
ڈونلڈ ٹرمپ امریکی خارجہ پالیسی کی اوور ہالنگ کا وعدہ کرتے ہوئے ایوانِ صدر میں وارد ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے انہوں نے امریکا کے اتحادیوں کا تمسخر اڑایا ہے، امریکا کو بین الاقوامی معاہدوں سے الگ کیا ہے اور دوستوں، دشمنوں میں فرق کیے بغیر تجارتی پابندیاں عائد کی ہیں۔ سیاسی اور سفارتی امور کے بہت سے ماہرین ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ پالیسی کے ہاتھوں بین الاقوامی لبرل نظام کو پہنچنے والے نقصان کا ماتم کر رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے دنیا بھرمیں ایسے لبرل اداروں کا نظام کام کر رہا ہے جن کی مدد سے دنیا بھر میں لبرل اقدارکو فروغ دینے کی کوششیں بہت حد تک کامیابی سے ہم کنار ہوئی ہیں۔ ان ماہرین کو اب بھی امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی ایوانِ صدر سے رخصت ہونے کے بعد امریکا ایک بار پھر لبرل ازم کا سب سے بڑا سرپرست اور ضامن بن کر ابھرے گا۔
ماہرین کی اس رائے پر زیادہ بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا کی لبرل بالا دستی کا زمانہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران اور اُس کے فوراً بعد رونما ہونے والے حالات و واقعات کا نتیجہ تھا۔ تب امریکا کے مقابل کوئی نہ تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کاروباری سوچ اپنائی ہے وہ ایک زمانے تک امریکی معاشرے میں چلن کا درجہ رکھتی تھی۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کے چلے جانے کے بعد بھی مدتِ دراز تک امریکا میں کاروباری سوچ کا چلن رہے گا۔
ٹرمپ کی سوچ آج بھی امریکا میں بہت سوں کے لیے انتہائی پُرکشش ہے۔ ہم یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرسکتے کہ دو بڑی حقیقتیں امریکا کے حق میں جاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکا میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جو ایک پریشان کن حقیقت ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ آٹومیشن بڑھ رہی ہے یعنی صنعتی و تجارتی عمل میں افرادی قوت کی ضرورت گھٹتی جارہی ہے۔ یہ صورتِ حال امریکا کے لیے بہت حد تک موافق ہے کیونکہ اب اسے تارکین وطن کی زیادہ ضرورت نہیں پڑے گی۔ ایسے میں اگر تارکینِ وطن کی آمد کے عمل کی حوصلہ شکنی کی جائے تو کسی کو بھی کچھ اعتراض نہ ہوگا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ۲۰۴۰ء تک امریکا واحد ریاست ہوگا جس کی ایک بڑی، مضبوط مارکیٹ بھی ہوگی اور اُس کے پاس ایک ایسی بڑی اور طاقتور فوج بھی ہوگی جسے دنیا میں کہیں بھی تعینات کیا جاسکے گا۔ اب سے ۲۰۴۰ء کے دوران ایسی ٹیکنالوجیز آچکی ہوں گی جو بیرونی افرادی قوت پر امریکا کا انحصار بہت حد تک گھٹادیں گی اور امریکی فوج حریف ممالک کی فوج کو زیادہ پَر پھیلانے سے روکنے والی ٹیکنالوجی کی بھی حامل ہوچکی ہوگی۔ جب تک امریکا اپنے لیے پیدا ہونے والے موافق حالات سے کوئی کھلواڑ نہیں کرے گا تب تک وہ عالمی سطح پر بالا دست معاشی و عسکری قوت کے طور پر کام کرتا رہے گا۔
طاقتور ترین ملک کی حیثیت سے بحال رہنے اور لبرل عالمی نظام کے ضامن کی حیثیت سے کام کرنے کی صلاحیت کا حامل ہونے میں البتہ بہت فرق ہے۔ مخمصہ یہ ہے کہ جو عوامل امریکا کو غیر معمولی طاقت کا حامل بنائیں گے وہی عوامل امریکا کو لبرل عالمی نظام کی حیثیت سے کام کرنے کے قابل بنانے کی راہ میں دیوار ثابت ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ غیر معمولی کشش کی حامل دکھائی دیتی رہے گی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک امریکا جمہوریت نواز سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل اصولوں کی بنیاد پر کام کرنے والے عالمی نظام کا سرپرست و ضامن رہا ہے۔ امریکا نے اب تک بہت سے ممالک کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، عالمی تجارتی راہداریوں کو تحفظ فراہم کیا ہے، بہت سے ممالک کو امریکی منڈی اور ڈالر تک رسائی دی ہے۔ اس کے عوض اِن ممالک نے امریکا سے وفاداری نبھائی ہے اور اپنے نظامِ سیاست و معیشت کو لبرل اقدار سے ہم آہنگ کرنے میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی ہے۔
امریکا اب تک ’’آزاد دنیا‘‘ کا نعرہ لگاتا آیا ہے۔ اس نعرے کا مطلب یہ ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ دنیا بھر میں لوگ آزادانہ سفر کریں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں اور کوئی بھی ملک الگ تھلگ، اکیلا نہ رہے۔ اب ایک ایسی دنیا ابھر رہی ہے جس میں ڈھلتی ہوئی عمر والوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور دنیا بھر میں معیشتیں بہت حد تک خود کار نظام کے تحت کام کریں گی۔ یہ کیفیت افرادی قوت پر مدار کم کرے گی۔ ایسی حالت میں جمہوریت نواز سرمایہ دارانہ نظام کے پنپنے کی گنجائش کم رہ جائے گی۔ افرادی قوت کی ضرورت زیادہ محسوس نہ کرنے والی دنیا میں ’’آزاد دنیا‘‘ کے تصور کی پذیرائی کرنے والے بھی کم رہ جائیں گے۔ ایک طرف تو معمر افراد کی تعداد بڑھتی جائے گی اور دوسری طرف نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ معاشی تحفظ فراہم کرنے کی فکر بھی لاحق ہوگی۔ ایسے میں وسائل پر دباؤ بڑھتا چلا جائے گا، مسابقت شدید تر ہوتی چلی جائے گی۔ آٹومیشن بڑھنے سے بیرونی افرادی قوت پر امریکی معیشت کا مدار گھٹے گا اور یہ معاملہ امریکیوں کے حق میں جائے گا۔ اس کے نتیجے میں امریکا کی سرکشی میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ہاں، ایک فرق ضرور واقع ہوگا۔ بیسویں صدی بہت حد تک لبرل امریکا کی صدی تھی۔ اکیسویں صدی امریکا کی تو ہوگی مگر نہ تو امریکا لبرل رہے گا نہ یہ صدی لبرل کہلائی جاسکے گی۔
بے حِس امریکا
’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ نیا ہے نہ حیرت انگیز۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی تاریخ کے ایک پہلو کو صرف بے نقاب کیا ہے۔ ۱۹۴۵ء سے پہلے تک امریکا خاصی تنگ بصیرت کے ساتھ کام کرتا تھا۔ اُس کی توجہ صرف معاشی مفادات پر مرکوز رہتی تھی۔ ان مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے جو کچھ بھی وہ کرتا تھا اُس کے اثرات کے بارے میں زیادہ سوچا نہیں جاتا تھا۔
’’ہاتھ سے جاتا‘‘ امریکا
ا مریکا نے آزادی جیسی بنیادی قدر کا علم بردار ہونے کا دعویٰ ضرور کیا مگر اس نے اس قدر کو اپنے ہاں اور بیرون ملک خاصے منتخب انداز سے بروئے کار لانے پر توجہ دی۔ یورپ میں بھی امریکا نے فرانسیسی انقلاب کے سوا کوئی اتحاد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے اپنوں اور پرایوں پر یکساں اعتبار سے تجارتی پابندیاں اور ٹیکس عائد کیے۔ بین الاقوامی اداروں سے ہٹ کر چلنے میں بھی امریکا خاصا نمایاں رہا ہے۔ باقی دنیا کو خیرباد کہتے ہوئے اپنے طور پر چلنے میں امریکا اس لیے کامیاب رہا کہ وہ اپنے وجود پر انحصار کرسکتا تھا۔ ۱۸۸۰ء کے عشرے کی آمد تک امریکا امیر ترین ملک بن چکا تھا۔ اس کی منڈی بھی غیر معمولی اور طاقتور تھی۔ توانائی کے معاملے میں امریکا کا اپنے وسائل پر انحصار رہا ہے۔ امریکا کے اپنے معدنی ذخائر بھی غیر معمولی تناسب سے ہیں اور اُنہیں بظاہر کسی بھی نوع کا خطرہ لاحق نہیں۔ امریکا کو چونکہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے بیرونی وسائل کی کچھ خاص ضرورت نہ تھی اس لیے وہ کسی بھی ملک یا چند ممالک کے ساتھ مل کر اتحاد تشکیل دینے میں دلچسپی نہیں لیتا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا کی پالیسیوں میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ سابق سوویت یونین نے یوریشیا کے بہت سے ممالک کو اپنے دائرۂ اثر میں لیا اور یوں اشتراکیت کی راہ ہموار ہونے لگی۔ امریکا چونکہ آزاد منڈی کی معیشت اور لبرل اقدار کا علم بردار تھا اس لیے لازم ہوگیا کہ وہ سابق سوویت یونین کے سامنے کھڑا ہو۔ یوں سرد جنگ شروع ہوئی۔ ۱۹۵۰ء کے عشرے تک سابق سوویت یونین کی عسکری قوت مغربی یورپ کی مجموعی عسکری قوت سے دگنی ہوچکی تھی اور اشتراکیت کے علم بردار دنیا بھر کے ۳۵ فیصد صنعتی وسائل پر متصرف ہوچکے تھے۔ اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے امریکا کو شراکت دار درکار تھے۔ اس نے بڑے پیمانے پر اتحاد تشکیل دیے۔ درجنوں ممالک کو دفاع کی ضمانت فراہم کی اور امریکی منڈی تک رسائی بھی دی۔
سرد جنگ کے خاتمے کے موقع پر امریکی قیادت بیرونِ ملک کسی بڑے کردار کے بارے میں زیادہ نہیں سوچ رہی تھی۔ حالات کچھ ایسے پیدا ہوئے کہ امریکا بیرونِ ملک زیادہ الجھ کر رہ گیا۔ بلقان، افغانستان، عراق، لیبیا اور دیگر ممالک میں اس کی مداخلت بڑھی، جس کے نتیجے میں اس کا عالمی کردار بھی وسعت اختیار کرگیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ لگایا تب امریکی اشرافیہ کو تھوڑی سی حیرت ہوئی مگر خیر، اس میں حیرت کی تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔ ہوتی بھی کیسے؟ سرد جنگ کے بعد کی صورتِ حال میں امریکا بھر میں یہ سوچ پروان چڑھی تھی کہ امریکا کو دوسروں کے بارے میں کچھ زیادہ سوچنے کے بجائے اپنے معاملات پر توجہ دینی چاہیے۔
کئی عشروں کے دوران لبرل عالمی نظام کے لیے امریکی حمایت کمزور پڑی ہے۔ امریکا میں رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۶۰ فیصد سے زائد امریکی اب یہ چاہتے ہیں کہ ان کا ملک بیرون ملک کوئی بڑا کردار ادا کرنے کے بجائے اندرونی مسائل حل کرنے پر متوجہ ہو۔ لوگ چاہتے ہیں کہ امریکا عالمی تجارت، جمہوریت اور انسانی حقوق کی پاس داری کے بجائے دہشت گردوں سے اپنی سرزمین اور ملازمتوں کو بچانے اور تارکین وطن کی آمد روکنے کی کوشش کرے۔ رائے عامہ کے جائزوں میں ۵۰ فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ اب اتحادیوں کے دفاع پر توجہ دینے کا وقت نہیں اور ۸۰ فیصد کی رائے یہ ہے کہ غیر معمولی اقتصادی اقدامات کے ذریعے امریکا میں ملازمتوں کو بچانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ یہ سب کچھ امریکی سیاسی کلچر میں موجود تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو چنگاریوں کو بس ہوا دی ہے۔
دنیا بھر میں آبادی بڑھ بھی رہی ہے اور اس کی نوعیت بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ عصری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت نے امریکا کا بیرونی یا عالمی کردار گھٹانے کی راہ ہموار کی ہے۔ دنیا بھر میں اوسط عمر بڑھنے سے معمر افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا میں بھی ۶۵ سال سے زائد عمر والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے تاہم دوسرے بہت سے بڑے ممالک میں اس ایج گروپ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد خطرناک رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ ۲۰۷۰ء تک دنیا بھر میں ۶۵ سال سے زائد عمر کے افراد مجموعی آبادی کا ۲۰ فیصد ہوں گے۔ ۲۰۱۸ء میں معلوم تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ۶۵ سال سے زائد عمر والوں کی تعداد ۶ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد سے بڑھ گئی!
اگلے ۵۰ برس کے دوران امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا میں ۲۰ سے ۴۹ سال تک کے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھے گی جبکہ دیگر معیشتوں میں اس عمر کے افراد کی تعداد میں ۱۶ فیصد سے زائد گراوٹ کا امکان ہے۔ چین میں اس عمر کے افراد کی تعداد میں ۳۶ فیصد تک کمی واقع ہوگی جو ۲۲ کروڑ ۵۰ لاکھ کے مساوی ہوگی۔ جاپان میں یہ خسارہ ۴۲ فیصد، روس میں ۲۳ فیصد اور جرمنی میں ۱۷ فیصد تک ہوگا۔ بھارت میں ۲۰۴۰ء تک اس ایج گروپ کے افراد کی تعداد بڑھے گی، تاہم اس کے بعد تیزی سے گراوٹ آئے گی۔ امریکا میں اس دوران اس ایج گروپ کے افراد کی تعداد میں ۱۰ فیصد کی شرح سے اضافہ ہوتا رہے گا۔ امریکی مارکیٹ اگلے پانچ بڑے ممالک کی مجموعی مارکیٹ سے بھی بڑی ہے۔
بہت سے بڑے اور طاقتور ممالک کو اب بڑھاپے کی طرف رواں آبادی مشکلات سے دوچار کر رہی ہے۔ معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث مالیات کا بڑا حصہ پنشن اور ایسے ہی دیگر فوائد کی نذر ہو جاتا ہے۔ روس اور چین کو بڑھاپے کی طرف کھسکتی ہوئی آبادی میں اضافے کا سامنا ہے۔ امریکا یوں مطمئن ہے کہ ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے افرادی قوت کی طلب میں کمی آرہی ہے۔ جنگی مشینری بھی اب افرادی قوت سے کہیں بڑھ کر ڈرونز اور دیگر ٹیکنالوجیز پر منحصر ہے۔
یہ سب تو ٹھیک ہے مگر دنیا بھر میں لبرل ازم کو ایک عظیم آئیڈیل کی حیثیت سے فروغ دینے کا کیا ہوگا۔ جب لبرل نظام کمزور پڑے گا اور ترقی یافتہ دنیا کو اپنی فکر لاحق ہوگی تب دنیا بھر میں قوم پرستی اور انتہا پسندی بڑھے گی۔ ایسے میں تارکینِ وطن کی آمد روکنے سے متعلق کوششیں بھی بڑھیں گی۔ جب زندگی کے بیشتر معاملات میں آٹومیشن کا ظہور ہوگا یعنی بہت کچھ خود کار نظام کے تحت ہو رہا ہوگا تب بے روزگاری بڑھے گی۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری شدید نوعیت کی سیاسی اور معاشرتی بے چینی پیدا کرے گی۔ افرادی قوت گھٹنے سے امریکا کے متعدد اتحادیوں کے ہاں الجھنیں بڑھیں گی۔ اتحادیوں کے ہاں افرادی قوت میں ۱۲ فیصد کمی واقع ہوگی او سینئر شہریوں کا تناسب ۵۷ فیصد تک ہو جائے گا۔ آبادی کے اتنے بڑے حصے کا محض پنشن پر گزارا ہوگا۔ ایسے میں متعلقہ معیشتوں پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جائے گا۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی ایجادات کا زور بڑھا ہے اور زندگی میں زیادہ سہولتیں پیدا ہوئی ہیں، تب بے روزگاری بھی بڑھی ہے۔ جب مشینوں پر انحصار بڑھتا ہے تو اجرتیں ایک طویل مدت تک منجمد رہ جاتی ہیں۔ برطانوی صنعتی انقلاب کے رونما ہونے پر ۱۷۷۰ء سے ۱۸۴۰ء تک یہی ہوا تھا۔ اجرتیں تھم گئی تھیں۔ اس مدت کے دوران عام آدمی یعنی فیکٹری ورکر کی پیداواری صلاحیت میں ۵۰ فیصد اضافہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کا منافع تو بڑھ گیا تھا مگر عوام کو خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں ہوسکے تھے۔ آج پھر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو بے روزگاری اور اجرت میں کمی کا سامنا تھا۔ آٹومیشن بڑھنے سے افرادی قوت کی طلب گھٹ رہی ہے۔ یہ عمل عشروں تک جاری رہ سکتا ہے۔ یہ صورتِ حال حکومتوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کے بے روزگار رہنے سے معاشرتی سطح پر شدید بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت برقرار رہے گی۔ یہ کیفیت معاشروں کو اندرونی سطح پر شدید نوعیت کی شکست و ریخت سے دوچار کرے گی۔
خدشہ ہے کہ اب امریکا اپنا عالمی کردار ترک کردے گا۔ دوسری طرف وہ خود غرضی کی راہ پر بھی گامزن ہوسکتا ہے۔ وہ اپنی اخلاقی ذمہ داریوں سے بھی جان چھڑانا چاہتا ہے۔ وہ الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ نہ ہی وہ عالمی سطح پر کوئی کردار ادا کرکے نیک نامی کے چکر میں پڑے گا۔ ہاں، بدلی ہوئی صورتِ حال میں امکان اس بات کا ہے کہ وہ زیادہ خود غرض اور سرکش ہوکر ابھرے گا اور یوں اُس پر قابو پانا بہت حد تک ممکن نہ ہوگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے چار سالہ دورِ صدارت میں امریکا نے عالمی سطح پر اپنی دفاعی ذمہ داریوں کو بھتے کے حصول کا ذریعہ بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اتحادیوں کے دفاع کے عوض اپنی مرضی کی اجرت طلب کرنا بھتہ خوری ہی کی ایک شکل ہے۔ صدر ٹرمپ نے کھل کر یہ بات کہی ہے کہ اگر امریکا کسی ملک کا دفاع کرتا ہے تو اس ذمہ داری کو نبھانے کے عوض اُسے فوجیوں کی تعیناتی کا پورا خرچہ ہی نہیں ملنا چاہیے بلکہ پچاس فیصد پریمیم بھی دیا جانا چاہیے۔ امریکا اب بیشتر تجارتی فیصلے خود کر رہا ہے۔ وہ کسی بھی ملک سے مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس نے بعض بین الاقوامی تجارتی معاہدوں سے خود کو الگ کرلیا ہے۔ اتحادیوں پر بھی اس نے سخت تجارتی فیصلے تھوپے ہیں۔ جن پر پابندیاں عائد نہیں کیں اُن پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا ہے۔
جمہوریت اور لبرل اِزم کا فروغ اب امریکی قیادت کا بنیادی آئیڈیل نہیں رہا۔ محکمۂ خارجہ کا کردار گھٹاکر محکمۂ دفاع (پینٹاگون) کا کردار بڑھادیا گیا ہے۔ بیرون ملک فوجیوں کی تعیناتی کا سلسلہ کم ہوچکا ہے۔ اس بات کو ترجیح دی جارہی ہے کہ کسی بھی مقام پر ضرورت پڑنے پر فوجی کارروائی کی جائے اور متعلقہ فوجی کارروائی مکمل کرتے ہی علاقے سے نکل جائیں، غائب ہوجائیں۔ ناقدین کہتے ہیں کہ ایسا کرنا سراسر غیر دانش مندانہ ہے، امریکی آدرشوں کی روح کے منافی ہے۔ اگر یہی حال رہا تو امریکا کا لبرل کردار گھٹ کر نیشنل رہ جائے گا۔ امریکا اب اپنی مرضی کے مطابق معاہدے کرنا چاہتا ہے۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تُھو تُھو کے مصداق وہ چاہتا ہے کہ تمام معاملات اُس کے مفادات کے تابع رہیں۔ سب اُس کا خیال رکھیں اور وہ کسی کا خیال نہ رکھے۔ ایسے میں امریکا اگر جمہوریت کے فروغ اور بنیادی حقوق کی پاس داری کی بات کرے گا بھی تو صرف حلیفوں کے معاملے میں اور وہ بھی خالصاً اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی خاطر۔
آج کا امریکا کمزوروں کا ساتھ دینے کے بجائے اُن سے زیادہ سے زیادہ فوائد بٹورنے کے فراق میں ہے۔ وہ عالمی معاہدوں سے الگ ہوتا جارہا ہے تاکہ ذمہ داریوں کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ تجارت اور دفاع کے معاملے میں وہ دھونس دھمکی سے کام لینے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ سوال جمہوریت یا آمریت کا نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ امریکی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ کیونکر فراہم کیا جاسکتا ہے۔ امریکا میں بے روزگاری کو خطرناک حد تک بڑھنے سے روکنے پر خاطر خواہ توجہ دی جارہی ہے۔ امریکا اب صرف یہ دیکھ رہا ہے کہ کوئی بھی ملک اُس کے ہاں بے روزگاری کم کرنے اور سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں کس حد تک تعاون کرسکتا ہے۔ ایسے میں بہت سے ممالک بالکل غیر متعلق ہوکر رہ جائیں گے۔
امریکا کے لیے اب تجارت سکڑ کر مغربی نصف کُرّے یا شمالی امریکا تک محدود ہوتی جارہی ہے۔ اس وقت صرف شمالی امریکا معاشی اعتبار سے پنپنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس خطے میں مالدار افراد کی کمی نہیں۔ خام مال بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ اعلیٰ تربیت یافتہ اور کم اجرت والی ورک فورس میسر ہے۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیش رفت کا بازارگرم ہے جس کے نتیجے میں پُرسکون بین الاقوامی تعلقات ایک حوصلہ افزا حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں۔ مستقبل قریب میں امریکا کے ممکنہ اتحادی برطانیہ، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا ہوں گے۔ یہ ممالک دنیا بھر میں اثرات کے حامل ہیں اور ایسا نیٹ ورک رکھتے ہیں جو امریکی خفیہ نیٹ ورک سے جُڑا ہوا ہے۔ امریکا خلیجی ممالک، بالٹک ریاستوں اور تائیوان کو امدادفراہم کرتا رہے گا۔ خلیجی ریاستوں کو ایران، بالٹک ریاستوں کو روس اور تائیوان کو چین کے اثرات کا دائرہ محدود رکھنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر امریکا اپنے آپ تک محدود رہنے کا طے کرلیتا ہے تو عالمی سیاست و معیشت پر اِس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ رابرٹ کیگن کہتے ہیں کہ اگر امریکا نے خود کو عالمی نظام سے بہت بڑے پیمانے پر الگ کرلیا تو ۱۹۳۰ء کے عشرے والی صورتِ حال پیدا ہوگی، جب جاپان اور جرمنی استعماری قوت کی حیثیت سے ابھرنے کی راہ پر گامزن ہوئے تھے۔ اب یہی کردار روس اور چین ادا کرسکتے ہیں۔ پیٹر زیہان کہتے ہیں کہ مستقبلِ قریب میں روس عسکری محاذ پر زیادہ سرگرم دکھائی دے سکتا ہے۔ وہ مشرقی ایشیا کو اپنے تصرف میں لے سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ معاملات مکمل طور پر وہی رخ اختیار نہ کریں جیسا رابرٹ کیگن اور پیٹر زیہان بیان کر رہے ہیں تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جلد یا بدیر امریکا کا بدلتا ہوا کردار عالمی سطح پر غیر معمولی خرابیوں کو راہ دے گا۔
امریکا نے عشروں تک کم و بیش ۷۰ ممالک کے لیے دفاعی قوت کا کردار ادا کیا ہے۔ اُس نے بین الاقوامی بحری تجارتی راستوں کی نگرانی بھی کی ہے اور اُن کا تحفظ بھی یقینی بنایا ہے۔ اگر اُس نے عالمی نظام سے خود کو اچانک الگ کرلیا تو بہت بڑے پیمانے پر خرابیاں پیدا ہوں گی، گڑبڑ پھیلے گی۔ امریکا نے اب تک جو عالمی کردار ادا کیا ہے اُس کے حوالے سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے محض اتحادیوں، دوستوں اور حلیفوں کو فائدہ پہنچایا۔ ایسا نہیں ہے۔ امریکی کردار سے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمن بھی مستفید ہوئے ہیں۔ واشنگٹن کی پالیسیوں سے ماسکو اور بیجنگ کو بھی عالمی سطح پر پنپنے، آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے اور دونوں نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔
بہت جلد دنیا کو نئے تجارتی مناقشوں اور نئی استعماری قوتوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ چین بدلی ہوئی صورتِ حال کا بہت تیزی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انشئیٹیو کے ذریعے وہ اپنا تجارتی مستقبل زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ وہ خام مال کے حصول اور تیار شدہ مال کی ترسیل کا نظام مضبوط بنارہا ہے تاکہ مستقبلِ قریب میں عالمی نظام میں رونما ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں کا بھرپور فائدہ اٹھاسکے۔ وہ اب تک بڑی منڈیوں تک رسائی پر یقین رکھتا آیا ہے مگر اب وہ بھی اندرونی منڈی کو زیادہ مضبوط بنانا چاہتا ہے تاکہ دور افتادہ منڈیاں تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ چین متوازی انٹرنیٹ یقینی بنانے کے لیے بھی کوشاں ہے۔ بہت جلد بیشتر ممالک کو امریکی یا چینی بلاک سے جُڑنا پڑے گا۔ اور اگر وہ ایسا کرنا نہیں چاہیں گے تو اپنا بلاک بنانا پڑے گا۔ علاقائی تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے علاقائی اتحاد بھی تشکیل پاسکتے ہیں۔ فرانس افریقا میں اپنی سابق نوآبادیات کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ روس سابق سوویت یونین کے ارکان کو دائرۂ اثر میں لینے کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
یورپ کی آبادی سکڑ رہی ہے۔ اُسے بیرونی منڈیوں کی تلاش ہے۔ جرمنی کے لیے خصوصی طور پر یہ بہت مشکل مرحلہ ہے۔ اسکینڈی نیوین ریاستوں کے لیے بیرونی منڈیوں تک رسائی لازم ہوچکی ہے۔ یورپی یونین کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ اُس کا وجود ہی داؤ پر لگ چکا ہے۔ امریکی بالا دستی کے بعد کی دنیا میں یورپی یونین کا وجود سوالیہ نشان کی زد میں ہے۔ معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کے ختم ہونے سے یورپی یونین بھی ختم ہوسکتی ہے۔ اس کے اندرونی اختلافات بہت بڑھ چکے ہیں، تقسیم گہری ہوچکی ہے۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو بہت کچھ بتادیا ہے۔ یورپ اس وبا کے دوران فوڈ سیکورٹی یقینی بنانے میں مصروف رہا۔ عالمی ادارۂ صحت چین کا دیا ہوا سبق پڑھتا، اُس کا راگ الاپتا رہا۔ اور امریکا اِس وبا کے ہاتھوں اپنی حدود میں سمٹ گیا۔
اگر امریکی کردار کی تبدیلی سے عالمی سطح پر انتشار پھیلا تو چند ممالک کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ ۱۹۴۵ء میں ۴۶ ممالک تھے۔ اب ۲۰۰ سے زائد ممالک ہیں۔ بہت سی نئی ریاستیں کم و بیش تمام ہی معاملات میں انتہائی کمزور ہیں۔ ارجن چودھری کی تحقیق کے مطابق اس وقت دو تہائی ریاستیں عالمی امداد کے بغیر اپنے باشندوں کو بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کرسکتیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ایک ایسا عالمی نظام ابھرا جس نے بہت سے ممالک کے لیے بقا اور ترقی کی گنجائش پیدا کی۔ آج ان میں سے بیشتر ممالک کو بقا یقینی بنائے رکھنے کے بحران کا سامنا ہے۔ معاشی منڈیاں سکڑتی اور بند ہوتی جارہی ہیں۔ عالمی تجارتی راستوں کو عسکریت پسندی اور عسکری مہم جوئی سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
ہر خرابی کے بعد کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آتی ہے مگر تب تک بہت جھیلنا پڑتا ہے۔ اس وقت دنیا کو ایسی ہی کیفیت کا سامنا ہے۔ ایک عالمی نظام ختم ہوتا جارہا ہے اور دوسرا ابھرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ خرابیاں تو پیدا ہوں گی اور تادیر رہیں گی۔ تب تک کس کس خطے اور ملک پر کیا گزرے گی اِس کا صرف سوچا ہی جاسکتا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Rogue Superpower: Why this could be an illiberal American century”.(“Foreign Affairs”. November/December 2020)
Leave a Reply