
شاید یہ معاملہ ہو کہ ’’جنٹل مینوں ہمارے پاس رقم ختم ہوچکی۔اب سوچنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔یہ الفاظ ونسٹن چرچل اور ماہر طبیعیات ایرنسٹ ردر فورڈ سے منسوب کیے جاتے ہیں لیکن سعودی عرب کی تیل پر منحصر معیشت عشروں سے سوچنے کا موضوع رہی ہے۔
تیس سال قبل چوتھا پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ شروع ہوا تو اس میں نجی شعبے کی ترقی اور صنعتی شعبے کو موثر بنانے پر زوردیا گیا تھا۔بیس سال بعد آٹھویں پانچ سالہ منصوبے میں غیرملکی سرمایہ کاری اور سعودی عرب کے انسانی سرمائے پر توجہ مرکوز کی گئی۔اس دور میں اقتصادی اصلاحات بار آور ثابت ہوئیں۔ان کے نتیجے میں موجودہ سازگار حالات پیدا ہوئے اور اب زیادہ دلیرانہ اقدام کیا جارہا ہے۔
ایک سرکردہ کنسلٹینسی فرم میکنزے کی دسمبر کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ معیشت تیل کی ایک عشرے کی آمدن سے حاصل ہونے والی خوش حالی کے بعد اب اتار چڑھاؤ کا شکار ہے۔اس ملک کی معیشت میں پیداواریت اور سرمایہ کاری کے ذریعے نئی توانائی شامل کرنے کا اس سے بہتر موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔ اس سے مستقبل میں ترقی، روزگار اور خوش حالی کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔
سعودی ویژن ۲۰۳۰ء کے باقاعدہ اعلان سے معیشت کے علاوہ سماجی حلقوں میں تبدیلی کے لیے سعودی حکومت کے مقاصد اور پیغام کی عکاسی ہوئی ہے۔اس منصوبے کی شاہ سلمان کے زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔اس پر کونسل برائے اقتصادی ترقی امور (سیڈا) عمل درآمد کرے گی۔اس کونسل کے سربراہ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں۔
شہزادہ محمد نے قبل ازیں ’’دی اکنامسٹ‘‘ اور ’’بلومبرگ‘‘ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں سعودی ویژن ۲۰۳۰ء کے نمایاں خدوخال بیان کیے تھے۔انھوں نے العربیہ نیوز چینل کے ساتھ اس منصوبے کے اجرا کے موقع پر کہا ہے کہ ’’اس ویژن کے لیے زیادہ اخراجات کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تنظیم نو درکار ہے‘‘۔
ویژن ۲۰۳۰ء کے حصے کے طور پر ’’قومی تبدیلی کا منصوبہ‘‘ کے نام سے ایک نقشہ راہ بھی آئندہ ہفتوں کے دوران جاری کیا جائے گا اور اس میں اس ابتدائی مرحلے سے متعلق مزید تفصیلات ہوں گی۔
نئی حکمتِ عملی
شہزادہ محمد کی بیان کردہ تنظیم نو میں ریاستی اثاثوں کی نج کاری شامل ہوگی اور ان میں سب سے قابل ذکر سعودی آرامکو کے پانچ فی صد حصص کو پہلی مرتبہ مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کیا جانا ہے۔دو کھرب ڈالر کی مالیت سے ایک سرکاری سرمایہ کاری فنڈ قائم کیا جائے گا۔یہ ایک ہولڈنگ کمپنی کے طور پر کام کرے گا۔مختلف اشیائے ضروریہ پر دیے جانے والے زرتلافی پر نظرثانی کی جارہی ہے۔غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے آزاد پالیسیاں متعارف کرائی جارہی ہیں۔اقتصادیات کو بہتر بنایا جائے گا،غیر ضروری اخراجات کو ختم کیا جائے گا اور نجی شعبے کی توسیع کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
ویژن ۲۰۳۰ء ایک نقشہ راہ سے زیادہ اقتصادی تبدیلی کا عمل ہے۔پہلے اس کی کاروباری سرگرمیوں کے لیے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ سعودی آرامکو کے ابتدائی طور پر حصص کی فروخت کے علاوہ دو کھرب ڈالر کے سرمایہ کاری فنڈ اور کثیر شعبوں کی نج کاری کے علاوہ وسیع تر سماجی اہداف بھی حاصل کیے جائیں گے۔
اس ویژن میں کہا گیا ہے کہ: ’’ہمارا مقصد سماجی ترقی کو فروغ دینا ہے تاکہ ایک مضبوط اور پیداواریت کے حامل معاشرے کی تعمیر ہو سکے۔اس کے تحت تعلیم،صحت عامہ،شہری ترقی، سعودی شناخت پر فخر، سیاحت،ثقافت اور تفریح،صحت مند طرز زندگی،خاندانی زندگی کے فروغ اور بچوں کی کردار سازی،جدید سماجی بہبود،چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے صلاحیتوں کی ترقی، خواتین کو بااختیار بنانے اور اقتصادی شہروں کی بحالی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
آبادی کی حمایت
اس ویژن میں عمومی مقاصد اور مخصوص اہداف شامل ہیں۔خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق بیان واضح نہیں ہے، اور صرف یہ کہا گیا ہے کہ ’’ویژن سے وہ اپنے مستقبل کو مضبوط بنانے کے قابل ہوسکیں گی اور ہمارے معاشرے اور معیشت کی ترقی میں کردار ادا کریں گی‘‘۔ دوسرے شعبوں کے لیے ویژن ۲۰۳۰ء کے اہداف بالکل واضح اور مخصوص ہیں۔مثال کے طور پر تفریحی سرگرمیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ورزش،کسرت کرنے والے افراد کی شرح کو بڑھایا جائے گا اور ایک ہفتے میں ورزش کرنے والوں کی شرح ۱۳؍فیصد سے بڑھا کر ۴۰ کردی جائے گی۔
مختلف اہداف وضع کرنے کے علاوہ ویژن ۲۰۳۰ء میں ایک نئی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اور وہ یہ کہ اس پر انفرادی وزراء کے بجائے سیڈا عمل درآمد کرائے گی۔اس کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب آبادی کی اکثریت تبدیلی کے عمل کی حامی ہے جبکہ ملک کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے۔تاہم قدامت پرست حلقوں کی جانب سے اس کی مزاحمت ہوگی۔
سعودی عرب کے ویژن ۲۰۳۰ء کے بڑے حجم اور اہداف کے پیش نظر اس کے لیے ان شعبوں سے فیڈ بیک حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی، جو اس سے براہ راست متاثر ہوں گے لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کی تصریحات کے بڑے حجم کے پیش نظر مضبوط آراء کی کوئی کمی نہیں ہوگی اور مختلف کمیونٹیوں کی جانب سے اس کی حمایت اور مخالفت کی جائے گی۔
بعض لوگ اس کو اقتصادی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حکومت کا بروقت اقدام قرار دیں گے مگر معیشت کو آزاد اور جدید بنانے سے متاثر ہونے والے افراد اس کے خلاف ردعمل کا بھی اظہار کریں گے۔
سعودی ویژن ۲۰۳۰ء ایک ایسا نقشہ راہ پیش کرتا ہے، جو شاید تبدیلی کی ضرورت کے حوالے سے نئی سوچ تو نہ ہو لیکن اس کے غیر معمولی حجم اور وسیع تر مقاصد اور پہلے سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر اصلاحات کے لیے اقدامات کی نظیر نہیں ملتی اور یہ سعودی عرب کے ایک مختلف مستقبل کی کہانی بیان کرتا ہے۔
(بحوالہ “alarabiya.net”۔ ۲۶ اپریل ۲۰۱۶ء)
Leave a Reply