روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے درمیان امسال ستمبر کو عجلت میں ہونے والی ایک ملاقات پر کئی حلقوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ یہ ملاقات شام میں فوجی کارروائیاں کرنے کے روسی اعلان کے فوراً بعد ہوئی تھی۔ اس اعلان نے اسرائیلی فیصلہ سازوں کو اس خوف میں مبتلا کر دیا تھا کہ شامی حدود میں دونوں ملکوں کے مفادات کے باہمی ٹکرائو کا خطرہ ہے، چنانچہ اس ہنگامی ملاقات کا مقصد اس خطرے کے تدارک کو یقینی بنانا تھا۔
نیتن یاہو نے جن کے ساتھ سینئر اسرائیلی فوجی جنرل بھی تھے، صدر پیوٹن سے شام میں روسی اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو مربوط کرنے کی درخواست کی تاکہ اسرائیلی حدود میں اتفاقیہ گولہ باری اور دونوں کے جنگی طیاروں کے درمیان تصادم سے گریز کو یقینی بنایا جاسکے۔ ملاقات کے بعد نیتن یاہو نے تفصیلات کو مخفی رکھتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے شام میں اپنے اہداف کی وضاحت کردی ہے، جو میرے ملک اور عوام کی سلامتی کا تحفظ ہے۔ روس کے اہداف مختلف ہیں مگر ان کا تصادم نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
گزشتہ ہفتے ترکی کے روسی بمبار طیارے کو مار گرانے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر شام کی گنجان فضائی حدود میں اس قسم کے فوجی تعاون کی ضرورت بڑی واضح ہے۔ اس واقعے کے برعکس حال ہی میں ایک روسی طیارہ شام میں کارروائی کے دوران غلطی سے اسرائیلی مقبوضہ فضائی حدود میں چلا گیا، مگر وارننگ دیے جانے کے بعد بغیر کسی مزاحمت کے فوراً ہی واپس چلا آیا۔ شام کی مختصر سی فضائی حدود میں روزانہ امریکا اور اس کے اتحادی روسی، اسرائیلی اور دیگر عرب ممالک کے طیارے بڑی تعداد میں فضائی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان سب کے اہداف ایک جیسے نہیں ہیں، اور سوائے اسرائیل کے باقی سب داعش کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے باہمی تصادم کا خطرہ موجود ہے۔
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں پر جھلّایا ہوا ترکی اس حرکت سے باز رکھنے کے لیے کسی طیارے کو گرانے کے موقع کی تلاش میں تھا یا یہ شام کی جنگ کی نوعیت کے پیشِ نظر کوئی ایجنڈا تھا۔ اس واقعے کے نتائج خواہ کچھ بھی ہوں، ایسے واقعات کے دور رس نتائج کی وجہ سے اسرائیل ان سے گریز چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل، شام میں اپنے مفادات پر سمجھوتا کیے بغیر کس طرح ایسی حالت سے گریز کو یقینی بناتا ہے۔
فضائی برتری
کئی دہائیوں سے اسرائیل کو شام اور لبنان کی فضائوں پر مکمل برتری حاصل ہے، جس نے اسے انٹیلی جنس کے حصول اور اکثر و بیشتر فوجی کارروائیاں کرتے رہنے کے قابل بنایا ہے۔ شام میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کے دونوں بنیادی تزویراتی اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ اس کی اولین ترجیح اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ شام سے اس کے راستے سے ہتھیار اور گولہ بارود لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے جنگجوئوں تک نہ پہنچ جائیں کیونکہ اس سے یہودی ریاست اور حزب اللہ کے درمیان طاقت کا توازن بدل سکتا ہے۔ اگرچہ حزب اللہ، بشارالاسد کی حمایت کرنے والی ان قوتوں میں سے ہے جن کے سہارے اس کی حکومت کھڑی ہے، لیکن اسرائیلی اسے جانی دشمن سمجھتے ہیں۔
دوسری ترجیح یہ ہے کہ شامی جنگ اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی پہاڑیوں یا اسرائیل کے اندر تک نہ پہنچ جائے۔ ان دونوں اہداف کا تعاقب اسرائیل پچھلے پانچ سال سے کر رہا ہے اور حزب اللہ کو اسلحہ کی ترسیل کے تمام قافلوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اور شام کی جانب سے ہونے والی گولہ باری کے جواب میں محدود فوجی کارروائیاں کی گئی ہیں۔ اسرائیل کے تازہ خدشات یہ ہیں کہ شام کی جنگ کا میدان روس سمیت عالمی کرداروں سے بھرتا جارہا ہے، جس سے اس کے لیے وہاں جنگی چالیں چلنے کی جگہ تنگ ہوتی جارہی ہے۔
مشترکہ اور متصادم مفادات
جنگ زدہ شامی سرحد میں اسرائیل اور روس کے مفادات مشترکہ بھی ہیں اور متصادم بھی۔ ابتدا میں اسرائیل اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھا کہ بشارالاسد حکومت کی بقا اس کے اپنے مفاد میں ہے، مگر بشارالاسد کی متبادل قوتوں خصوصاً داعش کی بڑھتی طاقت دیکھنے کے بعد اسرائیل خاموشی سے روسی موقف کے قریب ہوتا جارہا ہے کہ شام کی موجودہ حکومت کی بقا میں ہی اس کا بہترین مفاد ہے۔ تاہم بشار حکومت کا غلبہ قائم رکھنے کے لیے اسرائیل کو ایران اور حزب اللہ کی شام میں موجودگی کی کڑوی گولی نگلنی پڑے گی اور شاید لمبے عرصے تک نگلنی پڑے گی۔ ان خدشات میں زیادہ پریشان کن ایران کو روسی ایس۔۳۰۰؍اینٹی ایئر میزائل سسٹم کی فروخت اور حال ہی میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی ایلیٹ القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کا دورہ روس ہے۔ جنہیں اسرائیل ایک خطرناک شخصیت سمجھتا ہے۔
ان واقعات کو اسرائیلی فیصلہ ساز اپنے لیے حقیقی، فوری اور براہ راست خطرہ سمجھتے ہیں۔ سی این این کو ایک تازہ انٹرویو میں نیتن یاہو نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ایران ان میزائلوں کو حزب اللہ تک پہنچا سکتا ہے اور متنبہ کیا کہ اس امکان کا تدارک کرنے سے کوئی بھی اسرائیل کو نہیں روک سکتا۔ نیتن یاہو کی عمومی بیان بازی ایک طرف مگر اسرائیل حقیقتاً حزب اللہ کو جدید روایتی فوجی اسلحہ کی فراہمی سے سخت پریشان ہے۔ اگر اس خوف سے بچائو کی کوشش میں ترکی کی طرح روس سے براہ راست ٹکرائو کا خطرہ ہے تو پھر کم ازکم کسی اتفاقی تصادم سے گریز کو یقینی بنانا دونوں ملکوں کے لیے لازمی ہے۔
یروشلم اور ماسکو، دونوں کو اس نئی صورتحال میں بڑی احتیاط سے چلنا ہوگا۔ پیوٹن کے دور میں دونوں ملکوں کے باہمی اور فوجی تعلقات کو فروغ ملا ہے۔ روس اور ایران کے قریبی فوجی تعلقات پر گہرے خدشات کے باوجود حال ہی میں اسرائیل نے روس کو دس آئی اے آئی سرچر۔۳ ڈرون طیاروں کی فروخت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ نیتن یاہو سیاسی اور ذاتی سطح پر روس کے ساتھ بہتر مفاہمت میں دلچسپی رکھتے ہیں، (اگر اس حقیقت کو خصوصاً صدر براک اوباما کے ساتھ ان کے کشیدہ تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے)۔ تاہم مشرق وسطیٰ کی ہمیشہ رہنے والی پیچیدگیوں، خصوصاً شام کی صورتحال میں، روس کی اسرائیل کی سرحدوں کے قریب موجودگی یہودی ریاست کے لیے اچھے اور برے، دونوں پیغام رکھتی ہے۔
“Russian-Israeli relations reach new heights”. (“alarabiya.net”. Dec. 2, 2015)
Leave a Reply