
چند برسوں سے ملک میں اردو زبان، رومن / انگریزی رسم الخط (Alphabet) میں لکھی جارہی ہے۔ اشتہاری بورڈز ہوں یا دکانوں کے نام، شاپنگ بیگز ہوں یا مصنوعات کے اشتہارات، اب سب لوگ اردو رسم الخط کے بجائے، رومن / انگریزی رسم الخط میں اردو لکھ رہے ہیں۔
یہی حال ٹیلی ویژن کے ڈراموں اور پروگراموں سے پہلے یا بعد لکھے ہوئے ناموں کا بھی ہے۔ ڈرامہ یا پروگرام اردو میں ہوتا ہے، مگر رسم الخط رومن۔ موبائل فونز نے مزید بربادی کا سامان کر دیا ہے۔ انگریزی آتی نہیں، اس لیے لکھتے اردو ہی میں ہیں۔ مگر رسم الخط رومن / انگریزی ہوتا ہے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ بہت جلد یہ نکلے گا کہ نئی پود کی انگریزی تو اچھی نہیں ہو سکے گی، مگر وہ اردو لکھنے پڑھنے سے بھی محروم ہو جائے گی۔ یوں مستقبل قریب ہی میں اردو محض ’’بولی‘‘ بن کر رہ جائے گی۔ پڑھنے لکھنے والی زبان انگریزی ہو گی، لیکن اس کی استعداد ایک محدود اقلیت کے پاس رہے گی۔ گویا ایک اشرافیہ (Elite Class) ذہنی، فکری، علمی، ادبی، تحقیقی اور تعلیمی قیادت پر قابض رہے گی۔ ملک کی عظیم اکثریت اس کے ’’کارندوں، خادموں، منشیوں اور مستریوں‘‘ کا فریضہ انجام دیا کرے گی۔ صدیوں کا علمی و ادبی، تاریخی و تحقیقی اور معاشرتی و دینی لٹریچر اُسی طرح ناکارہ ہو کر رہ جائے گا جیسے ترکی میں مصطفی کمال پاشا کی لِسانی پالیسی کے نتیجہ میں ترکی زبان کا لٹریچر عجائب خانوں کی ’’زینت‘‘ بن کر رہ گیا ہے۔
ہمیں ۱۹۶۰ء کی ایک تحریر ہاتھ لگی ہے، جب جنرل ایوب خان کے ’’انقلابِ جدید‘‘ میں اردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے کی تحریک سرکاری سرپرستی میں چلائی جارہی تھی۔ نامور اسکالر مولانا عبدالقدوس ہاشمی کی اِسی موضوع پر درج ذیل تحریر اب سے ۵۴ سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ لیکن نئے تناظر میں بھی اس کی افادیت برقرار ہے۔ تب کمپیوٹر اور جدید کمپوزنگ کا دور نہیں آیا تھا۔ اب تحریر و ترسیل اور ابلاغ کے جدید ذرائع آچکے ہیں۔ مگر رسم الخط کی اہمیت اور اثرات میں پہلے کے مقابلے میں کمی نہیں ہوئی ہے۔
(مدیر ’’معارف فیچر‘‘)
کچھ دنوں سے یہ سوال زیر بحث ہے کہ اگر پاکستان کے لیے رومن حروف اختیار کرلیے جائیں تو اس سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟ یہ سوال قومی تعلیمی کمیشن نے اپنے سوال نامے میں کیا تھا۔ جب اس پر بحث شروع ہوئی تو اس کا دوسرا لازمی حصہ خود بخود اہلِ علم و اہلِ فکر کے سامنے آگیا کہ اس عمل سے کیا نقصان ہوگا؟ اس سوال کے ان ہی دونوں پہلوئوں پر بغیر جذبہ قدامت پرستی، اختصار کے ساتھ بحث مقصود ہے۔
رابطہ اتحاد
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو اور بنگالی، دونوں کا ایک ہی رسم الخط ہو جائے تو باہمی اختلاف ختم ہو کر اتحاد کی شکل پیدا ہو جائے گی۔ لیکن یہ خیال ایک منطقی مغالطہ ہے اور روابط اتحاد میں رسم الخط کے اتحاد کو کوئی اہمیت نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو فرانس اور جرمنی کے درمیان کبھی جنگ نہ ہوتی اور یورپ اور امریکا کی ساری اقوام ایک ہی متحد قوم ہوتیں۔
تاریخی پس نظر
اس تجویز کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ یورپی تاجروں نے اپنے کارندے، جو وہ یورپ سے لاتے تھے، ان کو یہاں کے مقامی الفاظ، خصوصاً افراد اور مقامات کے نام یاد کرانے کی یہ ترکیب نکالی تھی اور اس کام کے لیے یہ ترکیب تھی صحیح، کیونکہ فارسی حروف انہیں سکھانا مشکل تھا۔ اس کے بعد جیسے جیسے فرانسیسیوں اور انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ کا دائرہ بڑھتا گیا، رومن حروف کے استعمال کا دائرہ بھی پھیلتا گیا۔ اس تاریخی پس نظر کے بعد آئیے! رومن رسم الخط پر خاص علمی انداز میں غور کریں اور دیکھیں کہ اگر پاکستان میں رومن رسم الخط اختیار کر لیا گیا تو کیا فوائد اور کیا نقصانات ہوں گے؟
پاکستان میں اگرچہ اس وقت بہت سی زبانیں رائج ہیں، لیکن خط کے اعتبار سے صرف دو خط ہیں مشرق میں بنگلہ رسم الخط اور مغرب میں اردو رسم الخط۔ اب ہمیںان رسم الخط پر غور کرتے ہوئے مندرجہ ذیل تنقیحات پر غور کرنا چاہیے۔
۱۔ کیا صوتیاتی اعتبار سے رومن حروف اردو اور بنگلہ کی ساری آوازیں ادا کرنے کے قابل ہیں۔
۲۔ کیا تعلیمِ بالغاں اور روزمرہ کی تحریری ضروریات میں ان حروف سے ہمیں آسانیاں مل سکتی ہیں۔
۳۔ کیا طباعت کا کام ان حروف کے اختیار کرنے سے آسان اور ارزاں ہو سکے گا۔
۴۔ کیا قومی اتحاد اور علمی و ادبی سرمایہ میں رومن رسم الخط سے اضافہ ہوگا؟
اگر آپ ان تنقیحات کا جواب اثبات میں پاتے ہیں تو ضرور رومن رسم الخط رائج کیجیے۔ اور اگر نفی میں پائیں تو ایسی غلطی ہر گز نہ کیجیے۔
آوازیں اور نقوش: کسی تحریر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی آواز کو مقررہ نقوش کے ذریعہ محفوظ کرنا اور دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اگر اس مقصد کے حصول میں فرق رہ جائے تو ایسی تحریر کے لکھنے یا چھاپنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ بہرحال رومن رسم الخط میں کسی بھی زبان کی ساری آوازوں کے ادا کرنے کے لیے سامان نہیں۔
سماعیات
یہ بات ناممکن ہے کہ زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود صرف حروف شناسی کے ذریعہ دنیا کی کسی زبان کے الفاظ کا صحیح تلفظ کرکے کوئی ایک سطر بھی عبارت پڑھ دے۔ سماعیات پر بھی بھروسا کرنا ہی پڑے گا۔ بھلا یہ کہاں ممکن ہے کہ آپ چین کے کسی دیہاتی کو رومن حروف اور ان کی آوازوں سے آشنا کرکے شیکسپیئر کے ڈرامے دے دیں اور یہ توقع کریں کہ وہ صحیح تلفظ کے ساتھ ایک سطر بھی پڑھ سکے گا۔
اردو زبان اور رومن حروف
آوازوں کی ادائیگی اور ان کے اصولوں کو ذہن میں رکھ کر اگر اردو زبان کے لیے رومن حروف اختیار کیے جانے کے سوال پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ رومن رسم الخط ہمیں جملہ ۲۶ نقوش دیتا ہے اور ۱۶ حروف کی آوازوں کے لیے رومن حروف میں کوئی نقش موجود نہیں۔ اس مختصر سی تشریح کے بعد آپ غور کیجیے کہ اردو زبان کے لیے رومن حروف کو رواج دینا خالص صوتیاتی نقطۂ نظر سے کس حد تک مفید قرار دیا جاسکتا ہے؟
تعلیم
کیا تعلیمِ بالغاں و نابالغاں میں رومن خط اختیار کرنے سے ہمیں کوئی آسانی میسر آسکتی ہے؟ ایک اَن پڑھ آدمی کو جو اردو بولتا ہو یا کم ازکم اردو زبان کی آوازوں سے مانوس ہو، اسے اردو حروف تہجی کے ۳۵ نقوش یاد کرنا آسان ہے یا رومن حروف کے ۳۳۲ نقوش۔
عام ضروریات
اردو رسم الخط لکھنے میں رومن خط سے تقریباًنصف جگہ صَرف ہوتی ہے، قلم کو بقدر ایک تہائی کم حرکت دینی پڑتی ہے اور نصف وقت صَرف ہوتا ہے اور اردو رسم الخط زیادہ تیزی سے پڑھا جاسکتا ہے۔ اردو رسم الخط میں دکھائی دینے کی صلاحیت رومن خط سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اردو رسم الخط میں حروف ٹکڑے ہو کر ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔ اس لیے مختصر نویسی کی طرح اس خط میں نہایت تیزی کے ساتھ تحریری کام ہو سکتا ہے۔ رومن خط اس اعتبار سے اردو رسم الخط کا مدمقابل نہیں ہوسکتا۔
ٹائپ رائٹر
روزانہ کی ضروریات میں صرف یہی ایک چیز ایسی ہے جو رومن خط کو اردو خط پر تفوق کا سبب بناتی ہے۔ ٹائپ رائٹر میں ہمارے پاس اردو کے اچھے ٹائپ رائٹر نہیں ہیں۔ لیکن اس سلسلہ میں ہم دوسروں کے کیوں محتاج بنیں؟ کیا اس سلسلہ میں ہم نے کوئی کوشش کی؟ اگر پاکستان کا کوئی کارخانہ دار، ٹائپ رائٹر بنانے کو تیار ہو تو یہ بات کوئی مشکل نہیں کہ یہ کمزوری رفع ہو جائے اور اردو ٹائپ رائٹر بے عیب نہ ہوجائیں۔ (یہ بات کمپیوٹر عام ہونے سے قبل کی ہے۔ ادارہ)
مختصر نویسی
مختصر نویسی کا تعلق آواز کی ترسیم سے ہے اور اب بھی اردو آوازوں کی ترسیم یعنی مختصر نویسی نہایت کامیابی کے ساتھ ہوتی ہے اور مہارت پیدا کر کے اس کو مزید ترقی دی جاسکتی ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ اچھی انگریزی جاننے والا مختصر نویسی بہتر اور صحیح طور پر کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح اچھی اردو جاننے والا، مختصر نویسی اردو املا نویسی اور تقریر نویسی کا کام زیادہ صحیح اور تیزی کے ساتھ کرسکتا ہے۔ اس کا تعلق زبان پر قدرت اور مہارت سے ہے۔ جن لوگوں نے اردو مختصر نویسی میں مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ انگریزی مختصر نویسوں سے بہتر کام کرتے ہیں۔
مسئلہ طباعت
طباعت کا مسئلہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اردو کی طباعت مشکل نظر آتی ہے۔ اس میں صفائی نہیں ہوتی، تصاویر اچھی نہیں چھپتیں، وغیرہ وغیرہ۔ گھبرا کر ان تمام ناکامیوں کا بوجھ ہم اردو رسم الخط کے سر ڈال دیتے ہیں اور یہ پکار اٹھتے ہیں کہ رومن رسم الخط اختیار کر لیا جائے۔ ایسے لوگ دراصل طباعت کے کام سے واقف نہیں، اس لیے ناکامی کے اصل سبب سے ناواقف ہیں۔ طباعت کے طریقوں کے پیش نظر بھی اردو خط رومن خط سے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔
نقصان اور محرومی
رومن رسم الخط اختیار کرنے سے کیا زیادہ علمی و ادبی سرمایہ ہمیں حاصل ہوگا؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب صرف نفی ہی ہوسکتا ہے۔ اردو یا بنگلہ زبان میں اور رومن خط میں چھپی ہوئی کوئی قابل ذکر کتاب موجود نہیں، جس تک ہماری رسائی ہو جائے گی۔ انگریزی، فرنچ اور جرمن زبانوں کا سرمایۂ علمی صرف رومن رسم الخط اختیار کر لینے سے ہمیں نہیں مل سکتا۔ نہ رومن رسم الخط اختیار کرتے ہی ان زبانوں کا سیکھنا سکھانا ہمارے لیے آسان ہو جائے گا۔ اس لیے یہ تصور تو کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا کہ ہم رومن رسم الخط کے ذریعہ کچھ حاصل کرسکیں گے۔ البتہ یہ ضروری ہوگا کہ اب تک کا سارا علمی ادبی سرمایہ جو تالیفات اور تراجم کی شکل میں تقریباً چار لاکھ کتابوں پر مشتمل ہے، ہم سے چھوٹ جائے گا۔ ہم اپنے ماضی سے بالکل علیحدہ ہو کر ایک جدید ادب پیدا کریں گے اور نہ جانے کتنے دنوں میں کم ازکم اتنا کچھ پیدا کر سکیں گے جو ہماری حیاتِ ابدی کی ضمانت ہوسکے۔ یہ بالکل ناممکن بات ہے کہ حکومت اور عوام کی مشترکہ مساعی سے بھی ہم ان چار لاکھ کتابوں کے نئے ایڈیشن رومن رسم الخط میں تیار کرلیں۔ دلّی، گجراتی سے لے کر جگر مراد آبادی تک تمام شاعروں کے دیوان چھاپ لیں۔ خواجہ گیسودراز کی انیس العاشقین، بلکہ خسرو کی پہیلیوں سے لے کر شوکت تھانوی کی مزاحیہ تحریروں تک کو رومن میں منتقل کرلیں۔
ان ساری محرومیوں کے علاوہ، سب سے بڑی محرومی یہ ہوگی کہ کچھ دنوں کے بعد ہم قرآن مجید کے حروف سے بے خبر ہو جائیں گے اور یہ مقدس حروف ہمیں نامانوس سے نظر آنے لگیں گے۔ ہماری دعا و درود کی کتابیں صرف ریسرچ اسکالر ہی پڑھ سکیں گے اور اسلامی و دینیات کی ساری کتابیں عجائب خانوں کی الماریوں میں تاریخی یادگار کے طور پر محفوظ ہو جائیں گی (جیسا کہ ترکی میں ہو چکا ہے)۔
ذرا اس دردناک صورتحال کا تصور کیجیے کہ جب پاکستانی بچے قرآن کے حروف کو اس نظر سے دیکھیں گے جس نظر سے پیراگوئے کا ایک عیسائی قرآن مجید کے صفحات کو دیکھتا ہے۔
مختصر یہ کہ رومن حروف میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اردو زبان کی آوازیں ان سے ادا ہوسکیں۔ رومن حروف ناقص، غیرسائنٹفک اور غلط قسم کی لکیروں کے مرکبات ہیں۔ ان میں تعلیمِ بالغاں و نابالغاں، دونوں اردو حروف سے زیادہ مشکل ہیں۔ ہمیں اگر تعلیم کو عام کرنا ہے تو یہ مشکل اور نامناسب خط ہر گز اختیار نہ کرنا چاہیے۔ پچھلے تقریباً دو سو سال کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس میں تعلیم کی کوشش بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور پونے دو فیصد بھی حروف شناس نہ بن سکے۔
رومن حروف، ہماری روزمرہ کی تحریری ضروریات کے لیے کارآمد نہیں۔ اردو زبان کی طباعت کے لیے بھی بالکل نامناسب ہیں۔ یہ پاکستانیوں کے مابین قومی اتحاد پیدا کرنے میں کسی طرح ممد و معاون نہیں ثابت ہوسکیں گے، بلکہ ان حروف کی وجہ سے وہ رہا سہا اتحاد بھی، جو دینی کتابوں اور دینی تعلیم کی بدولت قائم ہے، غارت ہو جائے گا۔ بین الاقوامی تعلقات میں بھی ان حروف سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ رومن حروف کو رواج دینے سے ہم اب تک کے وسیع علمی و ادبی سرمایہ سے عموماً اور قرآن و دینیات سے خصوصاً بالکل محروم ہو جائیںگے۔
اب صرف ایک سوال ہے کہ ان خرابیوں کے ہوتے ہوئے بھی بعض لوگ کیوں رومن رسم الخط رائج کرنا چاہتے ہیں؟ کسی کی نیت پر حملہ کرنے کا ہمیں کیا حق ہے۔ ہر شخص خود اس پر غور کرے یا ایسے لوگوں سے پوچھ کر وجہ معلوم کرے۔
(بشکریہ: مجلہ اردو کالج کراچی،’’برگ گل‘‘ ایوب نمبر۔ ۱۹۶۰ء)
Leave a Reply