
اس میں کوئی شک نہیں امریکا اور دیگر بڑی قوتوں سے تعلقات کے بارے میں روس تیزی سے فعال ہوتا جارہا ہے۔ اس کے اقدامات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور ان کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں امریکا کے قومی ایجنڈے میں روس کا فعال ہونا سب سے نمایاں تھا۔ روس نے بہت پہلے سے عندیہ دینا شروع کردیا تھا کہ وہ امریکا کی صدارتی انتخابی مہم پر اثر انداز ہوگا اور صدارتی انتخاب کے عمل (پولنگ) کو بھی سبوتاژ کرے گا۔ یہ بات اب بھی بہت حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے سب سے اہم ادارے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کرے۔ اور پھر جس ملک کو نشانہ بنایا جارہا ہو وہ کوئی اور نہیں، واحد سپر پاور ہے۔
تمام شواہد اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ روس نے امریکا کے صدارتی انتخابی عمل میں مداخلت کی اور نتائج کو زیادہ سے زیادہ متنازع بنانے کے حوالے سے جو کچھ بھی کیا جاسکتا تھا وہ کیا۔ خفیہ اداروں کی رپورٹس بھی یہی کہتی ہیں، ذرائع ابلاغ کے ماہرین بھی یہی کہتے ہیں، اور روس کی خارجہ پالیسی کے طالب علم کی حیثیت سے میرا مشاہدہ اور تجربہ بھی یہی کہتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اس امر سے حیران ہوں کہ میں یہ سب کچھ اتنے یقین سے کیوں کر کہہ رہا ہوں۔ میں نے وہ کلاسیفائیڈ دستاویزات نہیں دیکھیں جو اس حوالے سے ’’آفس آف دی ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس‘‘ نے ۶ جنوری ۲۰۱۷ء کو جاری کی ہے۔ چند ایک مبصرین نے شکوہ کیا ہے کہ اس رپورٹ میں پیش کیے جانے والے شواہد ناکافی ہیں۔ سائبر در اندازی اور خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں دی جانے والی معلومات مکمل شواہد سے مزیّن نہیں۔ شکوہ یا تنقید کرنے والے مبصرین اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں کہ روس نے کھل کر ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے مرکزی سرور اور دیگر نیٹ ورکس میں داخل ہوکر خرابیاں پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جس کے نتیجے میں انتخابی عمل مشکوک سا ہوگیا۔
روس کی پروپیگنڈا مشینری بھی مسلسل فعال رہی ہے۔ ’’رشیا ٹوڈے‘‘ نامی ٹی وی چینل، ریڈیو اسٹیشن، اخبارات، ویب گاہیں، سوشل نیٹ ورکنگ اکاؤنٹس اور دوسرے بہت سے ذرائع سے روسی قیادت امریکا کے خلاف سرگرم عمل رہی ہے۔ روس کے خبر رساں ادارے امریکا کے حوالے سے بے بنیاد خبریں پھیلانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ فرانس کے انتخابات کے حوالے سے بھی روس نے مداخلت آمیز کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ انتہائی دائیں بازو کی صدارتی امیدوار لی پین کو کریملن بلاکر روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے غیر معمولی انداز سے تکریم کی۔
روس خارجہ پالیسی کے میدان میں جو کچھ بھی کر رہا ہے اس میں سیاست اور سفارت سے زیادہ معیشت کا عمل دخل ہے۔ روس کا کاروباری طبقہ ہر حال میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ اپنی قیادت سے مل کر بہت کچھ کرتا رہتا ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے امریکا اور یورپ کی پوزیشن بہتر ہوتی گئی ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل روس سے اب تک ہضم نہیں ہو پائی۔ تب سے اب تک روسی قیادت اس امر کے لیے کوشاں رہی ہے کہ کسی نہ کسی طور امریکا اور یورپ کو زیادہ سے زیادہ پریشان کیا جائے۔ ڈھائی عشروں کے دوران روس نے دوسرے ممالک میں کسی نہ کسی طور مداخلت اور ان کے مفادات کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل جاری رکھا ہے۔
روس کے لیے اپنی تاریخ، جغرافیے اور سیاست سے متعلق امور کو نظر انداز کرنا اب تک ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں یہ تینوں عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
اگر ہم روس کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کی تاریخ اور سیاست دونوں کو سمجھنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو یہ یاد رہے کہ جنگ پسندی روسیوں کے مزاج میں ہے۔ ان کا کوئی بھی قومی بیانیہ جنگ کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ روس میں دو جنگوں کا ذکر لازم ہے۔ پہلی تو ۱۸۱۲ء کی پیٹریاٹک جنگ ہے جو نپولین بونا پارٹ کا قبضہ ختم کرانے کے لیے تھی اور دوسری جنگ ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۵ء تک جاری رہی۔ یہ جنگ بھی ’’فادر لینڈ‘‘ کو چھڑانے کے لیے تھی۔
۱۸۱۲ء میں امریکا کو بھی خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور واشنگٹن تباہی سے دوچار ہوا تھا، مگر روسیوں کو یہ سب یاد نہیں۔ ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ہٹلر کی نازی افواج روس کے دارالحکومت تک پہنچ گئی تھیں، اور تب امریکا نے دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر اسے بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ امریکیوں نے بحرالکاہل میں جاپانی افواج کو بھی منہ توڑ جواب دیا تھا۔ مگر روسیوں کو یہ بھی یاد نہیں۔ انہیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ یورپ میں جنگ ختم ہو جانے کے تین ماہ بعد تک اسٹالن کی افواج ماسکو میں داخل نہیں ہوسکی تھیں۔ روس میں گریٹ پیٹریاٹک وار کے حوالے سے ہر سال ۹ مئی کو جشن منایا جاتا ہے۔ روس کا عظیم ترین ناول لیو ٹالسٹائی کا ’’وار اینڈ پیس ہے‘‘ جو روسی ہائی اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ بچوں کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ روس کی عظیم فتح یہ ہے کہ اس نے بیسویں صدی میں فاشزم کو شکست دی۔
۱۸۱۲ء کی جنگ اس وقت ختم ہوئی جب زار الیگزینڈر اول کی افواج پیرس میں داخل ہوئیں۔ ۱۹۴۵ء کی گریٹ پیٹریاٹک وار اس وقت ختم ہوئی جب اسٹالن کی افواج برلن میں داخل ہوئیں۔ روس ۱۹۴۵ء سے ۱۹۸۹ء تک خاصا محفوظ رہا یا کم ازکم بتایا تو یہی جارہا ہے۔ یہی سب کچھ روسی فوجی اداروں میں عشروں سے پڑھایا جارہا ہے۔ آج بھی روس کے عسکری تربیت کے اداروں میں یورپ کے وار تھیٹر کے حوالے سے بہت کچھ پڑھایا جارہا ہے۔ امریکا نے طویل مدت قبل یورپ کے معاملات کو ایک طرف ہٹاکر مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے، جبکہ روس کا دل اب تک یورپ ہی سے نہیں بھرا۔
وارسا پیکٹ کے خاتمے اور سوویت یونین کی تحلیل نے روسیوں کی نفسیات پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ وارسا پیکٹ حفاظت کی ضمانت تھا۔ اسی طور سویت یونین کی موجودگی میں روسیوں کے مفادات غیر معمولی حد تک محفوظ تھے۔ یہ دونوں ختم ہوئے تو عام روسی باشندے کو بھی یہ احساس ستانے لگا کہ اب بہتر زندگی کس طور بسر کی جاسکے گی۔ آج روسی شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے۔
روس نے سرد جنگ ختم ہونے پر ۱۹۹۰ء کے چارٹر آف پیرس پر دستخط ضرور کیے مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تاریخی وراثت اور روس کی قومی سلامتی کے جغرافیے کو بیک جنبش قلم ختم یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کمیونسٹ نظام کے خاتمے اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد بھی روس کی ’’نیشنل سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ حالات سے سمجھوتہ نہ کرسکی۔ وہ طاقت کے استعمال پر یقین رکھتی آئی تھی۔ یورپ میں نیا وژن ابھرا۔ ترقی اور خوشحالی کے لیے نئی سوچ اپنائی گئی۔ سب کے ساتھ مل کر چلنے کی سوچ نے راہ پائی، مگر روس کے لیے یہ سب کچھ اپنانا، گلے لگانا بہت مشکل ثابت ہوا۔ وہ پرانی ڈگر ہی پر گامزن رہا۔
۱۹۹۱ء میں روس کے لیے سب کچھ ختم ہوگیا۔ جن ممالک پر اس کا واضح اثر و رسوخ تھا وہ سب مغربی یورپ کے آغوش میں چلے گئے۔ سوویت یونین کی تحلیل نے روس کے لیے امکانات محدود کردیے۔ وہ اپنی طاقت کو زیادہ بروئے کار لانے کی پوزیشن میں نہ رہا۔ روسیوں کو بالآخر یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑی کہ تاریخ ہمیشہ وہی لکھتے ہیں جو فتح پاتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ نئے اصول اور قواعد بھی وہ ہی تیار کرتے ہیں۔ جب تک روس کمزور رہے گا، اُسے یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔
۱۹۹۰ء کا عشرہ روس کے لیے بہت سی خرابیاں لے کر آیا۔ اندرونی سطح پر سیاسی اکھاڑ پچھاڑ بہت زیادہ تھی۔ معیشت کئی بار بحران کا شکار ہوئی۔ روس سابق سویت یونین کی ریاستوں میں سب سے بڑا تھا۔ وہ سپر پاور کا سا درجہ رکھتا تھا۔ سوویت یونین کی تحلیل سے یہ درجہ ختم ہوا جس کے نتیجے میں روس کی ساکھ انتہائی کمزور ہوگئی اور سب کچھ آن کی آن میں زمین پر آرہا۔
روس کے بارے میں پڑھنے والے مغربی طلبہ کو بتایا گیا کہ آج کی دنیا روس کے بغیر ہے۔ روس کی اشرافیہ اچھی طرح جانتی تھی کہ دنیا بھر میں تعمیر و ترقی کا عمل تیزی سے جاری ہے جس کے نتیجے میں خوش حالی بھی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں اس بات کا بھی یقین تھا کہ عالمی معیشت، سیاست، سفارت، ثقافت اور تعلیم پر مغرب کے اثرات بہت واضح ہیں۔ یہ بات روسی اشرافیہ اور عوام دونوں کے اذہان میں گندھ گئی کہ یورپ آج ’’نرم قوت‘‘ کے حوالے سے خواہ کچھ بھی کہتا پھرے اور کتنی ہی بڑھک مارے، حقیقت یہ ہے کہ سرد جنگ کو طاقت کے ذریعے ہی جیتا گیا اور یوں سوویت یونین کی تحلیل کی راہ ہموار ہوئی۔ مغربی یورپ نے اپنی بھرپور ترقی اور خوش حالی کا محل کمزور روس کو پیچھے ہٹاکر بنایا تھا۔
روس کی واپسی
ایسا نہیں ہے کہ روس کے لیے سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ معاشی اعتبار سے وہ کمزور ضرور ہوا مگر ایک سپر پاور کی حیثیت سے گزارا ہوا عہد اس کے اعتماد کو متزلزل نہ کرسکا۔ روس کی اشرافیہ اور سیاسی و علمی قیادت نے مل کر ایک نئے روس کی بنیاد رکھی۔ یہ روس جدید ترین علوم و فنون سے بہرہ مند ہے۔ کئی عشروں کی کمزور قیادت کے بعد ولادیمیر پوٹن کی شکل میں روس کو ایسی قیادت میسر آئی جس نے اپنے آپ کو منوانے کا فیصلہ کیا۔ آج روس عالمی سیاست میں اپنا کردار وسیع کرنے پر کمر بستہ ہے اور یہ عمل تیزی سے جاری ہے۔ وہ سیاست، معیشت، ثقافت، علم و فن اور دیگر حوالوں سے بھی اپنی پوزیشن منوانا چاہتا ہے۔ صدر پوٹن نے ایک عشرے کے دوران جو کچھ کہا اور کیا ہے وہ صاف بتاتا ہے کہ روس اب بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اس معاملے میں وہ امریکا اور یورپ دونوں ہی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ جارجیا اور یوکرین سے لڑائی ہو یا کرائمیا کو روس سے دوبارہ ملحق کرنے کا معاملہ یا کوئی اور صورت حال، روس چاہتا ہے کہ دنیا اس کی حیثیت کو تسلیم کرے اور اسے عالمی سیاست و معیشت میں اس کا جائز مقام دے۔
مغرب نے عالمی سیاسی و معاشی نظام میں واپسی سے متعلق روس کی کوششوں کو زیادہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ یورپی قوتوں کا خیال ہے کہ روس نے تمام اصول نظر انداز کیے ہیں اور عالمی نظام کے حوالے سے انتشار پیدا کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ ان قوتوں کا خیال ہے کہ اگر روس اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو بحال کرنا اور منوانا چاہتا ہے تو اس کے لیے اسے جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ایک واضح حکمتِ عملی تیار کرکے اس کے مطابق عمل کرنے ہی کی بدولت روس اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کسی حد تک بحال کرسکتا ہے۔
روس چاہتا ہے کہ توازن بحال کرے مگر وہ پرانے توازن کو بھول کر نئی دنیا میں جینا چاہتا ہے۔ دوسری طرف معاہدۂ شمالی بحر اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) نے اپنی افواج ایسٹونیا میں تعینات کر رکھی ہیں تاکہ اُسے روس کی کسی بھی ممکنہ جارحیت سے بچانا ممکن ہوسکے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ نے ایسٹونیا کو ’’سینٹ پیٹرز برگ کا مضافاقی علاقہ‘‘ قرار دیا ہے۔
روس کی ’’سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ نے ایسٹونیا کے حوالے سے نیٹو کی سرگرمیوں کو روسی سلامتی اور سالمیت کے لیے حقیقی خطرے سے تعبیر کیا ہے۔ روسی قیادت کا کہنا ہے کہ مغرب یعنی امریکا اور یورپ نے ۱۹۹۰ء کے عشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا کچھ زیادہ ہی فائدہ اٹھالیا ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد جو خلاء پیدا ہوا اُس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا اور یورپ نے اپنی اپنی معیشت کو غیر معمولی حد تک مستحکم کیا۔ روس چاہتا ہے کہ معاملات پر نظر ثانی کی جائے اور مغرب اپنے چند مفادات سے دستبردار ہو تاکہ روس اور دیگر قوتوں کا کسی حد تک حوالہ کیا جاسکے۔ روس کی سرکاری مشینری ولادیمیر پوٹن کے پورے دور اقتدار میں یہی پروپیگنڈا کرتی آئی ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کی دنیا میں روس کے کردار کو جان بوجھ کر گھٹایا گیا ہے۔ اس معاملے میں امریکا اور یورپ کے اجتماعی کردار کی مذمت پوری شدت سے کی جاتی رہی ہے۔ روس نے جارجیا اور یوکرین کے خلاف لشکر کشی بھی اسی تصور کے ساتھ کی کہ امریکا اور یورپ کو اس خطے میں کھل کر کھیلنے کا موقع نہ دیا جائے۔
شام میں بھی روس نے زیادہ دلچسپی اس لیے لی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کو نئی زندگی فراہم کرسکے۔ وہ چاہتا ہے کہ مختلف خطوں کے لوگوں کو یہ احساس ہو کہ روس ابھی زندہ ہے اور بہت کچھ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ روس کی اشرافیہ اور بہت حد تک عوام نے بھی ولادیمیر پوٹن کے دور میں روس کی پوزیشن کے بحال ہونے کو سیاسی استحکام کے حوالے سے غیر ملکی اثرات یکسر مسترد کرنے اور کچھ کر دکھانے کے عزم کے طور پر لیا ہے۔ آج بیشتر روسیوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا ملک دوبارہ مکمل بحالی چاہتا ہے تاکہ عالمی سیاست و معیشت میں اپنا کردار پوری لگن اور یکسوئی کے ساتھ ادا کرسکے۔
کمیونزم کی شکست کے بعد روس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ روس نے مغرب کے آزاد جمہوری نظام کو بہت حد تک اپنایا، جس کے نتیجے میں روس سے متعلق خدشات میں کمی واقع ہوئی۔ امریکا اور یورپ نے روس میں سرمایہ کاری پر توجہ دی تاکہ ایک طرف تو بڑھتے ہوئے معاشی امکانات سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور دوسری طرف روسی معاشرے میں اپنی اقدار بھی متعارف کرائی جاسکیں۔ ان تمام کوششوں کو روس میں ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ بیشتر روسی یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی دنیا ان کی معیشت کے ساتھ ساتھ ثقافت اور مذہبی روایات کو بھی زیر اثر لینا چاہتی ہے۔ امریکا اور یورپ کو بیشتر روسی اب بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں کہ یہ دونوں خطے مل کر کسی بھی ملک کا بھلا کرسکتے ہیں، اور خاص طور پر روس کا۔ روس کو کرائمیا کے بحران کے بعد معاشی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہ سب کچھ روسیوں کے لیے غیر متوقع تو نہ تھا مگر رنج پہنچانے کا باعث ضرور بنا۔ روسی جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپ روس سے ملحق ممالک میں جمہوریت اور آزاد معیشت کو فروغ دے رہے ہیں اور یہ کوشش انہیں مادرِ وطن کے خلاف سازش ہی محسوس ہوتی ہے۔
روس میں ذرائع ابلاغ اب تک مجموعی طور پر سرکاری کنٹرول میں ہیں۔ روس کی پروپیگنڈا مشینری مضبوط ہے۔ قومی بیانیہ عوام کی امنگوں کے مطابق ہے اور اب تک کامیاب رہا ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ مغرب ان کے ملک کے ساتھ کیا کرنے جارہا ہے۔ اور یہ بات روسی ذرائع ابلاغ بہت تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا اور یورپ نے روس میں جمہوریت اور آزاد معیشت کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی، جس کے نتیجے میں روس تبدیل ہوا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب روسی معیشت مستحکم ہوگئی اور روس کا سیاسی نظام بھی بہت حد تک مضبوط ہوا، تو روسی اشرافیہ نے جمہوریت کو خیرباد کہنا شروع کردیا۔
ایسا نہیں ہے کہ روس میں سب کچھ اچھا چل رہا ہے۔ حزب اختلاف کی بہت سی شخصیات نظام کی خرابی کو چیلنج کر رہی ہیں۔ بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے والی نمایاں ترین شخصیت الیگزی نیولنی کی ہے، جنہوں نے درون خانہ بہت سی ناکامیوں کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ صدر پوٹن کے آمرانہ اقتدار پر بھی انگلی اٹھائی ہے۔ مگر خیر، معاملہ یہیں تک ہے۔ کسی نے بھی صدر پوٹن کے دور کی خارجہ پالیسی میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کی ہمت اپنے اندر اب تک نہیں پائی۔ روسی پروپیگنڈا مشینری مجموعی طور پر خاصی کارگر رہی ہے۔ بیشتر روسیوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ ان کے ملک کے خلاف سازش کرنے والوں کی کمی نہیں۔ اور یہ کہ امریکا اور یورپ کسی بھی حال میں اُن کا بھلا نہیں چاہتے۔
روس بہت کچھ کرنا چاہتا ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس کی اور مغرب کی پوزیشن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ روس کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) ۱۳۰۰؍ارب ڈالر ہے، جبکہ امریکا کی جی ڈی پی ۱۸ ہزار ارب ڈالر ہے۔ روسی معیشت تقریباً جمود کا شکار ہے، جبکہ امریکا میں اب بھی معاشی امکانات کی بہار ہے۔ ایسے میں امریکا اور یورپ کو شکست دینا، اور اپنی مرضی کے مطابق ترقی کرنا محض دیوانے کا خواب کہا جاسکتا ہے۔ روس کے مجموعی دفاعی اخراجات ۶۵؍ارب ڈالر ہیں جو امریکی دفاعی اخراجات کے سالانہ اضافے کے مساوی ہیں۔ روسی فوج ساڑھے سات لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جبکہ امریکی فوج اس وقت چودہ لاکھ فعال نفوس پر مشتمل ہے۔ ایک عشرے کے دوران روسی فوج کو بہت سے معاملات میں غیر معمولی فوائد پہنچے ہیں۔ معیشت کے استحکام نے اُس کے لیے بہت سے امکانات پیدا کیے ہیں۔ خطے کے دیگر ممالک کی فوج کے مقابلے میں روسی فوج خاصی بڑی ہے۔ مگر اب بھی روسی فوج اس پوزیشن میں نہیں کہ نیٹو افواج کا مقابلہ کرسکے۔ ایک طرف ٹیکنالوجی کا فرق ہے اور دوسری طرف عددی قوت کا۔ اور روسی فوج کا وہ پروفیشنل معیار بھی نہیں جو امریکا اور یورپ کی افواج کا ہے۔ نیٹو سے روسی افواج کا ٹکرانا ایک ملی جلی خود کشی کا سا عمل سمجھا جائے گا۔ یہ بات کریملن کے پالیسی ساز بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
روسی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ مغرب سے مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ایسے میں ذرائع ابلاغ کی مدد سے مخاصمت اور بڑھک کی فضا تو پیدا کی جاسکتی ہے اور کی گئی ہے۔ پروپیگنڈا مشینری کو زیادہ سے زیادہ متحرک رکھ کر ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے جس میں روس خاصا مضبوط دکھائی دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس اب بھی بہت سے معاملات میں کمزور ہے اور مغرب سے مقابلے کی پوزیشن میں تو ہرگز نہیں۔ پروپیگنڈے کے محاذ پر وہی ہتھکنڈے اختیار کیے جارہے ہیں جو سوویت یونین کے دور میں اختیار کیے جاتے تھے۔ صدر پوٹن کو اندرون ملک کسی کو جواب نہیں دینا۔ اس کی کوئی گنجائش چھوڑی ہی نہیں گئی ہے۔
پارلیمان اب تک ربر اسٹیمپ کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ جو احکام کریملن سے جاری ہوتے ہیں، پارلیمان (ڈوما) اس پر دستخط کرکے اپنا فرض پورا کردیتی ہے۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں پارلیمان کا کوئی کردار نہیں۔ اور اس معاملے میں اسے زحمت دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔
روسی قیادت نے بیشتر معاملات میں مغرب کے خلاف جانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اس کے لیے منفی طریقوں سے کام لیا جارہا ہے۔ سائبر اٹیک بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب روسی قیادت ہر معاملے میں مغرب کے خلاف جاکر اپنے برقرار رہنے کا جواز بنائے رکھنا چاہتی ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا ہے کہ مغرب سے مخاصمت پالنے کے نتیجے میں قومی معیشت اور سیاست کو کس حد تک نقصان پہنچ رہا ہے۔ وقتی فائدے کی خاطر طویل المیعاد فوائد کو داؤ پر لگادیا گیا ہے۔
روس ابھرنے کی بھرپور کوشش کر تو رہا ہے مگر اس حوالے سے اپنائے جانے والے منفی ہتھکنڈے صرف خرابیاں بڑھا رہے ہیں۔ ایسے میں لازم ہوگیا ہے کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمینی حقیقتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ خارجہ پالیسی میں توازن لایا جائے۔ عسکری پالیسیوں میں بھی خطے کے حالات کے مطابق حقیقت پسندانہ تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ہر معاملے میں آنکھ بند کرکے مغرب کے خلاف جانا کسی طور درست نہیں۔
امریکا اور یورپ کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے کرتے روسی قیادت یہ بھول گئی ہے کہ خود اس کے ہاں بھی بہت کچھ خرابی کی نذر ہوچکا ہے۔ اپنی خرابیوں کو بھول کر دوسروں کی خرابیوں کو شمار کرتے رہنا کوئی اچھی روش نہیں۔ امریکی نظام کی بدعنوانی کو اچھالا جارہا ہے جبکہ خود روس میں غیر معمولی حد تک بدعنوانی ہے۔
روس کے لیے یہ وقت صرف اور صرف حقیقت پسندی کو اپنانے اور اپنی خرابیوں کو دور کرنے کا ہے۔ اندرونی خامیوں اور خرابیوں کو دور کرنے کے بعد وہ امریکا اور یورپ کو منہ دکھانے کے قابل ہوسکے گا۔ دوسرے خطوں میں اثر و رسوخ کی کوشش اچھی ہے مگر پہلے اپنا گھر مضبوط ہونا چاہیے۔ اس نوعیت کی مہم جوئی صرف خرابیاں پیدا کرتی ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Russian Active Measures and Influence Campaigns”(“carnegieendowment.org”. March 30, 2017)
Leave a Reply