
گلوبل ویلج کی اصطلاح بے معنی ہے، دنیا اب بھی اتنی وسیع ہے کہ بوسنیا کے قتلِ عام کی خبر مسلمانوں کو ملتے ملتے دو برس لگ گئے۔ کشمیر کے حریت پسندوں سے واقفیت ربع صدی کے بعد ہوتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اراکان کے روہنگیا مسلمانوں پر بدترین مظالم ہو رہے ہیں تو لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ اراکان کہاں ہے؟ روہنگیا کون ہیں؟؟؟؟
اراکان برما کا ایک مسلم اکثریتی صوبہ ہے۔ اراکان برما کا چودھواں صوبہ اور مغربی ریاست ہے، اس کا رقبہ ۵۱ ہزار ۸۰۰ مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی آبادی (۲۰۰۰ء میں) ۴۰ لاکھ تھی۔ جس میں ۸۰ فیصد مسلمان ہیں، ۲۰ فیصد آبادی میں عیسائی، ہندو اور بدھ شامل ہیں۔ اراکان کا دارالحکومت ’’اکیاب‘‘ ہے۔ یہ خطہ زراعت، قیمتی معدنیات، چاول اور مچھلی کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔ اراکان بندرگاہ بھی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اراکان کا برما سے براہ راست کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے۔ اراکان کے مشرق میں برما ہے اور کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیاں اسے مکمل طور پر برما سے جدا کرتی ہیں۔ البتہ بنگلادیش اس کے مغرب میں واقع ہے اور بنگلادیش کے ساتھ اراکان کی ۱۷۶ میل طویل آبی اور زمینی سرحد ملتی ہے۔
برما ۱۹۴۸ء میں آزاد ہوا، اس سے قبل یہ ہندوستان کا حصہ تھا، اراکان کے مسلمانوں نے ۱۹۴۷ء کی جدوجہد آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا لیکن ان کی قسمت بھی کشمیریوں جیسی تھی۔
اراکان کے مسلمان ’’روہنگیا‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ نام اس لیے پڑا کہ اراکان کا قدیم نام ’’روہنگ‘‘ تھا۔ یہاں اسلام عرب تاجروں کے ذریعے پہنچا، یہ آٹھویں صدی عیسوی کی بات ہے جب عرب تاجر پہلی مرتبہ یہاں پہنچے، اس کے بعد تیرھویں صدی عیسوی تک آتے آتے آسام سے ملایا تک جگہ جگہ مساجد بن چکی تھیں۔
۱۴۳۰ء میں اراکان میں ایک مسلم ریاست قائم ہوئی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اراکان کا بدھ راجہ مسلمان ہو گیا، اس کا اسلامی نام سلیمان شاہ تھا، اس نے بنگال کے گورنر ناصر الدین شاہ کی مدد سے ’’مسلم مملکت اراکان‘‘ قائم کی۔ یہ مسلم حکومت ساڑھے تین سو سال تک قائم رہی اور ۴۸ مسلمان حکمرانوں نے حکومت کی۔ اس وقت یہ برما (جس کا موجودہ نام میانمار ہے) سے الگ ایک خودمختار اور آزاد مسلم ریاست تھی۔
بعدازاں مسلمان اور بدھ کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برما کے راجہ بودویمیہ نے ۱۷۸۴ء میں اراکان پر قبضہ کر لیا۔ سو سال تک یہی صورتحال رہی۔ ۱۸۸۵ء میں برطانیہ نے برما پر قبضہ کر کے اسے ہندوستان کا حصہ بنا دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران برما پر جاپان قابض ہو گیا۔ اسی جنگ عظیم کے دوران ۱۹۴۲ء میں بودھوں کی انتہا پسند تنظیم ’’تھاکن‘‘ نے منظم طریقے پر مسلم کش فسادات شروع کر دیے۔ یہ ایک خوفناک المیہ تھا، جس کی طرف جنگ عظیم کی وجہ سے کسی نے توجہ نہیں دی۔ اس قتل عام میں ایک لاکھ مسلمان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے اور پانچ لاکھ ہجرت پر مجبور ہوئے، بیشتر بنگال (موجودہ بنگلادیش) آگئے۔
برما کے مسلمانوں میں اس کا شدید ردعمل ہوا اور ۱۰ مئی ۱۹۴۲ء میں برتھی، ڈونگ اور مونگڈو کے علاقوں میں مزاحمت کرکے مسلمانوں نے اپنی حکومت کا اعلان کردیا، یہ اراکان کی آزادی کی ایک کوشش تھی، جو اس وقت ناکام ہو گئی جب برطانیہ دوبارہ برما پر قابض ہو گیا۔
جب برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی تو ۱۹۴۷ء میں پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے اور ۱۹۴۸ء میں برما آزاد ہو گیا۔ شمالی اراکان کے برطانوی ایڈمنسٹریٹر نے جنگ عظیم دوم میں کامیابی کے بعد اور برصغیر کی آزادی کے اعلان سے قبل شمالی اراکان کے بعض اہلِ علم اور سیاسی شخصیات کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ برطانوی حکومت کو شمالی اراکان کی علیحدگی کی درخواست کریں تو ان کی یہ درخواست قبول کر لی جائے گی، لیکن اراکان کے مسلمانوں نے ایسا کوئی باقاعدہ مطالبہ نہیں کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ۱۹۴۷ء میں برما کے حوالے سے ایک قومی کانفرنس منعقد کی گئی تھی، جس میں یہ طے پایا تھا کہ برما کا آزاد وفاق قائم کیا جائے گا اور دس سال گزرنے کے بعد برما وفاق میں شامل ریاستوں کو برما کے ساتھ رہنے یا علیحدہ ہو جانے کا اختیار ہو گا۔ اراکان کے مسلمانوں نے سوچا ہوگا کہ دس سال کا عرصہ تو کچھ نہیں ہوتا، ہم اس وقت علیحدگی کا فیصلہ کر لیں گے۔
جس طرح ریڈ کلف باؤنڈری کمیشن نے پنجاب کی تقسیم میں بدمعاشی کی تھی اورکئی مسلم اکثریتی علاقے بھارت کو دے دیے تھے اور کشمیر کی ریاست کو ان کے عوام کی خواہش کے باوجود بھارت کو دیا گیا اور نہرو نے وہاں ریفرنڈم کا وعدہ کیا، لیکن ستر سال گزر گئے، کشمیری ابھی تک اپنی آزادی کے لیے کٹ مر رہے ہیں۔ اسی طرح برما کے صوبے اراکان کے مسلمانوں کے ساتھ ایسا خوفناک کھیل کھیلا گیا، جس کی تفصیلات رگوں میں خون جما دیتی ہیں۔
۱۹۴۸ء میں برما آزاد ہو گیا۔ نئی حکومت کو کسی اور صوبے یا ریاست سے خطرہ نہیں تھا مگر انہیں اراکان سے اس بات کا خطرہ تھا کہ دس سال بعد کہیں یہ برما سے علیحدہ نہ ہو جائیں جیسا کہ قومی کانفرنس میں طے ہوا تھا۔ لہٰذا برما کی حکومت نے منصوبہ بندی کے تحت اراکان میں مسلمانوں کا تناسب کم کرنے کے لیے دو کام کیے۔
۱۔ برما کے دوسرے علاقوں سے امیر اور با اثر بودھوں کو اراکان میں زمینیں دے کر انہیں آباد کرنا شروع کیا۔
۲۔ ان تمام باشندوں کو جو بنگال اور ہندوستان سے آکر برما میں آباد ہو گئے تھے، انہیں برما کی شہریت دینے سے انکار کر دیا گیا اور انہیں جبراً ملک بدر کیا جانے لگا۔ لہٰذا آزادی کے ابتدائی چند سالوں میں ہی تیس ہزار مسلمان مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلادیش ) میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔
یہ بات یاد رہے کہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے زمانے سے ہندوستان سے لوگ برما جاکر آباد ہونا شروع ہوگئے تھے، ان میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔ پھر برطانوی دور میں بھی بہت بڑی تعداد میں ہندوستان خصوصاً بنگال سے لوگ برما میں آباد ہوئے، یہ لوگ وہاں کی معیشت پر چھا گئے اور وہاں کے صاحب حیثیت لوگوں میں شمار ہونے لگے۔ ۱۸۸۰ء کے بعد سے ہندوستانیوں کی برما کی طرف بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہونے لگی، یہ ہندوستانی زیادہ تر اراکان میں آباد ہوئے۔
۱۹۳۱ء کی مردم شماری کے مطابق برما کی کل آبادی ڈیڑھ کروڑ تھی، جس میں سے مسلمانوں کی آبادی پونے چھ لاکھ کے قریب تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں کو برطانوی عہد میں وہاں اچھے عہدے ملے، ان میں سے بیشتر سرکاری ملازمتوں، بینکوں کی ملازمت اور تجارت میں نمایاں تھے۔
ایسے لوگ جو برسوں سے وہاں آباد تھے انہیں یہ کہنا کہ وہ برما کے شہری نہیں ہیں اور وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں بڑی ناانصافی کی بات تھی۔ ۱۹۵۳ء میں برسراقتدار آنے والے وزیراعظم اونو نے انہیں شہریت کے حق سے محروم کر دیا، جس نے بہت بڑے بحران کو جنم دیا، لوگوں نے برما سے دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت شروع کردی، جو نہیں گئے انہیں جبراً نکالا گیا۔ ۱۹۵۶ء میں ۳۹ ہزار مسلمانوں کو جبراً برما سے نکال دیا گیا۔
ان حکومتی مظالم کے رد عمل میں مجاہدانہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ اس تحریک کا بانی قاسم نامی ایک ماہی گیر تھا، شمالی اراکان میں شروع ہونے والی اس تحریک کا مقصد پاکستان سے الحاق تھا۔ اس تحریک نے شمالی اراکان کے ۸۰ فیصد حصے پر قبضہ کر لیا، یہ سرگرمیاں آٹھ سال جاری رہیں لیکن قاسم کی مشرقی پاکستان میں گرفتاری اور تحریک سے پاکستان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے آزادی کی یہ تحریک دم توڑ گئی۔
پاکستان کی عدم دلچسپی کی وجہ پاک چین تعلقات کا تحفظ تھا۔چین اور برما کے بہت اچھے تعلقات تھے اور پاکستان بھی خطے میں طاقت کے توازن کے لیے چین سے دوستی کو بہت اہمیت دیتا تھا۔
اراکان میں نسلی فسادات کی ایک لہر فروری ۲۰۰۱ء میں پھوٹ پڑی۔ یہ فسادات اراکان کے صوبائی صدر مقام اکیاب میں ہوئے، بدھ مت کے پیروکاروں نے برمی پولیس فورس اور فوج کی پشت پناہی میں تین بڑے مسلم اکثریتی علاقوں اوہ منگلہ، ناظرپاڑا اور مولوی پاڑہ کو آگ لگا دی، جس میں ایک طرف املاک اور اثاثوں کو نقصان پہنچا تو دوسری طرف ڈیڑھ ہزار مسلمان مارے گئے۔ ۱۵۰ عورتیں اغوا کر لی گئیں اور کالج کے تمام مسلمان طلبہ نامعلوم مقامات پر پہنچا دیے گئے۔ رائٹر نے ۹ فروری کی رپورٹ میں بتایا کہ اکیاب میں دس ہزار کے قریب مسلمان بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں، اسپتالوں کے سامنے ۶۰۰ سے زائد مریض تشویشناک حالت میں پڑے ہیں، اسپتالوں میں ان کے لیے جگہ نہیں، بیرونی امداد کو متاثرین تک پہنچانے کے تمام راستوں پر سرکاری رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں، اغوا شدہ عورتوں اور غائب کیے جانے والے مسلم طلبہ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
عالم اسلام تک اپنی بے بسی کی خبر پہنچانے کے لیے برمی مسلمانوں کا ایک وفد پاکستان بھی آیا، انہوں نے بتایا کہ اکیاب میں ۴ سے ۱۰ فروری تک مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور ۳ ہزار مسلمان شہید کر دیے گئے، وفد نے درخواست کی کہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے، اگر ان مسلمانوں کو فوری تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تو اراکان (یعنی راکھائن) میں مسلمانوں کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ برما کی سوشلسٹ حکومت اسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ اراکان (راکھائن) کے یہی روہنگیا مسلمان ہیں جنہوں نے جنرل راؤ فرمان علی خان، جنرل غلام رسول اور رحیم خان کے مطابق ۱۹۷۱ء کے سانحہ میں پاک فوج کے لیے شاندار خدمات انجام دی تھیں، پاک فوج کے جوان اور شہریوں نے جب دریائے ناف (یہ وہ دریا ہے جو اراکان اور چٹاگانگ کے درمیان بہتا ہے) پار کرکے ان کے علاقوں میں پناہ لینے کی کوشش کی تو ان مقامی مسلمانوں نے پاکستانیوں کی دل کھول کر مدد کی۔
۲۰۰۹ء میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور ان کی سمندری راستے سے ہجرت کو بڑے پیمانے پر میڈیا کوریج ملی۔ جس پر دباؤ میں آکر ’’آسیان تنظیم‘‘ نے اس مسئلے کو پہلی بار اٹھایا، آسیان ممالک کے اجلاس میں پالیسی بیان دیتے ہوئے میانمار کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہجرت کر کے جانے والے روہنگیا مسلمانوں کو صرف اس شرط پر واپس بلایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی شناخت بنگالی کے طور پر کریں۔ اس کے بعد اس معاملے پر عدم دلچسپی دیکھنے میں آئی اور معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔
روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے نے ایک بار پھر ۲۰۱۲ء میں شہ سرخیوں میں جگہ پائی۔ جب جون کے مہینے میں فسادات پھوٹ پڑے اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل گئے۔
مئی ۲۰۱۵ء میں اس مسئلہ کو ایک بار پھر میڈیا کوریج بڑے پیمانے پر ملی جب اراکان کے ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کو بنگلادیش نے داخلے کی اجازت نہیں دی اور خلیج بنگال میں ایک خوفناک انسانی المیے نے جنم لیا۔
ذرائع ابلاغ کی جامع اور بھرپور کوریج (یہ کوریج امریکا اور مغربی ممالک میں کی جا رہی تھی) نے اس کثیر الجہتی اور پیچیدہ مسئلہ کو دنیا بھر میں نمایاں کر دیا، جس پر برما کی حکمران جماعت Union Solidarity Development & Party (USDP) اور حزب اختلاف کی جماعت National League for Democracy (NLD) کو اپنے اپنے ردعمل دینے پر مجبور کر دیا۔
ایسے وقت میں جب خطے کے تمام ممالک نے ان تارکین وطن کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا تو انڈونیشیا کے شہر آچے کے باشندوں نے سمندر میں پھنسے سیکڑوں تارکین وطن کو بحفاظت اپنے ساحل پر اتارا۔
بحران کے اسی سال آسیان تنظیم کے اجلاس کی میزبانی ملائشیا کو کرنی تھی، ملائشیا نے مرکزی اجلاس سے قبل اس مسئلے سے متاثرہ ممالک کی ایک میٹنگ بلائی جس میں میانمار نے شرکت سے انکار کر دیا۔
جب حکومتیں اپنے مسائل کو درست طریقے سے حل نہیں کرتیں یا نہیں کر سکتیں تو پیدا ہونے والا خلا کوئی اور طاقت، کسی اور طرح سے پُر کرتی ہے، جو مسائل کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ برما کے مسلمانوں کا مسئلہ ’’شناخت کا مسئلہ‘‘ تھا اور ہے۔ انہیں اس ملک کی شہریت نہیں دی جا رہی ہے جہاں وہ اور ان کے آباء اجداد صدیوں سے آباد چلے آرہے ہیں۔ یہ ایک سماجی، سیاسی مسئلہ تھا جسے پچاس سال سے مسلط وہاں کی فوجی حکومتوں نے حل نہیں کیا۔ لہٰذا اب مسئلہ میں مذہب کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے اور معاشی عنصر بھی۔
یہ کسی طرح justify نہیں کیا جا سکتا کہ ایک نوجوان جو میانمار کے صوبے راکھائن (یعنی اراکان ) میں پیدا ہوا، اس کے باپ، دادا، پردادا، بلکہ لکھڑ دادا بھی وہیں پیدا ہوئے ان سے کہا جائے کہ تم لوگ برمی یا روہنگیا نہیں بلکہ بنگالی مہاجر ہو لہٰذا تمہیں مستقل شہریت کے بجائے ’’عارضی رہائش‘‘ کے کارڈ جاری کیے جائیں گے اور ساتھ ہی یہ تشریح بھی کر دی جائے کہ عارضی کارڈ والوں کو سرکاری ملازمت، ورک پرمٹ بھی نہیں مل سکتا۔
میانمار حکومت نے اس مسئلے کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا، (ویسے بھی فوجی حکومتوں کے سروں میں Unbreakable سریے ہوتے ہیں) بہرحال اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حقوق انسانی کا یہ معاملہ مذہبی رنگ اختیار کر گیا۔
بدھ مت، جو میانمار کا اکثریتی مذہب ہے (سرکاری نہیں) کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ اس مذہب کی تعلیمات میں عدم تشدد کا بنیادی اصول موجود ہے، مگر اس کے باوجود سری لنکا میں ان کی انتہا پسند کارروائیوں کی پوری تاریخ موجود ہے، ۱۹۵۸ء میں ایک بدھ راہب ہی تھا جس نے سری لنکا کے وزیراعظم ایس۔ڈبلیو۔آر۔ڈی بندرانائیکے کو قتل کیا تھا، سری لنکا میں ان کی شدت پسند تنظیم ’’بدھا بالا سینا BBS‘‘ آج بھی طاقتور ہے، اس تنظیم کا بانی ’’گنانا سارا تھیرو‘‘ ایک بدھ راہب ہی تھا۔ ہم سری لنکا کو چھوڑ کر میانمار میں آتے ہیں۔
راکھائن (یعنی اراکان) میں “969” نامی بدھ تنظیم روہنگیا مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں مصروف ہے۔ بوجوہ میانمار کی حکومت اور فوج اس تنظیم کی دہشت گرد کارروائیوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کا وہاں رہنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
میانمار کی موجودہ حکمران آنگ سان سوچی وہاں کی مقبول سیاست دان ہیں، انہوں نے فوجی حکومتوں کے خلاف طویل جدوجہد کی، اس لیے انہیں امن کا نوبل انعام دیا گیا، وہ طویل عرصے نظربند بھی رہیں ان کے برسراقتدار آنے پر یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ رجسٹریشن کے معاملے کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں گی، لیکن فوج کے دباؤ اور بدھ انتہا پسندوں کے دباؤ کی وجہ سے کچھ بھی نہیں ہوا، سوچی کو خوف ہے کہ اگر انہوں نے رجسٹریشن قانون میں نرمی کی تو ان کے ’’بدھ ووٹ بینک‘‘ پر اثر پڑے گا۔
اس سارے معاملے کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ میانمار حکومت ہونے والے ظلم وبربریت سے انکاری ہے۔ سوچی اور ان کی پوری وزارت خارجہ یہ بیانیہ تشکیل دے رہی ہے کہ ہم روہنگیا مسلمانوں پر ظلم نہیں کر رہے، بلکہ روہنگیا مجاہدین ہم پر ظلم کر رہے ہیں اور ساتھ ہی وہ اگست ۲۰۱۷ء میں مسلمان عسکریت پسندوں کے اس حملے کا ذکر کرتے ہیں جس میں ۱۲ برمی پولیس والے مارے گئے تھے۔
قارئین! اگر آپ برما کے سفارتخانے کو بذریعہ ای۔میل اپنی تشویش سے آگاہ کریں گے تو وہ اگلے ہی دن آپ کو اپنا ڈرافٹ کردہ خط بھیج دیں گے، جس میں وہ آپ کو سمجھائیں گے کہ ظالم وہ نہیں، روہنگیا ہیں۔
یورپی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کے وزیر خارجہ نے پوری ڈھٹائی سے کہا کہ میانمار حکومت کسی جنگی جرائم کی مرتکب نہیں ہوئی نہ ہی برما میں نسل کشی (Genocide) جاری ہے۔ قارئین یہ انٹرویو یو ٹیوب پر موجود ہے، کل میں نے آدھے گھنٹے سے زائد کا یہ انٹرویو دیکھا اور سنا تھا۔ یہ غالباً TNT نیوز کی پیشکش تھی۔ جولائی ۲۰۱۳ء میں TIME میگزین نے سرورق پر بودھوں کے انتہا پسند مذہبی لیڈر ’’دیراتو‘‘ کی تصویر شائع کی تھی اور بدھ دہشت گردی کی کہانی بھی موجود ہے، لیکن میانمار حکومت کچھ ماننے کو تیار نہیں۔
پس چہ بائد کرد۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا کیا جائے؟ اس کا جواب انتہائی مشکل ہے کیونکہ ایک فریق (یعنی میانمار حکومت) یہ مان ہی نہیں رہی ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہی ہے۔
دوسرا فریق غریب ترین اور جاہل روہنگیا مسلمان ہیں، جو اس بُری طرح سے تباہ کیے گئے ہیں کہ سمجھنے سمجھانے کی منزل سے گزر گئے ہیں۔
تیسرا فریق پڑوسی ممالک(یعنی بنگلادیش، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور ملائشیا )ہیں۔ انہیں انسانی بنیادوں پر ان روہنگیا مہاجرین کو پناہ دینی چاہیے، جس کے اخراجات اقوام متحدہ برداشت کرے۔
چوتھا فریق عالمی برادری ہے وہ تینوں فریقوں پر اخلاقی دباؤ بڑھائے تاکہ کوئی مزید المیہ جنم نہ لینے پائے۔
پاکستان یہ کر سکتا ہے کہ چین کے ساتھ اچھے تعلقات کی بناء پر اس سے یہ درخواست کرے کہ وہ اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ اگر چین نے ایسا نہیں کیا تو امریکا اس معاملے میں براہ راست مداخلت کر سکتا ہے، جیسی مداخلت اس نے عراق یا لیبیا میں کی تھی، اگر امریکا اس خطے میں آگیا تو بڑی خرابی ہو گی۔
☼☼☼
برما کے اطراف چار میں سے تین مسلم اکثریتی ممالک ہیں
کیا وہ کوئی حکمت عملی نہیں بنا سکتے ہیں؟
پاکستانی اپنے برے وقت پر ان کی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے دستبردار نہیں ہو سکتے ہیں۔ انہیں اب امریکہ کے مقابلے چین کی خوشنودی کی خاطر اپنی غیرت و ذمہ داری سے بری نہیں کیا جا سکتا۔ اور آخری بات یہ کہ خود اراکان کی اتنی بڑی آبادی کیوں اتنی کمزور ہو گئی کہ ذلت کی انتہا پر ہے۔ کہاں گئے وہ اہل بصیرت جو خدا کے نور سے دیکھنے کے دعویدار تھے۔
جناب مجتبیٰ فاروقی صاحب
اسلام علیکن ورحمتاللہ وبرکاتہ آپ نے روہنگیا مسلمانوں کے جو حالات و واقعات بین کئے ہیں آپ کی یہ سعی
لائق تحسین ہے میں آپ کے مطالعہ کو داد دیتا ہوں اگر آپ کے پاس ان کے حوالہ جات ہیں تو مجھے عنائت فرما کر مشکور فرمائیں میں تاریخ برما پر کام کر رہا ہوں تو اآپ کی معاونت ہوجائے گی اللہ رب العزت آپ کو جائے خیر عطا فرامئے
والسلام
پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر محمد انور قاسمی یونیورسٹی آف سرگودھا