
روس نے ایک بار پھر افریقا میں اپنا کردار بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوگنڈا میں تیل کی وزارت نے حال ہی میں اعلان کیا کہ تین ارب ڈالر کی لاگت سے تیل صاف کرنے کا ایک کارخانہ لگانے کا ٹھیکہ روس کی مشہور آئل کمپنی آر ٹی گلوبل ریسورسز کو دیا گیا ہے۔ یہ گویا اِس بات کا اشارہ ہے کہ روس نے افریقا کو سرد خانے میں رکھنے کے فیصلے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ آر ٹی گلوبل ریسورسز روس کی سب سے بڑی سرکاری حمایت یافتہ کارپوریشن روزٹیک کی ذیلی کمپنی ہے، جس کے سی ای او سرگئی چیمیزوف پر امریکا اور یورپ نے یوکرین کے بحران کے بعد سے پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔
سرگئی چیمیزوف کو روسی صدر ولادی میر پوٹن کا اسلحہ ڈیلر بھی کہا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر پوٹن نے چیمیزوف کو معدنی ذخائر تک روس کی رسائی آسان بنانے، تجارت میں اضافہ کرنے اور روس میں روزگار کی سطح بلند کرنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ برطانیہ کے ’’کانفلکٹ اسٹڈیز ریسرچ سینٹر‘‘ کے ماہر کیر گائلز کہتے ہیں کہ روس اب عسکری قوت کے حوالے سے خود کو منوانے سے زیادہ نرم قوت کے میدان میں اپنا آپ منوانے کی راہ پر گامزن ہے۔
گائلز نے ’’الجزیرہ‘‘ ٹی وی کو بتایا کہ روس کو اب اس بات کی فکر لاحق ہے کہ کسی نہ کسی طور اپنی معاشی قوت میں اضافہ کیا جائے۔ ایسا کرنا اِس لیے ضروری ہے کہ روس کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں اپنی پوزیشن بہتر بنانا ہے۔ جب تک وہ نرم قوت کے میدان میں آگے نہیں بڑھے گا، ایسا ممکن نہ ہوسکے گا۔
چین نے ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران افریقا میں اپنے مفادات کو غیر معمولی حد تک تقویت فراہم کی ہے۔ روس نے پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے درمیانی عرصے میں افریقا کو بھی زیادہ اہمیت دی تھی۔ افریقا دوسری جنگِ عظیم کے دوران وار تھیٹر بھی تھا۔ مگر بعد میں روسی پالیسی سازوں نے افریقا کو نظر انداز کردیا۔
روس نے گزشتہ برس جنوبی افریقا کے اشتراک سے ایک سیٹلائٹ سسٹم لانچ کیا تھا جس کا بنیادی مقصد پورے براعظم پر ہر وقت نظر رکھنا ہے۔ اس منصوبے میں روس اور جنوبی افریقا کے ملٹری انٹیلی جنس کے ادارے مرکزی کھلاڑی ہیں۔
۱۹۵۳ء میں نکیتا خروشیف کے سربراہ بنتے ہی سابق سوویت یونین نے افریقا سے تعلقات بہتر بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ تب افریقا نو آبادیاتی اثرات سے نکل رہا تھا۔ آزادی کی لہر پورے براعظم کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ ایسے میں امریکا بھی کود پڑا۔ تب ہی امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ شروع ہوئی۔ اس جنگ نے افریقا میں بھی بہت سی خرابیاں پیدا کیں۔ سابق سوویت یونین اور امریکا نے اپنے اپنے حامی ممالک اور عسکریت پسند گروپوں کو مسلح اور منظم کرنا شروع کردیا۔ یہ سب کچھ پورے براعظم میں قتل و غارت کا موجب بنا۔ افریقا دو گروپوں میں بٹ کر رہ گیا۔
سابق سوویت یونین نے مصر کو حلیف بناکر دو سال میں اسے اسلحے کی ایک بڑی کھیپ دی۔ مگر دوسری طرف بہت سے دوسرے افریقی ممالک میں امریکا اور یورپ نے اپنے اثرات مستحکم کرلیے۔ سابق سوویت یونین نے افریقی حکومتوں کو ہم نوا بنانے کی کوشش کی مگر یہ کوشش الجزائر، گھانا اور مالی میں حکومت کا تختہ الٹے جانے اور فوج کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں ناکامی پر منتج ہوئی۔
بہت سے افریقی رہنمائوں نے سابق سوویت یونین میں تعلیم و تربیت پائی۔ روس نے افریقا کے بہت سے ممالک پر خطیر رقوم بھی خرچ کیں، ٹیکنالوجی بھی دی اور علم و ہنر کے میدان میں اُن کی بھرپور معاونت بھی کی۔ ۱۹۸۹ء میں سوویت یونین کی تحلیل تک افریقا سے کم و بیش پچاس ہزار طلبہ و طالبات نے سابق سوویت یونین میں تعلیم پائی تھی اور دو لاکھ سے زائد افریقی باشندوں کو روسیوں نے مختلف شعبوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دی تھی۔ روس نے بعد میں افریقا میں دلچسپی لینی چھوڑ دی۔ اب حال ہی میں یہ لہر دوبارہ اٹھی ہے۔
یوگنڈا میں دریافت ہونے والے تیل کے ذخائر سے کماحقہٗ مستفید ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ ایک بڑی آئل ریفائنری قائم کی جائے۔ روس نے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت تین ارب ڈالر کی لاگت سے ریفائنری بنائی جائے گی۔ سابق سوویت یونین کے دور میں خفیہ ادارہ کے جے جی بھی آگے آگے رہا کرتا تھا۔ اب روس خفیہ اداروں کو پیچھے رکھے ہوئے ہے۔ سارا زور اِس نکتے پر ہے کہ افریقا میں قدم جمائے جائیں۔
یوگنڈا چاہتا ہے کہ معدنیاتی وسائل کی بنیاد پر ترقی کرے اور عوام کو خوش حالی سے متصف کرے۔ یوگنڈا کے صحافی انجیلو ازاما کہتے ہیں کہ یوگنڈا کو تیل کی دولت سے کماحقہٗ مستفید ہونے کے لیے بحرِ ہند میں پائپ لائن بچھانی ہوگی۔ کہا جاسکتا ہے کہ یوگنڈا اب معاشی معاملات میں آزادی و خود مختاری سے بہت حد تک دستبردار ہوجائے گا۔ یوگنڈا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جو کئی عشروں سے صنعتی ترقی کے اعلیٰ معیارات کو چھونے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔ یوگنڈا کی حکومت چاہتی ہے کہ معاشی خود مختاری داؤ پر نہ لگے مگر ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے گروپ گلوبل وِٹنیس کے جارج بوڈین کا کہنا ہے کہ روس نے ریفائنری لگانے کا جو معاہدہ کیا ہے، اُس پر عمل سے یوگنڈا میں ترقی اور خوش حالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ یہ سب کچھ اِس امر سے مشروط ہے کہ ریفائنری بروقت مکمل ہو اور بہتر انداز سے کام کرے۔ اگر یہ معاہدہ بہتر انداز سے پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا تو ریفائنری کو چلانے پر یوگنڈا کے وسائل ضائع ہوں گے۔ ایسی حالت میں یوگنڈا میں صنعتی عمل تیز نہ ہوسکے گا اور روزگار کے زائد مواقع پیدا کرنا بھی کسی طور ممکن نہ رہے گا۔ ریفائنری کو کسی نہ کسی طور چلتا رکھنے پر وسائل بھی خرچ ہوں گے اور ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا دائرہ محدود رکھنا بھی ممکن نہ ہوسکے گا۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں معدنیات کے ذخائر دریافت ہوتے ہیں، وہاں کرپشن بھی تیزی سے فروغ پاتی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یوگنڈا میں بھی ایسا ہو۔ جو لوگ اقتدار میں ہیں، وہ قدرتی وسائل سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کے فراق میں ہوں تو ترقی کا عمل وہ نتائج پیدا نہ کرسکے گا، جن کی توقع کی جارہی ہے۔ جو لوگ اقتدار میں ہیں، وہ آئل کمپنیوں سے مل کر اپنی جیب بھرسکتے ہیں اور قومی خزانے کو بہت کم آمدنی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایسی حالت میں سیاسی عدم توازن اور عدم استحکام بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کے حصول کی رسا کشی معاملات کو مزید الجھا سکتی ہے اور یوں ملک کو بہتر انداز سے آگے بڑھانا ممکن نہ رہے گا۔ ازاما کا کہنا ہے کہ تیل نکالنے اور صاف کرنے کے تمام معاہدوں میں شفافیت لازم ہے تاکہ عوام کو اچھی طرح اندازہ ہو کہ قومی وسائل اُن کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ اگر شفافیت یقینی بنائی گئی اور عوام کو اندازہ ہوا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ ملک اور قوم کی بھلائی کے لیے ہے، تب تو عوام صورت حال کو قبول کریں گے اور کسی تنازع کے امکان کو ٹالا جاسکے گا۔ بصورت دیگر معاملات صرف خرابی کی طرف لے جائیں گے۔
اپنی ذیلی کمپنی روزوبورون ایکسپورٹ کے ذریعے روزٹیک روس کی ایک مرکزی دفاعی کمپنی ہے۔ اب یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو ریفائنری یوگنڈا میں لگائی جارہی ہے، صرف اُسی کا معاہدہ کیا گیا ہے یا یہ ریفائنری کسی بھی بہت بڑے معاہدے کا محض ایک جُز ہے۔
روزوبورون ایکسپورٹ نے ۲۰۱۱ء میں یوگنڈا کو چھ سُخوئی لڑاکا طیارے فراہم کیے تھے۔ یہ سودا ۷۵ کروڑ ڈالر کا تھا۔ ڈیل اُس وقت متنازع ہوگئی، جب یہ بات سامنے آئی کہ یوگنڈا کی پارلیمان سے منظوری لیے بغیر یہ رقم بینک آف یوگنڈا سے براہِ راست ادا کی گئی تھی۔ یوگنڈا کا شمار اُن افریقی ممالک میں ہوتا ہے، جہاں فوج بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔ پارلیمان میں فوجی افسران کی دس نشستیں ہیں۔ جنرل ارونڈا نیاکائریما نے وزارت داخلہ سنبھال رکھی ہے۔
یوگنڈا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی بھرپور حصہ لیا ہے۔ اُس نے عراق اور یمن میں تعیناتی کے لیے فوجی فراہم کرکے امریکا سے بھی تعلقات بہتر بنائے ہیں۔ ساتھ ہی اس نے جنوبی سوڈان میں سلوا کائر کو بھی مدد فراہم کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئل ریفائنری لگانے کے معاملے میں روس زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ یوگنڈا کے صدر یوویری موسیوینی نے وزارت توانائی کے سیکرٹری کو ماسکو بھیج کر معاملات درست کیے اور ریفائنری کے قیام کی راہ ہموار کی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے میں یوگنڈا کی فوج نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی قوتیں اس معاملے میں زیادہ پرجوش نہیں تھیں۔ اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ یوگنڈا کی فوج اب روس کو اسلحے کے سودوں میں زیادہ فیور دے سکتی ہے۔ ایسا ہوا تو یوگنڈا میں ریفائنری کے اس معاہدے کے نتیجے میں زیادہ خرابیاں پیدا ہوں گی۔ روس سے اسلحے کا ایک سودا پہلے ہی متنازع ہوچکا ہے۔ پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر روس سے براہِ راست خریداری کی خاطر روس میں قائم بینک سے بھی مدد لی گئی ہے۔ جب یوگنڈا کی فوج کے ترجمان جنرل پیڈی اینکنڈا سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے وضاحت سے معذرت کرلی۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریفائنری کا سودا ملک کے لیے مزید خرابیاں بھی پیدا کرسکتا ہے۔
“Russia returns to Africa amid increasing isolation”. (“aljazeera.com”. March 10, 2015)
Leave a Reply