
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے یکم فروری ۲۰۱۳ء کو روس کے آرتھوڈوکس عیسائی رہنماؤں سے ملاقات کی اور اس ملاقات کے بعد بیان دیا کہ روسی آرتھوڈوکس چرچ اور بیرونِ ملک روسی آرتھوڈوکس رہنما اہم مشن پر ہیں۔ یہ مشن کیا ہے، اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی۔ بہت کچھ قیاس کرنے والوں پر چھوڑ دیا۔ مغربی میڈیا نے روسی صدر کے بیانات اور اعلانات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پوٹن خالص عیسائی کی حیثیت سے ملک کا نظم و نسق چلاتے ہیں۔ وہ بیشتر معاملات میں کٹّر عیسائی ہیں۔
مغربی میڈیا کو روس میں وہ لڑکیاں پسند ہیں، جو چرچ کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی وضع قطع اپناتی ہیں۔ یہ وہی چرچ ہے جسے اشتراکیوں نے تباہ کردیا تھا اور روس کے راسخ العقیدہ عیسائیوں نے دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ مغربی میڈیا ولادیمیر پوٹن کو سفاک بناکر پیش کرتا ہے۔ پوٹن پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک چرچ میں چند لڑکیوں کو محض اس لیے گرفتار کرادیا کہ وہ وہاں گا رہی تھیں۔ ہم یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ جس چرچ کی بات ہو رہی ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہی چرچ ہے جسے خود عیسیٰ علیہ السلام نے بچایا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ اشتراکیت نے انسانیت کی فلاح یقینی بنانے کے نام پر روس کو خون میں ڈبو دیا تھا اور مذہبی روایات کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔ اس دور میں چرچ ختم کردیے گئے تھے۔ اب شکر کا مقام ہے کہ ولادیمیر پوٹن جیسے لوگ اقتدار میں ہیں تو آرتھوڈوکس چرچ تیزی سے مستحکم ہو رہا ہے۔ کیا امریکا کو معلوم ہے کہ یہ سب کیسے ہوا اور اب تک امریکی میڈیا کیوں سابق سوویت یونین کی طرح روس کو غلط رنگ میں پیش کرتا رہتا ہے؟
امریکی میڈیا میں راسخ العقیدہ عیسائی اپنے روسی بھائیوں کو کیونکر نظر انداز کرسکتے ہیں؟ کیا اُنہیں اندازہ نہیں کہ روس میں عیسائیت کے احیا کے لیے کس قدر خون بہا تھا اور کتنے لوگوں نے قربانی دی تھی؟ چند لبرل عناصر کے ہاتھ میں پورا نظام ہے اور باقی سب رجعت پسند لوگ غلاموں کی طرح ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں۔
امریکا میں حقیقی مکار تو وہ اشتراکی ہیں جو کبھی رجعت پسند اور کبھی لبرل بن کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ وہ عام امریکیوں کو حقیقت سے بہت دور لے جارہے ہیں۔ امریکا جل رہا ہے اور براک اوباما روم کے بادشاہ نیرو کی طرح خوشی خوشی بنسی بجا رہا ہے۔ روس میں بیشتر لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ امریکا میں کیا ہو رہا ہے۔
روس کے راسخ العقیدہ عیسائی دنیا کو فتح کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ مگر وہ اس کے لیے براک اوباما اور ان کے پیش روؤں کی طرح جنگ کا سہارا نہیں لے رہے۔ روس کے عیسائی عیسائیت کے پیغام کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ روس کے عیسائی دنیا بھر میں عیسائی بھائیوں اور بہنوں سے جُڑنے کے لیے بے تاب ہیں۔ مغربی معاشرے میں انسان مادیت کے جال میں جکڑا ہوا ہے اور نجات کے لیے وہ مشرق کی طرف دیکھ رہا ہے۔
ولادیمیر پوٹن نے آرتھوڈوکس چرچ کے رہنماؤں سے ملاقات کی وڈیو میں کہا ہے کہ ہمیں بیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی برسوں میں رونما ہونے والی خرابیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ روحانی اقدار کو نظر انداز کردیا گیا، کچل دیا گیا۔ مذہبی رہنماؤں کو قتل کردیا گیا۔ ہماری قومی یکجہتی کو انقلابات اور قتل و غارت کی نذر کردیا گیا۔ جنگیں مسلط کردی گئیں۔ سب کچھ رفتہ رفتہ تباہ کردیا گیا۔
ولادیمیر پوٹن نے مزید کہا کہ ہم عیسائیت کے فروغ کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ آرتھوڈوکس چرچ سے اشتراکِ عمل جاری رہے گا۔ معاشرے میں بنیادی اخلاقی اقدار کو دوبارہ فروغ دینے ہی پر سکون کا سانس لیا جائے گا۔
اگر امریکا اور یورپ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے وہ پروپیگنڈا ہے تو پھر انہیں سوویت یونین کے تجربے سے کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ عیسائیت کی بنیادی تعلیمات پر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ مغرب کو ایٹمی ہتھیاروں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا روحانی اقدار کے مٹ جانے سے ہے۔
(“Russia Threatens the West”… “Pravda.ru”. Feb. 4, 2013)
Leave a Reply