۴۷ سالہ فرانسیسی استادسیموئیل پیٹی کے مسلمان انتہاپسند کے ہاتھوں قتل نے پورے فرانس کو صدمے اور اضطراب سے دوچار کردیا۔ سیموئیل پیٹی کی موت اس کے دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے بڑا نقصان ہے۔ جبکہ قوم کے لیے یہ ایک تازہ ترین صدمہ ہے، چارلی ایبڈو پر حملہ بھی قوم کے لیے ایک صدمہ تھا، جس کا مقدمہ ابھی چل رہا ہے۔ یعنی ابھی پرانے زخموں کو بھرنا بہت دور کی بات ہے۔ سیموئیل پیٹی کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے کلاس کے دوران نبیٔ کریمؐ کا کارٹون دکھایا گیا، جس پر مشتعل ہو کر ۱۸ سالہ چیچن عبداللہ عنصروف نے مبینہ طور پر سیموئیل پیٹی کا سر کاٹ دیا۔ جمعہ کو سیموئیل پیٹی کا قتل ہوا، جس کے بعد ہزاروں افراد نے آزادی رائے کے حق میں ریلیاں نکالیں اور وہ اس یقین کے ساتھ اکٹھے ہوئے کہ اس سے فرانسیسی شناخت کو خطرہ ہے۔ صدر ایمانوئل میکرون نے اس حوالے سے کہا کہ اب دوسری طرف کے لوگوں کے خوفزدہ ہونے کا وقت ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ اس تقریرنے تقسیم کے عمل میں اضافہ کیا۔ جس کے بعد دہشت گردوں کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی نگرانی بڑھا دی گئی۔ اس قتل کے بعد سینئر وزراء نے حملے سے منسلک تنظیموں اور مساجد کو بند کردینے کا وعدہ کیا، قطع نظر اس کے کہ یہ تعلق ثابت ہوتا بھی ہے یا نہیں، ان کے اقدام سے فلاحی تنظیمیں اور اسلام فوبیا کے خلاف کام کرنے والے گروپوں کو بھی غیر منصفانہ طور پر دہشت گرد قرار دے کر نشانہ بنانے کا تاثر بہت گہرا ہوگیا۔ قوم پرستی کا نعرہ لگاکر کہا گیا کہ فرانس کی اقدار پر حملہ کیا گیا اور تمام شہریوں کو ایک اَن دیکھے دشمن کے خلاف دفاع کے لیے نکلنا چاہیے۔ ایسا دشمن جو مسلمان ہونے کی وجہ سے متشدد ہے۔ اس سیاسی منطق کے مطابق تمام مسلمان مشکوک قرار پائے اور ہر مذہبی علامت کو خوف کی علامت بنادیا گیا۔ حالانکہ تحقیق کرنے والے بتا چکے ہیں کہ مذہب انتہا پسندی کے سدباب کے لیے اہم ہتھیار ہے۔ اور اس بات کا کوئی مصدقہ ثبوت موجود نہیں کہ مذہب اور نظریہ پرتشدد انتہا پسندی کا بنیادی محرک ہے۔ ہمیشہ بنیاد پرستی کی نشاندہی ایک معاشرتی مسئلے کے طور پر کی جاتی رہی ہے۔ اب فرانس میں سیاستدانوں اور پنڈت ملک اور آزادی کے نام پر مسلمانوں پر مذہبی پابندیاں عائد کرنے پر روزانہ بحث کررہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم ایرک زیمور ہیں، جن پر بار بار مسلمانوں کے خلاف نسلی منافرت پر اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے، لیکن ان کی آزادانہ تقریر پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ فرانسیسی ٹی وی اور ریڈیو ان کے نفرت کے نظریے کا پھیلاؤ روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں، صحافی کبھی سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی فرانس میں خانہ جنگی کی پیشگوئیاں کی جاتی ہیں۔ فرانس میں قوم پرستی کی لہر کوئی نئی بات نہیں، لیکن نسل پرست قومیت کی لہر ہم سب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کیونکہ یہ ماحول انتہا پسندوں کے لیے سازگار ہے۔
فرانس کی حکومت مسلمانوں کو معاشرے سے الگ کرکے ان کا گھیرا تنگ کررہی ہے، عدم تحفظ کا شکار مایوس اور ناراض ذہنوں کو ریاست کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنا بہت آسان ہے۔ سیموئیل پیٹی کے قتل نے معاشرتی اور معاشی پسماندگی، ثقافتی مخالفت اور امتیازی سلوک کی پرانی شکایتوں کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ کسی بھی کمیونٹی کے لیے اپنے ہم مذہب کے تشدد کا میڈیا میں جواب دینا ناممکن ہوتا ہے۔ فرانس کی جمہوریت کے ہاتھوں مسلمانوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب وہ پولیس کی بربریت، غربت، ملازمت میں امتیاز، مسلم شناخت سے نفرت کا سامنا کرتے ہیں تو مایوسی اور بڑھ جاتی ہے، جس کے بعد وہ سخت گیر گروہ کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ جنونی خود کو بنیادی حقوق سے محروم مسلمانوں کے مسیحا کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ سیاستدان جو غیر مسلم آبادی کے رہنما ہیں کی نظر میں حلال کھانا کھانا اور تیراکی میں پورے کپڑے پہننا کسی کا سر کاٹنے جتنا دہشت ناک ہے۔ اس واقعہ کو ایک ترقی پسند ایجنڈا دینے کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا، مگر میکران نے انتہائی دائیں بازو کا ایجنڈا آگے بڑھایا ہے۔ میکران نے فرانسیسی شہروں کو تقسیم کیا، جعلی خبروں کو بڑھاوا دیا اور انتہاپسند، فرقہ پرست اور مسلمانوں کو ایک جیسا بتایا اور ان کا پیغام بہت واضح تھا کہ ’’مسلمان ہی سب سے بڑی پریشانی ہیں‘‘۔
۲۰۱۹ء کی ایک تحقیق کے مطابق انتہا پسندی کی بنیادی وجہ معاشرے سے الگ تھلگ ہونے کا احساس ہے۔ اس تحقیق کے شریک مصنف نفیس حامد کا کہنا ہے کہ ’’معاشرے کی جانب سے دھتکارے جانے کے بعد انتہا پسند گروپس کے رویے میں مزید شدت آتی جارہی ہے‘‘۔ یہ واحد تحقیق نہیں جس میں اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے۔ ایک اور تحقیق مانچسٹر کے میئر اینڈی برنہم نے ۲۰۱۷ء میں ارینا حملوں کے بعد کروائی تھی۔ جس کے مطابق معاشرتی اتحاد کی کمی کو بنیاد پرستی کی کلیدی وجہ قرار دیا گیا اور اس مسئلہ کو معاشرہ مکمل طور پر نظر انداز کررہا ہے۔ فرانس موجودہ بگڑتی ہوئی صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا، بلکہ ہم میں سے کوئی بھی اس صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ سیموئیل پیٹی کے قتل کے بعد ایفل ٹاور کے نیچے دو مسلم خواتین پر سفید فام عورتوں نے ’’گندے عرب‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے حملہ کردیا۔ اس کو نسل پرست حملہ قرار دیا جاسکتا ہے، یہ حملہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کی ایک مثال ہے، اس طرح کے حملوں میں اکثر مسلمان خواتین نشانہ بنتی ہیں۔ فرانس میں مسلمانوں کو کثیر الجہتی مسائل کا سامنا ہے۔ ان کو مذہبی شناخت کی بنیاد پر مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ فرانسیسی مسلمان شہریوں کو درپیش بڑے مسائل حل کیے بغیر معاشرے کی جانب سے زبردست عدم مساوات کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ آزادیٔ اظہار کے بارے میں جاری بحث میں ہم کو فرانسیسی مسلمانوں کی رائے کم سننے کو ملتی ہے۔ مختلف تجربات اور خیالات کے بارے میں شاذ و نادر ہی سننے کو ملتا ہے، جس سے معاشرے کی مجموعی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے بجائے ہم فرماں بردار امام یا پھر انتہا پسندوں کے خیالات زیادہ سنتے ہیں، جن کو کم ہی لوگ سننا پسند کرتے ہیں۔
فرانس تاریخی طور پر دوسروں کو سمجھنے میں ناکام ہوگیا ہے، وہ آج پوری طرح فرانسیسی ہیں اور بجا طور پرایک شہری، ایک مسلم، ایک نسل کے طور پر اپنی پوری شناخت کا مطالبہ کرتے ہیں اور جمہوریہ کی جانب سے ان کو اسی شکل میں قبول کیا جانا چاہیے اور اس کام کے لیے جدوجہد کی جانی چاہیے۔ گزشتہ ہفتے ہزاروں افراد نے سیموئیل پیٹی اور آزادیٔ اظہار کے حق میں فرانس بھر میں ریلیاں نکالیں، ہمیں ان ریلیوں میں لگائے گئے نعروں پر غور کرنا چاہیے۔ حقیقت میں سیموئیل پیٹی کے قتل جیسی پُرتشدد کارروائیاں آزادیٔ اظہار کے لیے اس وقت خطرہ بن جاتی ہیں جب لوگوں میں خوف و ہراس پھیلنے لگے۔ لیکن معاشرے کے محروم طبقے کو تو طویل عرصے سے بات کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ آزادی اظہار لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی عیاشی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ عدم تحفظ، بے روزگاری، امتیازی سلوک اور غربت کی کہانی سننے کا نام ہے، محروم طبقے کو حق ہے کہ وہ اپنی بات کرے۔ مسلمان اور ان کے غیرمسلم پڑسیوں کو کچی آبادیوں میں طویل عرصے سے خاموش کرا دیا گیا ہے۔ ان کے مسائل اور باتیں بہت کم ہی عوامی بحث کا موضوع بن پاتے ہیں۔ ان کی شکایات کم ہی سیاستدانوں اور مشہور شخصیات کی توجہ حاصل کرپاتی ہے۔ آزادیٔ اظہار کو کئی خطرات لاحق ہیں، جن میں سے ایک کمزور طبقے کی باتوں کو اَن سنا کر دینا ہے۔ اگر اس سانحے سے قوم کو کچھ سیکھنا ہے تو دیکھنا ہوگا کہ کون لوگ ہیں جن کی تقرریں نشر ہونے سے بہت پہلے ہی ایک خطرہ بن جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں پورے معاشرے کو مایوسی اور ناراضی گھیر لیتی ہے۔ آزادیٔ اظہار کے تحفظ کے لیے سب کی بات سننا ضروری ہے۔ ہر معاشرے کے لیے لازم ہے کہ لوگوں کی بات کو سنا جائے، معاشرے میں موجود ہر طبقے کی سوچ یکساں نہیں ہوسکتی لیکن پھر بھی لوگوں کے درمیان مساوات کو فروغ دیا جانا ضروری ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“Samuel Paty murder: The right to offend Muslims is being weaponised”. (“middleeasteye.net”. October 22, 2020)
Leave a Reply