
گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے جید علمائے کرام کی شورٰی نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ اخوان المسلمون انتہائی بُری تنظیموں میں سے ہے اور اسلام کی بنیادوں کے لیے خطرہ ہے۔ یہ دہشت گردوں کا گروپ ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ایسی بگڑی ہوئی تنظیم ہے، جو مستحکم (اور قانونی طور پر درست) حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے سرگرم رہتی ہے، تنازعات کو ہوا دیتی ہے، غلط کاموں کو دین کے پردے میں لپیٹتی ہے اور تشدّد و دہشت گردی کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ سعودی علمائے کرام کی رائے ہے کہ اخوان المسلموں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق درست راہ پر گامزن رہنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ طاقت اور اقتدار کا حصول یقینی بنانے پر زیادہ توجہ دی ہے۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اخوان المسلمون اسلامی دنیا کی متعدل ترین تنظیموں میں سے ہے۔ سعودی علمائے کرام نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ بہت سی دہشت گرد تنظیمیں اخوان المسلمون کے بطن سے ہویدا ہوئی ہیں اور اِسی کے سائے تلے پروان چڑھی ہیں۔ سعودی علمائے کرام کے اس بیان پر دنیا بھر میں شدید ردِعمل کا اظہار کیا گیا ہے تاہم اس کے باوجود سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم عبدالعزیز الشیخ نے اپنا یہ موقف نہیں بدلا کہ اخوان المسلمون ایک بھٹکا ہوا گروہ ہے۔
اخوان المسلمون کے ترجمان طلعت فہمی نے سعودی علمائے کرام کے بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اخوان کسی بھی اعتبار سے نہ تو دہشت گرد ہے اور نہ ہی تشدّد پسند۔ اس کے برعکس اخوان ایک اصلاح پسند تنظیم ہے، جو اسلام کی بنیادی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی رضا کی طالب ہے اور اس معاملے میں وہ نہ تو حد سے تجاوز کرتی ہے اور نہ ہی غفلت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ سعودی مفتیٔ اعظم عبدالعزیز الشیخ کے ریمارکس کو یکسر غلط قرار دیتے ہوئے اخوان کے ترجمان اور کارکنوں نے سعودی عرب کے سابق مفتیٔ اعظم اور مستقل کمیٹی برائے تحقیق و اِفتاء شیخ العزیز بن باز (۱۹۹۹۔۱۹۱۰) کے ایک فتوے کو مشتہر کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’قرآن کی تعلیمات اور نبیٔ اکرمؐ کی سنت سے قریب ترین گروہوں میں اہلِ سنت نمایاں اور ان میں اہلِ حدیث، انصار السنّۃ کے بعد اخوان المسلمون بھی شامل ہیں‘‘۔ شیخ عبدالعزیز بن باز نے جو کچھ کہا وہ اخوان کے بارے میں سعودی عرب کی سرکاری تنظیموں اور خود سعودی حکومت کا موقف تھا۔ سعودی علمائے کرام کی شورٰی نے جو بیان جاری کیا ہے وہ بھی مکمل طور پر سرکاری موقف کا اظہار ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کل تک اخوان کے بارے میں جو رائے بالکل مثبت تھی وہ اب یکسر منفی کیسے ہوگئی ہے۔
۱۹۳۶ء میں جدید سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود نے اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء کی تعلیمات سے کامل اتفاقِ رائے ظاہر کرتے ہوئے اس بات پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ سعودی عرب میں عمومی سطح پر اصلاح کا عمل یقینی بنانے کی خاطر ہر سطح کے تعلیمی اداروں کے لیے نصاب کی تیاری کا فریضہ اخوان انجام دے۔ تب ایک نئی قومی ریاست کو عملی شکل دینے کے معاملے میں قبائلی مذہبی تعلیمات ناکافی محسوس کی گئی تھیں۔
تیل کی دریافت کے بعد سعودی عرب میں جدید معاشرے کی تشکیل کے لیے شاہ عبدالعزیز السعود کو قبائلی ذہنیت ختم کرکے جدید ترین رجحانات کے مطابق معقول سوچ پروان چڑھانے کے حوالے سے اخوان کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں عبدالعزیز السعود نے صحابۂ کرام کے نقوشِ قدم پر چلنے کا دعوٰی کرتے ہوئے عوام کو سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف متحرک کیا تھا جبکہ خطے کے دیگر ممالک میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی اور تمام ممالک ایسے نظریات کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے جو خطے کی مشکلات کے لیے اسلامی تعلیمات کو موردِ الزام ٹھہراتے تھے۔
عبدالعزیز السعود نے حجاز اور دیگر علاقوں کو ملاکر سعودی عرب کی تشکیل کی مگر ساتھ ہی ساتھ ان پر مختلف حوالوں سے متعدد ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی تھیں۔ عبدالعزیز السعود اور ان کے بیٹوں کے عہدِ حکومت میں اخوان سے کئی کام لیے گئے۔ مثلاً افغانستان پر سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد وہاں سوویت افواج سے لڑنے کے لیے مجاہدین کی بھرتی اور تیاری کی ذمہ داری اخوان کو سونپی گئی۔ امین محمد حبلہ کے مطابق اخوان نے اسلام کے اُصولِ اخوت کے تحت یہ ذمہ داری بخوشی قبول کی۔ سابق سوویت فوج سے لڑنے کے لیے مجاہدین کی بھرتی اور تیاری کا فریضہ انجام دینے پر سعودی عرب میں اخوان کی توقیر بڑھ گئی۔ مصر میں جمال عبدالناصر اور انور سادات کے دور میں قید کیے گئے اخوان رہنما جب رہائی کے بعد سعودی عرب پہنچے تو اُن کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے لیے ایک مقالے میں محمد قندیل نے لکھا ہے کہ سعود بن عبدالعزیز اپنے والد کے نقوشِ قدم پر چلتے رہے اور اخوان میں دوسرے سب سے بڑے قائد محمد الہضیبی نے حسن البناء کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے خوش گوار تعلقات استوار رکھے۔ شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے عہد میں ریاستی پالیسی واضح تھی یعنی اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر اخوت کو پروان چڑھانے کا رجحان غالب تھا اور عرب قومیت کے بُت کی پوجا کمزور پڑچکی تھی۔ یہ بُت مصر کے آمر جمال عبدالناصر اور اُن کے ہم خیال علاقائی رہنماؤں نے کھڑا کیا تھا۔
یہ ہنی مون زیادہ مدت تک چلا نہیں۔ سعودی حکمرانوں نے دیکھا کہ اخوان کا ترتیب دیا ہوا نصاب اُن کی امنگوں اور آرزوؤں کے مطابق سعودی تعلیمی اداروں کو چلانے اور مطلوب معیار یا مزاج کے طلبہ تیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔ سعودی حکمراں خاندان چاہتا تھا کہ ہر اعتبار سے مطیع و فرماں بردار نسل تیار ہو جبکہ اخوان نے مذہبی و ریاستی معاملات میں متنازع فیہ امور کے حوالے سے اختلافِ رائے کے اظہار کو اولیت دی۔
محققین اور مشاہدین کا خیال ہے کہ ۱۹۹۰ء میں سعودی عرب کی طرف سے کویت پر عراق کا قبضہ ختم کرانے میں کوئی کردار ادا کرنے کی استدعا قبول کرنے سے اخوان کا انکار اور اس حوالے سے جدید سعودی عالم شیخ صفر الحوالی کا اس وقت کے سعودی شاہ فہد بن عبدالعزیز کو لکھا گیا خط سعودی عرب اور اخوان کے درمیان معاملات کے بگڑنے کی ابتداء بننے والے معاملات ہیں۔ اس کے بعد ہی سعودی عرب کی طرف سے اخوان کو ایک بُری اور ناقابلِ قبول تنظیم قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تب دنیا بھر میں جدید فکر رکھنے والے مسلم علماء اخوان کی چھتری تلے جمع ہوچکے تھے۔
اکیسویں صدی شروع ہوئی تو سعودی عرب اور اخوان المسلمون کے تعلقات میں مزید خرابی رونما ہوئی۔ نائن الیون کے بعد سعودی عرب کو شدید دباؤ کے تحت اخوان کے خلاف جانے میں قدرے بے نقاب ہونا پڑا۔ یہ دباؤ خطے کے بیشتر ممالک کی طرف سے تھا، جن کا خیال تھا کہ نائن الیون کے ذمہ دار القاعدہ گروپ کو پروان چڑھانے میں اخوان نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
سعودی حکومت نے اخوان کے مالیاتی ذرائع کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور اس کے فلاحی ادارے بند کردیے۔ اس وقت کے سعودی وزیر داخلہ شہزادہ نائب بن عبدالعزیز پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ایک حصے کے طور پر القاعدہ کی جڑیں کاٹنے کی ذمہ داری بھی تھی۔ انہوں نے کویت کے اخبار ’’السیاسۃ‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں اخوان کو بحران کا مآخذ یا جڑ قرار دیا تھا۔ ترکی اور فلسطین میں اسلام پسندوں کی نمایاں انتخابی کامیابیوں کے بعد جب اخوان المسلمون نے عالمی سطح پر نمایاں ہونا شروع کیا تب سعودی عرب نے اس سے فاصلے بڑھانے کا عمل تیز تر کردیا۔
۲۰۱۱ء میں جب عرب دنیا اور شمالی افریقا میں عوامی بیداری کی لہر دوڑی تب اخوان نے اصلاحات کا عمل شروع کیا اور اس کے نتیجے میں سعودی عرب نے اخوان کے حوالے سے سخت تر پالیسی اختیار کی۔ مصر میں ۲۰۱۲ء کے انتخابات میں اخوان نے کامیابی حاصل کی اور محمد مرسی صدر منتخب ہوئے۔ ایک سال بعد مصر کی فوج نے حکومت کا تختہ الٹ کر محمد مرسی کو قید کرلیا۔ سعودی عرب نے اس اقدام کو کھل کر سراہا اور مصر کے لیے چار ارب ڈالر کی خصوصی امداد منظور کی۔ پھر جب مصر کی فوجی حکومت نے اخوان کو دہشت گرد قرار دیا تو سعودی عرب نے اُس کی پیروی کی۔
موجودہ سعودی حکمراں سلمان بن عبدالعزیز نے جب شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد سلطنت سنبھالی تب ان کے وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے ایک بیان میں کہا کہ اخوان سے عمومی سطح پر ہمارا کوئی خاص اختلاف نہیں بلکہ ہمیں تو اخوان کے اندر اس چھوٹے سے گروہ سے شکایت ہے جو اپنے سپریم لیڈر کے سامنے سرِ تسلیم خم کیے ہوئے ہے۔
یہ ہے اصل مسئلہ۔ سعودی حکمران اخوان کو اپنے مقاصد اور مفادات کے لیے بروئے کار لاتے رہے اور جب کام نکل گیا تو ان کی فرمائش رہی کہ اخوان ان کے اشاروں پر چلے، مطیع و فرماں بردار رہے۔ یمن میں اخوان کے لوگ وہاں کے حکمراں طبقے کے خلاف کامیابی سے ہم کنار تھے کہ سعودی عرب کی قیادت میں یمن کے معاملات میں مداخلت کرنے والے اتحاد نے اخوان سے وابستہ گروہوں اور شخصیات سے کہا کہ وہ اطاعت اختیار کریں۔ سعودی عرب نے اخوان کی کئی اہم شخصیات اور حماس کے رہنما خالد مشعل سے رابطہ کرکے اُن سے کہا کہ وہ سعودی قیادت میں قائم اتحاد اور یمن میں اخوان کی حمایت یافتہ ’’الاصلاح پارٹی‘‘ کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں۔ اس کے بعد سعودی عرب کے حقیقی حکمران ولی عہد محمد بن سلمان نے اعلان کیا کہ سعودی شہریوں پر مذہبی پابندیوں کا عہد اب ختم ہوچکا ہے۔ یہ اس امر کا اعلان بھی تھا کہ سعودی قیادت اخوان کو مزید برداشت کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔
جب جب اخوان کی ضرورت پڑتی تھی تب تب اُسے سراہا جاتا تھا، اور جب ضرورت ختم ہو جاتی تھی تب اُسے عفریت کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ یہی سبب ہے کہ سعودی عرب میں اعلیٰ ترین مذہبی ادارہ اخوان کو عفریت اور بحران کے مآخذ کے طور پر پیش کر رہا ہے جو اس کے خلاف یک طرفہ جنگ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ اس طریقِ فکر کو اسرائیل نے سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ایسی ہی سوچ درکار ہے!
انٹرنیشنل کاؤنسل آف مسلم اسکالرز کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر علی القرداوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ اخوان کے خلاف سعودی عرب کے جید علمائے کرام نے توہین آمیز بیان جاری کیا ہو۔ زیادہ سے زیادہ یہی سوچا جاسکتا ہے کہ سعودی وزارتِ داخلہ نے بیان تیارکرکے اس پر علماء سے دستخط کروالیے ہوں گے۔
قصہ مختصر، ولی عہد محمد بن سلمان کی غیراعلانیہ قیادت میں سعودی عرب ایک بڑی بُرائی سے دوچار ہے۔ سعودی حکمراں نظام کے لیے ’مذہب‘ اقتدار کو بچانے اور برقرار رکھنے کا آلہ بن چکا ہے اور اس کے لیے اگر اخوان المسلمون جیسی تنظیموں کی تذلیل بھی کرنی پڑے تو کچھ ہرج نہیں۔ مغرب اور عرب دنیا اسلام کے صہیونی دشمنوں کو دوست بنانے کی راہ میں محمد بن سلمان کے لیے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہونی چاہیے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Saudi Arabia has used the Muslim Brotherhood to exploit the religion of Islam”. (“middleeastmonitor.com”. Nov. 18, 2020)
Leave a Reply