روپرٹ مردوک سے دس سوالات

گذشتہ ہفتے Fox News نے اپنی دسویں سالگرہ ٹی وی پر منائی۔ اس موقع پر ۷۵ سالہ Rupert Murdoch جو فاکس نیوز کے بانی نیوز کارپوریشن کے چیئرمین اور منتظم اعلیٰ ہیں نیز میڈیا کی چند عالمی دماغ عفریت پیکر شخصیات میں سے ایک ہیں۔ٹائم کے منیجنگ ایڈیٹر Richard Stangel سے گفتگو کی ہے گفتگو جانبد اری اور تعصب سے متعلق تھی اور اس حوالے سے تھی کہ ان کے مستقبل کے بزنس میں My Space کیا مفہوم رکھتا ہے جو کہ ان کے رو زمرہ کے انفارمیشن کے لیے بہت ہی قابل اعتماد ذریعہ ہے۔


س: فاکس نیوز کے حوالے سے آپ کا ابتدائی تصور کیا تھا؟

ج: CNN کا متبادل پیش کرنے اور مقابلہ کرنا میں نے ابھی یہ محسوس کیا ہے کہ آپ کے پاس دس کروڑ امریکی گھر ہیں اور ایسی صورت میں ایک سے زائد نیوز چینلوں کی ضرورت ہے۔

س: نیا نیوز چینل شروع کرنے میں آپ کی اس خواہش کو کتنا دخل تھا کہ آپ ایک نظریاتی نقطۂ نظر پیش کریں گے جیسا کہ آپ کا احساس تھا کہ امریکی میڈیا میں اس کا فقدان ہے۔

ج:خواہش ہمارے مقصد کا ایک حصہ تھی۔ اس ملک میں پریس کا ایک بڑا حصہ یکسانیت کا شکار ہے یعنی یہ اپنی مختلف منازل میں لبرل ہے اور میں نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ غلط ہے۔ لیکن اس ملک کے صحافتی مدارس اور اخبارات کلی طور سے اجارہ دارانہ ذہنیت کی مالک ہیں اوسطاً ہر شہر میں ایک اخبارہے جبکہ عوام خبروں کے معاملے میں تنوع کے خواہش مند ہیں۔

س: آپ کا اس پر کیا ردعمل ہے کہ فاکس نیوز وہ واحد چینل ہے جو وائٹ ہائوس میں کھلا رہتا ہے؟

ج :میں اس پر بہت فخر محسوس کرتا ہوں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ میں جب کانگریس کے قریب جاتا ہوں او رآپ جب ڈیمو کریٹس کے قریب جائیں تو معلوم ہوگا کہ یہ سب صد فیصد CNN والے ہیں۔ آپ ری پبلکن کے پاس جایئے وہ صد فیصد فاکس نیوز کے دلدادہ ملیں گے۔ اگرآپ حکومتی محکموں میں جائیں تو شاید وہاں آپ کو فاکس نیوز ملے۔ اگر آپ وزارت خارجہ میں جائیں گے تو وہاں آپ صرف CNN دیکھیں گے۔ چینلز سے زیادہ ناظرین متعصب ہوتے ہیں۔

س: کیا فاکس نیوز نے گذشتہ دس سالوں میں کوئی ایسا بھی کام کیا ہے جس کے متعلق آپ کا خیال ہو کہ یہ غیر شفاف اور غیر متوازن ہے؟

ج: میرا خیال ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھ جیسا آدمی جس کی قدامت پرستی زائد از حقیقت توضیح ہور ہے بھی بعض اوقات جھنجھلا جاتا ہے کہ مضامین کو مناسب جگہ نہیں دی جارہی ہے مناسب طریقے سے اس کی توضیح نہیں ہورہی ہے۔ لیکن مختصر یہ کہ میرا جواب آپ کے سوال کی نفی میں ہے۔

فوکس نیوز کے چیف Roger Ailes اس بات پر مصر رہے ہیں کہ تمام رخوں کو یکساں وقت دینا چاہیے۔

س: خبروں کے بیشتر صارفین کی ان دنوں مقبولیت لوگوں کی اتنی بڑی تعداد تک نہیں ہے جس کی تمنا تشہیر کاروں کو ہوتی ہے۔ کیا جو کچھ ہم کررہے ہیں اس کا کوئی مستقبل ہے؟

ج: حتماً۔ کتنے لوگ اپنے ٹیلی فون پر تحریری پیغامات سے مطمئن نظر آرہے ہیں؟ کتنے لوگ سائٹس دیکھنے کے لیے ویب پر جانا چاہتے ہیں؟ کتنے لوگ ہنوز چھپے ہوئے کو ہی میری طرح پڑھنا چاہتے ہیں جو کہ ایک پرانی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ بزنس کے ہر جز کے لیے جگہ ہے۔ لیکن لوگ ایڈیٹنگ کی ایک سطح کو پسند کرتے ہیں۔ کسی کو اسے جوڑنا ہے اور کہنا ہے کہ دیکھو !یہ ہے‘ وہ چیز بجائے اس کے کہ صرف گلگلی نیوز کی طرح ہو جہاں خبروں کی ترتیب‘ ہٹ ہونے کی تعداد کے اعتبار سے ہوتی ہے۔بہت سارے اہم واقعات جو دنیا میں وقوع پذیرہوتے ہیں آپ انہیں شامل کرنے سے چوک بھی سکتے ہیں۔

س: کیا MySpace یا کم از کم انٹرنیٹ‘ نیوز کارپوریشن کا مستقبل ہے؟

ج: ہوسکتا ہے۔ ہم اخبارات کے توسط سے اور دیگر ذرائع سے فلم شوز سے لے کر ٹی وی نیوز تک کے مواد رکھتے ہیں۔ ہم مجموعی طور سے اب جس چیز کو دیکھ رہے ہیں وہ ہے بہت زیادہ تعداد میں مزید پلیٹ فارموں کا ہونا۔ اس سے ہمارے مواد تک رسائی آسان ہوجائے گی جو کہ ایک اچھی بات ہوگی۔ جس چیز کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں وہ معاوضے کا حصول ہے جو بہر طور پر ہونا چاہیے۔

س: آپ نے کچھ ہی دنوں پہلے ایک تقریر کی تھی جس میں آپ نے کہا تھا کہ Digital age کلیت پسندی یا مطلق پسندی کا خاتمہ کردے گا۔ کیا اب بھی آپ کا یہ خیال ہے ؟

ج: ہر ایک ملک کے لیے یہ مختلف ہے۔ میں کہوں گا کہ عالمِ اسلام کے لوگ مغرب کی تصاویر کو بہت زیادہ نہیں دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کیسے رہتے ہیں اور کس طرح کے عزائم رکھتے ہیں۔ ایران میں جہاں لوگوں کی رسائی ایسے چینلوں تک ہے جو ملک میں باہر سے آتے ہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ مذہب کے زیر سایہ ہوتے ہوئے بھی جینز وغیرہ زیب تن کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ دوسرے مقامات پر ہے یعنی جہادیوں اور مسلمانوں کے وہابی فرقہ کے ساتھ مسئلہ ہے۔ تیل کی دولت پاکستان ہوکر انڈونیشیا یا ملائیشیا اور افریقہ تک پہنچ رہی ہے جس سے یہاں مدرسوں کے قیام میں مدد مل رہی ہے۔ یہ بہت ہی کم عمری میں بچوں کے ذہن کو تعلیم کے ذریعہ اپنے خیالات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور یہ تعلیم کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ قرآن کی ایسی تعبیر ہے جو دہشت گردی اور شہادت سے ہاتھ ملائے ہوئی ہے۔

س: آپ ہر روز خبریں کس طرح پڑھتے ہیں ؟ وہ کیا چیز ہے جسے آپ صبح صبح سب سے پہلے پڑھتے ہیں یا دیکھتے ہیں؟

ج : میں نیویارک پوسٹ پڑھتا ہوں آیا میں کام پر ہوں تب‘ یا ناشتے پر۔ پھر میں وال اسٹریٹ جرنل دیکھتا ہوں لیکن اس کا صرف فرنٹ پیج اور ادارتی صفحہ دیکھتا ہوں‘ اس کے علاوہ نہیں دیکھتا ہوں۔ پھر نیویارک ٹائمز دیکھتا اور اس کے بھی وہی دو صفحات دیکھتا ہوں بس اتنا ہی۔ میں تجارتی صفحات کو Scan کرلیتا ہوں یہ دیکھنے کے لیے کہ نیویارک ٹائمز میں کوئی ایسی خبر تو نہیں ہے کہ جو پسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل میں نہ ہو۔

س: گویا آپ اخبارات پر انحصار کرتے ہیں؟

ج: ہاں ! میں ۷۵ سال کا ہوچکا ہوں۔

س: آپ ان سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آپ نے ابھی تک دوسرے میڈیا سے حاصل نہیں کیا ہے؟

ج: اگر آپ کسی اچھے اخبار کو ہاتھ میں لیں تو بیشمار ایسی خبریں ملیں گی جنہیں پڑھنے کی آپ توقع نہیں کررہے تھے ان میں بعض بہت اہم ہوں گی جو زندگی کو مزید پرُلطف بناتی ہوں گی۔

(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ: ۱۶؍اکتوبر ۲۰۰۶ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*