
چند عشرے کتنا فرق ڈال دیتے ہیں۔ ۹۰ کی دہائی کے وسط میں امریکیوں (اور بعض دیگر اقوام) کو یقین تھا کہ امریکی لبرل جمہوریت مستقبل میں دنیا پر چھا جائے گی۔ وارسا پیکٹ پاش پاش ہوچکا تھا۔ لاطینی امریکا کے آمر انتخابات کرا رہے تھے۔ انسانی حقوق کے تصورات پھیل رہے تھے اور لبرل ادارے پروان چڑھ رہے تھے۔ انسانیت کا مستقبل جمہوریت سے وابستہ دکھائی دیتا تھا۔ فرانسس فوکویاما کے مشہور جملے ’’انسانیت اپنا نقطۂ عروج پاچکی‘‘ اور ’’یہاں تاریخ اختتام پذیر ہوتی ہے ‘‘ دنیا بھر میں عمومی سیاسی سوچ کا حصہ بن چکے تھے۔ ٹامس فریڈ مین ہم سب کو بتا رہے تھے کہ سبھی سرمایہ دارانہ نظام کو اپناچکے ہیں۔ اور یہ کہ اس نظام کا اہم ترین کھلاڑی امریکا ہے۔
یہ بات قابل فہم ہے کہ اگلے تین امریکی صدور نے انہی تصورات کو سراہا، اپنایا اور آگے بڑھایا۔ بل کلنٹن کی قومی سلامتی پالیسی ’’روابط رکھنے اور اپنا حلقہ اثر وسیع کرنے‘‘ کے گرد گھومتی تھی۔ اس کا بعلانیہ مقصد جہاں تک ہوسکے ، جمہوریت کا پھیلاؤ تھا۔ جارج ڈبلیو بش ’’لبرٹی ڈاکٹرائن‘‘ رکھتے ہوئے طاقت کا ایسا توازن چاہتے تھے جو آزادی کی حمایت کرے۔ انہوں نے اپنے دوسرے افتتاحی خطاب میں اسے امریکا کا ’’مقدس مشن‘‘ قرار دیا۔ براک اوباما نے اس ہدف کا محتاط جائزہ لیا، تاہم تمام تر احتیاط کے باوجود انہوں نے لیبیا اور شام میں آمریتوں کے خلاف کارروائی کی۔ انہوں نے ۲۰۱۰ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بتایا کہ اپنے رہنما چننے اور اپنے مقدر کا تعین کرنے سے زیادہ بنیادی حق کوئی اور نہیں۔ اس طرح گزشتہ بیس برسوں سے امریکا کو یقین تھا کہ دنیا مزید لبرل، قابل احتساب اور جمہوری گورننس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور اس پر کسی کو بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن پھرکیلنڈر پر ۲۰۱۷ء کا صفحہ پلٹا۔ اور امریکیوں کو یکایک احساس ہوا کہ فر د واحد کی حکومت کا دور واپس آچکا ہے۔ روس میں آمریت کا راج ہے۔ چینی رہنما شی جن پنگ بھی اپنی طاقت مستحکم کرچکے ہیں۔ بعض حلقے اُنہیں چیئرمین ماؤ زے تنگ سے بھی زیادہ با اثر قرار دیتے ہیں۔ ایک اہم عرب ملک کے ولی عہد احتساب کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ وہ ملک کی زیادہ تر طاقت اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں۔ مصر پر ایک مرتبہ پھر انتہائی سفاک اور بدعنوان فوجی آمریت مسلط ہے۔ ترک صدر طیب ایردوان نے ناکام فوجی مداخلت کے بعد ہزاروں صحافیوں، دانشوروں، اساتذہ، سرکاری اوردفاعی اداروں کے اہلکاروں اور سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ بتدریج عثمانی خلافت کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔
اس وقت مشرق وسطیٰ میں داعش کی آندھی بیٹھ چکی ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ عراق اور شام میں کس قسم کی حکومتیں قائم ہوں گی۔ ایک بات البتہ یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے اور یہ کہ یہ حکومتیں جمہوری ہرگز نہیں ہوں گی۔ مشرقی یورپ بھی مکمل طور پر جمہوری نہیں۔ ہنگری اور پولینڈ یقینی طور پر آمریت کی راہ پر گامزن ہیں۔ یہ ریاستیں کھل کر لبرل تصورات کی نفی کر رہی ہیں۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے کہ وہ یورپی یونین کی رکنیت کے لیے نااہل ہوجائیں لیکن شاید ان کے پیش نظر کچھ اور مقاصد ہیں۔
اس عالمی ماحول میں امریکی حکومت کیا کہہ سکتی ہے؟ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کے پاس ان آمریتوں اور فرد واحد کی حکومتوں کے لیے ستائشی الفاظ کی کمی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکا کو نسلی بنیاد پر تقسیم کرنے والے اس ’’عظیم رہنما‘‘ (Divider-in-Chief) کو آمریتوں سے کوئی شکوہ یا شکایت نہیں، بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اُنہیں قدرے رشک بھری نظروں سے بھی دیکھتے ہوں کہ اُن ریاستوں میں حکمرانوں کا نہ کوئی احتساب ہوتا ہے اور نہ ہی کسی آئینی قدغن کا پہرا۔ اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ صدر (ٹرمپ ) نظام انصاف کو ہدفِ استہزا بناتے رہتے ہیں۔ انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ نظامِ انصاف پر ان کا زیادہ کنٹرول کیوں نہیں۔ انہوں نے ایف بی آئی کے جیمز کومی کو محض اس لیے نکال باہر کیا کہ وہ صدر پر اپنی وفاداری ثابت کرنے میں ناکام رہے تھے۔ صدر نے اُنہیں امریکی صدارتی انتخاب میں روس کی تکنیکی مداخلت کی تحقیقات روکنے کا حکم دیا تھا۔
ٹرمپ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ریاستی اداروں کی ضرورت نہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں کرسکتے ہیں۔ ان پر کوئی پابندی درست نہیں۔ لیکن ٹرمپ سے معذرت کے ساتھ، امریکی حکومت نے طویل عرصے تک جمہوریت کا دفاع کیا ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس نے طویل مدت تک جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اور یہ مزید قربانیاں بھی دے سکتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ امریکا کی سیاسی روایات سے کھلا انحراف ہے۔ امریکا نے جمہوریت کی حمایت کرنے میں اکثر عدم تسلسل سے کام لیا ہے اور اہم ایشوز پر آمروں کے ساتھ خوش دلی سے اتحاد کیا ہے، لیکن اہم سیاسی معاملات اور دوسرے مفادات پر ڈیل کرنا ایک بات ہے اور اپنے نظریات کو چھوڑ کر غیر نمائندہ شخصیات کی تعریفوں کے پُل باندھنا الگ چیز ہے۔ ایسا کرنا بھی برا ہے کیونکہ یہ اس روایت کو، جو ماضی میں ایک قیمتی سفارتی اثاثہ ہوا کرتی تھی، توڑ دیتا ہے۔ یہ اس بات کا یقین تھا کہ امریکا محض انفرادی نوعیت کے مفادات کی بجائے کسی اور مقصدکے لیے اسٹینڈ لیا کرتاہے۔
یہ تبدیلی وہ نہیں ہے جس کا لوگوں کو سرد جنگ کے فوراً بعد انتظار تھا، لیکن یہ حیران کن بھی نہیں۔ طاقتور ہونے کے بجائے دنیا کی بڑی اور اہم جمہوریتوں کو گزشتہ پچیس سال کے دوران بڑے نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ امریکا نے عراق پر غلط وجوہ کی بنیادپر حملہ کیا۔ معاملات کو الجھایا اور انتظامی صورت حال کی خرابی کے باعث بڑے پیمانے پر نقصان بھی اٹھایا۔ اس کے نتیجے میں امریکا کا سیاسی نظام بگڑتا چلا گیا۔ سیاست دانوں کے بارے میں عوام کی رائے دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ کسی ذمہ دار سے جواب طلبی نہ کی گئی اور عوام کے عروج پاتے غم و غصے کو ٹرمپ کے اقدامات نے مزید جلا بخشی۔ یورپ میں یورو کا قیام ایک مہلک غلطی ثابت ہوا، جس کے نتائج بہت دور تک جاتے ہیں۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے فیصلے نے برطانوی حکمرانوں کی نا اہلی کا پردہ چاک کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ جنہیں قابل رشک سمجھتے ہیں ایسے بہت سے آمر ذرا بھی شاندار ریکارڈ نہیں رکھتے۔ ایردوان کا کنٹرول سخت ہونے سے ترک معیشت کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پیوٹن نے چند ایک معاملات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ ضرور کیا ہے تاہم وہ روسی معیشت کی کمزوریاں دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ معاشرتی مسائل کا بہتر حل تلاش کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ چین کو بھی متاثر کن کارکردگی کے باوجود بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ بھی کچھ زیادہ خوش کن دکھائی نہیں دیتا۔
امریکا اور کچھ دوسری جمہوریتوں نے دو دہائیوں سے بری کارکردگی دکھانے کے باوجود خود کو کامیابی سے قائم رکھا ہے۔ یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ ۲۰۰۸ء کے بحران سے امریکا نے خود کو تیزی سے باہر نکالا تھا۔ یہ ایک ایسی کامیابی تھی جس کا براک اوباما کو پورا کریڈٹ کبھی نہیں دیا گیا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Trump isn’t sure if Democracy is better than Autocracy”. (“Foreign Policy”. Nov.13, 2017)
Leave a Reply