
سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے پرانا اتحادی ہے۔ یہ ۱۹۴۳ء کی بات ہے جب امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے سعودی عرب کے بادشاہ کو دعوت دی کہ وہ اپنے بیٹوں کو واشنگٹن کے دورے پر بھیجیں تاکہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا جاسکے۔ بادشاہ نے اپنے بیٹے فیصل کو بھیجا جو بعد میں بادشاہ بنے۔ ۱۹۴۵ء میں ویلنٹائن کے دن مصر میں تاریخی اجلاس ہوا، جس میں امریکا نے ابن سعود کے ساتھ براہ راست معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ امریکا اور سعودی عرب کے درمیان ہمیشہ بہت سادہ رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا نے سعودی عرب کے توانائی کے ذخائر تک رسائی حاصل کی اور بدلے میں سعودی عرب کی داخلی اور خارجی سلامتی کی ذمہ داری اٹھائی۔
۱۹۷۷ء میں جب سے میں نے CIA میں شمولیت اختیار کی تب سے میں ان تعلقات پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔ ان تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ جیسا کہ ۱۹۹۱ء کی جنگِ خلیج میں تعاون اپنی انتہا پر تھا اور اسی طرح ۱۹۷۳ء میں جب سعودی عرب نے تیل کی امریکا درآمد پر پابندی لگائی تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خرابی کی انتہا کو چھو رہے تھے۔ پھر ۱۹ برس قبل ۱۱ ستمبر کا واقعہ پیش آیا۔ لیکن اب سعودی عرب کے ساتھ جو تعلقات تشکیل پا رہے ہیں وہ اس سب سے مختلف ہیں جو گزشتہ ۷۵ برسوں میں میں نے دیکھا ہے۔
حالیہ عرصے میں شاہ سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان نے سعودی عرب میں ایک تسلسل کے ساتھ ایسی جارحانہ خارجہ پالیسیوں کا آغازکیا، جو نہ صرف نقصان دہ ہیں بلکہ خطے میں اور دنیا بھر میں امریکی مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔
ان سب پالیسیوں کے روحِ رواں محمد بن سلمان ہیں۔ ہر نئی پالیسی کے پیچھے محمد بن سلمان ہی نظر آتے ہیں اور وہ ہر کام پر مکمل عملدرآمد تک خود نگرانی کرتے ہیں، اس بات کا اندازہ جمال خاشقجی کے قتل والے معاملے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن سارے عمل میں شاہ سلمان کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ شاہ سلمان،محمد بن سلمان کے ہر اقدام کا نہ صرف قانونی جواز فراہم کرتے ہیں بلکہ ولی عہد کی سرگرمیوں کو تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں۔
سعودی عرب گزشتہ کئی دہائیوں سے بہت محتاط اور ہر قسم کے خطرات سے دور رہنے والی مملکت ہے۔یہ مسائل سے نمٹنے کے لیے فوجی قوت کے استعمال کے بجائے مالی وسائل خرچ کرنے کو ترجیح دیتی تھی۔اسی طرح منظرنامے پر آنے کے بجائے پس پردہ رہ کر کام کرنے پر ترجیح دی جاتی تھی۔ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد گزشتہ پانچ برسوں میں یہ سب کچھ ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے کہا سعودی عرب بہت ہی غیر متوقع، لاپروا، خطرناک ہو چکا ہے۔
میں اپنی بات کی وضاحت کے لیے موجودہ پالیسیوں کے تین نکات پر بات کروں گا۔ان میں سب سے اہم یمن جنگ ہے۔یمن کی جنگ آج کی دنیا کا سب سے بڑا انسانی المیہ ہے۔ہزاروں، لاکھوں بچے مشکلات کا شکار ہیں اور ان میں سے بہت سے بچے شاید زندہ بھی نہ رہ سکیں۔ محمد بن سلمان نے آغاز میں یمن کے مسئلے کو بہت جلد حل کر لینے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ سعودی عرب کے لیے دلدل ثابت ہوا، اور اس کی بہت بڑی قیمت سعودی عرب کو اداکرنی پڑ رہی ہے۔ بجائے اس کے کہ دارالحکومت صنعا سے حوثی باغیوں (زیدی شیعوں) کو بے دخل کیا جاتا، اس جنگ نے ایران کو بحر احمر اور باب المندب میں ایک مستقل جگہ فراہم کر دی۔ اور ایران کو حوثی باغیوں پر زیادہ وسائل نہیں لگانے پڑے۔ یمن کی جنگ میں سعودی عرب اور ایران کے اخراجات کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو نتیجہ بہت ہی مختلف نظر آتا ہے۔ بجائے اس جنگ کے ذریعے ایران کے گرد گھیرا تنگ کیا جاتا الٹا سعودی شہر حوثیوں کے حملوں کی زد میں آگئے۔سعودی انفراسٹرکچر پر حملے اور ایک مرتبہ تو براہ راست ایرانی میزائل اور ڈرون بھی ان حملوں میں استعمال ہوئے اور سعودی عرب کو اس صورتحال سے دوچار دیکھنا ایک قابل غور معاملہ ہے۔
میراخیال ہے اب سعودی عرب کو اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے، اور وہ جلد از جلد اس جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے۔سعودی عرب دو مرتبہ جنگ بندی کی آفر کر چکا ہے،لیکن یمن سے اپنی فوجیں نکالنے پر تیار ہے اور نہ ہی وہ یمنی صدر کی فوج کی حمایت سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔دوسری طرف زیدی شیعوں کو جنگ بندی کی کوئی جلدی نہیں۔اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زیدی شیعوں کو یہ یقین ہے کہ وہ جنگ جیت رہے ہیں۔
یہ جنگ کلی طور پر محمد بن سلمان کا آئیڈیا ہے۔وہ پانچ برس قبل جب اس جنگ میں کودے تو نہ ہی انھوں نے اس کی کوئی تزویراتی منصوبہ بندی کی تھی،اور نہ ہی اپنے اتحادیوں خاص طور پر پاکستان اور عمان کو اعتماد میں لیا، جو کہ اس قسم کے تنازعات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اور وہ اب اپنی غلطی کے لیے قربانی کا بکرا تلاش کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ محمد بن سلما ن کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ شاہی خاندان میں بہت سے لوگ انھیں اس دلدل میں پھنسانے کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔حالیہ دنوں میں محمد بن سلمان نے یمن میں سعودی فوج کے کمانڈر کو بدعنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا۔جنگ کے آغاز پر سعودی عرب کے اتحادی ممالک خاص طور پر عرب امارات،اردن اور بحرین جو اس جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ تھے اب وہ ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ اگرچہ امارات اب بھی تھوڑا بہت ساتھ دے رہا ہے لیکن عملی طور پر وہ سب اس جنگ سے نکل چکے ہیں۔
صرف امریکا اور کسی حد تک برطانیہ اس جنگ میں ایسی تکنیکی امداد دے رہے ہیں، جو اس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہے۔اب یہ بہت ضروری ہے کہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے کچھ کیا جائے۔اس جنگ کی وجہ سے انسانی المیے نے جنم لیا ہے اور بے حساب تباہی ہوئی ہے۔اس جنگ نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں ہم سعودی عرب کے ساتھ مل کر عرب دنیا کی غریب ترین ریاست پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔امریکا کو اس جنگ سے نکلنے کے لیے تیزی سے اقدامات کرنے چاہییں۔
میری سفارشات تو یہ ہوں گی کہ امریکا کو سعودی عرب سے اپنی فوج کو نکال لینا چاہیے،ان کے ٹریننگ پروگرام ختم کر دینے چاہییں، اسلحے کی فروخت کا کوئی نیا معاہدہ نہیں کرنا چاہیے،بلکہ سب سے اہم تو یہ کہ اسلحے کی فروخت کے موجودہ معاہدات کو بھی ختم کر دینا چاہیے۔ سعودی رائل ائیر فورس کے پاس موجود دو تہائی لڑاکا طیارے امریکا کی دیے گئے ہیں، جب کہ ایک تہائی برطانیہ نے فراہم کیے ہیں۔درحقیقت اگر امریکا اور برطانیہ سعودی شاہی فضائیہ کی رسد بند کردیں تو وہ یک دم ہی زمین پر آجائے گی۔اس بات سے امریکا کے اثرورسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،تاہم جتنا اثرورسوخ ہے اتنی ہی ذمے داری بھی۔
دوسرا اہم معاملہ قطر کے بائیکاٹ کا ہے، جس کا آغاز ۲۰۱۷ء میں ہوا تھا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اعلان کیا کہ وہ قطر کے ساتھ ہر قسم کے سفارتی تعلقات ختم کر رہے ہیں،اس کے فضائی حدود بھی بند کر رہے ہیں اور آپس کی سرحدیں بھی بند کرنے کا اعلان کیا۔ان اقدامات سے خلیج تعاون کونسل کو شدید نقصان پہنچا۔خلیج تعاون کونسل کو بنانے میں امریکا نے اہم کردار ادا کیا تھا۔۸۰ کی دہائی میں خلیج فارس میں ایرانی اثرورسوخ کو کم کرنے کے لیے صدر رونلڈ ریگن نے یہ تنظیم بنوائی تھی۔آج کی خلیج تعاون کونسل بہت ہی کمزور تنظیم بن چکی ہے۔درحقیقت خلیج تعاون کونسل اب ٹوٹ چکی ہے،قطر نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی ہے اور ترکی نے اس کی بھرپور حمایت کی ہے۔ بحرین، سعودی عرب اور امارات ایک الگ اتحاد ہے، جس کی حمایت مصر کر رہا ہے۔کویت اپنے آپ کو ان سب معاملات سے الگ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے، جب کہ عمان ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی غیر جانب دار ہی رہا ہے۔
امریکا نے ان ممالک کی افواج کو اکٹھا کرنے اور ان کی تربیت کرنے میں کئی سال لگائے۔یہ اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ ان ممالک کے تعلقات کس حد تک خراب ہوئے ہیں، لیکن اس کا تعین ضرور ہونا چاہیے کہ ان سب کا ذمے دار کون ہے؟ اور ان حالات کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا ہے؟ ایک مرتبہ پھر ایران نے ہی ان سب حالات کا بھر پور فائدہ اٹھایا ہے،جیسا کہ اس نے یمن جنگ کا اٹھایا بالکل اس طرح خلیج تعاون کونسل کے ٹوٹنے کا سب سے زیادہ فائدہ بھی ایران کو ہی ہوا ہے۔
ان تنازعات کے خاتمے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ میں نے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ان حکام سے بات کی جو قطر بائیکاٹ ختم کروانے کی کوششیں کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں حالات کے ٹھیک ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ اس وقت امریکا کو چاہیے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین پر قطر کے بائیکاٹ کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالے۔
آخر میں ایک اہم معاملہ سعودی عرب میں جبر اور دباؤ کا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے بہترین مثال جمال خاشقجی کے قتل کی ہے۔اس پر بہت بات ہو چکی ہے۔تاہم پچھلے عرصے میں محمد بن نائف کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔محمد بن نائف نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ باقی دنیا میں بھی القاعدہ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔انھیں بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے، اور ان کی صحت کے حوالے سے کافی خدشات موجود ہیں۔
انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کی تاریخ کوئی اچھی نہیں رہی۔خاص طور پر صنفی مساوات پر تو بہت خدشات رہے ہیں۔لیکن ماضی میں اپنے مخالفین کو دوسرے ممالک میں قتل کروانے کا کام کبھی نہیں کیا گیا۔ اس سب میں اہم کردار محمد بن سلمان ادا کر رہے ہیں۔اور امریکا بھی ان غیر قانونی کاموں میں سعودی عرب کے اتحادی کے طور پر سب کے سامنے ہے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Saudi Arabia’s current state of affairs”. (“brookings.edu”. September 28, 2020)
Leave a Reply