سعودی عرب میں ’’جوان قیادت‘‘ کی تیاری!

سعودی عرب میں بہت خاموشی سے ایک نئے اور خاصے اہل وزیر داخلہ نے منصب سنبھال لیا ہے۔

دنیا بھر میں تو یہ ہوتا ہے کہ وقت بتانے والے برتن یعنی شیشے کی گھڑی میں ریت ایک مخصوص رفتار سے گرتی رہتی ہے اور وقت کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ سعودی عرب میں معاملہ بہت مختلف ہے۔ یہاں وقت بتانے والی شیشے کی روایتی گھڑی میں ریت تیل سے ملاپ کے بعد جم جاتی ہے اور گرنے کا عمل تقریباً رک جاتا ہے۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ کوئی آکر شیشے کی گھڑی یا ’’آور گلاس‘‘ کو ہلا دیتا ہے اور اچانک مٹی کے لوتھڑے ختم ہونے لگتے ہیں اور ایک بڑا حصہ نیچے گر جاتا ہے۔

۵ نومبر کو بھی ایسا ہی کچھ ہوا جب سعودی عرب میں نئے وزیر داخلہ کے تقرر کا اعلان ہوا۔ یہ اعلان بہتوں کے لیے حیرت کا باعث تھا کیونکہ سعودی شاہی خاندان میں حفظِ مراتب کے اعتبار سے ’’جوانوں‘‘ کے لیے کچھ زیادہ کر دکھانے کی گنجائش نہیں۔ سعودی عرب میں وزارتِ داخلہ سب سے مستحکم اور طاقتور ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ جون میں شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کا انتقال ہوا جنہوں نے ۳۷ سال تک وزیر داخلہ کے منصب پر خدمات انجام دیں۔ ان کی جانشینی سوتیلے بھائی احمد بن عبدالعزیز نے کی جو خود بھی ۷۲ سال کے تھے۔ مگر نومبر کے پہلے ہفتے میں احمد بن عبدالعزیز نے یہ اہم منصب نائف بن عبدالعزیز کے بیٹے شہزادہ محمد کے لیے خالی کردیا جنہوں نے انسدادِ دہشت گردی کے شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے طویل مدت تک اپنے والد کی معاونت کی تھی۔

شاہ عبداللہ کی عمر تقریباً ۸۹ سال ہے۔ ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز کی عمر ۷۶ سال ہے اور ان کی صحت بھی اس قابل نہیں کہ مملکت کا بار گراں اٹھاسکیں۔ چھ ماہ کی مدت میں دو وزرائے داخلہ کی تبدیلی اس امر کی غماز ہے کہ سعودی عرب میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہونے کو ہے۔ ۱۹۵۳ء میں اِس دنیا سے رخصت ہونے والے شاہ عبدالعزیز السعود کی ۴۵؍اولادیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی صحت کے ایسے درجے میں نہیں کہ مملکت چلانے کا اہل ہو۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کی باگ ڈور اب نئی نسل کو منتقل ہونے کو ہے۔ اب تک ان میں سے چند ایک ہی حقیقی مفہوم میں اقتدار کے ایوان تک پہنچ پائے ہیں۔

شہزادہ محمد بن نائف بن عبدالعزیز کا وزیر داخلہ کے منصب پر فائز ہونا اس لیے حیرت انگیز امر ہے کہ ان کی عمر ۵۳ سال ہے۔ وہ خاموش طبع اور انتہائی اہل ہیں، جو سعودی شہزادوں میں کم کم پائی جانے والی صفت ہے۔ ۲۰۰۳ء کے حملوں کے بعد سے انہوں نے دہشت گردوں پر قابو پانے میں غیر معمولی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک بار ان پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا، جس میں وہ بال بال بچے۔

انسانی حقوق اور اصلاحات کے لیے آواز اٹھانے والوں کو محمد بن نائف بن عبدالعزیز کے وزیر داخلہ بننے پر تشویش ہے کیونکہ وہ حکومت اور ریاست کے خلاف اٹھائی جانے والی کسی بھی آواز کو سختی سے کچلنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر نرمی نہیں دکھائی اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے وہ تمام اقدامات کیے جو ناگزیر تھے۔ ہزاروں مشتبہ شورش پسندوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جاچکا ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ ان پر کرپشن کا الزام ہے نہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو ناجائز طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف ان کی نسل کے شہزادوں کے بارے میں یہ دونوں خرابیاں خوب پائی جاتی ہیں۔ شہزادوں کی ۳۵ رکنی کونسل ملک کے حکمران کا تعین کرتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس بار کسی عمر رسیدہ شخص کو ملک کی باگ ڈور سونپنے کے بجائے کسی جواں سال شہزادے کو بادشاہت سونپنے پر غور کرلیا جائے۔

(“Saudi Arabia: The Younger Generation, at last?”… “The Economist”. Nov. 10th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*