روس، اسلامی چینل شروع کرنے پر اٹل
روس میں مشرقی آرتھوڈکسی عیسائیت کے بعد اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے۔ روسی سرکاری رائے شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ۲۰ فیصد ہے جبکہ بیشتر آزاد ذرائع کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ اعداد و شمار بہت پرانے ہیں۔ مسلمانوں میں شرح پیدائش میں مسلسل اضافہ اور عیسائیوں کی شرح پیدائش میں مسلسل کمی کی وجہ سے اس وقت مسلمانوں کا تناسب ۲۵ فیصد یعنی مجموعی آبادی کا ایک چوتھائی ہو گیا ہے۔ روس میں اسلام کی تاریخ بارہ صدی قدیم ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی سے مذہب اسلام یہاں کا سب سے بڑا مذہب رہا ہے۔ یعنی آرتھوڈکسی عیسائیت کے سرکاری مذہب ہونے کے اعلان سے قبل، روس کی موجودہ انتظامیہ اور یہاں کی حکومت مذہب اسلام کے ساتھ اسی پس منظر میں سلوک کر رہی ہے۔ یہاں کی حکومت مذہب اسلام کے ساتھ بسا اوقات اس طرح کی مراعات پیش کرتی ہے کہ اس سے دیگر مذاہب کے ماننے والوں بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں میں غیظ و غضب کی لہر دوڑ جاتی ہے اور وہ اسلام کے خلاف سخت طوفان کھڑا کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اس وقت اسلام کے ساتھ حکومت کی نرم رویہ کی وجہ سے یہود و نصاریٰ اور ان کے ساتھ بدھ مذہب کے پیروکاروں کی ریشہ دوانیاں نہایت تیز ہو چکی ہیں اور انہوں نے اسلام کے خلاف ایک نیا محاذ کھول رکھا ہے۔ شمالی قفقاز میں افسوسناک حادثات و واقعات پیش آنے اور انتہا پسند جماعتوں کی سرگرمیوں میں تیزی آ جانے کے باوجود روسی حکومت اسلام پر توجہ دے رہی اور اس کے ساتھ حد درجہ نرم رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ ان انتہا پسند سرگرمیوں اور ان کی تخریب کاریوں، بم دھماکوں اور قتل و غارت گری کی کارروائیوں کے پسِ پشت غیر ملکی ہاتھ کار فرما ہے جو روس کے امن و امان کو نشانہ بنانا چاہتا اور اس کی سیکوریٹی کو خطرے میں ڈالنے کے درپے ہے۔ یہ وہی ہاتھ ہیں جو پوری دنیا میں تخریب کاری کر رہے، ملک کے امن و امان کو بگاڑ کر اور وہاں کی جماعتوں کو آپس میں لڑا کر اپنے مفاد کی تکمیل کرتے، مداخلت کا جواز پیدا کرتے پھر اس پر قابض ہو کر اس ملک کے سرمائے کو لوٹتے، وہاں اپنا مذہب مسلط کرنے کی کوشش کرتے اور وہاں کے علمی و تاریخی ورثے کو تباہ کرتے ہیں۔ یہ بیرونی طاقت یہی کچھ روس میں کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے آلۂ کار ایسے لوگوں کو بنا رہی ہے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں، اس طرح یہ تخریب کار ان کا آلۂ کار بن کر مذہب اسلام کو بدنام کرتے ہیں جبکہ اسلام کا یا اسلام کے ماننے والے مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ساری کارروائیاں کسی بین الاقوامی طاقت کی ہوتی ہیں جو اپنے وسیع تر ترقی یافتہ وسائل کے ذریعہ دنیا کے امن و امان کو اپنے حقیر مفادات کی خاطر تاراج کرنا چاہتی ہے۔ چند دنوں قبل روسی صدر میڈویڈوف نے شمالی قفقاز کے مسلم رہنمائوں سے ملاقات کر کے ان کے سات دین اسلام کی صحیح تصویر اور اس کی سچی تعلیمات لوگوں کے سامنے لانے کے وسائل اور طریقوں پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔ اس مذاکرات کے دوران روسی صدر نے ان مسلم رہنمائوں کے سامنے واضح کیا کہ انتہا پسندوں اور تخریب کاروں نے اسلام کو بدنام کرنے کی عالمی سازش میں تعاون کیا ہے۔ یہ تخریب کار اور انتہا پسند ہیں اور نہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہے مگر وہ اسلام کا سہارا لے کر اسے بدنام اور اس کی صورت مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کی صحیح و سچی تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ان علماء اور مسلم دانشوروں کے ساتھ گفتگو میں اس کے لیے مختلف وسائل و ذرائع کو بروئے کار لانے پر غور و فکر کیا گیا۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس ملاقات کے نتائج بڑے مفید ثابت ہوئے ہیں۔ روسی تاریخ میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک کرنے میں یہ بڑی تاریخی تبدیلی ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ بلکہ سوویت یونین کے دور میں تو اسلام کو شجر ممنوعہ قرار دے دیا گیا تھا اور اس پر سخت پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ مگر اسلام کے خلاف مغرب کی سازش کے آشکارا ہونے کے ساتھ ہی روس نے اسلام کے بارے میں اپنے نظریہ میں تبدیلی لانی شروع کی اور تمام مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد وہاں کی حکومت اس نتیجہ پر پہنچی کہ اسلام ہی دنیا میں امن و آشتی کی فضا قائم کر سکتا ہے جبکہ یہودیوں کی سرشت میں تخریب کاری و دہشت گردی اور عیسائیوں کی ذہنیت میں سفاکی و درندگی ہے جس کا آج ساری دنیا مشاہدہ کر رہی ہے۔
روسی صدر دمتری میڈویڈوف نے علماء اسلام کے ساتھ گفتگو کے دوران ایک بین الاقوامی اسلامی ٹیلی ویژن چینل شروع کرنے کا منصوبہ پیش کیا اور واضح کیا کہ روسی حکومت اپنے خرچ اور اپنی نگرانی میں یہ چینل شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے بشرطیکہ آپ ان کے ساتھ تعاون کرنے پر اتفاق کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ ٹی وی چینل نہایت ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے لیس ہو گا اور اس کی شروعات نہایت اونچے پیمانے اور عالمی سطح پر کی جائے گی۔ واضح رہے کہ روس کے اندر ایک بھی مذہبی چینل موجود نہیں ہے۔ نہ اسلامی اور نہ عیسائی یا کسی اور مذہب کا۔ اسلامی چینل روس کا پہلا مذہبی چینل ہو گا جو عالمی پیمانہ پر مختلف زبانوں میں شروع کیا جائے گا۔ اس منصوبے کے اعلان نے مختلف مذہبی فرقوں اور جماعتوں کو غیظ و غضب میں مبتلا کر دیا ہے۔ انہوں نے اس کے خلاف زبردست مہم چھیڑ دی اور اس پر سخت تنقیدیں کرنا شروع کر دی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مختلف مذہبی فرقوں کے درمیان یہ غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک ہے اور اس سے دیگر مذہب والوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ مگر روسی حکومت کے اب تک کے اقدامات اور تیاریوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے روسی حکومت اپنے ارادوں میں پختہ اور تنقیدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کیے ہوئے ہے اور اسے جلد از جلد شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ روسی آرتھوڈکسی چرچ جس کے ماننے والوں کی اکثریت سے وہ بھی اس منصوبے کی بھرپور تائید و حمایت کر رہا ہے جبکہ دیگر مذہبی فرقے بالخصوص یہودی اور کیتھولک عیسائی جماعتیں اس کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔ شمالی قفقاز کے مسلم رہنمائوں کے ساتھ ملاقات کے دوران روسی صدر نے اس بات کا بھی اعلان کیا اسلام ان تمام الزامات اور بہتان تراشیوں سے بَری ہے جس کی نسبت مغرب اسلام کی طرف کر رہا اور اسے دہشت گرد و انتہا پسند باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس میں صدیوں سے اسلام عیسائیت کے ساتھ ہم آہنگی و خیر سگالی کے ساتھ رہا ہے۔ ان دنوں کے درمیان کبھی کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں اور نہ کبھی کسی طرح کا قابل ذکر تصادم و ٹکرائو ہوا۔ مسلمانوں نے اپنی پوری تاریخ میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے مادرِ وطن سے الفت و محبت رکھتے اور دشمنوں کے خلاف ملک کے دفاع کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔ ملک و وطن کے لیے ان کی وفاداری قابل تقلید رہی ہے۔ روسی صدر کا کہنا تھا کہ لوگوں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کیے بغیر اور اعتدال پسند مسلم رہنمائوں کے رعب کو اور ان کی قدر و منزلت کو اجاگر کیے بغیر ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی پر قابو نہیں پا سکتے۔ انہوں نے مسلم رہنمائوں سے اپیل کی کہ وہ کریملن اور روسی حکومت سے تعاون کریں۔ روسی حکومت اور کریملن بھی اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’آپ روسی حکومت اور روسی صدر پر اس تعلق سے مکمل اعتماد و بھروسہ کر سکتے ہیں‘‘۔ روسی اسلامی ٹیلی ویژن چینل کا منصوبہ جسے روسی حکومت اپنے خرچ پر شروع کرنے جا رہی ہے اس کی نگرانی مسلم علماء و فقہا کریں گے اور اس کے تمام دینی و مذہبی پروگراموں پر کنٹرول علماء کا ہو گا نہ کہ حکومت کا۔ بنیادی طور پر اس کے پروگراموں میں نوجوانوں کو مخاطب کیا جائے گا جنہیں انتہا پسند تنظیمیں اپنا نشانہ بناتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی روس کے غیر مسلم دیگر شہریوں کے لیے بھی پروگرام پیش کیے جائیں گے اور انہیں اسلام سے واقف کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ دنیا کے باشندوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے سامنے اسلامی شریعت کی صحیح تصویر پیش کی جائے گی اور اسلام کی رواداری و امن و آشتی کی تعلیمات اور مخلوقِ خدا کے ساتھ روابط و سلوک کی ہدایات سے متعلق پروگرام پیش کیے جائیں گے۔ بہرحال مسلمانوں بالخصوص روسی مسلم شہریوں کے لیے یہ خوش آئند بات ہے کہ روسی انتظامیہ نے اسلام اور مسلمانوں پر توجہ دینا شروع کر دی ہے اور اس کی صحیح تعلیمات لوگوں کے سامنے لانے کے لیے کمربستہ ہے۔ اسی ضمن میں روسی صدر نے ماسکو کی سب سے بڑی جامع مسجد کا گزشتہ جون میں دورہ کیا تھا جو روس کی تاریخ کا منفرد واقعہ تھا۔ اس وقت روس میں ۶۰۰۰ سے زائد مسجدیں ہیں۔ یہاں کی بہت سی مسجدیں کسی بھی اسلامی مملکت کی بڑی بڑی مسجدوں سے بھی بڑی ہیں۔ روسی حکومت نے ان مسجدوں کو بھی آباد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’انقلاب‘‘ نئی دہلی۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۹ء)