو جاتا ہے تب اس کا شعور ہوس اور تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ جو انسان ایک کے دو، دو کے چار اور چار کے آٹھ کرنے کے پھیر میں پڑ جاتا ہے وہ صرف اپنے مفاد کو ذہن نشین رکھتا ہے اور دوسروں کا فائدہ یکسر بھول جاتا ہے۔ ایسے میں معاشرے اور انسانیت کا تقدس اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
آج کا انسان بہت سے کام روبوٹ سے کرانا چاہتا ہے۔ جہاں انسانوں کو کام کے دوران بہت سے خطرات لاحق ہوں وہاں روبوٹ کو استعمال کرنا قرین عقل و دانش ہے۔ مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ روبوٹ کے استعمال سے کتنے لوگ بے روزگار ہوں گے اور اس کا معاشرے پر کس حد تک منفی اثر مرتب ہوگا۔ کاروباری مفادات اپنی جگہ، صنعتی عمل کو زیادہ آسان اور منافع بخش بنانا اپنی جگہ مگر یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ ہر شعبے میں بیشتر کام روبوٹس کے حوالے سے پورے معاشرے کے مفاد ہی کو داؤ پر لگادیا جائے۔ صنعت کاروں نے صرف اپنی تجوری کو زیادہ سے زیادہ بھرنے پر توجہ مرکوز کی ہے جو کسی بھی اعتبار سے عقل مندی کا سودا نہیں۔
ہر شعبے میں روبوٹس کا استعمال بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے تو اب ریسٹورنٹس میں ویٹرز کے طور پر بھی روبوٹس سے کام لینا شروع کردیا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ بچانا چاہتے ہیں۔ مگر ایسا کرنے سے بے روزگاری بم کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور کسی بھی وقت کوئی بہت بڑا سیاسی و سماجی دھماکا ہوجائے گا۔ اب ایسی کاریں بھی تیار کی جارہی ہیں، جو انسانوں کے بغیر یعنی خود بخود چلا کریں گی۔ چند ایک معاملات میں روبوٹس کو اساتذہ کی حیثیت سے بھی متعارف کرایا گیا ہے۔ بہت جلد دھوبی کی دکان پر روبوٹ کپڑوں کو پریس کرتے بھی ملیں گے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے ماہرین ایک ایسا روبوٹ بنا چکے ہیں، جو صفائی کے ساتھ تولیہ‘ جینز اور ٹی شرٹ سلیقے سے تہہ کرسکتا ہے۔ ۲۰۱۰ء تک روبوٹ ایک تولیے کو اٹھانے، معائنہ کرنے اور تہہ کرنے میں ۱۹ منٹ لیتا تھا۔ ۲۰۱۲ء میں روبوٹ جینز کی جوڑی کو پانچ منٹ اور ٹی شرٹ کو ۶ منٹ میں تہہ کرسکتا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۱ء تک لانڈریز میں روبوٹ کپڑوں کو پریس اور تہہ کرتے ہوئے ملیں گے۔ ۲۰۲۷ء تک ٹرک کی سیٹ پر ڈرائیور کی حیثیت سے روبوٹ بیٹھے ہوئے ملیں گے۔ ۲۰۳۱ء تک بیشتر چھوٹی موٹی ملازمتیں روبوٹس سنبھال چکے ہوں گے۔ ۲۰۴۹ء تک ایسے روبوٹس مارکیٹ میں آچکے ہوں گے جو دی ہوئی معلومات کی بنیاد پر خوب اچھی طرح سوچ کر لکھنے کی اہلیت کے بھی حامل ہوں گے۔ روبوٹس کے حوالے سے ٹیکنالوجی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ۲۰۵۳ء تک بیشتر اسپتالوں میں روبوٹس سرجن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہوں گے۔
انسان نے فطری علوم و فنون کے حوالے سے جو ترقی کی ہے، وہ گزرے ہوئے زمانوں کے انسان دیکھ پائیں تو جادو سمجھ کر ڈر جائیں اور آج کی ایجادات کے سامنے سربسجود ہوں۔ ایک صدی پہلے تک جن تصورات کا کھل کر تمسخر اڑایا جاتا تھا وہ آج حقیقت بن کر ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ آج سے ایک صدی پہلے سائنس کی آج کی ایجادات کے بارے میں تصور کرنا بھی مضحکہ خیز سمجھا جاتا تھا۔ کس نے سوچا تھا کہ محض ایک صدی میں تصویر لینا ہی نہیں، انسان کی حرکات و سکنات کو بھی جوں کا توں محفوظ کرنا اور اسے جب جی چاہے تب دیکھنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔ ٹیلی ویژن بیسویں صدی کی پیداوار ہے مگر اس حوالے سے بھی کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ بیک وقت ڈھائی تین سو یا اس سے بھی زائد چینل دیکھنا انتہائی آسان ہوجائے گا۔ ٹیلی کام سیکٹر کی ترقی جادو سے کم ہے کیا! آج دو افراد ایک دوسرے سے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر ہوں تب بھی باآسانی بات کرسکتے ہیں۔ اور وہ بھی انتہائی کم خرچ پر۔
ٹیکنالوجی کو انسان نے اپنی خدمت کے لیے بے مثال مہارت سے استعمال کیا ہے۔ آج کا انسان اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ اسے قدم قدم پر آسانیاں میسر ہوں۔ وہ چاہتا ہے کہ روبوٹس کی مدد سے زندگی کے ہر معاملے کو نہایت آسان بنالیا جائے۔ ایسا کرتے وقت بہت سے نازک معاملات کو نظر انداز بھی کیا جارہا ہے۔ کوئی نہیں سوچ رہا کہ جب ہر طرف روبوٹس ہوں گے تو انسانوں کے لیے کرنے کے لیے کیا رہ جائے گا اور تب وہ کس طور اپنی روزی روٹی کا اہتمام کریں گے۔
آج ماہرین روبوٹس کو زیادہ سے زیادہ کارگر بنانے کے لیے دن رات تحقیق میں مصروف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس زیادہ سے زیادہ تعداد میں مارکیٹ میں لائے جائیں تاکہ عمومی نوعیت کے کاموں کے علاوہ علمی کام بھی روبوٹس انجام دیں۔
روبوٹ کا سب سے پہلا تجربہ تحلیل شدہ چیکو سلوواکیا کے سائنس دان کاریل کاپیک نے کیا تھا۔ انہوں نے ایک ڈرامے میں کچھ مشینی انسانوں کا استعمال کرکے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ سائنس دانوں کوکاپیک کے اس تجربے سے ایک نئی روشنی ملی اور ان کے اندر مشینی انسان بنانے کا جو جذبہ موجزن تھا اس کی تعبیر کے لیے انتہائی محنت کرکے روبوٹ کو انسانی شکل دینے میں مصروف رہے۔
۱۹۶۰ء کے عشرے میں جارج ڈیوول اور اینجل برجر نے پیشہ ورانہ سطح پر روبوٹ بنانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ جس طرح کیلکولیٹر ریاضی کے سوال تیزی سے حل کردیتا ہے بالکل اسی طرح روبوٹ بھی انسانوں سے کئی گنا تیز رفتار کے ساتھ کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس کا دماغ انسان کے دماغ سے زیادہ تیز چلتا ہے اور وہ ہر کام کو بغیر کسی غلطی کے مکمل کرتا ہے۔ طب کے شعبے میں روبوٹس نے غیر معمولی کارنامے انجام دیے ہیں۔ اب تو نئی دہلی میں بھی روبوٹس کی مدد سے دل کے آپریشن کا تجربہ کیا جاچکا ہے جو کامیاب رہا۔ ڈاکٹر تریہن نے ایک کمرے میں بیٹھ کر روبوٹس کو کمپیوٹر کی مدد سے ہدایات دیں اور ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے روبوٹ نے دل کا کامیاب آپریشن کیا۔ بات یہیں پر نہیں رکی۔ آپریشن کے بعد روبوٹ نے ٹانکے بھی اتنی مہارت سے لگائے کہ ماہرین حیران رہ گئے۔ امریکا، جاپان، جرمنی، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک روبوٹس کو زیادہ سے زیادہ کارگر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مختلف شعبوں میں روبوٹس سے اس قدر خدمات لی جارہی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
روبوٹس کی مدد سے زندگی کو آسان بنایا جاسکتا ہے اور بنایا جارہا ہے مگر سیاسی قائدین کو اس حوالے سے جامع پالیسی ترتیب دینی چاہیے تاکہ سب کچھ لالچ کی نذر نہ ہوجائے۔ روبوٹس کو تجارتی اور صنعتی معاملات میں بہت زیادہ استعمال کرنے کے حوالے سے نئی پالیسی لانا ہوگی۔ دنیا بھر کے نمایاں حکمرانوں کو سوچنا ہوگا کہ اگر روبوٹس کو ہر شعبے میں سوچے سمجھے بغیر انٹری دی جاتی رہی تو معاملات سلجھنے کے بجائے الجھتے چلے جائیں گے۔ اگر انسان کا مفاد سوچے بغیر محض مشینوں پر انحصار کی پالیسی اپنائی گئی تو معاملات خرابی کی طرف جائیں گے۔
(بشکریہ: ’’راشٹریہ سہارا‘‘۔ نئی دہلی)
Robots are not welcome in certain fields where human is considered vital for business. Nursing, female waiters , massage therapists, prostitutes, are still humans and robots will not take their place.I have not seen a robot taking the place of young men and women doing the work of waiters or chefs in any restaurant anywhere in America or Canada or nurses in any hospitals.
Computer has limitations and no ‘artificial intelligence’ can compose a sonnet like that of Shakespeare or write a poem like ‘Masjid-Qurtuba’ by Iqbal ,can it?Similarly any great and unique work of art or painting to replace Mona Liza has not come yet.