
سعودی عرب نے ۷ مارچ کو یہ غیر معمولی اقدام کیا کہ حزب اللہ اور القاعدہ کی طرز پر اِخوان المسلمون کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔ یہ اقدام، اخوان المسلمون کی حمایت کرنے پر قطر سے، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ، اپنا سفیر واپس بلائے جانے کے صرف دو دن بعد کیا گیا۔ سعودی عرب نے اخوان المسلمون کے لیے طویل مدت تک ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے، تاہم اس کے باوجود سعودی حکام اپنے ملک میں اِخوان المسلمون سے وابستگی رکھنے والوں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ اِخوان کے خلاف تازہ ترین اقدام اس امر کی علامت ہے کہ سعودی حکومت خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے اور یہ سنی اسلام پسندوں کے لیے واضح پیغام بھی ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں احتیاط سے جاری رکھیں۔
اِخوان المسلمون کے بارے میں سعودی عرب کی تشویش اُس وقت شدت اختیار کرگئی جب تین سال قبل مصر میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی اور تین عشروں تک مصر پر بلاشرکتِ غیرے حکومت کرنے والے حسنی مبارک کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ان کے جانے کے بعد اِخوان کے محمد مرسی صدر منتخب ہوئے اور یہ تشویش شدت اختیار کر گئی کہ کہیں اِخوان پورے خطے میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کا ذریعہ نہ بن جائے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں حکمراں خاندانوں کو اپنا اقتدار ڈانوا ڈول دکھائی دینے لگا۔ یہ تشویش بِلاجواز یا بے بنیاد بھی نہیں تھی۔
سعودی عرب میں اخوان المسلمون کے ارکان عوامی بیداری کی لہر کے حوالے سے مورچے پر تھے۔ انہوں نے پہلے بھی سعودی شاہی خاندان کی کرپشن کے حوالے سے آواز اٹھائی تھی اور وہ ملک میں واضح سیاسی تبدیلیاں بھی چاہتے تھے۔ پروفیسر اسٹیفن لیکروئکس نے اپنی کتاب ’’اویکننگ اسلام‘‘ میں لکھا ہے کہ جب سعودی حکومت نے اخوان المسلمون کے رہنماؤں کو گرفتار کرنا اور ان پر مختلف پابندیاں عائد کرنا شروع کیا تو اِخوان کے بیشتر ارکان نے محتاط ہوکر چلنا شروع کیا، کیونکہ سعودی ریاست کی تعمیر و ترقی میں ان کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے اور آج بھی اخوان سے وابستگی یا ہمدردی رکھنے والے سعودی اسٹیبلشمنٹ میں اہم عہدوں پر ہیں۔
مصر سمیت کئی عرب ممالک میں جب عوامی بیداری کی لہر اٹھی تو سعودی عرب میں بھی اخوان کے ارکان نے خاموشی توڑی، محتاط ہوکر چلنا ترک کیا اور سیاسی تبدیلیوں کے لیے کھل کر میدان میں آنے لگے۔ تیونس اور مصر میں اخوان کے ارکان کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ سعودی عرب میں اصلاحات نافذ کی جائیں۔ اخوان المسلمون اور سَلَفی موومنٹ کے ملے جلے نظریات پر یقین رکھنے والے انتہا پسند ناصر العمر نے بھی سعودی عرب میں وسیع البنیاد سیاسی اصلاحات کے لیے آواز بلند کی۔ سیاسی تبدیلیوں کے لیے اُٹھنے والی آوازوں کو اُس وقت کے ولی عہد نائف اور بعد کے ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز نے سختی سے کچل دیا۔ بعض سیاسی مخالفین کو ایک دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ مملکت میں سیاسی آزادیاں نہ ہونے پر احتجاج نہیں کریں گے۔ مگر یہ سب کچھ بے مصرف تھا کیونکہ مصر اور دیگر ممالک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے خاصے وسیع اثرات مرتب ہو رہے تھے۔
بعض ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں جو سعودی عرب کے لیے خطرے کی گھنٹی جیسی تھیں۔ مصر کے معزول صدر حسنی مبارک سعودی عرب کے اتحادی رہے تھے۔ محمد مرسی جب مصر کے صدر بنے تو انہوں نے قدرے غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا اور سعودی ایرانی تنازعات میں میانہ روی اختیار کرتے ہوئے ایران کا دورہ بھی کیا۔ یہ سب کچھ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کے لیے بھی انتہائی پریشان کن تھا۔ امارات میں اخوان المسلمون سے ہمدردی اور وابستگی رکھنے والے ۱۹۶۰ء کے عشرے سے تھے مگر نائن الیون کے بعد انہیں حکومت نے خطرے کے روپ میں دیکھنا شروع کیا۔ مصر میں تبدیلی آئی تو امارات میں بھی اخوان المسلمون کے ارکان متحرک ہوئے اور انہوں نے ایک پٹیشن کے ذریعے سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے مشاورتی کونسل کو حقیقی مفہوم میں با اختیار بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔ حکومت نے اس کے جواب میں ملک بھر میں اخوان سے تعلق رکھنے والوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔
مصر میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کا گلا گھونٹنے کے لیے سعودی عرب نے مالیاتی امور کا سہارا لیا۔ سعودی حکومت نے حسنی مبارک کا تختہ الٹے جانے کے بعد حالات کی خرابی دور کرنے کے لیے مصر کو ساڑھے تین ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا مگر جب اخوان المسلمون نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی تو سعودی حکومت نے بھی اپنے وعدے کو بھلا دیا اور صرف ایک ارب ڈالر دینے پر اکتفا کیا، جو مصر میں معاشی معاملات کو درست کرنے کے لیے انتہائی ناکافی تھا۔ مگر جب منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ کر فوج نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا تو سعودی حکومت نے اس بغاوت کو سراہتے ہوئے فوری طور پر ۵؍ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی قطر نے ۴؍ارب ڈالر اور امارات نے ۳؍ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ مصر کی فوجی حکومت نے جب سیاسی مخالفین کو انتہائی بے دردی سے کچلا اور قتل و غارت کا بازار گرم کیا، تب سعودی حکومت نے اس اقدام کو دہشت گردی کچلنے سے تعبیر کرتے ہوئے سراہا۔ دسمبر ۲۰۱۳ء میں مصر کی غاصب حکومت نے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا، تب امارات نے اخوان کے اثرات پر قابو پانے سے انکار کرنے پر قطر سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ امارات کے حکمرانوں کو اس بات کا شکوہ تھا کہ قطر میں اخوان کے روحانی پیشوا امارات میں حکمرانی کو اسلام کے خلاف قرار دیتے تھے۔
اخوان کے خلاف سعودی حکومت کے موقف اور اقدامات نے اندرون ملک اشتعال پیدا کیا ہے۔ بہت سے اسلام پسند عناصر اور بالخصوص اخوان سے تعلق رکھنے والوں کو شدت سے اس بات کا احساس ہوا ہے کہ سعودی عرب نے تین سال قبل متعدد اسلامی ممالک میں اٹھنے والی بیداری کی لہر کو کچلنے میں مرکزی کردار کیا ہے۔ اپنی حکومت سے ناراض بہت سے سعودیوں نے سوشل میڈیا پر اپنا پروفائل تبدیل کرکے اخوان کے لیے واضح ہمدردی کا اظہار شروع کردیا۔ جب حکومت نے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تو اس سے وابستہ افراد نے حکومت سے براہِ راست متصادم ہونے پر خاموش رہنے اور احتجاج نہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر بھی احتیاط برتنی شروع کر دی ہے۔ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینا یقینا اس گروپ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے مگر اس سے وابستہ افراد نے مشتعل نہ ہوکر بڑے نقصان سے بچنے کی کوشش کی ہے۔
جن لوگوں سے اس حوالے سے بات ہوئی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں ابھی اس امر کے آثار نہیں کہ اسلام پسند عناصر ریاستی مشینری کے خلاف جانا چاہیں گے۔ وہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ معروف اسلام پسند رہنما سلمان العودا نے بھی اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ فی الحال کسی بھی طرح کے ردعمل کا مظاہرہ نہ کریں اور حکمراں سیٹ اَپ کے اپنے اندرونی اختلافات کے حتمی نتائج کو طشت از بام اور ختم ہونے دیں۔ مگر اِخوان المسلمون اور اس سے ہمدردی رکھنے والے گروپوں سے تعلق کے حامل نوجوانوں میں صبر کا مادّہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ وہ کسی بڑی اور مثبت تبدیلی کے حوالے سے مایوس ہیں۔ یہ کیفیت ان میں تھوڑی سی بے حسی اور لاتعلقی کو جنم دے رہی ہے۔ وہ تشدد پر بھی مائل ہوسکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو سعودی حکومت یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرے گی کہ اِخوان کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کا فیصلہ درست تھا۔
(“Islamist outlaws”. “Foreign Affairs”. Mar.17,2014)
Leave a Reply