مولانا مودودی نے یہودیت کی ابتدا اور وجہ تسمیہ کی تشریح میں لکھا ہے:
’’اصل دین جو حضرت موسیٰؑ اور ان سے پہلے اور بعد کے انبیاء لائے تھے‘ وہ تو اسلام ہی تھا۔ ان انبیاء میں سے کوئی بھی یہودی نہ تھا اور نہ اُن کے زمانے میں یہودیت پیدا ہوئی تھی۔ یہ اس خاندان کی طرف سے منسوب ہے جو حضرت یعقوبؑ کے چوتھے بیٹے یہودہ کی نسل سے تھا‘‘۔
حضرت یعقوبؑ کی چار بیویاں تھیں‘ جن سے آپ کے بارہ لڑکے پیدا ہوئے‘ جن میں حضرت یوسفؑ اور بن یامین ایک بیوی کے بطن سے اور باقی دس دوسری تین بیویوں سے تھے‘ جن میں سب سے چھوٹے بیٹے لاوی کی اولاد میں حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ تھے۔ حضرت یعقوبؑ فلسطین کے معروف شہر حبرون (Hebron) میں رہتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ کی ملکیت میں نابلس بھی تھا۔ حضرت یعقوبؑ کا لقب اسرائیل بھی تھا جس کے معنی بندۂ خدا کے ہیں۔ چنانچہ آپ کی نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ حضرت یعقوبؑ کے بارہ لڑکوں کے نام پر حضرت موسیٰؑ نے اسرائیل کے بارہ قبیلے بنائے تھے‘ جن پر شریعت موسوی کی تبلیغ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ابتدا میں ان قبائل میں چپقلش رہتی تھی۔ حضرت دائودؑ نے ان کو حضرت موسیٰؑ کی طرح متحدہ کیا تھا۔ لیکن حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے اور جانشین ری حوبام کی نااہلی کی وجہ سے یہ اختلافات ایک بار پھر شدت سے منظر عام پر آگئے‘ جس کا نتیجہ آخرکار بنی اسرائیل کی سلطنت کے بٹوارے کی شکل میں نمودار ہوا۔ ایک حصہ‘ یروشلم (بیت المقدس) اور جنوبی فلسطین پر مشتمل تھا‘ آلِ دائود کے قبضہ میں رہا۔ دوسرا حصہ جو شمالی فلسطین پر مشتمل تھا‘ اس میں ایک مستقل ریاست اسرائیل کے نام سے قائم ہو گئی اور بعد میں سامریہ اس کا صدر مقام قرار پایا۔
فلسطین کے اطراف جو علاقے تھے‘ وہاں بعل دیوتا اور اس کی بیوی (دیوی) اشتورت کی کثرت سے پوجا کی جاتی تھی۔ ان دیوی دیوتائوں کے نام پر کئی مَنَادر تھے‘ جہاں ہر قسم کی قربانیاں دی جاتی تھیں‘ جن میں معصوم بچوں کو بھی آگ کی نذر کرنے کی رسم تھی۔ اس کے علاوہ ان مَنَادر میں بعل اور اشتورت کے نام پر لڑکیاں بھی رکھی جاتی تھیں جو ان دیوتائوں کی خوشنودی کی خاطر اپنا جوہرِ عصمت قربان کرنے میں فخر محسوس کرتی تھیں۔ ان رسموں پر عمل مقدس مذہبی فریضہ سمجھ کر کیا جاتا تھا۔ بنی اسرائیل‘ جنہیں وحدانیت کا سبق سکھایا گیا تھا‘ ان غیرانسانی اور بیہودہ رسومات کے دَلدل میں بتدریج پھنستے گئے۔
اگر ہم مختلف ممالک میں رہنے والے گروہ انسان کی رسومات کا گہرائی سے مطالعہ کریں‘ تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کہ مذہب پر مقامی رسومات کا اثر نمایاں رہتا ہے یا پھر مذہب کے ساتھ ساتھ اس کے پیرو بعض قدیم روایتوں اور رسومات پر اس انداز سے عمل پیرا رہتے ہیں جیسے یہ ان کے مذہب کا لازمی حصہ ہو۔ اسے سمجھنے کے لیے مطالعہ کے ساتھ ساتھ مشاہدہ کی بھی شدید ضرورت ہے۔ مثلاً کوئی مسلمان انڈونیشیا جاتا ہے اور جنوبی جاوا کے علاقوں کے مسلمانوں کی عادات و رسوم کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ اس انڈونیشیائی جزیرہ پر بود و باش رکھنے والے مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مظاہر پرستی بدھ مت اور ہندومت سے متاثر ہے کیونکہ یہ جزیرہ پہلے مظاہر پرستی کی گرفت میں تھا‘ پھر جب یہاں ہندومت اور بدھ مت کی تبلیغ کے بعد اسلام کی تبلیغ ہوئی تو یہاں کے لوگوں کے عقائد اور روز مرّہ کے طور طریقے آپس میں اس طرح یکساں ہو گئے کہ یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ یہ لوگ حقیقت میں اسلام کی تعلیمات سے کتنا قریب ہیں۔ انڈونیشیا کے راسخ العقیدہ مسلمان انہیں ابانگن کہتے ہیں۔ اسی طرح آپ مصری مسلمانوں کی طرزِ معاشرت کا مطالعہ کریں تو آپ کو اس پر بالعموم فرعونی تہذیب اور بالخصوص عوزریس دیوتا کی متھیالوجی کا پردہ پڑا نظر آئے گا۔ یہ ان میں کی اکثریت کی سوچ اور عمل پر بطور خاص اثرانداز ہے۔ افریقا کے وہ علاقے جہاں سیاہ فام بستے ہیں‘ وہاں کے مسلمانوں میں کالا جادو اور دوسری خرافات کا اثر نمایاں طور پر محسوس ہو گا۔ وہ مسلمان جو مختلف مشرقی ممالک سے مغربی ممالک جیسے امریکا یا یورپ گئے ہیں‘ اُن کی طرزِ زندگی اور عقائد تبدیل نہیں ہوئے تو ان کی اولاد کافی حد تک مقامی ثقافت سے متاثر ہوئی۔ یہی حال ترکی کا ہے جہاں منگولوں کے شامنزم کا گہرا اثر نظر آتا ہے۔ مصر پر جب Hyksos بادشاہوں کی حکومت تھی‘ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ عرب کے چرواہے تھے تو بنی اسرائیل کے بعض قبائل وہاں جا پہنچے۔ مصر میں فرعون کے دور میں سیاہ بچھڑے کو پوجا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل بھی اسے پوجنے لگے حتیٰ کہ جب حضرت موسیٰؑ انہیں اﷲ تعالیٰ کے حکم سے فرعون کے غضب سے بچا کر سینائی لے آئے اور خود خدا سے ہمکلام ہونے کے لیے کوہِ طور پر تشریف لے گئے‘ تب ان لوگوں نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس کی پوجا شروع کر دی۔ گو کہ یہودیوں میں اب گو سالہ کی پرستش نہیں ہوتی لیکن گائے ان کے عقائد میں کہیں نہ کہیں شامل ضرور ہے۔ جیسا کہ ان کی ساری کوشش یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے اس کے مقام پر ہیکل سلیمانی تیار کیا جائے۔ ان کے عقیدے کے مطابق انہیں خدا کی طرف سے اشارے کا انتظار ہے۔ وہ اشارہ سرخ گائے کی شکل میں ہو گا‘ جسے وہ ذبح کر کے جلائیں گے اور اس کی راکھ سے اسرائیل کے عوام کو پاک کیا جائے گا جس سے ہیکل میں کوئی بھی ناپاک داخل نہ ہو گا۔ سرخ رنگ کی گائے کی پیدائش کی کئی بار خبریں شائع ہوئیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ گائے کو اس کی پیدائش سے تین سال بعد ہیکل کی تطہیر کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ ایک طویل بحث ہے۔ نفسِ مضمون کے لیے بعض باتیں درج کی گئی ہیں۔ ان کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ہم اصل مضمون کی طرف لَوٹتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے یہودیوں کے بارہ قبیلوں نے ایک متحدہ حکومت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا‘ تب ان میں اسرائیلی ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوتوں کے عقائد سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ سلسلہ اس وقت انتہا پر پہنچ گیا‘ جب اس ریاست کے حاکم اخی اب نے صیدا (لبنان) کی مشرک شہزادی ایزابیل سے شادی رچائی اور اس کے سحر میں گرفتار ہو کر مشرک ہو گیا اور بعل کی پرستش شروع کر دی۔ سلطنت یہودیہ اور سلطنت اسرائیل ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے۔ یہودیہ کے حکمرانوں نے پڑوس کی طاقت اشوریہ سے اسرائیل کے خلاف ساز باز کی۔ نتیجے میں نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوریوں کے حملے شروع ہو گئے۔ ۷۲۱ق م میں اشور کے سخت گیر فرمانروا سارگون نے سامریہ پر قبضہ کر کے اسرائیل کا خاتمہ کر دیا۔ ہزارہا اسرائیلی تہ تیغ کیے گئے۔ ۲۷ ہزار سے زیادہ اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تِتر بِتر کر دیا گیا اور دوسرے علاقوں سے غیراسرائیلیوں کو لاکر یہاں بسا دیا گیا۔ بنی اسرائیل کی دوسری ریاست یہودیہ کو ۵۹۸ق م میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے مسخر کر لیا اور یہودیہ کے فرمانروا کو اپنے ساتھ قیدی بنا کر بابل لے گیا۔
آگے چل کر یہودیوں نے بابل کے خلاف بغاوت کی کوشش کی‘ نتیجے میں ۵۸۷ق م میں بخت نصر نے سخت حملہ کر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یہاں سے سیکڑوں اسرائیلیوں کو پا بہ زنجیر اپنے ساتھ بابل لے گیا۔ یروشلم برباد ہو گیا اور ہیکل سلیمانی ڈھا دیا گیا۔ یہودی بابل میں جِلاوطن بن کر اُس وقت تک حالتِ قید میں رہے‘ جب تک کہ ۵۳۹ق م میں ایران کے بادشاہ سائرس (خسرو) نے قب یہودیوں کو بابل کے نئے حکمران نے فلسطین واپس لَوٹنے اور یروشلم میں ہیکل تعمیر کرنے کی اجازت دی۔ چنانچہ یہودی اپنی مُناجات میں سائرس کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتے ہیں۔ جب بابل سے رہا ہو کر یہودی واپس اپنے وطن لَوٹے تو انہوں نے اُن اسرائیلیوں کو جنہوں نے اشوریوں کے قبضہ کے بعد بھی اس علاقہ کو نہ چھوڑا تھا اور غیرملکیوں میں رہ کر اُن کے عقائد اور رسومات کی بیشتر باتوں کو اپنا لیا تھا‘ دھتکار دیا اور اُنہیں اچھوت قرار دیا۔ یہودی تاریخ کے اس موڑ کے بعد سے سماری نام کا یہ یہودی فرقہ وجود میں آیا جو خود کو شریعت موسوی کا سچا پَیرو قرار دیتا ہے اور شمالی اسرائیل کے قبائل ابراہیم اور مناسیح کی اولاد ہونے کا مدعی ہے۔ یہ فرقہ جس کے پیرووں کی تعداد موجودہ اسرائیل میں ۶۰۰ ہے‘ جن کی آبادی کوہ گیریزیم (Gerizim) (نابلس) اور تل ابیب کے قریب ہیں‘ یہ کوہ گریزم کو اپنا مقدس مقام سمجھتے ہیں۔ وہ یہاں ہر سال جمع ہو کر عبادت کرتے ہیں اور دنبے کی قربانی دیتے ہیں۔ برخلاف اس کے عام یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ جب تک ہیکل سلیمانی کی تعمیر نہ ہو اور وہ جس شخصیت کے منتظر ہیں‘ وہ نہ آجائے‘ قربانی ان کے ہاں جائز نہیں ہے۔ ان کے عبادت کرنے کا طریقہ کچھ کچھ مسلمانوں سے ملتا جلتا ہے۔ ان کا لباس اور وضع قطع بھی مسلمانوں جیسی نظر آتی ہے۔ سماری ایک عرصہ تک مسلمانوں اور خلافت عثمانیہ کے زیرِ سایہ رہے۔ شاید اسی وجہ سے ان لوگوں نے مقامی مسلمانوں کی ثقافت کا اثر قبول کیا۔ کیونکہ یہودی ہوں یا سماری‘ یہ جہاں بھی گئے‘ اپنے عقائد کو پوشیدہ رکھتے ہوئے وہاں کی تہذیب اور ثقافت کو اپنایا۔ شاید خلافت عثمانیہ کی رعیت ہونے کی وجہ سے ان لوگوں نے ترکی ٹوپی‘ عبا اور شملے تک کا استعمال کیا۔
ان کا کلمہ کچھ عجب سا ہے۔ وہ صرف یہ کہہ کر ’’نہیں ہے کوئی سوائے اسرائیل کے خدا کے‘‘ خدا کی وحدانیت کا اِقرار کرتے ہیں۔ لیکن خدا کو صرف اسرائیل کی حد تک محدود کر رکھا ہے۔ دوسرے یہودیوں کی طرح جانور کو ذبح کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بچے کی پیدائش کے آٹھ دن بعد ختنہ کر دی جاتی ہے۔ ہر لڑکے اور لڑکی پر توریت کا سیکھنا لازم ہے۔ دوسرے یہودیوں کی طرح عمر کی قید نہیں۔ توریت ختم کرنے پر خاتمِ تورہ کی رسم انجام دی جاتی ہے۔ دوسرے یہودیوں کے ہاں عمر کا تعین ہے۔ ان کے ہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ۱۳ برس کی عمر میں یہ رسم ادا کی جاتی ہے۔
سماریوں میں شادی سے پہلے مذہبی طور پر لڑکے اور لڑکی کو پاک کرنے کی رسم انجام دی جاتی ہے۔ پھر منگنی‘ اُس کے بعد بیاہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ صرف وہی تہوار مناتے ہیں‘ جن کا ذکر توریت میں ہے۔ ان کا مقدس مقام Mount Gerizim ہے۔ ان کی Community کا سربراہ اعلیٰ مذہبی رہنما ہوتا ہے‘ جس کے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کا تعلق حضرت یوسفؑ کے خاندان سے ہے۔ ایک عرصہ تک یہودی انہیں غیراسرائیلی قرار دیتے رہے لیکن ان کا شمار اب حکومتِ اسرائیل اسرائیلیوں میں کرنے لگی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply