ترکی اور روس کے قریبی تعلقات

شام کو شاید یقین نہ آئے یا اسے کوئی اعتراض بھی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ ترکی اور روس کے تعلقات قریبی نوعیت کے ہیں اور انہوں نے بہت سے اہم بین الاقوامی اور علاقائی امور میں ایک دوسرے سے تعاون بھی کیا ہے۔

شام میں تیرہ سال تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے ایک اسکالر محمد مصطفی کا کہنا ہے کہ بشار الاسد قصائی اور پوٹن شیطان ہے اور رجب طیب اردغان ولی ہے۔ ترک شام سرحد کے نزدیک سیلپینار شہر کے پناہ گزین کیمپ میں محمد مصطفی اور دیگر بیس ہزار شامی باشندے سکونت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ منحرف فوجیوں پر مشتمل فری سیریا آرمی کے ایک سپاہی ابراہیم جبار کا کہنا ہے کہ اگر روس مدد سے ہاتھ کھینچ لے تو بشارالاسد کی حکومت منٹوں میں گر جائے گی۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ۳ دسمبر کو ترکی کے دارالحکومت انقرہ پہنچے۔ روس اب تک شام کی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس نے علاقے میں امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کی پوزیشن کو مزید مستحکم ہونے سے روکا ہے۔ روس کو شام کی صورت حال کے ساتھ ساتھ اپنی حدود میں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات سے بھی تشویش لاحق ہے۔ روسی مسلمان شام کے حالات پر افسردہ ہیں اور بہت سے نوجوان شام جاکر بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف لڑنے کا عزم رکھتے ہیں۔ چیچنیا سے بہت سے نوجوان لیبیا اور شام گئے بھی ہیں۔ روس اب تک بشار الاسد کی صرف حمایت نہیں کر رہا بلکہ اسلحے کی کھیپ پہنچاکر اس نے باضابطہ مدد بھی کی ہے۔

روس نے اقوام متحدہ میں شام کے خلاف کئی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے اور مداخلت کی راہ مسدود کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ترکی چاہتا ہے کہ شام میں بشارالاسد انتظامیہ کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اس کوشش میں وہ دوسروں کے ساتھ اشتراکِ عمل بھی کر رہا ہے اور شام کے مصیبت زدہ لوگوں کے لیے اس نے سرحد بھی کھول رکھی ہے۔ اب تک ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد شامی باشندے ترکی میں پناہ گزین کی حیثیت سے داخل ہوچکے ہیں۔ انہیں کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ ترکی نے شام میں منحرفین کو فورسز کے خلاف لڑائی کے لیے ہتھیار اور فنڈ بھی دیے ہیں۔ ترکی نے شام کے پناہ گزینوں کی سہولت اور تحفظ کے لیے بفرزون بنانے اور امداد کے لیے محفوظ راستوں کے قیام کی کوشش بھی کی ہے۔

جون میں شام کی فوج نے بحیرۂ روم میں ایک ترک جیٹ طیارے کو مار گرایا تھا۔ مبصرین کا دعویٰ تھا کہ شامی فوج نے یہ اقدام روس کی مدد سے کیا تھا۔ ۱۰؍ اکتوبر کو ترکی اور شام کے درمیان معاملات اس وقت بے حد کشیدہ ہوگئے جب ترکی نے شامی حکومت کے لیے راڈار اور دیگر آلات لے جانے والے ایک مسافر بردار طیارے کو اتار لیا۔ روس نے شام جانے والے طیارے کو اتار لیے جانے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں راڈار اور دیگر آلات نہیں تھے اور یہ کہ ترک حکام نے ۱۷؍روسی باشندوں سے بہتر سلوک نہیں کیا۔ ولادیمیر پوٹن نے اس صورت حال کے تناظر میں اپنا ترکی کا دورہ ملتوی کردیا تھا۔
روسی صدر نے بالآخر ترکی کا دورہ کیا اور دوستی و تعاون کے گیارہ سمجھوتوں پر دستخط کیے۔ سینئر مبصر محمد علی براند کہتے ہیں کہ ترکی اور روس کے تعلقات اس نوعیت کے ہیں کہ ان میں کوئی بھی دوسرے کے بغیر نہیں چل سکتا۔ اور بشارالاسد کا کیا ہے؟ اس کا تو کوئی مستقبل ہی نہیں!

روس اور ترکی کے تجارتی تعلقات تیزی سے پنپ رہے ہیں۔ ترکی اپنی ضرورت کی گیس کا بڑا حصہ روس سے درآمد کرتا ہے۔ روس نے ترک بندر گاہ مرسن کے نزدیک ایک ایٹمی بجلی گھر بھی تعمیر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دونوں ممالک بہتر اقتصادی تعلقات کے ذریعے خطے کی سیاست پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ ترکی نے روسی حکومت کو بحیرۂ اسود سے گزرتے ہوئے یورپ تک تیل اور گیس کی ایک اور پائپ لائن ڈالنے کی اجازت بھی دی ہے۔ روسی سیاحوں کے لیے ترکی ایک اچھی منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم ۳۳؍ ارب ڈالر تک ہے جسے یہ چند برسوں میں تین گنا یعنی ۱۰۰؍ ارب ڈالر کرنا چاہتے ہیں۔

سیاسی معاملات میں ترکی نے روس سے متصادم ہونے سے گریز کیا ہے۔ جارجیا سے روس کی چار سالہ لڑائی میں ترکی غیر جانبدار رہا اور اس نے بلقان کے خطے میں معاملات درست رکھنے میں روس سے تعاون حاصل کیا ہے۔ نیٹو نے ترکی میں میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کرنے کا جو اعلان کیا ہے، اس پر روس نے اپنے تحفظات یہ کہتے ہوئے ختم کردیے ہیں کہ وہ ترکی کی دفاعی ضروریات کو سمجھتا ہے۔ یاد رہے کہ شام نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا عندیہ دے کر ترکی میں خطرے کی گھنٹی بجادی تھی، جس پر نیٹو کو متحرک ہونا پڑا۔ روسی صدر نے ترکی میں کہا کہ ’’شام میں ترکی اور روس کے مقاصد ایک سے ہیں‘‘ فرق صرف ان کے حصول کے طریقِ کار کا ہے۔ ترکی نے اس بیان کو خاصا حوصلہ افزا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماسکو اب انقرہ کے مسائل کو سمجھ رہا ہے اور اس حوالے سے موقف کی یکسانیت قائم ہوگی۔

ترکی کی سیکولر اپوزیشن پارٹی سی ایچ پی کے سربراہ فاروق لواوغلو روس میں ترکی کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’روس نے شام کے معاملے میں ترکی کی ہر بات نہیں مانی ہے، وہ چاہتا ہے کہ تبدیلی مرحلہ وار آئے‘‘۔ روس بشارالاسد انتظامیہ اور شامی اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا حامی ہے تاکہ معاملات خوش اسلوبی سے طے پائیں اور مزید خون خرابہ نہ ہو۔ ترکی اور روس نے مذاکرات ضرور کیے ہیں، مگر اب تک واضح نہیں کہ بشار انتظامیہ کا کیا ہوگا۔ ترکی نے اب تک شامی اپوزیشن کی بھرپور مدد کے لیے دباؤ نہیں ڈالا اور روس بھی اس بات پر زور نہیں دے رہا ہے کہ بشار الاسد کا انجام کیا ہونا چاہیے۔ اس صورت حال میں فاروق لواوغلو کو لگتا ہے کہ شام میں شہری مرتے ہی رہیں گے۔

شام کے معاملے میں ترکی کی پالیسی سے صرف روس شاکی نہیں، بلکہ خود ترکی میں لوگ نالاں ہیں۔ سیلپینار کے میئر کا کہنا ہے کہ شام کی اپوزیشن کی حمایت کرکے ترک حکومت نے اس سرحدی قصبے کو جہنم میں تبدیل کردیا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ اگر ترکی نے شام کے منحرفین کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو جنگ سرحد تک نہ آئی ہوتی۔ سیلپینار کے میئر چاہتے ہیں کہ مزید لوگ ترکی نہ آئیں۔ دوسری جانب شام کے پناہ گزین کہتے ہیں کہ اگر ترکی نے ساتھ نہ دیا ہوتا، تو وہ سب فوج کے ہاتھوں مار دیے جاتے۔

(“Russia and Turkey: Cool Pragmatism”… “The Economist”. Dec. 8th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*