
عراق میں امریکی غلطیوں‘ غلط فیصلوں اور جاسوسی اداروں کی ناکامیوں کی اندرونی کہانی‘ جس نے عراق کے مردِ آہن اور اس کے ساتھیوں کو تخریب کاری کا موقع فراہم کیا جو کہ عراق کے ٹکڑے کرنے پر منتج ہو سکتا ہے۔
امریکی جاسوسی ذرائع کے مطابق بغداد میں شکست کے کچھ ہفتہ بعد صدام حسین نے اپنے حامی قریبی مشیروں سے ۴۵ منٹ ملاقات کی‘ جس میں غور کیا گیا کہ کس طرح امریکی قابض فوجوں کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ صدام نے نیٹ ورک قائم کرنے کے سلسلے میں کچھ ہدایات دیں۔ جن افراد نے ملاقات کی‘ اُن میں سے ایک تو عزت ابراہیم الدوری اور دوسرا یونس الاحمد جو کہ فوجی بیورو کا ایک سینئر رکن اور بعثت پارٹی کے جاسوسی نظام سے متعلق تھا۔ چنانچہ اس کے معاً بعد وسطی عراق میں بغاوت اور دہشتگردی کی ایک لہر اٹھی‘ جس میں بعث پارٹی کے علاوہ مذہبی انتہا پسند‘ عراقی قوم پرست اور ناراض شہری بھی شامل تھے۔ دو سال کا طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی امریکی جاسوسی ذرائع اس ناقابلِ رسا نیٹ ورک جس کو عراقی اہل تقیٰ کے نام سے جانتے ہیں‘ کے متعلق مناسب معلومات حاصل نہ کر سکے لیکن جو کچھ معلوم ہوا‘ اس کا لبِ لباب یہ ہے کہ یہ ایک ایسی تحریک ہے جو کسی پُرعزم رہنما کے بغیر جاری ہے اور جن کا بنیادی مقصد عراق میں ۲۰ فیصد سنیوں کا کنٹرول قائم کرنا ہے جو امریکا کا عراق میں جمہوریت قائم کرنے کے ’’خواب‘‘ سے زیادہ ناممکن العمل ہے۔ بیرونی ذرائع جنگجوئوں کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان میں بیشتر عراقی ہیں۔ جو مشتبہ گوریلا جنگجو پکڑے گئے ہیں یا قتل کیے گئے ہیں‘ ان میں صرف ۲ فیصد غیرملکی ہیں۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ گذشتہ کچھ ہفتوں میں بلوائیوں نے اوسطاً ۸۰ حملے فی یوم کے حساب سے کیے اور صرف گذشتہ چار دنوں میں ۲۰۰ انسانی جانوں کا اتلاف ہوا۔
ایک درجن سے زائد موجودہ اور پہلے کے سراغرساں افسران نے ’’ٹائم‘‘ کے نمائندے کے سامنے مایوس کن خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو کسی موزوں پیش بندی کے بغیر شروع کی گئی اور فوجی نکتہ نظر سے یہ جنگ اب جیتی بھی نہیں جاسکتی۔ ایک مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر ریٹائرڈ ۴ تاروں والے جنرل نے کہا کہ ہم ایک اچھی لڑاکا فوج رکھتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ کس طرح اس مرحلہ سے نبرد آزما ہوں کیونکہ ہمارے پاس مناسب سراغرسانی کے تجزیہ کار نہیں ہیں اور سراغ رسانی کا مقتدر ادارہ ایران‘ شمالی کوریا اور چین کے معاملات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے جبکہ یہ شرم کا مقام ہے کہ عراق میں دہشت گردی کے واقعات اس کے پاس چنداں اہم نہیں ہیں۔ سراغ رساں ادارے کے افسران نے حسبِ ذیل نکات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ:
٭ صدام حسین کے قریبی ساتھیوں خصوصاً اس وقت کی فوجی بیورو نے ابتدائی طور پر اس بغاوت کو منظم کیا جن میں قابلِ ذکر الاحمد اور الدوری ہیں اور اس وقت یہ لوگ مالی اور دیگر Logistical Support فراہم کر رہے ہیں۔
٭ مئی ۲۰۰۳ء کے بعد بش انتظامیہ نے اپنا قیمتی وقت سراغ رسانی کے ذریعے WMD کا پتا چلانے کے لیے صرف کیا جو کہ دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے میں مفید ثابت ہو سکتا تھا۔
٭ دہشت گردی کی شروعات ہی سے امریکا کے فوجی افسران نے ایسے باغیوں سے گفت و شنید اور رابطے کی کوششیں کیں جن کے ہاتھ خود خون میں رنگے ہوئے تھے۔
٭ فوجی اور انتظامی ٹیموں کی بارہا تبدیلیوں کی وجہ سے باغیوں کے خلاف کوئی مناسب حکمتِ عملی واضح نہیں کی جاسکی۔
ان تہ بہ تہ جمع ہوئی فاش غلطیوں کی وجہ سے پینٹا گون میں گوریلا جنگ کے ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہر مرتبہ ویتنام والی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں۔
غلط توجیہ
یہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جنرل ٹامی فیرنکس جس کی قیادت میں بغداد پر حملہ کیا گیا تھا‘ چاہتا تھا کہ کم سے کم فوج کے ساتھ بعجلتِ ممکنہ بغداد پہنچ جائے اور یہ مقصد اس نے شاندار طریقے سے حاصل کر لیا۔ لیکن اس کے بعد کیا ہو گا وہ اس کا دردِ سر نہیں تھا نہ اس میں دلچسپی لی اور نہ کوئی مشورہ دیا بلکہ جس وقت جنرل میککر نان جو کہ متحدہ زمینی افواج کی کمانڈ کر رہا تھا‘ جنرل فیرنکس سے دریافت کیا کہ اگر راستہ میں اسلحہ کے ذخائر ملیں تو کیا کیا جائے‘ اس کا مختصر جواب تھا کہ مقفل کر دو۔ ظاہر ہے کہ ایک وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ذخائر کو کس طرح محفوظ کیا جاسکتا ہے اور آگے چل کر یہی ذخائر باغیوں کے کام آسکتے ہیں۔ جو لوگ بغداد پر جلد پہنچنے کے خیال کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اسی طریقہ کار نے آئندہ آنے والی مصیبتوں کے لیے بنیاد فراہم کی۔
۵ اپریل کو بغداد پر قبضے کے بعد لوٹ مار اور فوج پر حملوں کے واقعات کو ایک عارضی واقعہ قرار دیا گیا اور پینٹاگون میں بھی حالات اس تعلق سے ’’خوش باش‘‘ تھے۔ دوسری طرف جارج بش نے یکم مئی کو اعلان بھی کر دیا کہ جنگ کا ایک بڑا حصہ ختم ہو گیا ہے۔ اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد فرینکس نے اپنا صدرِ مقام فلوریڈا کو بنایا اور جنرل میککر نان فوراً اس کی پیروی کی۔ ان کی جگہ ایک فوجی میجر جنرل Ricardo Sanchez نے لی جو کہ عراق میں نیا آیا تھا۔ یہ اقدامات جنگی نقطہ نظر سے بدترین فیصلہ تھا کیونکہ کئی سو سراغرساں افسران جو کہ زمینی حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے‘ کی جگہ صرف ۳۰ افسران رہ گئے‘ جن کے پاس وسائل بھی ناکافی تھے‘ جبکہ انہوں نے نئے سرے سے حالات کا جائزہ لینا شروع کیا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ دشمن کون ہے۔
۲۳ مئی ۲۰۰۳ء کو Paul Bremer کو نیا منتظم مقرر کرنا بھی ایک فاش غلطی تھی۔ کیونکہ اس نے آتے ہی‘ رمسفیلڈ کے احکامات کے تحت عراقی فوج اور سول سروسز کو ختم کر کے ایک خطرناک غلطی کی۔ کیونکہ اس اقدام سے لاکھوں افراد ناراض ہوئے اور مزید یہ کہ وہ ایسے افراد تھے جو ان حالات میں اسلحہ کا استعمال جانتے تھے اور ہزاروں افراد جو کہ برقی اور پانی اور سیوریج نظام سے متعلق اہم اور مفید معلومات اور دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے اور باغیوں سے مل گئے۔ لیکن Paul Bremer اس کو غلطی تسلیم نہیں کرتا‘ اس کے خیال کے مطابق شیعہ اور کرد صدام کی فوج سے خوش نہ تھے۔
تیسرا تباہ کن فیصلہ ۲۰۰۳ء موسمِ بہار میں WMD کو ترجیحی بنیادوں پر تلاش کرنا تھا۔ اسی دوران جون میں David Kay آیا اس کے تحت عراقی سروے گروپ (ISG) کی ۱۲۰۰ سراغ رسانوں پر مشتمل ایک ٹیم تھی اور ٹنوں کے حساب سے جمع کیے گئے دستاویزات تک اور صدام کے خزانے کے سرکاری سراغ رسانوں اور وزارتوں تک کی صرف انہیں کی رسائی تھی۔ بسا اوقات امریکی سراغ رسانی ٹیم کی David کی ٹیم سے مڈ بھیڑ بھی ہوئی کیونکہ اولذکر نہ صرف دستاویزات قابو میں کرنا چاہتے تھے بلکہ تجزیہ کرنے والے‘ ترجمہ کرنے والے اور Field Agents کی خدمات بھی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ Abizaid کا حوالہ دیا گیا لیکن سب بے سود رہا۔ Mr. David Kay کا کہنا تھا کہ صدر بش کی ترجیح اور ان کا مشن WMD کی تلاش ہے جبکہ جنرل Abizaid کو باغیوں کی سرکوبی کرنی ہے۔ مزید Mr. Kay نے اس امر کا بھی اقرار کیا کہ فوج کے ساتھ اس کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ ایک خفیہ افسر جو کہ ISG کے ساتھ کام کر رہا تھا‘ ٹائم کے نمائندہ Brain Benett کو بتایا کہ اس کو حکم دیا گیا کہ ایسے عراقی ذریعوں سے رابطہ منقطع کر لیں جو کہ WMD پر کام نہیں کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں اس افسر نے ایسے ۱۲ عراقی ذرائع سے میل ملاپ و تعلقات ختم کر لیے جو کہ مفید معلومات مثلاً نقشہ جات‘ تصاویر‘ بعثت پارٹی کے جنگجوئوں کے پتے‘ ان کے محفوظ مقامات‘ اسلحہ کے ذخائر اور باغیوں کے سلسلے میں دیگر اطلاعات فراہم کر رہے تھے۔
Mr. Sanchez کو اسی خزاں میں اس بات کا بھی علم ہوا کہ اہم دستاویزات کے ۳۸ صندوق فلوجہ میں ہیں جو سنی باغیوں کا گڑھ ہے۔ لیکن مہینوں بعد جب سراغ رساں افسران نے ان دستاویزات کا بغور جائزہ لیا تو پتا چلا کہ یہ سراغ رسانی کے لیے اہم نہیں ہیں۔ جبکہ ان میں فلوجہ‘ سامرا اور رامادی جیسے شہروں کے سول ڈیفنس پلاٹس اور مقامی بعث پارٹی کے رہنمائوں کی فہرست اور نظام الاوقات وغیرہ درج تھے جو کہ بعد میں باغیانہ سرگرمیوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے اگر یہی معلومات بروقت میسر آجاتے تو باغیانہ سرگرمیوں کو کچلنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے۔
فوجی سراغ رساں ذرائع نے بتایا کہ بہت سارے دستاویزات کا نہ اب تک ترجمہ کیا گیا نہ تجزیہ اور یہ پورا مواد قطر کے گوداموں میں محفوظ ہے۔
دشمن کے تعلق سے غلط رائے
جون ۲۰۰۳ء کے اوائل میں CIA نے صدر بش کو بتایا کہ عراق میں انہیں اعلیٰ درجہ کے شورش کا سامنا ہے لیکن اس کو قابلِ اعتماد نہ گردانہ گیا۔ چنانچہ ۳۰ جون کو رمسفیلڈ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عراق ان کے خیال میں نہ گوریلا جنگ ہے نہ منظم لڑنے والے بلکہ یہ کچھ لوٹ مال کرنے والے‘ مجرمین اور بعث پارٹی کی باقیات اور کچھ بیرونی لڑاکا عناصر ہیں اور مزید دعویٰ کیا کہ صدام دور کے ۵۵ سرغنوں میں سے کئی ایک کو پکڑا جاچکا ہے۔ لیکن دو ہفتہ بعد ہی جنرل ابی زید نے سیکرٹری ڈیفنس کی مخالفت میں بیان دیتے ہوئے CIA کی تصدیق کی۔ بہرحال امریکی فوج نے جن دستاویزات کو پکڑا ان کے مطابق صدام جو کہ اپنے گرفتارہونے سے قبل مقامات تبدیل کرتا رہتا ہے‘ وہی ان تمام باغیانہ سرگرمیوں کا روح رواں تھا اور اپنے ماتحتوں کو ہدایات جاری کرتا رہتا تھا کہ کس طرح آپس میں ربط رکھتا ہے اور کس طرح نظروں سے اوجھل رہنا ہے جبکہ الاحمد اور الدوری صدام سے دور مختلف cells کو مالی امداد اور Logistical Support فراہم کرتا تھا۔
لیکن اس خزاں کے شروع میں صدام حسین نے ایک بنیادی تبدیلی یہ کی کہ اہداف متحدہ افواج کے بجائے عراقی پولیس وغیرہ کو بنانے کا حکم دیا۔ چنانچہ ۷ اگست کو ایک بم اردن کے سفارتخانے کے سامنے پھٹا‘ جس میں ۱۹ افراد ہلاک ہوئے جبکہ ۱۹ اگست کو دوسرا دھماکہ اقوامِ متحدہ کے دفتر میں ہوا‘ جس میں UN کے نمائندے Sergio Vieira de Mello اور دیگر ۲۲ افراد ہلاک ہوئے‘ حالانکہ دھماکے کی ذمہ داری القاعدہ کے الزرقاوی نے قبول کی لیکن امریکی سراغرسانوں کا کچھ شواہد کی روشنی میں خیال ہے کہ یہ کام صرف سابق Iraqi Intelligence Service کے بچے کھچے لوگوں کی کارروائی ہے۔ اس طرح ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۳ء میں چار عراقی پولیس اسٹیشنوں پر حملے بعث پارٹی اور جھادیوں کے اتحاد نے کیے۔ چنانچہ سوڈان کے ایک خودکش حملہ کرنے والوں کے پکڑے جانے کے بعد اس کا ثبوت بھی مل گیا۔
چنانچہ CPA نے الانبار صوبے میں واقع مشہور سنی Dulaime (دلائیمی) کے ۱۹ ذیلی قبائل سے گفت و شنید شروع کی‘ جس کے نتیجے میں وہ ہتھیار رکھ دینے اور ان کے علاقے سے آنے جانیوالی ٹریفک کے سلسلے میں ضروری معلومات فراہم کرنے کے لیے اس شرط پر تیار ہو گئے کہ ان کے قبیلے کی حیثیت تسلیم کی جائے گی اور ۳ ملین ڈالر قبیلے کی تحفظ کی فورس تیار کرنے کے لیے دینے ہوں گے۔ لیکن سفارت کاروں (Diplomats) نے فوج کے برخلاف سخت رویہ اپنایا ہوا تھا اور وہ دشمن سے کسی قسم کی گفت و شنید کے سخت خلاف تھے۔ چنانچہ Bremer کی طرف سے ایسے کسی اقدام کی سخت مخالفت کا سامنا تھا۔ وہ اس خیال کا حامی تھا کہ جمہوریت کے اس دور میں قبیلوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے پورا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔
دوسری طرف بعث پارٹی نے تیزی سے قبائل سے میل ملاپ شروع کیا۔ نومبر ۲۰۰۳ء میں دمشق میں عوامی جلسوں کی صورت میں جن کا مقصد ظاہراً امریکا قبضہ کے خلاف اظہارِ یکجہتی تھا لیکن درپردہ الاحمد اور محمد یونس باغیوں سے ملنے کا اچھا موقع فراہم کیا۔ لیکن یہ اطلاعات بھی امریکا کی مختلف ایجنسیز کے درمیان موافقت پیدا نہ کر سکی‘ جو ان کو باغیوں سے نبردآزما ہونے میں مددگار ہوتی۔
دسمبر ۲۰۰۳ء میں صدام حسین کی گرفتاری کے بعد اس کے قبضہ سے جو دستاویزات ملی جن سے بعث پارٹی کی مدد کرنے والے کے تعلق سے مفید معلومات فراہم ہوئیں۔ چنانچہ جنوری ۲۰۰۴ء میں ۱۸۸ باغیوں کو گرفتار کیا گیا جبکہ عزت ابراہیم اور الدوری بمشکل بچ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے نتیجہ میں موسل اور کرکوک میں باغیانہ سرگرمیاں بالکل ماند پڑ گئیں اور الدوری وہاں ایک علامت بن کر رہ گیا۔ اس کے علاوہ دوسرے صوبوں میں بھی ان کا مالی Network متاثر ہوا۔ ۲۰۰۴ء کے موسم بہار میں جبکہ امریکی فوجی مقتدر الصدر کی سرکردگی میں لڑنے والے شیعہ باغیوں سے برسرِ پیکار تھے۔ اسی دوران فوجی سراغرسانوں کو یہ شواہد ملے کہ بعث پارٹی اپنے بکھرے ہوئے گروہ کو دوبارہ مجتمع کر رہی ہے۔ مزید گذشتہ حکومت کے وفادار مذہبی انتہا پسند اور عراقی قوم پرست آپس میں جذب ہو رہے ہیں۔
لیکن صدام حسین کی گرفتاری کے بعد شورش میں جو کمی واقع ہوئی اس کے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے مئی ۲۰۰۴ء میں احمد الدوری نے مختلف مقامی سرکردہ باغیوں سے ملاقاتیں کیں۔ اس نے اپنا دورہ موصل سے شروع کیا۔ ہواجیہ میں ایک پرانے سرمایہ فراہم کرنے والے سے ملا۔ سامرا میں کچھ عرصہ سکونت کے دوران وہ قوم پرست اور مذہبی باغیوں کے فوجی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں‘ ان میں راشد تاتان کاظم بھی شامل تھا جو شمالی مغربی عراق میں باغیانہ سرگرمیوں کا رہنما ہے۔ الاحمد آخر میں رمادی گیا‘ جہاں باغیانہ سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے اس نے پانچ لاکھ ڈالر تقسیم کیے۔ ایک امر انتہائی عجیب ہے کہ امریکی ماہرین نہ صرف الاحمد کی مصروفیات اور دیگر امور کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں مثلاً وہ کہاں رہتا ہے وغیرہ وغیرہ بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ دو مرتبہ ایاد علاوی سے مل چکا ہے۔ پھر بھی دلجمعی کے ساتھ اس کا پیچھا نہیں کیا گیا۔ شاید اس وجہ سے کہ CIA نے اسے ملانے کی کوشش کی اور ملاقات بھی کی لیکن اس کا جواب نفی میں تھا۔
۲۰۰۴ء کے درمیان پھر بغداد میں تبدیلی کی گئی اور Sanchez اور Bremer کی جگہ John Negropote کو بطور سفیر اور جنرل Casey کو فوجی سربراہ کے روانہ کیا گیا جبکہ عیاد علاوی کی سربراہی میں عارضی حکومت قائم کی گئی۔ نئی انتظامیہ اور فوجی ماہرین نے ایک کمیشن کے ذریعہ حالات کا جائزہ لیا۔ اس کے نتیجے میں یہ خیال عام پایا گیا۔
نئی شروعات
کہ گذشتہ ٹیم کسی سطح پر بھی بغاوت فرو کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ نئی ٹیم جلد ہی اس نتیجہ پر پہنچی کہ اگر باغیوں کو مکمل شکست نہیں دی جاسکتی تو کم از کم انہیں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی یہ ویسی ہی پالیسی معلوم ہو رہی تھی کہ احمد الدوری کو کسی طرح مصروف رکھا جائے اور زرقاوی کی طرح کے بیرونی دہشت گردوں کو تنہا کر دیا جائے۔ گفت و شنید کے ذریعہ باغیانہ سرگرمیوں کو ٹھنڈا یا ختم کرنے کی کوششیں بہت آہستگی سے جاری رہیں۔ بعض صورتوں میں تو امریکا کو دبائو میں کمی بھی کرنی پڑی۔ چنانچہ حارث الزہری جس کے متعلق سراغ رسانوں کو معلوم تھا کہ وہ بغداد میں ام القریٰ مسجد میں مسلسل مجالس کی صدارت کرتا تھا‘ سے صرف اس لیے صرفِ نظر کیا گیا کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اپنے گروہ کو جمہوری کام میں حصہ لینے کے لیے آمادہ کر چکا ہے۔ چنانچہ وہ ان Meetings میں شرکت ترک کر دی لیکن اس کا بیٹا مثنّٰی نہ صرف شریک ہوا کرتا تھا بلکہ وہ قوم پرستوں اور مذہبی گروپوں کے درمیان رابطے کا کام بھی کر رہا تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اگست ۲۰۰۴ء میں مثنّٰی کی کار سے دھماکہ خیز مواد رکھنے کی مثبت علامات پائی گئیں جس پر اسے قید کیا گیا لیکن جلد ہی رہا بھی کر دیا گیا کہ مباد اس کے باپ سے رابطہ ختم نہ ہو جائے۔ مزید اپریل ۲۰۰۴ء میں فوجی سراغ رساں بغیر کسی جھجک کے عبداﷲ الجنابی سے روبرو گفت و شنید کر رہے تھے لیکن اسے مار ڈالنے کی دھمکی دی تھی لیکن دوسرے باغیوں کے ساتھ بشمول صدام کے مشیر برائے مذہبی امور کے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ کرتا دھرتائوں کا خیال تھا کہ شاید آئرش ریپبلکن آرمی (IRA) کے Gerry Adams کی طرح کا کوئی شخص ہاتھ آجائے۔
خانہ جنگی
اس سال بغداد میں پھر تبدیلیاں کی گئیں Negroponte کی جگہ زلمے خلیل زاد نے لی۔ لیکن زیادہ اہم اور حالات کو کشیدہ کرنے والی تبدیلی ایک مذہبی ذہن رکھنے والے شیعہ الجعفری کا وزیراعظم ہونا تھا جو کہ باغیوں کی نظر میں اور بہت سارے نئے عراقی فوجی افسران کی نظر میں جو کہ سنی اور لادین شیعہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں‘ بہت بڑا تھا۔ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ الجعفری نے ایران‘ عراق جنگ میں ایران میں رہ کر غدار کا کردار ادا کیا تھا۔ دوسری طرف صدام کی فوج کے سابق افسران کا احساس ہے کہ الجعفری کے ذریعہ ایران سے سفارتی تعلقات کے قیام اور ایران عراق جنگ کے دوران عراق کے کردار کے لیے معافی طلبی سے بھی مفید نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ دراصل کئی امریکی سراغ رساں ماہرین اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ جنوری ۲۰۰۵ء کا الیکشن آئندہ مسودہ قانون پر ہونے والے Referendum (جس کے سنی سخت خلاف ہیں) نے عراق کے حالات کو بہت مخدوش بنا دیا ہے۔ فوجی سراغ رسانوں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں ان کے درمیان بہت بحث و مباحثہ ہو رہا ہے کہ اگر یہ ریفرنڈم میں مسودے قانون کے خلاف ووٹ دیا گیا تو پھر کیا صورت حال ہو گی۔
سراغرسانوں میں عراقی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ مجوزہ مسودۂ قانون جس کے تحت بااختیار کرد اور شیعہ علاقے بنائے جارہے ہیں‘ ایک خانہ جنگی کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ سراغ رساں برادری میں یہ بحث بھی بہت زوروں پر ہے کہ کیا باغیانہ سرگرمیوں پر قابو پانے‘ ختم کرنے اور باغیوں کو مشغول رکھنے کے لیے تل عفار (Talafar) کی طرح کی کوئی Strategy اختیار کی جائے تاکہ اس دوران بغداد کی طرح گنجان آباد شہروں میں حالات درست کیے جاسکیں۔ نئے طریقہ کار کی اس وجہ سے بھی ضرورت ہے کہ سامرا پرچار مرتبہ قبضہ کیا گیا اور ہر مرتبہ وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔
لیکن پینٹاگون میں موجود کرتا دھرتائوں سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی ایسی تجویز کو قبول کریں جس میں ایک بڑے علاقے میں دشمن کو کھلے راستے مل سکیں۔ دوسری طرف وہ نہ کوئی ایسا حل دے سکتے ہیں کہ جس سے عراق کے حالات پرسکون ہو سکیں۔ اب یہ احساس ہوتا ہے کہ عراق پر قبضہ کرنا ہی ایک غیردانشمندانہ اقدام تھا‘ جس کے سلسلے میں امریکا کے دوستوں نے پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا۔ موجودہ تاریک اور نامساعد حالات کے باوجود ہر افسر چاہتا ہے کہ جنگی کوششوں میں اضافہ کیا جائے کیونکہ امریکا ان حالات میں اگر عراق چھوڑے گا تو وسطی عراق کی وجہ سے پورے مشرقِ وسطیٰ میں حالات غیرمستحکم ہو جائیں گے اور دوسری طرف زرقاوی کی طرح کے افراد کو سنّی مثلث کی صورت میں ایک محفوظ جنت ہاتھ آجائے گی۔ ایک فوجی افسر جس کو عراق کا اچھی طرح تجربہ ہے‘ نے کہا ہے کہ ’’ہم نے نہ اس جنگ کو سنجیدگی سے لڑا‘ نہ ہی اپنی فوجوں کو صحیح اور درست سامانِ حرب فراہم کیا اور نہ سراغ رسانی کے سلسلے میں درست اقدامات کیے۔ نتیجہ ہم نے عراقیوں کو ناکام کیا اور اپنی فوجوں کو بھی‘‘۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘۔ شمارہ۔ ۲۶ ستمبر ۲۰۰۵ء۔۔۔ مترجم: نعیم الدین)
Leave a Reply