
(زیر نظر مضمون کا پہلا حصہ ۱۶؍دسمبر ۲۰۱۴ء شمارہ نمبر ۲۴، جلد نمبر۷ میں طبع ہوا تھا، جس کا دوسرا اور آخری حصہ نذرِ قارئین ہے)
دینی علوم کے ماہرین کی ذمہ داری
ہر شخص کی ذمہ داری اس کو ملی ہوئی نعمت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ ایک بااختیار شخص کی ذمہ داری ایک بے اختیار شخص سے بڑی ہوتی ہے۔ صاحبِ اقتدار کی ذمہ داری اس سے بڑی ہوتی ہے جس کے پاس اقتدار نہیں، ایک فقیر کی نسبت مال دار کی ذمہ داری بڑی ہے۔ صاحب علم کی ذمہ داری اَن پڑھ سے زیادہ ہے۔ عالمِ دین پر عائد ہونے والی ذمہ داری دیگر لوگوں کی نسبت بہت بڑی ہے۔ بلکہ اس کے اوپر تو کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ مثلاً لوگوں کے سامنے حقائق دین کو واضح کرنا، دین اصلی اور صاف شفاف مصادر سے لوگوں کو دین کی تعلیم دینا، اور دین کو اسی طرح لوگوں کو سکھانا جیسا اللہ تعالیٰ نے نازل کیا، جیسا نبی کریمؐ نے اس کی دعوت دی اور جیسا صحابہ کرامؓ نے اس کو سمجھا… یعنی شائبوں، بدعتوں اور تحریفات سے پہلے کا دین وہ لوگوں کے سامنے پیش کرے اور انہیں اس کی تعلیم دے کیونکہ آج ہمیں یہ مشکل درپیش ہے کہ دین میں ایسی اشیا داخل ہو گئی ہیں جو دین کا حصہ نہیں ہیں۔ دورِ قدیم میں لوگ دین میں اضافے کی کوشش کیا کرتے تھے اور ہمارے دور میں لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ دین میں کمی کریں۔ آج یہ لوگ ایسا دین چاہتے ہیں جس کی ریاست نہ ہو، ایسا عقیدہ چاہتے ہیں جس کی شریعت نہ ہو، ایسا اخلاق چاہتے ہیں جس میں جہاد نہ ہو، ایسی شادی کے متمنی ہیں جو طلاق کے بغیر ہو اور عبادات بلاقاعدہ و قانون کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ دین نہیں ہے، دین تو ان تمام چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔ یعنی عقیدہ، عبادت، اخلاق، شرائع، آداب اور ایسی ریاست جو ان تمام چیزوں کے ساتھ حکمران ہو۔ بلکہ یہ کہیے کہ پورے اسلام کو اپنانا، اختیار کرنا اور ماننا ضروری ہے۔ بعض علما سے اپنی ذمہ داری اور کردار ادا کرنے میں کوتاہی ہوئی، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے امت کبھی گمراہی پر یکجا نہیں ہوگی۔ اس میں ہمیشہ ایسے علما موجود رہیں گے جو امت کو صراطِ مستقیم کی طرف لانے کے لیے کردار ادا کریں گے۔ لوگوں کو تمام حقائق کی تعلیم دیں گے، اسی طرف ان کی رہنمائی کریں گے جس طرف رسول کریمؐ نے ان کی رہنمائی فرمائی تھی۔ میں تو کہتا ہوں کہ ایک عالم دین کی ذمہ داری تو بلاغ مبین (صاف شفاف تبلیغ) ہے، جیسا کہ قرآن نے یہ نام دیا ہے۔ یعنی حقائق دین کو کھول کھول کر بیان کرنے والا اور دین کو امت کے لوگوں کے دل و دماغ میں اتار دینے والا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے‘‘۔ (ابراہیم:۱۴)
میں اس آیت کی تفسیر یہ کرتا ہوں کہ ایک عالم دین نہ صرف انگریزی میں بات کرتا ہے، اطالوی سے اطالوی میں بات کرتا ہے بلکہ خواص سے خواص کی زبان میں اور عوام سے عوام کی زبان میں، شہریوں سے شہری زبان میں، دیہاتیوں سے دیہی زبان میں بات کرتا ہے، کیونکہ ان تمام طبقوں کی اپنی اپنی زبانیں اور محاورے ہوتے ہیں۔ پندرھویں صدی کے لوگوں اور اکیسویں صدی کے لوگوں کی زبانوں میں بہت فرق واقع ہوگیا ہے۔ کیونکہ کئی صدیاں گزر چکی ہیں۔ بہرحال ضروری ہے کہ عالم دین ہر قوم اور طبقے سے ان کی زبان میں بات کرے۔ عالمِ دین کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ صاف شفاف دعوت پیش کرے، لوگوں کو دین سکھائے، انہیں دین کے اوپر یکجا کرے، منتشر کرنے کا ذریعہ نہ بنے، تعمیری جدوجہد کرے تخریبی سرگرمیوں کا حصہ نہ بنے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو کچھ نازل کیا ہے اس کو ہر گز نہ چھپائے۔ ایک عالم کی یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں سے حق نہ چھپائے خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، طاقتور ہوں یاکمزور، حکمران ہوں یا عوام، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا پیغام بِلاکم و کاست پہنچائے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
’’جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے‘‘۔ (الاحزاب:۳۳)
ایک داعی کے لیے تو علم اور جدید تعلیم نہایت ضروری ہے۔ ایک کامیاب داعی کے لیے لازمی ہے کہ وہ متعدد علوم سے بہرہ ور ہو۔ مثلاً وہ دینی علوم، ادبی و لسانی علم، نفسیات انسانی کے علم، تاریخ کے علم، سائنس کے علم سے آشنا ہو۔ اس کے پاس طبیعی، واقعی اور حالاتِ حاضرہ کا کچھ نہ کچھ مطالعہ ہونا ضروری ہے۔ وہ مسلمانوں کے حالات سے آگاہ ہو، دشمن کی صورتحال سے باخبر ہو، ان چیزوں کو وہ کسی کمی بیشی کے بغیر ٹھیک ٹھیک جانتا ہو۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ان علوم کا اچھا خاصا علم اس کے پاس ہونا چاہیے۔ کم ازکم انسان ہر پہلو پر ایک کتاب تو پڑھ لے۔ مثلاً میری کتاب ’’الاجتہاد فی الشریعۃ الاسلامیۃ‘‘ کا مطالعہ عصر حاضر میں ایک عالم کی ضروریات میں سے ہے تاکہ صحیح اجتہاد ہوسکے۔ وہ انسانی علوم اور سائنسی علوم کا کچھ حصہ تو جان سکے۔ ایک عالم دین کو طبیعاتی، جغرافیائی، تاریخی اور ریاضیاتی علوم سے ضرور واقفیت ہونی چاہیے تاکہ وہ جب فتویٰ دے تو بصیرت کے مطابق فتویٰ دے، دعوت دے تو دلیل کی بنیاد پر دے۔ حتیٰ کہ اگر وہ فیصلہ کرے تو وہ اپنے ارد گرد کے تمام امور سے آگاہ ہو۔ اگر وہ زندگی اور زندگی کے رجحانات اور اس کی مشکلات سے لاعلم ہوگا تو اس کے فتوے صحیح نہیں ہوں گے۔
عالم وہ ہے جو دین کا علم اس کے صاف شفاف سرچشموں سے حاصل کرے۔ اور یہ علم ایک نہیں ہے بلکہ متعدد علوم ہیں اور ہر علم کے اپنے اپنے تخصصات ہیں۔ کوئی فقہ و شریعت کا عالم ہوتا ہے، کوئی دعوت کا عالم ہوتا ہے، کوئی تفسیر اور حدیث کا عالم ہے، لیکن ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان چیزوں کو ٹھیک طرح سے جانتا ہو۔ بعض لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں جو معمولی چیزوں کو جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم عالم ہیں۔ کوئی شخص اس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک وہ اس علم کو ہضم نہ کرلے، اور اس کے اصول یعنی بنیادوں سے واقف نہ ہو، اس کے مصادر کو ان سرچشموں سے نہ جانتا ہو۔ اور امور و مسائل کے موازنے کی قدرت نہ حاصل کرلے۔ اس کا تجزیہ و تحلیل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔
علمی صلاحیت اور فقہی بصیرت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عالم دین غلطی نہیں کرسکتا۔ عالمِ دین بھی ایک انسان ہے اور ہر انسان غیر معصوم ہے۔ یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ وہ بھی لغزش کا شکار ہو جائے یا خطاکا ارتکاب کربیٹھے۔ کچھ خطائیں ایسی ہوتی ہیں جو قابل معافی ہوتی ہیں اور کچھ ناقابل معافی۔ بڑی خطا جس کا کوئی عالم ارتکاب کرے اور اس کا کوئی ہمنوا نہ ہو۔ بسا اوقات یہ قرآنِ کریم کی آیت کے برخلاف ہوتی ہے، جملہ احادیث صحیحہ کے برعکس ہوتی ہے۔ اس یقینی اجتماع کے خلاف ہوتی ہے جس کے اوپر امت اپنی تاریخ میں قائم چلی آرہی ہو۔ یہ خطائیں بعض اوقات کبیرہ لغزشیں ہوتی ہیں۔ اسی لیے احادیث رسولؐ اور آثار صحابہؓ عالم کی لغزش سے بچنے کی تنبیہ کرتی ہیں اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ عالم کی لغزش پر ڈھول پیٹا جاتا ہے لیکن جاہل کی لغزش پر اس کی جہالت پردہ ڈال دیتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عالم کی لغزش سے ایک جہان غلطی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس لیے ایک عالم کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی پناہ کا طالب رہنا چاہیے اور شیطان کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ عمل سے بھی کوئی اظہار ایسا نہ ہونے پائے جو ارادی خطا کے زمرے میں آتا ہو۔
عموماً کہا جاتا ہے کہ ساری امت نالائق اور جاہل ہے۔ یہ تہذیب اور تمدن سے آشنا نہیں ہے… لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ امت میں ایسے علما بھی ہیں جو ایک آنکھ اپنے اسلامی ورثے پر رکھتے ہیں اور دوسری آنکھ عصر حاضر کے تقاضوں پر اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ الحمدللہ ہم نے ایسے علما کو دیکھا ہے اور ان کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا تو صحیح نہیں کہ ساری امت ہی تہی دماغ ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمیں بہت زیادہ علم و معرفت کی ضرورت ہے۔ یعنی ہمارے لیے ضروری ہے کہ عصر حاضر کی معرفت کے دائرے کو مزید وسعت دیں۔ علما کے آفاق کو کشادہ اور وسیع کریں۔ یہ تو مطلوب اور وقت کا تقاضا ہے۔ ہم اس کی ترغیب بھی دیتے ہیں اور اسے ضروری بھی سمجھتے ہیں۔
عصرِ حاضر کے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک ایسے طرز اور منہاج کی ضرورت ہے کہ امت کے اندر مجتہدین موجود ہوں۔ یہ ایسے لوگ ہوں جو اسلام کے مسائل کا علاج اسلامی فارمیسی کی تیار کردہ ادویات سے کریں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ اسلامی مسائل کا علاج باہر سے درآمد کی گئی ادویات سے کرتے ہیں لیکن اسلام کے جسم کا علاج لازماً اسی سرزمین میں بنی ادویات ہی سے ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو مصادرِ اسلام سے احکام کے استنباط کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اسلامی نصوص اور شرعی مقاصد کو باہم جوڑ سکتے ہوں۔ بعض علما جزئی نصوص میں ہی معاملات کو دیکھتے ہیں مقاصدِ شریعہ کو پیش نظر نہیں رکھتے اور بعض علما معاملات کا حل ماضی کے تناظر میں نکالتے ہیں، عصر حاضر کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں اس کے تقاضوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ اس کے ساتھ علما کو اخلاص، ذاتی قوت و صلاحیت اور ایمانی قوت کو بھی ملانا ہوگا۔ تاکہ جو عقیدہ عالم رکھتا ہے اس کا اظہار بھی کسی کی صلاحیت کی پروا کیے بغیر زبانی طور پر کرسکے۔
علما کا سیاسی کردار
عصرِ حاضر میں حاکم کے ساتھ عالم کا کردار انحطاط کا شکار ہے۔ ایک دور ایسا گزرا ہے جب حاکم بذاتِ خود عالم ہوتا تھا۔ مثلاً خلفائے راشدین خود علما تھے اور مسلمانوں کے امام تھے۔ پھر ایک ایسا دور آیا کہ حاکم خود تو عالم دین نہیں ہوتا تھا مگر وہ عالم دین سے مدد لیتا تھا۔ اس سے مشورہ لیتا اور اسے اپنے قریب رکھتا تھا۔ اس کی رائے اور نصیحت پر کان دھرتا تھا۔ پھر یہ دور شروع ہوا جو اب تک جاری ہے کہ عالم دین حکمرانِ وقت سے اور حکمرانِ وقت عالم دین سے دور ہو گیا۔ اور یہ دور گزشتہ ادوار کی نسبت زیادہ سخت دور ہے۔ بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عالمِ دین حاکمِ وقت کا دشمن ہو گیا اور حاکمِ وقت عالمِ دین کا۔ حکمران عالم دین کو پکڑتا اور جیل میں ڈال دیتا۔ اس کا مشاہدہ ہم نے ماضی قریب میں تقریباً ہر ملک میں کیا ہے کہ علما اور حکمران کے درمیان کشمکش برپا رہی۔ بہت سے حکمرانوں کی نظر میں وہ علما جرم کے مرتکب ہیں جو شریعت کے نفاذ کی دعوت دیتے ہیں۔ حکام کی نظر میں یہ علما دستور و قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ایسے بیشتر علما کو پابند سلاسل کیا گیا اور بیشتر کو پھانسی دے دی گئی۔ مصر میں ایسا ہی ہوا۔ امام حسن البنا کو شہید کیا گیا۔ عبدالقادر عودہ اور شیخ محمد فرغلی اور دیگر علما کو پھانسی دی گئی۔ یہ سب لوگ سرکردہ اہل علم تھے۔ یہ انحطاط اور زوال جو علما اور حکومتوں کے تعلق میں پیدا ہوگیا ہے، اس نے علما اور حکمرانوں کو ایک دوسرے کے خلاف اور آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ ان کے درمیان دین و دنیا کی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے اور جب تک یہ دیوار گرے گی نہیں امت کا معاملہ درست نہیں ہو سکتا۔ یعنی علما اور حکام کے درمیان جب تک عزت و احترام کے تعلقات استوار نہیں ہو جاتے، امت کے اندر انتشار و ابتری ختم نہیں ہوسکتی۔
حکمران کو خیرخواہانہ بنیادوں پر نصیحت کرنا عالم دین کا فرض ہے۔ عالم دین حکمراں کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت ضرور کرے مگر اس انداز میں جیسا کہ کہا گیا ہے: ’’جو شخص اچھائی کا حکم دے وہ یہ حکم اچھے اور بہترین انداز میں دے‘‘۔ وہ حکمت و دانش اور دل نشیں اسلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے۔ اسی طرح دیگر بہت سے وسائل بھی ہیں جن کو دعوت کے معاملے میں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ عہدِ حاضر نے ہمیں ایسے کئی وسائل اور طریقے دیے ہیں جن کو ہم حکمرانوں کی نصیحت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے ٹی وی پروگراموں کے ذریعے حکام کو نصیحت کرسکتے ہیں، ہمیں ایسی گفتگو کرنی چاہیے جس سے حکمران مستفید ہو سکیں۔ اگر کسی عالم کو حاکم کے نزدیک اور قریب ہونے کا موقع ملے تو اسے رازدارانہ انداز میں نشاندہی کرنی چاہیے کہ جناب فلاں معاملہ دینی اور شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ آپ کو ایسے اور ایسے کرنا چاہیے، یوں آپ کی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ رازدارانہ انداز اس لیے مفید ہے کہ علی الاعلان نصیحت کے عمل سے مخاطب اپنی توہین محسوس کرتا ہے۔ بعض علما لوگوں کے سامنے سرعام حکمران کو یوں مخاطب کرتے ہیں کہ اے ظالم حکمرانو، اے فاسق حکمرانو! ایک عالم دین مامون الرشید کے پاس گیا تو اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے ظالم! اے فاسق! مامون نے اس سے کہا جناب اللہ تعالیٰ نے تجھ سے بہتر شخص کو مجھ سے بدتر شخص کی طرف بھیجا تو اسے نرمی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ عالم نے پوچھا کس کو؟ مامون نے کہا: اللہ تعالیٰ نے موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو جو دونوں تجھ سے بہتر تھے فرعون کی طرف بھیجا جو کہ مجھ سے بدتر تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن سے کہا: اس کے ساتھ نرم گفتگو کرنا، ہوسکتا ہے وہ نصیحت قبول کرلے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے۔ اس اعتبار سے علما کا کردار انحطاط کا شکار ہے۔ لیکن قومی امور میں آج تک ہمیشہ علما کا مثبت کردار رہا ہے۔ قوم کو شعور و ادراک دینے، تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے اور دینی مسائل سے آگاہی دینے کے معاملے میں ہمیشہ علما نے بہترین کردار ادا کیا ہے اور یہ سلسلہ ایک سے دوسری نسل کو منتقل ہوتا آیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ آجکل علما کا وہ کردار نظر نہیں آتا جو پہلے زمانوں میں تھا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلے عوام کو روشنی مہیا کرنے کا کام صرف علما ہی کے پاس تھا جبکہ دور حاضر میں مختلف یونیورسٹیاں اور تعلیمی مراکز قائم ہیں۔ اب صرف علما ہی زندگی کے رہنما نہیں ہیں بلکہ یہ علمی مراکز اورادارے بھی یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح پہلے علما کے پاس مادی وسائل اپنے تھے جبکہ دورِ حاضر میں علما سیاسی حکومتوں کے ملازم ہیں۔ علما آزاد نہیں رہے۔ حضرت حسن بصری بنوامیہ کے حکومتی عہدیداروں پر سخت تنقید کرتے تھے۔ کسی عہدیدار نے لوگوں سے پوچھا کہ اس آدمی کی طاقت کا راز کیا ہے؟ جواب ملا: لوگ اس کے دین کے حاجت مند ہیں لیکن اُسے اُن کی دنیا کی کوئی ضرورت نہیں۔ مشکل تو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب عالم دین حکمرانوں کی دنیا کا حاجت مند بن جائے لیکن حکمرانوں کو اس کے دین کی ضرورت نہ ہو۔ آج ہم یہی چاہتے ہیں کہ عالم دین کو اس دنیا کی قطعاً حاجت نہ ہو جو حکمرانوں کے پاس ہے لیکن لوگوں کو اس کے علم اور دین کی حاجت ہو۔
علما کا معاشرتی مقام اور قومی کردار
مجموعی طور پر آج بھی علمائے دین اور امت کے درمیان محبت و احترام کا مضبوط رشتہ قائم ہے۔ عمومی طور پر امت اور علما کے درمیان کوئی منافرت اور دوری پیدا نہیں ہوئی۔ امت آج بھی علمائے دین کے گرد جمع ہوتی، اُن کی بات کو وزن دیتی اور ان کی آواز پر لبیک کہتی ہے اور یہ کیفیت ہر ملک کے اندر موجود ہے۔ اگر کہیں عوام کسی عالم دین سے دور رہتے ہیں تو اس کا بھی کوئی سبب ہوتا ہے۔ عوام عموماً اس عالم سے دور ہوتے ہیں جس کے بارے میں سمجھتے ہوں کہ وہ دنیا کی خاطر اپنا دین فروخت کرتا ہے۔ لیکن جس عالم دین پر لوگوں کو بھرپور اعتماد ہو اس کے ساتھ لوگوں کا رشتہ اور تعلق بڑا سنجیدہ و شائستہ اور مضبوط و مستحکم ہوتا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ علمائے حق ہمیشہ موجود رہے ہیں اور اُن کو معاشرے میں ایک برتر مقام حاصل رہا ہے اور ہم نے ہر ملک میں اس کیفیت کا مشاہدہ کیا ہے۔
حقیقی عالم تو وہ ہے جو اپنے علم کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضا کا ذریعہ بنائے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو مخلوق تک پہنچاتا ہے۔ وہ اس معاملے میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا۔ ہم نے ’’عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین‘‘ کا سلوگن اس آیت کو بنایا ہے:
’’جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے‘‘۔(الاحزاب:۳۹)
اور فطری بات ہے کہ ایسا حقیقی عالم تکلیفوں سے دوچار ہوگا۔ اُسے پسِ دیوارِ زنداں بھی جانا پڑے گا، گرفتاریوں کا سامنا بھی ہوگا، اور بھی طرح طرح کی ایذائیں اور مصیبتیں اُسے پہنچائی جاسکتی ہیں۔ ہمارے امت کے تمام ائمہ، ائمہ اربعہ نے ان مصائب کا سامنا کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ سے آغاز ہوا۔ انہیں منصب قضا (جج بننے) کی پیشکش کی گئی اور انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا تو حکمرانوں نے انہیں جیل بھجوا دیا۔ اسی طرح امام مالک پر تشدد کیا گیا، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے کوئی حدیث بیان کی تو انہیں بلاوجہ تعذیب سے دوچار کیا گیا اور وہ ایک لمبی مدت جیل میں پڑے رہے۔
اس دور کے بعد بھی ہر عہد میں علمائے حق تعذیب و تشدد سے دوچار ہوتے رہے۔ عزبن عبدالسلام، جمال الدین افغانی، محمد مہدی سوڈانی، لیبیا میں سنوسی، الجزائر میں امیر عبدالقادر، یہ سب علما تھے۔ عصر حاضر میں انہی علمائے دین نے بڑی بڑی اسلامی تحریکوں کی قیادت کی ہے۔ مصر میں حسن البنا شہید اور برصغیر میں سید ابوالاعلی مودودیؒ نے ہر قسم کے تسلط کے خلاف مزاحمت کی تحریک برپا کی۔ جب مصر کے اوپر فرانس نے جارحیت کرنے کی کوشش کی تو یہ علمائے ازہر ہی تھے جنہوں نے پوری قوم کو مسلسل متحرک رکھا۔ فرانس کا یہی حسد اور بغض تھا جس کی بنا پر اُس نے جامعہ ازہر پر گولہ باری کی۔ اور اس کی فصیل کو توڑ کر اس میں داخل ہوئے۔ اس کے تقدس کو پامال کرنے کے لیے گھوڑوں کو یہاں داخل کیا گیا۔ فتحی برنارڈ لوئس نے اپنی کتاب ’’مشرق و مغرب‘‘ میں عالم اسلام میں آزادی کی تحریکوں کا ذکر کیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ ان تحریکوں کی بیشتر قیادت دینی علما اور زعما نے کی۔ لیکن افسوس کہ جب آزادی کی یہ تحریکیں کامیاب ہوگئیں تو سیکولر قوتوں نے صورتحال پر قبضہ کرلیا۔ یعنی فصل اسلامی شناخت رکھنے والے کاشت کرتے ہیں مگر کٹائی سیکولر قوتیں کرلیتی ہیں۔
میں کہتا ہوں ایک مسلمان عالم کبھی امت کے بڑے اور زندہ مسائل سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ وہ ہمیشہ قوم و ملت کو درپیش ہر قسم کے بڑے بڑے مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ معرکوں میں قائدانہ کردار ادا کرتا ہے۔ الجزائر پر صدی سوا صدی مسلط رہنے والے فرانسیسی استعمار کے مقابلے کے لیے الجزائری قوم کو پہلے امیر عبدالقادر نے بیدار کیا۔ جمعیت العلما الجزائر کے ایک عالم ربانی اور مجاہد شیخ عبدالحمید بادیس اور اُن کے نائب شیخ محمد بشیر الابراہیمی اور شیخ تپسی جیسے کئی علما کی قیادت میں قوم کو مزاحمت کے لیے تیار کیا۔ یہی جمعیت العلما تھی جس نے فرنچائزیشن کے سامنے بند باندھے رکھا۔ اس وقت الجزائر کے قومی تشخص کو مسخ کرنے کی فرانس نے پوری کوشش کی۔ یعنی اس کے دین اور زبان کو ملیامیٹ کرنا چاہا، اسلام اور عربی زبان کو بُرا کہا جاتا۔ اس وقت شیخ عبدالحمید بن بادیس اٹھے اور انہوں نے قوم کو نغموں اور ترانوں کے ذریعے تعلیم دینا شروع کی کہ الجزائری قوم مسلمان ہے اور عرب کے ساتھ اس کا تعلق گہرا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ تعلق اب ختم ہوچکا اور قوم اپنی موت مر چکی، وہ غلط کہتا ہے۔
بہرحال علما کا کردار ہمیشہ معروف رہا ہے۔ نصف سے زائد صدی تک فلسطینی جہاد کی قیادت کس نے کی ہے؟ الحاج امین الحسینی مفتی اعظم فلسطین اور ان سے پہلے معرکوں اور جنگوں کی قیادت علما ہی نے کی۔ شیخ عزالدین القسام شام کے عالم دین تھے جنہوں نے جہاد فلسطین میں شریک ہو کر دستوں کی قیادت کی اور انگریز اور یہود کے مقابل صف آراء رہے۔ ان کے اسی کردار کی بنا پر تو حماس کے ہمارے بھائیوں نے اپنے جہادی دستوں کے نام ان سے منسوب کیے ہیں۔ یعنی عزالدین القسام ونگز۔ علما کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل سے صَرفِ نظر نہ کریں بلکہ ان میں امت کی قیادت و رہنمائی کریں۔
(ترجمہ: ارشاد الرحمن)
(بحوالہ: ’’زندگی نو‘‘ نئی دہلی۔ جنوری ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply