
شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے معاملے پر روس نے امریکا سے جو معاہدہ کیا ہے، اس کے حوالے سے بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد امریکا کو ایک اور اسلامی ملک کے خلاف جارحیت کے ارتکاب سے روکنا تھا۔ جب سے شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی ہے، روس نے بشار انتظامیہ کی بھرپور مدد جاری رکھی ہے اور بظاہر وہ امریکا اور یورپ کی جانب سے شام میں لڑائی ختم کرانے کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوتا رہا ہے۔ روس کے حکام میڈیا کو یہ بیان دیتے رہے ہیں کہ شام کی حکمراں بعث پارٹی پر ان کا اثر و نفوذ کم رہ گیا ہے۔ ۱۹۹۹ء کے بعد اور ولادیمیر پوٹن کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خاص طور پر روس نے بہت سے معاملات میں امریکا کو منہ دینے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ شام اور چند سابق سوویت ریاستوں میں روس کا امریکا کے سامنے آجانا بہتوں کے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ بین الاقوامی معاملات میں اب روس اپنی پوزیشن مضبوط کرچکا ہے اور عالمی سطح پر ایک توانا کردار ادا کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ سابق سوویت یونین کے دور میں روس سپر پاور تھا مگر اب اس کی وہ حیثیت ختم ہوچکی ہے۔ اس معاملے کے چار پہلو جن کا باریکی سے جائزہ لینے پر حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔
٭ کثیر قطبی دنیا میں کسی بھی ملک کی حقیقی اور حتمی پوزیشن کا تعین اس کی معیشت سے ہوتا ہے۔ جو چند عوامل کسی بھی قومی ریاست کی سیاسی قوت کا تعین کرتے ہیں ان میں سب سے اہم معیشت ہے۔ روس نے معاشی میدان میں غیر معمولی رفتار سے ترقی کی ہے۔ معاملہ اس حد تک جاچکا ہے کہ اب چین کے بعد سب سے بڑا سرپلس روس کا ہے۔ مگر اس معاملے میں حقائق وہ نہیں جو روسی انتظامیہ بیان کرتی ہے۔ تیل، گیس اور چند معدنیات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے روس کو حالات سے فائدہ اٹھانے اور زر مبادلہ کے ذخائر میں غیر معمولی اضافہ یقینی بنانے کا موقع فراہم کیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مستقل آمدنی کے حقیقی شعبوں میں اس کی کارکردگی کچھ خاص نہیں۔ سابق سوویت دور میں مینوفیکچرنگ کا شعبہ بہت مضبوط تھا۔ اس دور میں روس گاڑیاں اور جوہری ری ایکٹر بھی برآمد کیا کرتا تھا۔ اس میں اتنی قوت تھی کہ عالمی منڈی میں ترقی یافتہ معیشتوں کا بھرپور مقابلہ کرے۔ روس کی تیل اور گیس کی پیداوار اور پورے خطے پر محیط تیل اور گیس پائپ لائنیں ایک طرف تو ملک کی معیشت کو مستحکم رکھتی تھیں اور دوسری طرف خطے کی سیاست میں اس کا اثر و نفوذ بھی بڑھ جاتا تھا۔ یورپ اور ایشیا سے اس کے تعلقات اگر بہتر تھے تو اس کا بنیادی سبب قدرتی وسائل کی پیداوار میں اضافہ اور اس کی برآمد تھا۔ ۲۰۰۶ء اور ۲۰۰۹ء میں یورپ کے گیس بحران نے ثابت کردیا کہ قدرتی گیس کی برآمد کے حوالے سے روس کو خطے میں غیر معمولی وقعت حاصل ہے اور وہ اس حوالے سے صورت حال کو کسی بھی وقت بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر خیر یہ بھی حقیقت ہے کہ روس کو صورت حال کا حد سے زیادہ فائدہ اٹھاتا دیکھ کر یورپ کے متعدد ممالک نے گیس کے حصول کے متبادل ذرائع پر توجہ دینا شروع کردیا ہے۔ یورپ کے کئی ممالک میں گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ ان ذخائر سے مستفید ہونے کی صورت میں روس پر ان کا انحصار مزید گھٹ جائے گا۔
٭ ماضی میں دفاعی تعلقات کی نوعیت نے روس کو عسکری قوت کی حیثیت سے غیر معمولی تقویت بخشی ہے۔ سابق سوویت یونین کے دور میں روس نے متعدد ممالک سے بہتر دفاعی تعلقات یقینی بنائے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے موقع پر روس کو جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ترکے میں ملا۔ یہ اور بات ہے کہ جوہری اسلحہ خانے کا بڑا حصہ درست انداز سے دیکھ بھال نہ کیے جانے کے باعث اب ناکارہ سا ہوچکا ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل پر روس معاشی ابتری کا شکار ہوا۔ سیاسی اور معاشی زبوں حالی نے روسی حکومت کو اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ جوہری اسلحہ خانے پر بھرپور توجہ دے سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جوہری اسلحہ خانے کا ۹۰ فیصد اب بروئے کار نہیں لایا جاسکتا۔ اس وقت روس کی اسلحے کی صنعت بہتر حالت میں نہیں۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے اسے عالمی سطح پر چین، فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک کی طرف سے سخت مسابقت کا سامنا ہے۔ یہ ممالک ٹیکنالوجی میں روس سے کمتر معیار کا اسلحہ مارکیٹ میں نہیں لاتے۔
٭ سوویت یونین کی توسیع میں سلیوک نسل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ روس نے سلیوک آبادی کے ایک بڑے حصے کو وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کے ممالک میں بھی بسایا تھا تاکہ وہ وہاں رہ کر اس کے مفادات کے لیے کام کرسکے۔ ۱۹۹۰ء میں سوویت یونین کی شکست و ریخت نے روس کو سیاسی اور معاشی طور پر ہی کمزور نہیں کیا بلکہ معاشرتی طور پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب ہوئے۔ آبادی میں اضافے کی رفتار اچانک خطرناک حد تک گرگئی کیونکہ لوگ مستقبل کے حوالے سے بے یقینی اور مایوسی کا شکار تھے۔ روسی آبادی کے ایک بڑے حصے نے غیر یقینی معاشی صورت حال کے باعث بچے پیدا کرنا ہی چھوڑ دیے۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے وقت روس کی آبادی ۱۴ ؍کروڑ ۸۰ لاکھ تھی۔ اب یہ ۱۴ کروڑ ۱۰ لاکھ رہ گئی ہے۔ روسی آبادی میں کمی کا سلسلہ اب تک رکا نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ روس کی آبادی متوازن تھی اور عالمی معیشت میں اس کا مضبوط کردار تھا۔ اب معمر افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ معیشت اور ریاست کو چلانے کا بوجھ نوجوانوں کے کاندھوں پر آپڑا ہے۔ افرادی قوت سکڑتی جارہی ہے۔
٭ حکمرانی کا معیار کسی بھی قوم کے حال اور مستقبل پر براہِ راست اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس معاملے میں روس ناکام ہوچکا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں روس بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ لوگ حکمرانی کے گرتے ہوئے معیار اور بنیادی سہولتوں کی کمی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ کئی ماہ تک جاری رہنے والے یہ مظاہرے دراصل کریملن کے جابرانہ ہتھکنڈوں کے خلاف تھے۔ ولادیمیر پوٹن نے جب ۲۰۰۰ء میں صدر کا منصب سنبھالا، تب معاملات کو سختی سے نمٹانے کی پالیسی اپنائی۔ انہوں نے عوام کو ایک بڑی پارٹی کے جھنڈے تلے جمع کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ منحرفین کو انہوں نے سختی سے کچلا اور بیرونی اثرات نمایاں حد تک کم کردیے۔ پوٹن کی قیادت میں ملک صرف مضبوط ہی نہیں ہوا بلکہ خوش حالی کی راہ پر گامزن بھی ہوگیا۔ عام روسیوں کے لیے بھی اس بات کی بہت اہمیت تھی کہ پوٹن کی قیادت میں ملک دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا۔ اس ایک عشرے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھی خود کو توانا کیا ہے۔ پوٹن کے دورِ اقتدار میں روس مضبوط تو ہوا مگر بیشتر معاملات طاقتور مرکز کے ہاتھ میں چلے گئے۔ محنت کش اور متوسط طبقہ اور آبادی کے جو دوسرے گروہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تعلق نہ رکھتے تھے وہ ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہوسکے اور ان کے حصے میں خوشحالی بھی نہ آئی۔ پوٹن نے ملک کو مضبوط کرنے کے لیے وہی طریقے اختیار کیے جو سابق سوویت یونین کے زمانے میں اختیار کیے جاتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک تو مضبوط ہوگیا مگر عوام کی اشک شوئی نہ کی جاسکی اور آبادی کے مختلف طبقات وہیں کے وہیں رہے۔
عالمی سطح پر روس ابھر رہا ہے مگر یہ سب کچھ قدرے مصنوعی ہے۔ روسی معاشرے میں بہت سی خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔ عوام کو اب تک ان کے حقوق نہیں ملے۔ ایسے میں روس عالمی سطح پر کوئی نمایاں اور اہم کردار ادا نہیں کرسکتا۔ شام کے معاملے میں روس نے اگر اپنی بات منوائی ہے تو اپنی طاقت کے بل پر نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کو بعض مجبوریوں کے باعث پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
(“Russia & the Global Balance of Power”…”The Revolution Observer”. Oct. 25, 2013)
Leave a Reply