
زینب کے بہیمانہ قتل کے بعد اس ملک میں گزشتہ دو دہائیوں سے مغربی سرمائے اور ڈونرز کی مدد سے جنم لینے والا ایک طبقہ نصابِ تعلیم پر ایک ایجنڈے کے تحت حملہ آور ہونے کے لیے میدانِ عمل میں نکل آیا ہے۔ یہ طبقہ جسے عرفِ عام میں سول سوسائٹی کہتے ہیں، نے تمام محاذوں سے حملہ شروع کردیا ہے۔ سوشل میڈیا کے جوان کا میدانِ خاص ہے، اس میں مغرب کے نیم برہنہ ساحلوں کی تصویریں یا ویڈیو لگا کر اوپر یہ عبارت تحریر کی جاتی ہے کہ ’’دیکھو یہاں کوئی جنسی زیادتی یا تشدد کیوں نہیں کرتا‘‘۔ کبھی مغرب کے جرم کی تفتیش اور مجرم تک پہنچنے کی صلاحیت کی تعریف کی جاتی ہے تو کہیں اس معاشرے میں عورت کے ہر کاروبارِ زندگی میں بِلاروک ٹوک شرکت کی تعریفیں کی جاتی ہیں۔ دوسرا حملہ اخبار اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے کیا جارہا ہے اور اس میں پاکستانی معاشرے کو ایک بیمار، گھٹن زدہ اور فرسودہ معاشرہ قرار دے کر بچوں پر جنسی حملوں کی بنیادی وجہ علم اور معلومات کی کمی اور خواتین یا بچیوں میں اپنے تحفظ کے لیے آگہی کے فقدان کو بتایا جاتا ہے۔ تیسرا حملہ سیاسی سطح پر کیا گیا جہاں پیپلز پارٹی کے بلاول زرداری اور نون لیگ کے شہباز شریف کو قائل کیا گیا کہ اگر اسکولوں میں ویسی ہی آگہی کی تعلیم دے دی جائے جیسی یورپ اور امریکا میں دی جاتی ہے تو پاکستان کی بچیاں اس خوفناک عمل سے بچ سکتی ہیں۔ اس طرح کی تعلیم کا نصاب مرتب کرنے کے لیے پاکستان کی کئی این جی او گزشتہ کئی برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ ان تمام این جی اوز کو جنسی تعلیم کے اس نصاب کو مرتب کرنے کے لیے رقم یورپی ممالک کے سفارت خانے فراہم کرتے رہے ہیں یا پھر وہ ڈونر جو پوری دنیا میں اپنے ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ان تمام این جی اوز نے زینب قتل کے واقعے کے بعد اب اپنے مال کو بیچنے کے لیے پاکستانی شوبز کے اداکاروں، اداکاراؤں، گلوکاروں اور ماڈلز کا سہارا لیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگ جس شعبہ یعنی شوبز سے تعلق رکھتے ہیں وہاں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ جنسی استحصال “Sexual Exploitation” ہوتا ہے۔ ایک اداکارہ، گلوکارہ یا ماڈل کو کامیابی کی سیڑھی چڑھنے کے لیے جن جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے وہ اگر بیان کر دیے جائیں تو آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ سعادت حسن منٹو کے خاکوں سے لے کر آج کی جدید دنیا کی شوبز کی شخصیات تک ہر عورت کامیابی کے زینے پر چڑھتی ہوئی کن کن ہوس رانیوں کا شکار ہوتی ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ کمال ہے کہ اب یہ گروہ اس معاشرے کی اصلاح کرے گا۔ لیکن اصلاح کے لیے جو دوا تجویزکی جارہی ہے وہ گزشتہ پچاس سالوں سے مغرب کے اسکولوں اور دیگر اداروں میں مستعمل ہے۔ یہی جنسی تعلیم اور خود حفاظتی کا نصاب وہاں پڑھایا جاتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی دوا کے استعمال کی پہلی شرط یہ ہوتی ہے کہ کیا اس کے استعمال سے کوئی مریض صحت یاب ہوا یا نہیں؟ اگر نہیں ہوا تو پھر دیکھا جاتا ہے کہ مرض کی دیگر وجوہات بھی تو ہو سکتی ہیں۔ اس لیے معاشرے کی صحت کے لیے ان دیگر وجوہات کو ختم کرنے والی دوا استعمال کرنا چاہیے۔
مغرب کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے اچھی خاصی محنت اور کوشش کے بعد عورت کو کاروبارِ دنیا کے بیچوں بیچ “Centre Stage” پر لاکھڑا کیا ہے۔ اسے وسعتِ کاروبار کا ہتھیار بنایا اور اس کی خوبصورتی کے اردگرد کاروبار کی ایک وسیع مارکیٹ قائم کی۔ ۱۹۲۰ء میں جب فلوریڈا کے ساحلوں پر پہلا معمولی سا مقابلہ حسن ہوا تھا تو کسی کو اندازہ تک نہیں تھا کہ ایک دن یہ جسمانی نمائش اور ناپ تول کا بازار اتنا وسیع ہو جائے گا کہ صرف اور صرف ایک مقابلہ حسن ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کا کاروبار اپنے اردگرد پھیلا لے گا۔ پوری کی پوری فیشن انڈسٹری اس کے گرد گھومے گی اور عورت تمام مصنوعات کی فروخت کی اشتہاری مہم کی ضمانت بن جائے گی۔ شیونگ بلیڈ سے لے کر بوٹ پالش اور چائے کے کپ سے لے کر شراب کے اشتہارات تک عورت کو یوں پیش کیا جاتا ہے کہ اس کی آنکھیں اپنے اندر ایک دعوت بنی ہوتی ہیں اور پکار پکار کر کہتی ہیں کہ اس پر یقین کرو اور یہ اشیا خرید لو۔ ہوس زدہ اور بیمار ذہن کیمرہ مین، ڈائریکٹر اور اشتہارات بنانے والے ان عورتوں کے اعضا کو ایسے ایسے زاویوں سے واضح کرتے ہیں کہ ان کی پراگندگی پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ سگریٹ اور شراب کے ابتدائی اشتہاروں سے لے کر مارلن منرو کے اس مشہور اشتہار تک جس میں وہ اپنی نیم عریاں ٹانگیں ایک ٹائر کے ساتھ لگا کر ٹائر بیچنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے، ایک طویل فاصلہ ہے جو شوبز، فیشن انڈسٹری اور اشتہارات بنانے والوں نے طے کیا اور آج مشرق و مغرب میں صرف اور صرف عورت ہی اس بازار کی زینت ہے، وہی اس دھندے کا مرکزی اشتہاری شعبہ ہے۔ ۱۹۲۰ء کے آس پاس جب اشتہارات، فیشن انڈسٹری اور شوبز کا یہ دھندہ شروع ہوا تو یہ وہی سال تھا جب عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بھی حاصل ہوا۔ اس وقت تک وہ معاشرہ جسے آج ہم مغرب کہتے ہیں بالکل ہماری طرح ایک خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار سے جڑا ہوا تھا۔ جنسی زندگی کی خرابیاں تھیں لیکن محدود تھیں۔ طوائفوں کے بازار بھی تھے لیکن شہروں سے الگ اور خصوصاً ان علاقوں میں جہاں کئی مہینے سمندر میں سفر کرنے والے جہاز ران آکر رکتے یا پھر جہاں کوئی فوجی چھاؤنی ہوتی اور گھروں سے دور بیٹھے سپاہی اپنی ضرورت پوری کرسکتے۔ لیکن جیسے ہی عورت اس میڈیا، اشتہارات، فیشن انڈسٹری اور فلم کے مرکزی اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئی، انسان خصوصاً ’’مرد‘‘ کے اندر کا جانور کھل کر باہر آگیا اور اس کی ہوس اور بھوک نے وہ ’’کمال‘‘ دکھائے کہ ابتدائی فلموں کی حجاب (veil) والی ہیروئن سے بات نکلتی ہوئی فحش فلموں کے ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے کاروبار تک جاپہنچی۔ چونکہ اب یہ کاروبار بن چکا تھا تو پھر اس کے تحفظ کے لیے آزادی اظہار کے نام پر قانون اور ضابطے بنائے گئے۔ کہا گیا کہ ہم تو فحش فلمیں بھی بنائیں گے اور ایسے مناظر بھی عام فلموں میں رکھیں گے لیکن ان فلموں کی ریٹنگ کردیں گے۔ یہ PG-18 ہے یعنی اسے ۱۸ سال سے کم عمر نہیں دیکھ سکتے۔ یعنی ہم باز نہیں آسکتے، ماں باپ ہوسکے تو اپنے بچوں کو روک لیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد امریکا اور پورے مغرب میں ایک خوفناک رجحان نے جنم لیا۔ عورتوں اور بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ہزاروں سیریل کلر پیدا ہوئے۔ جنسی بیمار اور معاشرتی ناسور کئی کئی سو عورتوں اور بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرتے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ اگر آپ دنیا کے کسی ملک کے جرائم کا ڈیٹا حاصل کریں تو آپ کو امریکا اور یورپ میں ایسے قاتلوں کی تعداد ہزاروں میں ملے گی۔ دفتروں میں جنسی استحصال کا آغاز ہوا، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، ریلوے اسٹیشنوں، سنسان راستوں، گھروں کے ساتھ تفریح گاہوں، غرض کوئی جگہ نہ کل محفوظ تھی اور نہ آج محفوظ ہے۔ اس جرم کے روکنے کی تو کوئی جامع تدبیر مغربی ممالک کو نہ سوجھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے روکنے کے لیے جو بھی راستہ جاتا تھا وہ فحش فلموں پر بندش سے شروع ہو کر عورت کو کاروبار کی وسعت کے لیے اشتہار کی زینت سے نکالنے تک جا پہنچتا تھا۔ دنیا کی ہر یونیورسٹی میں ان موضوعات پر تحقیق ہوئی۔ نفسیات اور جرمیات (Crimnology) کے مضامین کے ماہرین نے کوئی پچاس ہزار کے لگ بھگ تحقیقات کیں اور عورتوں اور بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے جرم کی وجوہات کا مطالعہ کیا۔ تمام کی تمام نفسیاتی تحقیقات اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی اپنی ماں کے پیٹ سے یہ پُرتشدد جنسی رجحان لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ ہر شخص کی جسمانی ساخت کے اعتبار سے جنسی ضروریات مختلف ضرور ہوتی ہیں، لیکن جنسی جرم اور مجرم بننے کے لیے محرکات (stimuli) بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور یہ محرکات اس کا معاشرہ اور ماحول فراہم کرتا ہے۔ ہر معاشرے اور کلچرکا اپنا ایک بے راہ روی کا نکتہ آغاز (Thresh hold) ہوتا ہے۔ کچھ معاشرے جہاں پردہ داری اور روایات ابھی تک قائم ہیں، وہاں اشتہارات کی معمولی سی برہنگی بھی بعض بیمار ذہنوں میں ہیجان پیدا کر دیتی ہے۔ جبکہ بعض جدید معاشرے جیسے ایمسٹرڈیم (یورپ کا طوائفوں کا سب سے بڑا بازار)، وہاں فحش فلمیں اور وہ بھی جنسی اذیت دے کر لذت حاصل کرنے والی فلمیں لوگوں کو جرم کرنے پر اکساتی ہیں۔ امریکا جو مغرب کی نسبت زیادہ دقیانوسی اور پرانا معاشرہ ہے، وہاں کی FBI کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ جسے اینڈرسن کے جے (Anderson kj) نے اپنی کتاب پورنو گرافی میں تفصیلاً درج کیا ہے۔ اس کے مطابق عورتوں اور بچوں کو جنسی تشدد کرنے کے بعد ہلاک کرنے والوں میں ۸۰ فیصد ایسے تھے جو فحش فلموں کے رسیا تھے۔
گزشتہ صدی جس کا عمومی آغاز جنگِ عظیم اول کے آس پاس یعنی ۱۹۲۰ء کے قرب و جوار میں ہوتا ہے، اس میں سرمایہ پرستی اپنے نقطۂ عروج پر رہی۔ بینکاری کے سودی نظام سے جنم لینے والی مصنوعی کاغذی کرنسی کے بَل بُوتے پر کھڑی ہونے والی کارپوریٹ نظام کی عمارت چکا چوند روشنیوں سے جگمگاتی ہے۔ یہ روشنیاں اس کے اندر چھپے ہوئے غلیظ، تعفن زدہ اور بدبو دار معاشرے کو چھپاتی ہیں اور اسے خوبصورت بنا کر پیش کرتی ہیں۔ یہ اس تہذیب کا پبلسٹی کا شعبہ ہے، جسے میڈیا کہتے ہیں۔ یہ معمولی سے بل بورڈ سے شروع ہوتا ہے اور متحرک اشتہاروں کی دنیا سے ہوتا ہوا ٹیلی ویژن، فلم، اسٹیج، اخبارات اور انٹرنیٹ کی وادیوں تک جانکلتا ہے۔ یہ دن بھر سرمائے کی دوڑ میں پاگل نظر آتا ہے اور رات بھر عیش و عشرت میں ڈوبا رہتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے قرآن حکیم میں اس چکاچوند زندگی سے خبردار کیا تھا:
’’اللہ کے نافرمانوں کا شہروں میں خوشحالی سے چلنا پھرنا تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے‘‘۔ (آل عمران: ۱۹۶)
میڈیا کی اس چکاچوند کا مرکزی کردار عورت ہے۔ یہ فیشن شوز میں تھرکتی ہے، اشتہار میں ترغیب دیتی ہے، فلم میں ایک طرزِ زندگی متعارف کرواتی ہے۔ یہ رنگارنگ دنیا جس میں کھو کر ہر کوئی چند لمحوں کے لیے بھول جاتا ہے کہ اس نیویارک، پیرس، لندن اور لاس ویگاس جیسے شہروں میں کس قدر اخلاقی تعفن اور گندگی ہے۔ انسان اپنی غلیظ اور مکروہ ترین شکل میں یہاں پر نظر آتا ہے۔ وہ عورت جو اس چکاچوند میں ایک خوشنما خواب کی طرح نظر آتی ہے پورے معاشرے میں دو طرح کے رجحانات پیدا کرتی ہے۔ ایک وہ تمام عورتیں جو ان خواتین کو آئیڈیل معیار حسن تصور کرتی ہیں، اس کی پیروی اور نقل میں دیوانی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ۱۹۶۵ء کے آس پاس پوری فیشن انڈسٹری اور ایڈورٹائزنگ نے دنیا بھر کی خواتین کو سائز زیرو کا تحفہ دیا، یعنی کمزور، نازک، کانچ کی بنی ہوئی دبلی پتلی ماڈلز میڈیا کے آسمان پر رقص کرنے لگیں۔ اس تصور نے امریکا اور یورپ کی خواتین میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کردی۔ ہر کسی کو یہ فکر لاحق ہونے لگی کہ اس کے جسم پر چھٹانک بھر گوشت بھی کیوں زیادہ ہے۔ مشہور برطانوی مصنف جوہان ہاری (Johann Hari) نے ڈپریشن اور اضطراب پر دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیقات کو اکٹھا کرکے اپنی مشہور کتاب “Lost connections: uncovering real cause of depression- and the unexpected solutions” (گمشدہ روابط: ڈپریشن کی اصل وجوہات کی نشاندہی اور غیر متوقع حل) تحریر کی تو ہارورڈ یونیورسٹی کے تحت ہونے والی دنیا بھر کی خواتین کے بارے میں تحقیق میں یہ انکشاف ہوا کہ ۸۰ فیصد خواتین اپنے جسمانی تناسب کی وجہ سے پریشان اور ناخوش رہتی ہیں۔ امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن کی تحقیقات کے مطابق ۷۰ فیصد خواتین ایسی ہیں جو کسی فیشن میگزین کو صرف تین منٹ کے لیے دیکھ لیں تو ان پر ڈپریشن طاری ہو جاتا ہے۔ امریکا میں پانچ کروڑ خواتین ایسی ہیں جو اسی ڈپریشن میں، کہ میرا جسم ایسا کیوں نہیں ہو جاتا، اس کی وجہ سے ایک نفسیاتی مرض “anaroxia nervosa” کا شکار ہو جاتی ہیں، جس میں وزن خود بخود ختم ہونے لگتا ہے اور جسم سوکھ کر کانٹا ہو جاتا ہے، یوں بظاہر نرم و نازک خوبصورتی کی تلاش میں جسم بدنما ہو جاتا ہے، پھر اس کی وجہ سے مزید ڈپریشن بڑھنے لگتا ہے۔ اشتہارات کی یہ دنیا دن بدن بڑی سے بڑی ہوتی جاتی ہے اور معاشرے میں نفسیاتی بیماریوں میں اضافہ بھی اسی شرح سے ہوتا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں امریکی ٹیلی ویژن چینل پر ہر ہفتے ۷۱۴ کمرشل آتے تھے یعنی پورے سال میں ایک آدمی ۳۷ ہزار کمرشل دیکھتا تھا، لیکن اب روزانہ ٹیلی ویژن پر دو ہزار کمرشل دیکھتا ہے یعنی سال میں دو لاکھ تیس ہزار کمرشل، جن میں نوے فیصد ایسے ہوتے ہیں جن میں عورت کے جسمانی اعضا کو نمایاں کرکے پیش کیا جاتا ہے۔
یہ ساری چکاچوند جہاں عورتوں میں ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا باعث بنتی ہے، وہاں مردوں میں جنسی اشتہا اور بھوک میں ہیجان خیز اضافہ کرتی ہے۔ یہ بھوک اس قدر شدید ہوجاتی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جس میں چاروں جانب عورت موجود ہے دوستی، عشق و محبت اور سر راہے تعلقات (casual) کی صورت میں ذہنی و جسمانی پیاس کو مٹایا بھی جاسکتا ہے، ایسے معاشرے میں بھی مردوں کے اندر پیدا ہونے والے اس ہیجان اور جنسی اشتہا سے جنم لینے والی طلب کو پورا کرنے کے لیے ایک پورا بازار سجایا گیا ہے۔ یہ بازار مساج پارلر سے شروع ہوتا ہوا، اسکورٹ (esscort) سروسز، نائٹ کلب، برہنہ ڈانس (stripties)، فٹ پاتھوں پر جسم بیچنے والیاں (street hookers)، اور جسمانی کاروبار کے مراکز سے ہوتا ہوا ایسے بازاروں میں جانکلتا ہے جہاں جنسی خواہشات کی تسکین کے کھلونے sex toys، فحش رسالے، فلمیں و تھیٹر، یہاں تک کہ براہ راست جنسی فعل ایسے دکھایا جاتا ہے جیسے اکھاڑے میں پہلوان یا رِنگ میں ریسلر۔ اس سارے بازار کو سجانے کے لیے دنیا بھر سے کمسن بچیوں سے لے کر جوان لڑکیاں تک اسمگل یا اغوا کرکے ان بازاروں میں لائی جاتی ہیں۔
یکم جون ۲۰۱۲ء کو عالمی ادارہ محنت(ILO) نے پوری دنیا میں اس انسانی اسمگلنگ کی تعداد دو کروڑ دس لاکھ بتائی، جن میں سے ۹۸ فیصد بچیاں اور جوان لڑکیاں تھیں۔ دنیا کے مختلف ممالک سے ہر سال آٹھ لاکھ بچیاں اسمگل کی جاتی ہیں۔ ان کو یہ مافیا مختلف یورپی اور امریکی شہروں میں محبوس کرکے رکھتا ہے۔ یہ جن گھروں میں قید نما زندگی گزارتی ہیں ان کی حفاظت پر مامور سیکورٹی گارڈ اسی جرم کی دنیا کے مسٹنڈے ہوتے ہیں۔ خصوصی طور پر تربیت یافتہ کتوں سے ان لڑکیوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ۲۰۰۹ء کی انسانی اسمگلنگ کی رپورٹ کے مطابق ان لڑکیوں سے زبردستی جسم فروشی، مجبوراً برہنہ رقص، مساج کروانا اور فحش فلموں میں اداکاری جیسے کام لیے جاتے ہیں۔ امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ۲۰۱۱ء کی انسانی اسمگلنگ کی رپورٹ کے مطابق سالانہ ۲۰ لاکھ بچے جسم فروشی کے لیے اسمگل کیے جاتے ہیں۔ صرف امریکا میں ہر سال تین لاکھ بچے جسم فروشی پر مجبور کیے جاتے ہیں، جن سے سالانہ ایک کروڑ ڈالر آمدنی صرف اسمگلروں کو ہوتی ہے۔ یہ بچیاں جب اس جنسی کاروبار میں زبردستی داخل کی جاتی ہیں تو ان میں سے ۹۵ فیصد یہ بتاتی ہیں کہ انہیں اکثر مارپیٹ اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن کاروباری مفاد کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ۶۵ فیصد لڑکیوں کو زبردستی جنسی تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔ صرف امریکا کی زیرِزمین جنسی دنیا کی آمدنی سالانہ تین ارب ڈالر ہے۔ جبکہ عورت کو اشتہارات کی زینت بنانے سے لے کر فیشن انڈسٹری تک لاتعداد ’’قانونی‘‘ (Legal) دھندوں کا اگر مکمل معاشی جائزہ لیا جائے تو یہ سب کا سب ایک ہزار ارب ڈالر کا گھن چکر ہے۔ عورت کو پہلے بنا سنوار کر اشتہار کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے، پھر اس پتلی تماشے کے ارد گرد پورا معاشرہ گھومنے لگتا ہے۔ عورتیں اس خوبصورت جسم کی جدوجہد میں پاگل ہو جاتی ہیں اورمرد اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے دیوانہ اور عقل و ہوش سے عاری۔ اس کی خواہشات کی تکمیل کے لیے بازار سجتے ہیں، لیکن جسمانی خواہش تو پوری ہو جاتی ہے مگر یہیں سے تو نفسیاتی پراگندگی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اس کی تسکین کے لیے فحش فلمیں بنائی جاتی ہیں اور ان میں ایسے موضوعات چُنے جاتے ہیں، جو معاشرے میں ناقابل قبول (Taboos) ہوں۔ آپ کو ان فلموں کی صورت میں لاکھوں ایسے موضوعات ملیں گے، جن میں ’’تشدد پسندی‘‘ سے ’’جنسی فعل‘‘، مقدس رشتوں کا آپس میں اختلاط، غیر فطری فعل، غرض بے راہ روی کے ہر راستے کو جنس کی اشتہا کے ساتھ جوڑ کران فلموں میں پیش کیاجاتا ہے۔ ایسا سب کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ایک ہیجان پیدا کرتا ہے، انہیں معمول کی جنسی زندگی بے رنگ اور بے کیف لگنے لگتی ہے اور وہ اپنی تسکین کے لیے کبھی بچوں کو نشانہ بناتے ہیں اور کبھی مقدس رشتوں کا تقدس پامال کرتے ہیں۔ اس وقت امریکی جیلوں میں سات لاکھ چالیس ہزار سات سو آٹھ جنسی جرائم کے مجرم ہیں، ان سے تین گنا وہ ہیں جو ہلکے جرم کی وجہ سے عدالت کی نگرانی میں ہیں اوران دونوں سے بھی تین گنا ایسے ہیں جن پر ابھی تک پولیس پہنچ نہیں سکی۔ یہ ہے وہ مکروہ، غلیظ، تعفن زدہ معاشرہ جس کو میڈیا کی روشنیاں خوبصورت بنا کر پیش کرتی ہیں اور میرے ملک کا دانشور اس کی تعریف میں کالم لکھتا، گفتگو کرتا اور کتابیں تحریر کرتا ہے۔
(بشکریہ ’’۹۲ نیوز‘‘ کراچی۔ ۱۷۔۱۹؍ جنوری ۲۰۱۸ء)
Leave a Reply