
سلمان بن عبدالعزیز کے سعودی تخت پر ۱۸ مہینے غیر معمولی اور متحرک خارجہ پالیسی کی بنا پر سعودی اثر و رسوخ کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ حالیہ دہائیوں کے مقابلے میں ریاض اب قومی سلامتی کے اختیارات کے لیے خطرات سے گزرنے کے لیے تیار ہے۔ اس عمل سے سعودیوں نے کچھ تزویراتی حیثیت اختیار کر لی ہے۔
شاہ سلمان کا خلیج عقبہ کے دو غیر آباد جزائر (تیران اور سنافیر) پر سعودی خودمختاری کو بحال کرنے کا فیصلہ اور پھر مصر سے ان کی ملکیت واپس لینے کا فیصلہ ان کی سفارتی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عبدالعزیز ابن سعود کے بعد سے تمام سعودی بادشاہوں نے ان دو جزائر کو مصرکے اختیار میں چھوڑ دیا تھا، تاکہ آبنائے تیران کی گزرگاہ جیسے نازک اور پیچیدہ مسئلہ سے اجتناب کیا جاسکے۔ اب ریاض کا ارادہ ایک پُل تعمیرکرنے کا ہے، جو کہ سعودی عرب کو شمالی افریقا سے زمینی راستہ کے ذریعے ملا دے گا۔اس سے یہ جزیرے کم از کم اتنے آباد ضرور ہو جائیں گے کہ محصولات جمع کرنے والے حکام یہاں رہنا شروع کر دیں گے۔
اس الحاق نے قاہرہ میں تنازعہ کوجنم دیا ہے اور شاہ سلمان کے مؤکل، صدر الفتاح السیسی، کی شہرت کو نقصان پہنچایا ہے۔ مصریوں نے احتجاج کیا ہے کہ السیسی نے ملک کا ایک حصہ فروخت کر دیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ۲۰۱۳ء میں السیسی کی بغاوت کے بعد سے ملنے والی سعودی امداد اور سرمایہ کاری کا بدلہ چکایا گیا ہے۔ ان جزیروں کی وجہ سے سعودی عرب کو خلیج عقبہ، اسرائیلی بندرگاہ ایلات اور اردن کی بندرگاہ عقبہ تک رسائی کے حوالے سے غلبہ حاصل ہو گیا ہے۔ ریاض یہاں تک مفت رسائی کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے۔
بحیرہ احمر کے دوسرے سرے پر حوثی باغیوں کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں سعودیہ کو خاص اہمیت کے حامل باب المنداب (ایشیا اور افریقا کے درمیان آبنائے) کے یمنی حصے کا کنٹرول بھی حاصل ہو گیا ہے۔ ایک سال قبل سعودیہ نے بحیرہ احمر کے کنارے واقع عدن کی بندرگاہ کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا اور گزشتہ اکتوبر میں باب المنداب کے اسٹریٹجک جزیرے پریم (perim) پر بھی قبضہ حاصل کر لیا تھا۔ خلیج عدن کے جزیرے سوکوٹرا (Socotra) پر بھی سعودیہ کے یمنی اتحادیوں کا کنٹرول ہے۔ اس موسم بہار میں اماراتی اور سعودی فوج نے جزیرہ نما عرب کے جنوب مشرقی یمن کے خطے حضر موت کے دارالحکومت ’’المکلا‘‘ کا کنٹرول سنبھال کر وہاں سے القاعدہ کا خاتمہ کر دیا۔ المکلا یمن کا پانچواں بڑا شہر ہے جو کہ سعودیوں کو صحرائے ’’ربع الخالی‘‘ کے ذریعے بحرہ ہند تک کی زمینی رسائی دے گا۔
یمن جنگ کی وجہ سے اب تقسیم ہو چکا ہے۔ سعودی عرب نے حال ہی میں ہونے والے غیر اہم کویت مذاکرات میں جنگ بندی کی حمایت کی ہے۔ گزشتہ ہفتے ولی عہد بادشاہ محمد بن سلمان نے واشنگٹن کے دورے میں صدر باراک اوباما کو یقین دلایا کہ سعودی عرب اس تنازعہ کا سیاسی حل چاہتا ہے۔ تاہم کویت میں ہونے والے مذاکرات میں فریقین نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ متحدہ یمن چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس جنوبی یمن کے لوگ اپنے علاقے کی دوبارہ آزادی چاہتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ’’عارضی‘‘ تقسیم کے دیرپا رہنے کا رجحان موجود ہے۔ سعودی عرب نے ۱۹۹۴ء میں جنوبی یمن کی آزادی کے لیے ہونے والی بغاوت کی حمایت کی تھی۔
خلیج فارس میں شاہ سلمان نے ایران کے ساتھ کشیدگی میں یکدم اضافہ کردیا ہے۔ یمن میں جاری جنگ کا جواز ایران کی عرب میں بڑھتی ہوئی مداخلت کو روکنے کی کوشش کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ جنوری ۲۰۱۶ء میں تہران کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیے گئے اور رواں سال ایرانی حج کی ادائیگی بھی نہیں کر سکیں گے۔ دریں اثنا تہران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ معاملات کو دوبارہ معمول پر لانا چاہتا ہے، مگر ریاض نے ابھی تک اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ بااثر وہابی علما اسٹیبلشمنٹ نے شیعہ ایران کے ساتھ سخت رویہ رکھنے کی توثیق کی ہے۔
سعودی عرب پُرامید ہے کہ شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں خطے میں حزب اللہ اور ایران کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ گزشتہ موسم سرما میں سعودی خفیہ ایجنسی حزب اللہ سعودیہ کے راہنما احمد ابراہیم المغاصل کو تہران سے بیروت جانے والی فلائٹ سے اتار کر گرفتار کر کے سعودیہ لے آئے تھے۔ المغاصل ۱۹۹۶ء میں الخبر ٹاور میں ہونے والے بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ تھے، اس دھماکے میں ۱۹؍امریکی ہلاک ہوئے تھے۔ وہ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں سعودی سفارت کاروں پر ہونے والے متعددحملوں میں بھی ملوث تھا۔ اُس کی گرفتاری کے بعد منتقلی سعودی خفیہ اداروں کی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔
بادشاہ کے ہردلعزیز بیٹے، تیس سالہ شہزادہ محمد بن سلمان، تمام کارروائیوں کے مرکزی کردار ہیں۔ انہوں نے وزیر دفاع کی حیثیت سے بادشاہ کی جانب سے بنائے گئے نئے اسلامی فوجی اتحاد کی صدارت بھی کی تھی۔ اگرچہ اس اتحاد کا مقصد سرکاری طور پر انسدادِ دہشت گردی پیش کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اس کا مقصد ایران اور عراق کو تنہا کرنا ہے۔ تیس رکنی اس اتحاد کا مرکزی دفتر ریاض میں قائم کیا گیا ہے۔
محمد بن سلمان کے نیویارک، کیلی فورنیا اور واشنگٹن کے اہم دورے نے (جس میں سعودی میڈیانے ان کی غیر معمولی تشہیر کی) ان کی بادشاہ کے سفارتی نمائندے کی حیثیت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔
ولی عہد محمد بن نائف اپنے آپ کو زیادہ منظر عام پر نہیں لاتے لیکن مغاصل کی گرفتاری، ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات کا خاتمہ، سخت حج پالیسی اور المکلا پر قبضہ میں ان کی منصوبہ بندی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ وہ ملک کے اندر داعش سے نمٹنے کے لیے جاری جنگ میں بھی مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ جارحانہ خارجہ پالیسی بہت مہنگی پڑ رہی ہے۔ اربوں ریال صرف السیسی اور دیگر کو سہارا دینے کے لیے خرچ کیے جاچکے ہیں۔ یمن کی جنگ اخراجات میں اضافہ کر رہی ہے۔ شاہ اور ان کے دو ولی عہد واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ یہ قیمت نتائج کے حصول کے لیے قابل قبول ہے۔ حادثاتی طور پر یا باقاعدہ منصوبہ بندی سے مگرشاہ سلمان نے مشرق وسطیٰ میں کچھ قیمتی اسٹریٹجک خطے ضرور حاصل کر لیے ہیں۔
(ترجمہ : عبدالرحمن کامران)
“Salman’s Saudi Arabia more ambitious than ever”. (“al-monitor.com”. June 20, 2016)
Leave a Reply