شام میں روس کی حالیہ کارروائی کا مقصد داعش کو شکست دینا نہیں ہے۔ اگرچہ روس اس قسم کے دعوے ضرور کررہا ہے۔ داعش سے مؤثر انداز میں لڑنا اور اس طرح بشار الاسد کو طاقت میں رکھنے کے اپنے پرانے ہدف کو حاصل کرنا روس کے حالیہ ردعمل کی سیدھی سادھی وضاحت نظر آتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ روسی حملے امریکی حمایت یافتہ باغی گروہوں کے علاقوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، جو کہ روس کے سرکاری موقف کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتی ہے۔
روس کے قومی سلامتی مفادات کی جانچ حالیہ سرگرمی کی پشت پر موجود وجوہات کو واضح کرنے میں مدد دیتی ہے۔ شام میں روسی طاقت کا مظاہرہ دو باہم منحصر سلامتی مفادات کو سہارا دیتا ہے۔ پہلا طرطوس کی بندرگاہ کو روسی بحری بیڑوں کے لیے بطور دروازہ کھلا رکھنا تاکہ مقامی فوجی طاقت کو فروغ دیا جاسکے۔ دوسرا روس کی سیاسی موجودگی اور اثر کو مشرقِ وسطیٰ میں مضبوطی سے قائم رکھنا۔ یہ دونوں اہداف روس اور ایران کو ایک دوسرے سے متصادم کرتے ہیں۔
نہایت اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ روس شام میں اپنے طویل مدتی مفادات بشارالاسد کے مستقبل سے آزاد ہو کر تشکیل دے رہا ہے۔ یہی کام حال ہی میں ایران نے بھی سرحدی علاقے الزبدانی میں کیا، جب وہاں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اس نے شام کی حکومت کو نظرانداز کیا۔ شام میں روس کی فوجی مداخلت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ سارے پتّے اسلامی جمہوریہ ایران کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ ابھی تک ایران بشارالاسد کی سیاسی اور فوجی بقا میں ایک کلیدی حصہ دار رہا ہے اور بہت سارے مواقعوں پر اہم کمانڈ اینڈ کنٹرول نظاموں اور جنگی مہمات کی قیادت کرتا رہا ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن کو معلوم ہے کہ اگر اس صورتحال کو جاری رہنے دیا گیا تو روس شام کے مستقبل کے منظرنامے سے باہر ہو جائے گا اور یوں مشرقِ وسطیٰ میں جو روس کا بچا کھچا اثر ہے، وہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ کچھ لوگ یہ موقف اپناتے ہیں کہ داعش سے مقابلہ کرنے میں ایران اور روس کا مشترکہ مفاد ہے۔ لیکن طویل مدت میں یہ تعاون اصل مفادات کے اشتراک کی وجہ سے نہیں بلکہ دونوں کے لیے سازگار ہونے کی بدولت ہے۔
مزید یہ کہ پوٹن یہ یقین بھی رکھے ہوئے ہیں کہ شام میں وسیع تر مداخلت کریمیا اور یوکرین کے پچھلے سال کے واقعات کے بعد روس کی تنہائی کو ختم کرنے میں مدد دے گی۔ اس کے ساتھ ایک ثانوی قانونی فائدے کے طور پر، روس شام کے لیے اپنا الگ امن منصوبہ تیار کرتا دکھائی دیتا ہے، وہ منصوبہ جو بطور سیاسی اداکار اور داعش کے خلاف شراکت دار بشارالاسد کی نشاۃِ ثانیہ کا تصور پیش کرتا ہے۔ بشارالاسد کے مستقبل کے حوالے سے بحث جو کبھی مرکزی حیثیت رکھتی تھی، اب پیچھے چلی گئی ہے۔
شام میں پوٹن کی جرأت مندانہ فعالیت کو توانائی بخشنے والے عوامل بہت سے ہیں۔ سب سے پہلے وہ رپورٹیں جو بتاتی ہیں کہ پوٹن حقیقت پسندی کے ساتھ روس کی طویل مدتی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہیں، کیونکہ روسی شہریوں اور روسی زبان بولنے والوں کی ایک قابل ذکر تعداد داعش کے ساتھ مل کر لڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ وسط ایشیا میں روس اپنی سرحد کے ساتھ دو کروڑ سنیوں کو مستقبل کے ممکنہ نقطہ اشتعال کے طور پر دیکھتا ہے، کیونکہ بلاشک و شبہ ان میں سے کچھ جنگجو اس علاقے کو لوٹیں گے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ روس پہلے ہی چیچن باغیوں اور افغانستان میں مجاہدین کے ساتھ تنازعات میں اس تاریخی مسئلے کا سامنا کرچکا ہے۔
دوسرا پوٹن کو یقین ہے کہ ایران مغرب کے ساتھ ہونے والی اپنی تازہ جوہری ڈیل سے بین الاقوامی سیاسی اور معاشی دونوں طرح کا سرمایہ حاصل کرے گا۔ اس کے مقابلے میں روس بہت سے اندرونی مسائل اور مغربی پابندیاں سہہ رہا ہے جو کریمیا بحران کے بعد عائد ہوئی تھیں۔ ہوسکتا ہے پوٹن یہ محسوس کرتے ہوں کہ اگر وہ داعش کے خلاف لڑنے میں ایک اہم کردار نبھاتے نظر آئیں تو روس پر عائد پابندیاں بھی اٹھ جائیں۔ یہ حکمتِ عملی الٹا اثر بھی دکھا سکتی ہے، اگر شام میں زمین پر موجود امریکی اتحادیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔
آخری سبب یہ ہے کہ پوٹن شام کو ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں جو دنیا کی دوسری طاقت کے طور پر روس کی نمایاں حیثیت کو بحال کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔ پوٹن کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ سرد جنگ کے بعد روسی طاقت میں ہونے والی کمی کے تاثر کا سدباب کرتا ہے۔ وہ امریکا کی جانب سے عراق میں عدم موجودگی، مشرق وسطیٰ کے علاقائی واقعات کی طرف امریکی بے نیازی اور شام کی تباہی کے بیک وقت وقوع ہونے کو ایک سودمند اتفاق کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کے ذریعے وہ فعال طور پر یہ ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔
اگرچہ پوٹن نے بظاہر جرأت مندانہ اقدام کیا ہے، لیکن جن مسائل کا ان کو سامنا ہے، وہ معمہ نہیں ہے۔ پہلا یہ کہ شام یوکرین نہیں ہے اور جغرافیہ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ غیر ملکی سرزمینوں پر مداخلت کی روسی تاریخ قطعاً تابناک نہیں۔ افغانستان، انگولا اور ایتھوپیا میں اس کی مہم جوئی فقط چند مثالیں ہیں۔
دوسرا، روسی فوجیں اسرائیلی حدود کے بہت قریب چلی جائیں گی اور یہ خوش آئند پیش رفت نہیں ہوگی۔ اسرائیل نے شام میں اپنے مفادات کے لیے ایران اور ایران کی پراکسی قوتوں کے خلاف پہلے ہی دفاعی انداز میں کام کیا ہے۔ اسرائیلیوں کو پورا یقین ہے کہ روس ایک متنازعہ علاقے میں غلطیاں کرے گا۔ جیسے اس نے ۲۰۱۴ء میں مشرقی یوکرین میں ملائیشیا کے ہوائی جہاز کی پرواز ۱۱۷ کو نشانہ بنا کر کی تھی۔
تیسرا پوٹن کی فوجیں ایران، لبنان اور حزب اللہ کے ساتھ گٹھ جوڑ بنا کر بیٹھ جائیں گی۔ یہ واضح نہیں کہ طویل مدت میں اس کا انجام کیا ہوگا، میدانِ جنگ اور میدانِ سیاست، دونوں میں، لیکن ایرانی ممکنہ طور پر روس کو اس تعلق کو غصب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
چوتھا امریکا کو پریشان کرنے کے علاوہ روس کو کیا حاصل ہوگا؟ مختصر مدت میں اسد کو اپنی جگہ قائم رکھنا قتلِ عام کو صرف بڑھانے کا سبب بنے گا، جبکہ روس کو اس کے دہرے اور تہرے اثرات کو قابو میں رکھنے میں کوئی حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ روس کے شام میں مزید اثر و نفوذ کا لازمی مطلب شام میں اس نئے خطرے سے نمٹنے کے لیے مزید اسلام پسند انتہا پسندوں کی آمد ہوگا۔
آخری بات یہ کہ روسی کارروائیاں امریکی افواج کے ساتھ ایک براہ راست اور خطرناک تصادم کو جنم دے سکتی ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے پر نگاہ ڈالیں تو روس اور امریکی افواج اگر شام میں مشغول ہوتیں تو دیگر خطوں میں امریکی افواج کا روسی حملوں کا نشانہ بننے کا امکان بڑھ جاتا جو ایک بہت زیادہ وسیع اور ہلاکت خیز تصادم کا ذریعہ بن جاتا۔
ان تمام مسائل پر ایک ساتھ نگاہ ڈالیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوٹن نے شاید اپنے آپ کو مشکل میں ڈال لیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایران اور اس کے مفادات کے درمیان ایک خطرناک پوزیشن میں لے آئے ہیں۔ جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ پوٹن کی مہم جویانہ جدوجہد، جس کا ایک مقصد دنیا کے منظر نامے پر روس کی موجودگی کو بڑھانا ہے، روس کو ایک ایسے خطے میں موذی کردار بنا کر پیش کر رہی ہے جو پہلے ہی شعلوں کی زَد میں ہے۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“Russia’s new Middle East great game”. (“mei.edu”. Oct. 5, 2015)
Leave a Reply