
یوکرین کے علاقے ڈارن باس کے مکئی کے کھیتوں میں یوکرین کے فوجیوں اور روس کے حمایت یافتہ باغیوں کے درمیان لڑائی فی الحال تھمی ہوئی ہے مگر جیسے جیسے موسمِ سرما نزدیک آرہا ہے، ماسکو کے لیے ایک اور محاذ کھلتا جارہا ہے جو خونیں بھلے ہی نہ ہو مگر سیاسی طور پر ویسا ہی ڈرامائی ہوگا جیسا یوکرین کا محاذ ہے۔ موسمِ سرما کے نزدیک آنے سے روس سمیت یورپ کے انتہائی سرد علاقوں کے لیے توانائی کا بحران سَر اُٹھا رہا ہے۔ یہ بحران کئی سال سے جاری ہے اور اب ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں اِسے کسی فیصلے تک پہنچنا ہے۔
روس کو مغرب اور بالخصوص یورپ سے بہت کچھ درکار ہے۔ قرضوں کے علاوہ جدید ترین ٹیکنالوجی اور غذائی اجناس بھی وہ یورپ سے حاصل کرتا ہے۔ یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے باعث روس کو کئی بڑی یورپی قوتوں کی طرف سے مختلف پابندیوں اور دیگر اقدامات کا بھی سامنا ہے۔ یہ صورت حال روس کے خلاف جارہی ہے۔ یورپ کو گیس کی فراہمی کا انحصار ایک تہائی کی حد تک روس کے سرکاری ملکیت والے ادارے گیزپروم پر ہے۔ یورپ کے لیے روسی گیس کی سپلائی لائن یوکرین سے گزرتی ہے۔ یوکرین کی صورتِ حال یورپ کے ساتھ ساتھ خود روس کے لیے بھی انتہائی پریشان کن ہے۔ اگر معاملات جلد درست نہ ہوئے تو روس سے یورپ کے لیے گیس کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ اگر کریملن نے یورپ کے لیے گیس کی سپلائی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تو سمجھ لیجیے کہ توانائی کے محاذ پر ایک بہت بڑی جنگ بس ہوا ہی چاہتی ہے۔ کریملن کے ایک پُول رپورٹر نے اعلیٰ سرکاری افسران کی نجی گفتگو کے حوالے سے بتایا ہے کہ روس کے اعلیٰ حلقوں میں یہ خیال پوری شد و مد سے پایا جاتا ہے کہ یورپ کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں کا مؤثر طور پر سامنا کرنے کے لیے روس کے پاس اِس کے سوا کوئی بہتر راستہ نہیں کہ گیس کی سپلائی روک کر یورپی طاقتوں کو زیرِ دام لانے یا رام کرنے کی کوشش کی جائے۔ بہت سے روسی افسران یہ کہتے ہوئے پائے گئے ہیں کہ ذرا موسم کی پہلی برف باری ہوجائے، پھر ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ ہم پر عائد پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ کیسے نہیں کرتا۔
یورپ کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں نے روسی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ روبل کی پوزیشن بہت کمزور ہوگئی ہے، افراطِ زر کی شرح ایک بار پھر انتہائی بلند ہوگئی ہے، بیروزگاری بڑھی ہے، لوگ بہتر زندگی گزارنے کے حق سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ مجموعی طور پر پورا ملک غیر متوازن ہو کر رہ گیا ہے مگر اس کے باوجود روس کے صدر ولادی میر پوٹن کی مقبولیت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا بلکہ چند ایک معاملات میں اُن کی حیثیت مستحکم تر ہوئی ہے۔ امریکا اور یورپ سے غذائی اشیا کی درآمد رُک جانے سے بھی روسیوں کی زندگی پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ اُن کی حب الوطنی پہلی کی سی ہے۔
یورپ کے خلاف گیس کا ہتھیار استعمال کرنے سے روس کو بھی اُتنا ہی نقصان پہنچ سکتا ہے، جتنا یورپ کو پہنچ سکتا ہے۔ مگر اب تک یہ واضح نہیں کہ روس کے اعلیٰ حلقے اس ہتھیار کو استعمال کرنے کے معاملے میں کس حد تک سنجیدہ یا غیرسنجیدہ ہیں۔ یورپ میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر شدید سردی کے زمانے میں گیس کی فراہمی رک گئی تو عوام کے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔ کام کاج ٹھپ ہو کر رہ جائے گا اور لوگ رات کو گھروں میں سو بھی نہیں پائیں گے۔ یہ بات سیاسی ماحول پر بھی اثر انداز ہوگی۔ یورپ کے سیاست دان جانتے ہیں کہ اُن کی دُکھتی رگ کہاں ہے اور روس کو تو خیر معلوم ہے ہی۔ اگر توانائی کا بل زیادہ آنے لگے تو لوگ چیخ اُٹھیں گے اور حکومتیں کمزور پڑنے لگیں گی۔ یہی سبب ہے کہ یورپ کے بہت سے ممالک نے روس کے بینکوں اور گیس کے دیگر اداروں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کی ہیں اور انہیں عالمی مارکیٹ سے کوئی بھی قرضہ یا مالیاتی سہولت حاصل کرنے سے روک دیا ہے مگر اب تک گیزپروم کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر گیزپروم کو چھیڑا گیا تو معاملات ایسے بگڑیں گے کہ پھر قابو میں نہ آئیں گے۔
معاملہ تکنیکی ہے۔ روس بھی جانتا ہے کہ وہ گیس کی پیداوار زیادہ دن روک نہیں سکتا۔ تیل کے برعکس گیس کے لیے کھدائی اور پیداوار دونوں زیادہ پریشان کُن ہیں۔ گیس کے جو ذخائر زمین کی تہوں میں چٹانوں کے اندر بند ہیں، اُن پر صرف ضرب لگانے کی دیر ہوتی ہے۔ ایک بار یہ ذخیرہ ریلیز ہوجائے تو اِس پر قابو پانا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ گیس کو بڑے پیمانے پر ذخیرہ کر کے بھی نہیں رکھا جاسکتا۔ روس اپنی گیس کی پیداوار کو زیادہ دیر روک نہیں سکتا۔ ایسی صورت میں حادثات کا امکان زیادہ توانا ہوتا ہے۔ یورپ کے سوچنے والے ذہن بھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ روس کی طرف سے گیس کا ہتھیار استعمال کیے جانے کے خدشے یا خطرے کے باوجود وہ اب تک اس معاملے میں زیادہ پریشان نہیں۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ روس چاہے بھی تو یہ ہتھیار زیادہ دیر استعمال نہیں کر سکتا۔
گیزپروم کا اصل مسئلہ مالیاتی ہے۔ اس پر پابندیاں عائد نہیں مگر یورپ چاہتا ہے کہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ مزید پابندیاں عائد کرنے کی تیاری کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو گیزپروم کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس وقت بھی گیزپروم کے لیے عالمی منڈی سے سرمائے کا حصول آسان نہیں۔ تیل اور گیس کی پیداوار کے شعبے سے وابستہ دیگر روسی اداروں کے لیے عالمی مارکیٹ کے دروازے بند ہو جانے سے گیزپروم پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ماہرین اُس کے لیے روشن تر امکانات کی پیش گوئی کرنے سے قاصر ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح انداز ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گیزپروم پر دباؤ بڑھتا جائے گا اور ایسی حالت میں وہ اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے قابل نہیں ہوپائے گا۔ گیزپروم کے سالانہ اوور ہیڈ ۲۵؍ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ اُسے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل رہنے کے لیے لازم ہے کہ سرمایہ کار ہر وقت اُس کی مدد کے لیے تیار ہوں۔ موجودہ ۵۰؍ارب ڈالر کے قرضوں پر سود کی ادائیگی، نئی گیس فیلڈز کی تلاش، کھدائی، نئی پائپ لائنیں اور دیگر معاملات کے لیے بھی گیزپروم کو بڑے پیمانے پر سرمایہ درکار ہے۔ سرمایہ کار غیر معمولی حد تک محتاط ہیں۔ وہ گیزپروم پر کچھ زیادہ لگانے کے حق میں نہیں۔ اُنہیں اندازہ ہے کہ یورپ کی طرف سے مزید پابندیاں عائد کیے جانے کی صورت میں روس کی مشکلات بڑھیں گی۔ جب ایسا ہوگا تو گیزپروم پر بھی دباؤ بڑھے گا اور وہ بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ بین الاقوامی بینکوں کی طرف سے محتاط رویہ اپنائے جانے کے باعث روسی اداروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ گیزپروم کی مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں۔ اس کی آمدنی کا ۶۰ فیصد (جو کم و بیش ۶۵؍ارب ڈالر ہے) یورپ سے آتا ہے مگر یومیہ بنیاد پر معاملات میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اگر روس نے گیس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تو یورپ کی مشکلات ضرور بڑھیں گی مگر خود روس کے لیے بھی کوئی آسانی پیدا نہیں ہوگی۔
گیس بحران کے حوالے سے خود یوکرین بھی اہم کارڈ کی حیثیت سے استعمال ہوسکتا ہے۔ روس اور یورپ دونوں ہی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی بھی مشکل پیدا نہیں ہوئی، سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے۔ روس کو ہر معاملے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو مالیاتی محاذ پر اُس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
۱۹۹۵ء سے اب تک روس نے چار مرتبہ گیس کی سپلائی منقطع کر کے بات منوانے کی کوشش کی۔ کبھی نرخوں کے مسئلے پر تنازع کھڑا ہوا، کبھی راہداری کی فیس کے حوالے سے۔ یوکرین راہداری کی فیس میں اضافے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ اب بھی وہ روس سے اس معاملے پر تنازع میں الجھا ہوا ہے۔ روس نے یوکرین کا کوئی مطالبہ تسلیم نہیں کیا ہے۔ ایسے میں یہ توقع کیونکر کی جاسکتی ہے کہ سب کچھ خود بخود درست ہوتا جائے گا؟
“Russia May Get Cold Shoulder From Europe in Looming Gas Wars”. (“News Week”. Sep. 24, 2014)
Leave a Reply