آج سے ۴۵ سال قبل یعنی اکتوبر ۱۹۶۲ میں سویت یونین کی جانب سے کیوبا کی سر زمین پر اوسط دوری تک مار کرنے والے میزائیلوں کی تنصیب نے دنیا کو جوہری جنگ کے خطرے سے بہت ہی قریب کر دیا تھا۔ تیسری جنگ عظیم ناگزیر ہو جاتی اگر اس وقت کے سویت رہنما نیکیتا خروش چیف نے اپنے امریکی ہم منصب جان ایف کیندی کے الٹی میٹم کو مسترد کر دیا ہوتا۔ حقیقی تصادم کا آغاز جسے کیریبین بحران کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اکتوبر ۱۹۶۲ سے ہوا جب امریکی جاسوسی طیارے نے ایسی تصاویر لیں جو ظاہر کر رہی تھیں کہ کیوبا میں میزائل نصب کیے جا رہے ہیں اور سویت یونین کا یہ اقدام ٹھیک اسی طرح کی امریکی تنصیبات کے جواب میں تھا جو ترکی سویت بارڈر پر قائم کی گئی تھیں۔ سرد جنگ خاتمے کے تقریباً۲۰ سال بعد امریکی حکمران کیوبا جیسا میزائل بحران دوبارہ پیدا کر رہے ہیں۔ لیکن اس بار امریکی ہیں جو روس کے آنگن میںیعنی مشرقی یورپ میں انتہائی متنازعہ فیہہ میزائل دفاعی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ صدر پیوٹن جارج بش پر علانیہ تنقید کیوں کر رہے ہیں کہ وہ کیوبا جیسا میزائل بحران دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بش اور پیوٹن کے مابین جاری الفاظ کی جنگ سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ بش کا یہ دعویٰ کہ وہ یورپ میں میزائل دفاعی نظام اس لیے قائم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کو ایران جیسے ممالک کے حملوں سے محفوظ رکھ سکیں، کُل کہانی نہیں ہے۔ وائٹ ہاوس کے جنگجو ذمہ داران نے بارہا یہ کہا ہے کہ وہ یورپ میں میزائل دفاعی نظام کا قیام ایران جیسے ممالک کے میزائلی حملوں سے بچنے کی خاطر چاہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بوڑھا انکل سام مایوسی کا شکار ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنے عظیم ترین حریف روس پر اپنی اسٹراٹیجک برتری کو کسی طور برقرار رکھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں؟
بالسٹک میزائل مخالف ٹریٹی (۱۹۷۲) کے مطابق دس کو یہ اجازت ہے کہ وہ صرف ماسکو کے اطراف میں میزائل دفاعی نظام قائم کر سکتا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس ٹریٹی سے باہر نکل کر نہ صرف یہ کہ امریکا نے الاسکا میں اپنا میزائیل دفاعی پلیٹ فارم تعمیر کیا ہے بلکہ پہلی بار اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر بھی میزائل دفاعی نظام تنصیب کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ بش اینڈ کمپنی اس متنازعہ فیہہ میزائل دفاعی نظام کی تنصیب روس کے مغربی بازو سے بہت دور نہیں چاہتے ہیں۔ اس چیز نے سارے مسئلے کو ایک مزید نیا رخ دے دیا ہے اس حقیقت کے ساتھ کہ یہ دونوں قوتیں ایک دوسرے کے پرانے حریف بھی ہیں۔ کریملن امریکا کی اس بدنیتی کا جواب اس طرح سے دے رہا ہے کہ وہ یورپ کی کنونشنل آرمڈ فورسز (CFE) سے باہر آرہاہے اور اوسط دوری تک مار کرنے والے میزائیلوں اور دور تک پرواز کرنے والے فوجی ائیر کرافٹ کی پیدوار شروع کر رہا ہے۔ بہت سارے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ روس اور امریکا کے مابین میزائل دفاعی نظام کے مسئلے پر تازہ ترین محاذ آرائی شاید حتمی اور آخری جنگ کی شکل اختیار نہ کر سکے۔ اگرچہ کمیونزم اور کیپٹلزم کے مابین نظریاتی اختلافات ماضی کی بات ہیں پھر بھی دونوں کے مفادات کے ٹکرائو میں شدت کا پیدا ہونا کم از کم سرد جنگ کی یاد ضرور دلاتا ہے۔ اب یہ سوال باقی رہتا ہے کہ دنیا ایک جوہری جنگ یا وائٹ ہائوس کے جنگجوئوں سے بچ سکتی ہے جو دنیا کو ایک تباہ کن جنگ میں دھکیلنے پر تلے ہوئے ہیں، ایک ایسی جنگ میں جس کے مقابلے میں عراق کی موجودہ جنگ ایک پکنک کی حیثیت رکھے گی۔
(اداریہ: ’’ایران ڈیلی‘‘ تہران۔ شمارہ: ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply