
روس نے پاکستان سے تعلقات کو نئی شکل دینے اور ان میں وسعت لانے کی بھرپور کوشش شروع کردی ہے۔ یہ پیش رفت پاکستان اور جنوبی ایشیا دونوں کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں نمایاں تزویراتی حرکیات اور پالیسی کی تبدیلی اُن تصورات کو تبدیل کرسکتی ہے، جنہوں نے روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ میں پاکستان کو روس مخالف کیمپ میں لاکھڑا کیا تھا۔ ماسکو نے واضح عندیہ دے دیا ہے کہ وہ ماضی کو بھلاکر جنوبی ایشیا سمیت پورے ایشیا میں طاقت کا توازن قائم کرنے کی کوشش کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ روس کی طرز فکر و عمل میں رونما ہونے والی تبدیلی کا اصل سبب یا اسباب کیا ہیں؟ کیا یہ پیش رفت بھارت سے روس کی قربت کو زوال کی ڈگر پر ڈال دے گی۔ کیا ماسکو غلط انتخاب سے دوچار ہونے والا ہے؟
روس کا پاکستان کی طرف ہاتھ بڑھانے کا تجربہ ماسکو کی نمایاں طور پر تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہوئی تزویراتی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ماسکو کے نئی دہلی کے حریف کے ساتھ معاہدہ کرنے کو واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان ہونے والے معاہدے کا مقابلہ کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس پیش رفت کے ذریعے کریملن نے بھارت کو شاید یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ امریکا سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ضرور کی جائے تاہم نئی دہلی کا مجموعی جھکاؤ روس ہی کی طرف رہنا چاہیے۔
جموں و کشمیر کے اڑی سیکٹر میں فوجی کیمپ پر حملے کے بعد بھارت نے روس سے استدعا کی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں منسوخ کردے مگر روس نے ایسا کرنے سے صاف انکار کیا۔ اس سے ماسکو کی بدلی ہوئی سوچ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ۳؍ اور ۴ دسمبر ۲۰۱۶ء کو بھارت کے شہر امرتسر میں ’’ہارٹ آف ایشیا‘‘ کانفرنس کے دوران روسی نمائندے نے پاکستان کو ’’دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی ریاست ‘‘ قرار دینے کے عمل کو واضح طور پر ناپسند کیا۔ اس سے قبل ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو بھارتی ریاست گوا میں ‘‘برکس‘‘ کانفرنس کے موقع پر بھی روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے بھارت کی خصوصی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کا ذکر کرنے سے صاف گریز کیا۔
ماسکو کی پالیسی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اس کی حقیقت پسندی اور عمل پسندی کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کے تعاون سے افغانستان میں استحکام لانا چاہتا ہے۔ کابل کا استحکام وسطی ایشیا کے امن کا پیش خیمہ ہوگا۔ افغانستان میں سیاسی عدم استحکام اور سیکورٹی کے مسائل پورے خطے میں روسی مال کی فروخت کو خطرے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کا کردار کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس لیے روس چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان سے بھرپور مستفید ہو۔ ایسی صورت میں روس کے لیے پورے خطے میں معاشی روابط بہتر بنانے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔
تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ماسکو اب نئی دہلی سے فاصلہ پیدا کرنے کی راہ پر چل نکلا ہے؟ ایسا نہیں ہے ۔ روس کے پالیسی ساز یقیناً دانش سے محروم نہیں۔ وہ بھارت کا ہاتھ جھٹکنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ مگر ہاں، روس تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے کی پالیسی سے گریز چاہتا ہے۔ ماسکو اور اسلام آباد میں بہتر ہوتے ہوئے تعلقات اور بڑھتے ہوئے اشتراکِ عمل سے نئی دہلی کے لیے تشویش کا سامان ضرور ہوا ہے۔ روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار آج بھی بھارت ہے۔ اور جب تک یہ حقیقت قائم ہے، نئی دہلی اور ماسکو کے تعلقات میں حقیقی زوال کا آنا انتہائی محال ہے۔ دوسری طرف نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان طے پانے والے ’’لاجسٹک ایکسچینج میمورنڈم آف ایگریمنٹ‘‘ نے ماسکو کو چوکنا کردیا ہے۔ یہ معاہدہ امریکا کو بھارت سے چند ایک عسکری سہولتوں کی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ ان میں فضائی اور بحری ری فیولنگ اور لاجسٹکس شامل ہیں۔ یہ معاہدہ بھارت کو امریکی فوجی سہولیات سے ایسا ہی استفادہ کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ کریملن کے نزدیک امریکا اس معاہدے کو بروئے کار لاتے ہوئے چین اور روس کو خطے اور بالخصوص بھارت کے سمندری علاقے میں محدود رکھنے کا عزم رکھتا ہے۔
اس ماحول میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت اب روس کو چھوڑ کر امریکی دائرہ اثر میں داخل ہو رہا ہے۔ ایسی حالت میں روس کے لیے بھارت کے بحری علاقے میں قدم جمانا لازم ہوجائے گا۔ اور ایسا ہوا تو نئی دہلی کی پریشانی بڑھے گی۔ پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع کرنے کے حوالے سے ماسکو جو کچھ کر رہا ہے، اس سے اتنا تو واضح ہے کہ نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں گی۔ تزویری سطح پر رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں روس اور بھارت کے تعلقات کو بھی نئی، حقیقت پسندانہ سوچ سے ہم کنار کرسکتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ بھارت کو امریکا سے تعلقات کا بھی جائزہ لیتے ہوئے وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو روس کے تحفظات دور کرے۔
پاکستان کا جنوبی ایشیا میں کردار اپنے دیرینہ دوست چین اور امریکا سے تعلقات کی بنیاد پر ہے۔ اب وہ روس سے بھی قربت اختیار کر رہا ہے۔ چین پاک راہداری منصوبے نے پاکستان کو ایک مضبوط معاشی، سفارتی اور تزویری بنیاد فراہم کی ہے۔ چین اور روس کی طرف غیر معمولی جھکاؤ کے باعث پاک امریکا تعلقات کے شیشے میں بھی بال آرہا ہے۔ روس اگر چاہے تو پاکستان کو عسکری طور پر مضبوط کرکے پاکستان کو امریکا سے اشتراکِ عمل سے کسی حد تک بے نیاز کرسکتا ہے۔ حالیہ فوجی مشقوں کے بعد اب اسلام آباد کے پالیسی ساز ماسکو سے SU-35 جنگی طیارے حاصل کرنے کے معاہدے کو بھی حتمی شکل دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فی الحال روس کی وفاقی سروس برائے عسکری تعاون نے ایسے کسی معاہدے کی تردید کی ہے، تاہم اس کے باوجود اسلام آباد ماسکو سے اب تک چار Mi-35 جنگی ہیلی کاپٹر حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ اگرچہ روس نے چین پاک معاشی راہداری میں شمولیت کے لیے پاکستان کے ساتھ کیے جانے والے مذاکرات کی بھی تردید کی لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی چاہتا ہے۔
کریملن کی خواہش ہے کہ یوریشین اکنامک یونین کو شاہراہِ ریشم سے منسلک کردیا جائے۔ شاید اِسی کو غلطی سے روس کی چین پاک راہداری منصوبے میں شمولیت کی خواہش سمجھ لیا گیا ہے۔ ابھی یہ دیکھا جانا باقی ہے کہ کیا روس کی اس تجارتی معاہدے میں شمولیت کی خواہش ’’افواہ‘‘ رہتی ہے یا حقیقت کا روپ دھارتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے پیچیدہ خد و خال پاک روس تعلقات کی بحالی کو غیر یقینی بناتے ہیں۔ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کی نئی انتظامیہ کا جھکاؤ روس کی طرف رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس کے باوجود ابھی یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ روس کا پاکستا ن کی طرف جھکاؤ کس قدر ہوگا اور کیا رخ اختیار کرے گا۔ بہرحال اگر اسلام آباد نے ماسکو کا ہاتھ تھامنے کے عمل میں واشنگٹن کو مکمل طور پر نہ چھوڑا تو یہ حقیقت نئی دہلی کو سکون کا سانس لینے کا موقع فراہم کرے گی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Russia’s search for a new ground in Pakistan”. (“Eurasia Review”. Dec. 27, 2016)
Leave a Reply