
چین کی تیز رفتار ترقی نے دنیا بھر میں کھلبلی مچائی ہے۔ امریکا اور یورپ کے ساتھ ساتھ روس اور دیگر علاقائی ممالک کے لیے بھی پریشانی کا سامان ہوا ہے۔ چین کی ترقی کا گراف بلند ہوتا ہوا دیکھ کر روس کو بھی کچھ کرنے کا خیال آیا ہے اور اُس نے اس حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ٹھانی ہے۔ روس سپر پاور بھی رہا ہے اور ایک بار پھر اِس حیثیت کا حامل ہونے کا خواہش مند بھی ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے روس کو ابھرنے کا کوئی ایسا موقع نہیں ملا جس سے غیر معمولی حد تک مستفید ہوا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ روسی قیادت علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے لیے بلند تر کردار کی تلاش میں رہی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اِس حوالے سے کسی حد تک مطمئن ہے۔ چین نے بیلٹ، روڈ انیشئیٹیو (بی آر آئی) کے حوالے سے جو کچھ کیا ہے وہ امریکا اور یورپ کے لیے تو پریشانی کا باعث ثابت ہوا ہے مگر روس نے اپنے آپ کو بہتر پوزیشن میں پایا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب روسی قیادت نے سوچ لیا ہے کہ چین کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے کچھ کر دکھانا ہے۔
چین نے نئی اقتصادی شاہراہِ ریشم کے خواب کو بی آر آئی کے روپ میں شرمندۂ تعبیر کرنے کی ٹھانی ہے۔ ایسے میں روس بھلاکیوں کچھ نہ سوچے؟ وہ بھی اپنے لیے کوئی نیا علاقائی اور عالمی کردار چاہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر کچھ کرنے کے موڈ میں ہے۔ مشرقی ایشیا اور یوریشیا کی ترقی اور سلامتی کے حوالے سے کوئی نیا اور بامعنی کردار ادا کرنا روس کے لیے ناگزیر سا ہوگیا ہے۔ روسی قیادت نے چینی قیادت کو متعدد مواقع پر یہ اعلانیہ و غیر اعلانیہ پیغام دیا ہے کہ پورے خطے کو ایک لڑی میں پرونے کے پروگرام کے حوالے سے اُسے تھوڑی بہت اصلاحات کرنا پڑیں گی تاکہ روس جیسے بڑے ملک کو بھی اچھی طرح کھپایا جاسکے۔ چین کے لیے بھی لازم سا ہوگیا ہے کہ منصوبے ہر اعتبار سے جامع ہوں یعنی اُن میں کوئی ایسا سُقم نہ ہو کہ خطے کی کسی طاقت کو زیادہ بُرا لگے یا محسوس ہو کہ اُس کے لیے پنپنے کے مواقع پیدا نہیں ہو پارہے۔ چین نے امریکی ترقی سے بھی خاموشی کے ساتھ مستفید ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے ۲۰۱۳ء میں قازقستان میں چین کے عظیم الشان منصوبے بی آر آئی کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد سے اب تک بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ ملائیشیا اور پاکستان اور اُس سے آگے افریقا تک چین کے متعدد منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ بہت سے منصوبے مکمل بھی ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے شکایات کا بازار بھی گرم ہے۔ چین کے حوالے سے ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ یہ کسی بھی منصوبے میں شراکت دار ملک کے مفادات کا زیادہ خیال نہیں رکھتا، جس کے نتیجے میں شِکوے بڑھتے جارہے ہیں، تحفظات کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ چین نے پورے خطے کو اقتصادی طور پر ایک لڑی میں پرونے کا جو پروگرام شروع کیا ہے وہ ابتدا میں غیر معمولی حد تک مبہم تھا۔ اب چین میں متعدد تھنک ٹینک ابھر کر سامنے آئے ہیں، جو حکومت کو مختلف حوالوں سے مشورے دے رہے ہیں۔ یہ تھنک ٹینک ایک ایسے ماحول کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں جس میں چین کے لیے مشکلات کم سے کم ہوں اور شرکت دار کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی راہ نکالی جاسکے۔
دنیا بھر میں اِس حقیقت کو تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کی جارہی کہ چین نے جو منصوبہ شروع کیا ہے، وہ دنیا کو قرضوں میں لپٹے رہنے کے ماڈل سے دور کرنے کی چند بڑی اور مثبت کوششوں میں سے ایک ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو فروغ دیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ چین اگر کوئی عالمی مالیاتی ادارہ قائم کرنے کی تحریک چلاتا ہے تو وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا جو آئی ایم ایف کرتا رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے پسماندہ ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ روس نے حال ہی میں شمال مشرقی ایشیا کی ریاستوں کو تنظیم ASEAN کے پلیٹ فارم سے کچھ کرنے کی تحریک دی ہے۔
امریکا کے سابق نائب صدر جو بائیڈن کی ایما پر امریکا کے خفیہ ادارے سی آئی اے نے یوکرین کے حوالے سے جو کچھ کیا، وہ امریکا اور یورپ کے حوالے سے روس کی سوچ میں تبدیلی کا باعث بنا۔ امریکا کے سابق صدر براک اوباما نے یوکرین کے ایشو پر یورپی یونین سے کہا کہ روس پر پابندیاں عائد کرے۔ یہ عمل روس کو مختلف حوالوں سے تحفظات کا شکار کرنے کا باعث بنا۔ ایسے میں لازم تھا کہ روس اپنے آپشنز کے لیے کسی اور طرف دیکھنا شروع کرتا۔ روس نے بہت سے معاملات میں مغرب کی طرف دیکھتے رہنے کی پالیسی اپنائی تھی۔ اب ان پالیسیوں پر نظر ثانی کی جارہی ہے۔ ایسے میں روس کے لیے بالکل فطری تھا کہ سیاسی، معاشی اور عسکری معاملات میں خطے (یوریشیا) کی سب سے بڑی قوت یعنی چین کی طرف دیکھتا اور اُس نے ایسا ہی کیا۔
یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ روسی قیادت بیشتر معاملات میں چین پر بہت زیادہ انحصار کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ چین کے بغیر ڈھنگ سے جینا اُس کے لیے ممکن نہ رہے۔ چند ایک شعبوں میں دونوں ممالک نے ساتھ چلنے کی اچھی خاصی گنجائش پیدا کی ہے۔ یہ بات محسوس کی جاسکتی ہے کہ روس اپنے لیے جگہ بنانا چاہتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ اس بات کا خیال بھی رکھ رہا ہے کہ چین کے مقابلے میں اُس کی وہی حیثیت نہ رہ جائے، جو ڈیڑھ دو عشروں کے دوران امریکا کے مقابلے میں برطانیہ کی رہی ہے!
نومبر میں پاپوا نیو گنی میں APEC کے رکن ممالک کا اجلاس ہوا، جس میں شرکت کے لیے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے وزیر اعظم میدویدوف کو بھیجا۔ اس اجلاس میں چین کے صدر شی جن پنگ نے امریکا کے نائب صدر پینس سے ملاقات کی۔ خود پیوٹن نے سنگاپور میں آسیان کے سربراہ اجلاس میں شرکت کرنا ضروری سمجھا۔
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے ارکان میں ویتنام، ملائیشیا، برونائی، لاؤس، فلپائن، کمبوڈیا، انڈونیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ اور میانمار (برما) شامل ہیں۔ اس اجلاس میں اس نکتے پر بحث ہوئی کہ روس کی سرپرستی میں قائم یوریشین اکنامک یونین (ای اے ای یو) اور آسیان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کو زیادہ سے زیادہ کس طور فروغ دیا جائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی طرز پر یوریشیائی ممالک کی عظیم تر شراکت داری قائم کرنے کے نکتے پر بھی غور کیا گیا تاکہ خطے میں ترقی کا عمل تیز کیا جاسکے۔
روس کسی بھی اعتبار سے اُتنا مضبوط تو نہیں جتنا چین ہے، مگر پھر بھی جغرافیائی مواقعوں کی بنیاد پر وہ ایشیا اور یورپ کے درمیان وسیع تر رابطے کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک کو عظیم تر اقتصادی لڑی میں پرونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ جن علاقوں میں چین کے حوالے سے تاریخی اعتبار سے تحفظات پائے جاتے ہیں، اُن میں روس کا کردار اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ نقشے میں دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ روس وسیع تر جغرافیائی حقیقت ہونے کی بنیاد پر کتنے ممالک سے جُڑا ہوا ہے۔ غیر معمولی تزویراتی اہمیت کی بنیاد پر روس کئی ممالک سے وسیع البنیاد شراکت داری قائم کرکے سیاسی اور معاشی ہی نہیں، عسکری اعتبار سے بھی اپنی بات منوانے کے ساتھ ساتھ کئی ممالک کی وقعت میں اضافہ کرسکتا ہے۔
سنگاپور سربراہ اجلاس میں مفاہمت کی ایک یادداشت پر بھی دستخط کیے گئے، جس کی رُو سے تجارت اور سرمایا کاری کو تیزی سے فروغ دیا جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آسیان نے پہلی بار روس سے اپنے تعلق کو ’’اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘‘ قرار دیا۔ مفاہمت کی جس یادداشت پر دستخط کیے گئے ہیں، اُس کے تحت روس اس خطے میں تجارت اور سرمایا کاری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے مختلف شعبوں پر خاص توجہ دے گا۔ کسٹم ڈیوٹی کے معاملات کو نئی شکل دی جائے گی۔ روس آئی ٹی اور چند دیگر شعبوں میں وسیع تر تعاون کا خواہاں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ روسی قیادت اس خطے میں اسمارٹ سٹیز قائم کرنے کے وسیع تر منصوبے کا بھی حصہ بنے گی۔ روسی صدر نے آسیان کے رکن ممالک کے سربراہان کو ذاتی طور پر ۲۰۱۹ء میں سینٹ پیٹرز برگ اکنامک فورم اور ولاڈیواسٹوک ایسٹرن اکنامک فورم میں شرکت کی دعوت دی۔
روس کے زیر سایا کام کرنے والی یوریشین اکنامک یونین اور آسیان کے درمیان ۲۰۱۷ء کے بعد سے تجارت میں کم و بیش ۴۰ فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں تجارت کا حجم ۳۶؍ارب ڈالر تک پہنچا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس خطے میں جتنی تجارت کی سکت ہے یہ تجارتی حجم اس کا معمولی سا حصہ ہے۔
آسیان کے ارکان میں ویتنام سے روس کے تعلقات بہت اچھے ہیں، دونوں میں گاڑھی چھن رہی ہے۔ سرد جنگ کے دور میں روس نے سمندر میں تیل کی تلاش کے حوالے سے ویتنام کی خاصی مدد کی تھی۔ دونوں ممالک نے ۲۰۱۵ء میں آزاد تجارت کا معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بعد سے دونوں ممالک کے تجارت کا حجم ۴؍ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اور اس میں مزید فروغ کا امکان موجود ہے۔
یوریشین اکنامک یونین کے ارکان اور ویتنام کے درمیان تجارت بڑھتی جارہی ہے۔ تیل، کھاد، فولاد اور مشینری ویتنام کی کلیدی درآمدات ہیں۔ برآمدات میں فون کے پرزے، الیکٹرانک آلات، کمپیوٹر ایپرل اور سافٹ ویئر نمایاں ہیں۔ اب جبکہ روس، یوریشین اکنامک یونین اور آسیان کے درمیان تجارتی معاہدہ ہوگیا ہے، ویتنام غیر معمولی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ وہ آسیان کے دیگر ممالک کے لیے روس اور یوریشین اکنامک یونین کی مصنوعات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس معاہدے سے فریقین کے لیے کم و بیش ۲۲۰۰؍ ارب ڈالر کی جی ڈی پی والی مارکیٹ کھل رہی ہے۔ اور دو طرفہ تجارت ۲۰۲۰ء تک دوطرفہ تجارت ۱۰ تا ۲۰؍ارب ڈالر جبکہ ۲۰۳۰ء تک ۳۰؍ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
روسی صدر پیوٹن نے سنگاپور میں ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد، انڈونیشیا کے صدر ودودو، جاپان کے وزیراعظم آبے، جنوبی کوریا کے صدر مُو جائے اِن اور چین اور تھائی لینڈ کے وزرائے اعظم سے بھی ملاقات کی۔ روسی صدر نے جاپانی وزیراعظم آبے سے کرلی جزائر کے حوالے سے بات کی جبکہ جنوبی کوریا کے صدر مُون جائے اِن سے اُنہوں نے شمالی کوریا کے معاملے پر بات کی۔ جاپان کے وزیر اعظم آبے نے ۱۹۴۵ء سے چلے آرہے تنازع کو ختم کرنے سے متعلق وسیع تر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔ چند ماہ قبل جاپان اور روس نے ایک سمندری راہداری اور ٹرانس سائبیرین ریلوے لائن کے ذریعے جاپانی مصنوعات کو روس تک پہنچانے کی مشق بھی کی تھی۔ سرکاری اراضی، مواصلات، بنیادی ڈھانچے اور سیاحت کے نائب وزیر تشی ہیرو مستو موتو کا کہنا ہے کہ روس کی ۵۷۷۲ میل کی ریلوے لائن میں دو طرفہ تجارت کو غیر معمولی حد تک فروغ دینے کی سکت موجود ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت سمندر کے راستے ہو رہی ہے یا پھر فضاء کے راستے۔ جاپانی مصنوعات کو بحر ہند کی معرفت روس تک پہنچنے میں کم و بیش ۶۲ دن لگتے ہیں۔ فضائی راستے سے تجارت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ نئی راہداری کھلنے سے شپنگ کا وقت بھی گھٹے گا اور لاگت میں بھی ۴۰ فیصد تک کمی واقع ہوگی۔
۲۰۱۷ء میں روس اور جاپان نے سرکاری سرپرستی میں بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کے لیے مشترکہ ترقیاتی فنڈ قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اگر مرلی جزائر کی ملکیت کا مسئلہ حل ہوگیا تو یہ فنڈ تیزی سے پروان چڑھے گا اور دونوں ممالک بنیادی ڈھانچے کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی سمت تیزی سے بڑھیں گے۔
روس کو جنوب مشرقی، جنوبی اور وسط ایشیا میں اپنے کردار کو وسعت دینے کی تحریک اس لیے بھی ملی ہے کہ چین کو اپنے ’’میڈ اِن چائنا ۲۰۲۵ء‘‘ ایجنڈے کے حوالے سے امریکا کی طرف سے غیر معمولی دباؤ کا سامنا ہے۔ دوسری طرف جاپان، جنوبی کوریا اور بھارت نہیں چاہتے کہ اُنہیں امریکا، چین یا کسی اور ملک پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑے۔ اس حوالے سے اعتدال اور توازن قائم کرنے کی کوششیں تیز ہوتی جارہی ہیں۔ چین یا کسی اور ملک کو ناراض کیے بغیر روس خطے کی تمام ابھرتی ہوئی طاقتوں کے درمیان پُل کا کردار عمدگی سے ادا کرسکتا ہے۔
بھارت نے بھی روس سے تعلقات بہتر بنانے پر خاص توجہ دی ہے۔ سرد جنگ کے دور میں بھارت کا جھکاؤ سوویت یونین کی طرف رہا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے امریکا اور یورپ سے بھی خوب فوائد بٹورے۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بھارتی قیادت نے روس کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اب محسوس کیا جارہا ہے کہ روس پر توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ وہ اپنے مسائل کو بہت حد تک حل کرچکا ہے اور وسیع تر علاقائی و عالمی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ دونوں ممالک نے سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی، میزائل ٹیکنالوجی اور چند دوسرے اہم شعبوں میں اہم معاہدے کیے ہیں۔ روس، جو سویلین نیوکلیئر ری ایکٹر بنانے والا سب سے بڑا ملک ہے، بھارت میں نیوکلیئر فیول اسمبلیز تیار کرے گا۔ روس نے بھارت کو چار کرائویک کلاس کے فریگیٹس فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے، جس میں ۲؍ فریگیٹس ڈھائی ارب ڈالر کی لاگت سے بھارت میں تیار کیے جائیں گے۔
ایک سال کے دوران روسی صدر پیوٹن اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پانچ بار ملاقات ہوئی ہے۔ دونوں رہنما اس بات کے لیے بھی تیار ہیں کہ دو طرفہ تعلقات کو ۱۹۵۰ء کے عشرے کی سطح تک لے جایا جائے۔ روس کا بھارت کی طرف متوجہ ہونا بہت اہم ہے کیونکہ چار پانچ سال کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات قابلِ رشک نہیں رہے اور اس دوران امریکا نے بھارت کو اپنے دائرہ اثر میں رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
روس نے چند ماہ کے دوران چین سے ہٹ کر بھی بہت کچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ جاپان، جنوبی کوریا، ویتنام اور بھارت کی طرف متوجہ ہو رہا ہے، جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روسی قیادت کو اپنی بڑھتی ہوئی قوت کا احساس ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اس قوت کو عمدگی سے بروئے کار بھی لایا جائے۔ روسی صدر پیوٹن نے ایک سال قبل جس عظیم یوریشین اکمانک پارٹنرشپ کا اعلان کیا تھا۔ اب وہ اس حوالے سے غیر معمولی سنجیدہ اور متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ پیوٹن نے انرجی سُپر رِنگ قائم کرنے کی بات بھی کی تھی، جو روس، چین، جاپان اور جنوبی کوریا کو جوڑے گا۔ جاپان کے جریزے ہوکائیڈو اور روس کے جزیرے سخالین کو ریل اور روڈ لنک کے ذریعے جوڑنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پورے خطے میں تجارت اور توانائی کے حوالے سے انقلاب برپا ہوجائے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Russia Is key to Asia’s future development”. (“globalresearch.ca”. November 28, 2018)
Leave a Reply