
عوامی سفارت کاری کو بنیاد بنا کر روس ، جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح بنگلہ دیش میں بھی واپس آرہا ہے۔ روسی وفاقی ایجنسی برائے تعاون بین لاقوامی ممالک کے نائب سربراہ الیگزینڈر چیسنوکووف کا کا کہنا ہے کہ ہم پہلے بھی رکے نہیں تھے، لیکن اب زیادہ فعالیت کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ ڈھاکا میں روسی سفیر الیگزینڈر نیکولیف نے کہا کہ اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تجدید ہورہی ہے۔روسی سفیر کا کہنا تھا کہ روس اب سنجیدگی سے اور زیادہ لمبے عرصے کے لیے بنگلہ دیش آرہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار روسی سفیر الیگزینڈر نیکولیف نے روسی وفاقی ایجنسی برائے تعاون بین الاقوامی ممالک کے نائب سربراہ الیگزینڈر چیسنوکووف کی موجودگی میں کیا۔
الیگزینڈر چیسنوکووف، روسی مرکز برائے سائنس و ثقافت کی چالیسویں سالگرہ میں شرکت کے لیے ڈھاکا تشریف لائے تھے۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روسی سفیر کا کہنا تھا کہ روسی ثقافت اورہمارے لوگوں کی دوستانہ خصوصیت روس کی طاقت تھی۔
روس اور بنگلہ دیش کے تعلقات کا آغاز ۱۹۷۱ میں ہوا جب اس وقت سوویت یونین نے بنگلہ دیش میں پاکستان سے علیحدگی کی جنگ لڑنے والوں کا ساتھ دیا۔۱۹۷۱ء میں نو ماہ کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش کا قیام عمل آیا تھااور سابق سوویت یونین نے اقوام متحدہ میں نومولود ریاست کا ساتھ دیا تھا۔ روس نے جنگ سے تباہ حال بنگلہ دیش کی معیشت کو سہارااور ترقی دینے میں بھی تعاون کیا۔ ڈھاکا میں روسی ثقافتی مرکز کا قیام ۱۹۷۴ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ثقافتی مرکز نے بیشتر بنگلہ دیشیوں بالخصوص طالب علموں کو سوویت یونین کا دورہ کرنے کی حوصلہ افزائی کی۔ روسی کتابیں اور سینمابنگلہ دیش کے پڑھنے اور سننے والوں میں مقبول ہوا۔ ۱۹۹۱ میں سوویت یونین کی اشتراکی ریاستوں کی یونین ختم ہوگئی اور روس باقی رہ گیا۔
روس میں رونما ہونے والی ان سیاسی تبدیلیوں کے باعث ثقافتی مرکز سے بھی تنوّع اور جدّت ختم ہوگئی۔ روسی وفاقی ایجنسی کے نائب سربراہ الیگزینڈر چیسنوکووف نے کہا کہ ڈھاکا کے ثقافتی مرکز کی طرح دنیا بھر میں روس کے ۸۰ ثقافتی مراکز کام کر رہے ہیں اور مزید ۲۰ مراکزجلد قائم کیے جائیں گے۔ الیگزینڈر چیسنوکووف نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم ڈھاکا کے مرکز کو جدید بنائیں گے۔ ثقافتی مرکز کی لائبریری کو ماسکو کی قومی لائبریری اور میوزیم سے جوڑ ا جائے گا، تاکہ بنگلہ دیش کی نئی نسل کو ڈھاکا میں رہتے ہوئے روس کے بارے زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرنے کا موقع فراہم ہوسکے۔ اس عمل سے بنگلہ دیشی عوام میں روس کا دورہ کرنے کی خواہش میں بھی اضافہ ہوگا۔ روسی وفاقی ایجنسی کے نائب سربراہ نے مزید کہا کہ ہمارے سابق طالب علموں کا یہاں ایک مضبوط گروپ ہے اور اب ہم نوجوان نسل پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ۴۷ بنگلہ دیشی طلبہ نے روس کی جامعات میں داخلہ لیا۔ توقع ہے کہ اس سال یہ تعداد ۶۰ سے زیادہ ہوگی۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ۲۰ سے ۳۵ سال کے پیشہ ور ماہرین کو بھی روس مدعو کیا جائے گا۔ ہمارے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں یہ پہلا قدم ہوگا۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ماضی میں بنگلہ دیش کی بدلتی سیاسی صورتحال کے باعث زیادہ قریبی نہیں رہے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کا دورۂ روس اپریل ۱۹۷۲ میں شیخ مجیب الرحمن کے سابق سوویت یونین کے دورے کے بعد کسی بنگلہ دیشی سربراہ مملکت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ ڈھاکا میں روسی سفیر الیگزینڈر نیکولیف نے دونوں ممالک کے درمیان حالیہ خوشگوار تعلقات کو، بغیر وضاحت کیے، مستقل سرگرمیوں کا نتیجہ قرار دیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد کے حالات کا حوالہ دیتے ہوئے روسی سفیر کا کہنا تھا کہ وہ دور روس کے لیے بھی مشکل دور تھا، اسی لیے جنوبی ایشیا میں ہماری موجودگی محسوس نہیں کی جاسکی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں دو سال قبل ڈھاکا آیا تو مجھے بے شمار سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مجھ سے پوچھا گیاکہ روس کی کتابیں کہاں ہیں؟ فلمیں کہاں ہیں؟ ڈاکیومینٹریاں کہاں ہیں؟ اداکار اور ماسکو سرکس کہاں ہے؟ ان سوالات نے مجھے نئی امید دی۔
شیخ حسینہ واجد کے دورۂ ماسکو کے دوران شمالی پبنا میں روپ پور جوہری بجلی گھر کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ یہ بجلی گھربجلی کی کمی کے شکار بنگلہ دیش کو ۱۰۰۰ میگا واٹ اضافی بجلی فراہم کرے گا۔روس کی بنگلہ دیش کے توانائی کے شعبے میں تعاون کی ایک تاریخ ہے۔ ۱۹۷۰ میں تعمیر کیے گئے سدھیر گنج اور گھوراسال حرارتی (Thermal) بجلی گھرکا اب بھی ملک کی کل توانائی کی پیداوار میں ایک بڑا حصہ ہے۔حال ہی میں ایک روسی انجینئرنگ کمپنی نے گھوراسال بجلی گھر کی دو پرانی عمارتوں کی مرمت اور تزئین و آرائش کی ہے۔ حسینہ واجد کے دورے کے بعد دو طرفہ تجارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ روسی سفیر نے امید ظاہر کی کہ ۷۰۰ ملین ڈالر کے قریب ہونے والی دو طرفہ تجارت اگلے سال ایک بلین ڈالرز سے تجاوز کر جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ روس دوطرفہ تعاون کے تمام شعبوں میں تعاون کا ہاتھ بڑھا ئے گا، جس میں سیاست سر فہرست ہوگی۔ روسی سفیر نے یقین دلایا کہ روس اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کے ہر موقف کی تائید کرے گا۔ ہماری خارجہ پالیسی کی سوچ اب دو قطبی (Bi-polar) دنیا سے کثیر قطبی (Multi-polar) دنیا کی جانب منتقل ہوچکی ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے معیارات کو اپنا رہے ہیں۔ ہم دوسرے ممالک پراپنے خیالات مسلّط نہیں کرتے۔اسی طرح ہم دیگرممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے ساتھ ہمارے تعلقات تعاون اور احترام پر مبنی ہوں گے۔
ڈھاکا میں روسی سفیر الیگزینڈر نیکولیف نے بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ وہ روس سے متعلق معلومات ’بنیادی ذرائع‘ سے حاصل کریں۔ یک طرفہ خبریں شائع نہ کریں بلکہ کثیر رخی ذرائع استعمال کریں۔ روسی سفیر نے یوکرائن کے علاقے کریمیا کے روس کے ساتھ ’الحاق‘ پر حالیہ کوریج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس ’الحاق‘ کو’ ملاپ‘ کہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے غور کیا ہے کہ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ سمندرپار نمائندوں کے بغیر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ ، زیادہ تر امریکی و برطانوی ، کی پیروی کرتے ہوئے واقعات رپورٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈھاکا میں روسی سفارت خانہ بھی خبریں حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے۔
(مترجم: سید سمیع اﷲ حسینی)
(“Russia coming back to Bangladesh”… “bdnews24.com”. March 28, 2014)
Leave a Reply